برصغیر پاک وہند کے علمی حلقوں میں مولانا عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ (ولادت: یکم اپریل 1953ء) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی شخصیت طلبہ وعلماء کے لیے سراپا شفقت اور علم وتحقیق کی خدمت ومعاونت میں ہمہ تن گوش رہتی ہے۔
اسی وجہ سے عرب وعجم کے دعاة ومدرسین ہوں یا محققین ومصنفین، تعلیمی ورفاہی ادارے ہوں یا ملی ومسلکی تنظیمیں؛ ہر جگہ آپ کو یکساں احترام حاصل ہے کہ آپ نے زندگی بھر ان میدانوں میں مصروف کار افراد وجماعات کی بے لوث خدمت کی اور انھیں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔
مولانا محمدی صاحب کی یہ خوش قسمتی رہی کہ اُنھیں بچپن ہی میں اپنے گھرانے سے اہلِ علم کی محبت ورثے میں ملی اور پھر انھیں بڑے نامور علماء وصلحاء کی صحبت میسر آئی۔ انھوں نے زندگی کا طویل عرصہ ان اہل اللہ کی مجلسوں میں گزارا اور ان اکابر کی ہم نشینی کی برکات سمیٹیں جن کے گہرے نقوش ان کی شخصیت پر بھی مترتب ہوئے۔
سب سے پہلے مولانا عارف صاحب کا تعلقِ خاطر 14 سال کی عمر میں مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ سے قائم ہوا جو عمر بھر جاری رہا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخی ترتیب پر مدون شدہ زیر نظر مجموعہ مکاتیب کے اولین پانچ خطوط بھی مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ہی کے ہیں جو انھوں نے مولانا محمدی کے نام لکھے تھے۔ پہلا خط 2 مئی 1976ء کا رقم فرمودہ ہے۔
مولانا محمدی صاحب مولانا لکھوی مرحوم کے ساتھ اپنی اولین تفصیلی ملاقات کی روداد بتاتے ہوئے، جو موضع اُگّو چک ضلع گوجرانولہ میں ہوئی، فرماتے ہیں کہ حضرت لکھوی نے اس مجلس میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: بیٹا نماز کا ترجمہ آتا ہے؟ جب میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا: نماز سوچ سمجھ کر پڑھا کرو اور ہر وقت اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اللہ کا ذکر کیا کرو۔
بعد ازاں مولانا محمدی کا تعلق مولانا یحییٰ شرق پوری اور حافظ یحیی عزیز میر محمدی جیسے اہل اللہ سے استوار ہوا۔ آپ ان کی مجالس میں شرکت کیا کرتے، ان کے مواعظِ حسنہ سے مستفید ہوتے اور پاکیزہ صحبتوں سے اپنے ایمان وعمل کو منور کرتے۔
یہ دونوں اکابر مہینے میں ایک مرتبہ جمعہ کے اجتماع کے لیے مرکز البدر بونگہ بلوچاں میں اکٹھے ہوتے تھے اور لوگ بھی ان سے مستفید ہونے کے لیے دور دراز سے وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔
مولانا عارف جاوید صاحب بتاتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ جمعرات کی شام وہاں تشریف لے آتے اور اگلے دن جمعہ کا خطبہ تو حافظ یحیی عزیز میر محمدی صاحب ارشاد فرماتے، البتہ نماز جمعہ کے بعد مولانا یحییٰ شرق پوری صاحب کا بیان ہوا کرتا تھا۔
در اصل جمعرات اور جمعہ کی یہ رات عوام وخواص کے لیے ایک شبِ تربیت ہوا کرتی تھی جس میں وعظ ونصیحت کے ساتھ رات کے آخری پہر عملاً نمازِ تہجد کا اہتمام بھی کروایا جاتا۔ یوں تزکیہ نفس کا ایک مکمل پروگرام ہر ماہ ان صلحاء کی زیر نگرانی منعقد ہوا کرتا جس کا حاضرین کی طبائع پر دور رس اثرات مترتب ہوتے۔
مولانا محمدی صاحب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جمعہ کی شب وہاں مسجد کے باہر صحن ہی میں رات گئے چٹائی پر سو رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی شخص میرے پاؤں یا ٹانگیں دبا رہا ہے اور آہستہ آواز سے کہے جا رہا ہے: عارف بھائی! اٹھ جائیں، تہجد کا وقت ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مولانا یحییٰ شرق پوری صاحب ہیں۔ یہ دیکھتے ہی میں عرقِ ندامت میں ڈوبا ہوا پاؤں سمیٹ کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور حضرت شرق پوری صاحب کے ان اخلاق کریمانہ اور شفقت وعظمت پر دنگ ہو کر رہ گیا۔
بعد ازاں قیامِ لاہور کے زمانے میں مولانا محمدی صاحب کا تعارف 1972ء میں علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ سے ہوا جہاں سے آپ کو کتابوں کی محبت اور ان کی خدمت واشاعت کا جذبہ ملا جو آج “دار ابی الطیب ریسرچ سنٹر” اور اس کی بیسیوں مطبوعات وتحقیقات کی صورت میں شائقینِ علم کے سامنے ہے جو در حقیقت علامہ بھوجیانی ہی کی ان صحبتوں کی اثر انگیزی اور تربیت کا نتیجہ ہے۔
مولانا عارف صاحب بتایا کرتے ہیں کہ میں ان دنوں لاہور ہائی وے میں ملازمت کرتا تھا جہاں سے 4 بجے چھٹی ہوتی اور میں سائیکل پر مولانا بھوجیانی کے ہاں مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ پہنچ جاتا اور مکتبے کے اندر ایک کونے میں بیٹھ کر کوئی نہ کوئی کتاب پکڑ کر پڑھا کرتا۔ اور پھر شام کو سائیکل پر واپس چلا آتا۔ میری یہ روٹین طویل عرصہ تک جاری رہی۔
اور حیران کن بات یہ کہ کبھی مولانا بھوجیانی نے میرے وہاں آنے، بیٹھنے، کتابیں پکڑنے اور مطالعہ کتب کی اس “مفت خوری” پر ناگواری کا اظہار نہیں کیا، بلکہ کئی دفعہ تو وہ حوصلہ افزائی کرتے، اگر کوئی زیادہ مفید اور نایاب کتاب آتی تو اسے خرید کر اپنی لائبریری میں رکھنے کا مشورہ دیتے۔ اسی جگہ مولانا بھوجیانی کے پاس بڑے بڑے نامور اور اکابر اہل علم آیا کرتے جن کی باتوں اور مجلسوں سے مستفید ہونے کا مجھے بھی موقع ملتا۔
علاوہ ازیں مولانا محمدی صاحب کو طویل عرصہ جن اربابِ علم وفضل سے لطفِ صحبت اُٹھانے کا موقع میسر آیا ان میں مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا محمد حسین شیخوپوری، علامہ بدیع الدین شاہ راشدی، حافظ عبد المنان نورپوری، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری، مولانا عبد السلام رحمانی، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا عبد الخالق قدوسی اور حافظ ثناء اللہ مدنی جیسے اکابر علماء سرِ فہرست ہیں جن کی صحبتوں اور دوستیوں کا عکس آپ کو زیر نظر کتاب میں ان کے خطوط کی شکل میں دیکھنے کو ملے گا۔
پھر جب آپ 1978 میں سعودی عرب اور 1980 میں کویت منتقل ہو گئے تو علماء و فضلاء سے تعلق کا دائرہ بھی وسیع ہوا اور عرب وعجم کے بڑے نامور علماء سے مراسم قائم ہوئے۔ بالخصوص کویت جانے کے بعد ہندوستان کے اکابر علماء سے رابطہ ہوا اور ان سے براہ راست مستفید ہونے کا موقع ملا جو آج تک جاری ہے۔
مولانا محمدی صاحب پر ان علماء وصلحاء کی ہم نشینی کا یہ اثر بھی ہوا کہ آپ کو کتابوں کی محبت اور مطالعے سے گہرا شغف پیدا ہو گیا جسے علامہ بھوجیانی رحمہ اللہ اپنے مخصوص انداز میں”ٹھرک” کہا کرتے تھے۔ اسی شوق کی وجہ سے آپ نے دنیا بھر میں طبع ہونے والی عربی اور اردو کتب کا بہت بڑا ذخیرہ اپنی لائبریری میں جمع کیا جو اب دار ابی الطیب ریسرچ سینٹر گوجرانولہ میں “المكتبة المحمدية” کے نام سے شائقینِ علم کے لیے وقف کر دیا گیا ہے، گویا آپ نے عمر بھر کی پونجی طلبہ علم کو دان کر دی۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
مولانا محمدی صاحب کا ایک اور ذوق یہ ہے کہ وہ علمائے کرام اور مشایخ عظام کے نوادرات سے بھی خاصا لگاؤ رکھتے ہیں، چنانچہ انھوں نے کتابوں کی طرح ہی دنیا بھر کے علماء کے باہمی مکاتیب اور زیر استعمال اشیاء کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے عجائب خانہ میں جمع کر رکھی ہے جن میں جماعت مجاہدین ہند کی تلواریں، قرآن مجید کے نادر نسخے، علمائے کرام کے لباس، عصا، قلم، پگڑی، ٹوپی اور ان کی تحاریر کے قلمی نمونے شامل ہیں۔ یہ سب کچھ اب گوجرانولہ میں دار ابی الطیب ریسرچ سنٹر ہی میں میوزیم کا حصہ ہے۔
مولانا عارف صاحب کے علمی خزینے میں قدیم وجدید علمائے اہل حدیث کی غیر مطبوع تحریروں اور خطوط کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے جو انھوں نے برسہا برس کی تگ ودو کے بعد جمع کیا اور انھیں مختلف فائلوں کے اندر مرتب کر رکھا تھا۔
عرصہ دراز سے ان کی یہ خواہش تھی کہ یہ علمی امانت کتابی شکل میں قارئین تک پہنچائی جائے جو بحمد اللہ اب پوری ہو رہی ہے۔
مولانا عارف صاحب کے پاس جمع شدہ ان تمام مکاتیب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کتابی شکل میں مرتب کیا گیا ہے۔
پہلے وہ خطوط جو مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے معاصر علماء و فضلاء نے مولانا محمدی صاحب کے نام لکھے، انھیں “نقوش معاصرین” کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کیا جو اب شائع ہو چکے اور دستیاب ہیں۔
دوسرے وہ خطوط جو علمائے کرام نے ایک دوسرے کو لکھے اور مولانا محمدی صاحب کو مختلف جگہوں سے ہاتھ لگے۔ یہ مکاتیب شاہ محمد اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ سے لے کر معاصر اہل علم تک کے ہیں۔ یہ مجموعہ بھی “نوادرات” کے نام سے دو جلدوں میں مرتب کیا گیا ہے جو ابھی زیر طبع ہے اور جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہو گا۔ ان شاءاللہ
“نقوش معاصرین” میں، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ان علمائے کرام اور مشاہیر کے خطوط جمع کیے گئے ہیں جو انھوں نے براہ راست مولانا عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ کے نام لکھے تھے۔
ان حضرات ذی وقار میں اکابر علماء کی بڑی تعداد بھی ہے جو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور بہت سارے ایسے بزرگان بھی ہیں جو بفضلہ تعالی حیات ہیں اور مختلف میدانوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
یہ تمام مکتوب نگار حضرات مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ہیں جن میں پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب اور کویت وغیرہ ممالک کے احباب شامل ہیں۔ اس کتاب میں خطوط کی سب سے زیادہ تعداد مولانا عبدالسلام رحمانی رحمہ اللہ کے مکاتیب کی ہے جو 57 عدد ہے۔ پھر دوسرے نمبر پر مولانا محمد اسحاق بھٹی کے مکاتیب ہیں جن کی تعداد 22 ہے اور تیسرے نمبر پر عددی اعتبار سے شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ رائسی رحمہ اللہ کے خطوط ہیں جن کی تعداد 16 ہے۔
اس مجموعے میں تقریبا 250 اربابِ علم و فضل کے رُقعات شامل ہیں جو تاریخی ترتیب سے مدون کیے گئے ہیں۔ ان خطوط کی مجموعی تعداد 630 ہے اور دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب کے صفحات کی تعداد 1182 ہے۔
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے جن علماء کے مکاتیب اس مجموعے میں شامل ہیں ان مشاہیر میں: شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی، ڈاکٹر لقمان سلفی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، شیخ صلاح الدین مقبول، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، مولانا عبد الحمید رحمانی، ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفی، مولانا عبد القیوم سلفی، مولانا محمد اعظمی، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری، مولانا مستقیم سلفی، شیخ وصی اللہ عباس، شیخ محمد عزیر شمس، مولانا رئیس ندوی، مولانا محفوظ الرحمن فیضی، مولانا مختار ندوی، مولانا ظہیر الدین رحمانی مبارک پوری، ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی، ڈاکٹر بدر الزمان نیپالی، شیخ ابو الاشبال شاغف بہاری اور مولانا اسعد اعظمی، شامل ہیں۔
جبکہ پاکستان کے تقریباً سبھی اکابر اور نامور علماء کے خطوط اس مجموعے کی زینت ہیں۔
موضوعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خطوط متنوع موضوعات پر مشتمل ہیں جن میں علمی و فکری مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں، سوال و جواب کی صورت میں کئی اکابر علماء کے فتاوی اور ان کی فقہی آراء بھی اس میں مندرج ہیں۔
علاوہ ازیں تاریخی، جماعتی اور مختلف اداروں سے متعلقہ قیمتی معلومات بھی قارئین کو اس مجموعہ مکاتیب میں پڑھنے کو ملیں گی۔ چونکہ اس کتاب میں شامل یہ تحریری مواد پہلی بار منظر عام پر آیا ہے، اس لیے قارئین بہت ساری باتوں سے پہلی بار آگاہ ہوں گے جو یقینا ان کے علم و آگہی میں نیا اضافہ ہو گا۔ واللہ الموفق



آپ کے تبصرے