جنوبی ہندکے صوبہ کرناٹک کاایک مشہورضلع بیجاپور ہے۔سلاطین عادلشاہیہ نےیہاں تقریبا دوسو سال 1489ء سے 1686ء تک حکومت کی۔آزادئ ہندسےپہلےاوربعدمیں بھی دس سالوں تک یہ صوبہ تین الگ الگ حصوں میں بٹا ہواتھا،شمال مشرقی حصہ ’حیدرآباد کرناٹک‘ شمال مغربی(حصہ) ’بامبے کرناٹک‘ اورجنوبی حصہ ’میسور اسٹیٹ‘سےجانا جاتاتھا۔آخر یکم نومبر 1956ء میں ان تینوں حصوں کوملاکر ’کرناٹک‘کےنام سےایک مستقل صوبہ بنادیاگیا۔
دودوانِ عادلشاہی کےکل نو حکمران گزرے ہیں۔ سوائے ابراہیم عادل شاہ اول(1534ء سے 1557ء تک کل 23 سالہ دور حکومت) کےسبھی غالی شیعہ اثناعشریہ تھے، اپنےدوسوسالہ دورِ حکومت میں طاقت کے زور سے شیعہ اوررافضی عقائدکی خوب نشرواشاعت کی، کیا گاؤں کیا شہر ہرجگہ محرم کے بدعات وخرافات کےعلاوہ درگاہ پرستی،پیر پرستی،قبروں پر نذر ونیاز، فاتحہ، چہلم وغیرہ جیسی غیراسلامی قبیح رسومات کااس قدر چلن تھاکہ اسلام کا حقیقی چہرہ ہی مسخ ہوگیاتھا، قرآن وحدیث پرعمل کرنا اورتوحیدکی بات کرنا جرم سمجھاجاتاتھا،ایسے لوگوں کو وہابی یا باغی کانام دےکران کا سماجی بائیکاٹ کیاجاتاتھا، بھول کربھی کسی مسجد میں چلےگئے تو مارپیٹ کر انھیں مسجدوں سےنکالا جاتا تھاکہ ان کی وجہ سے مسجدیں ناپاک ہوتی ہیں پھر وہاں کی فرش دھودی جاتی۔
ایسے حالات میں اللہ کی رحمت ہوئی کہ اس علاقے میں آہستہ آہستہ نور توحید کی کرنیں پھوٹنےلگیں اورچند افراد عقیدہ توحید کے قائل ہوگئے، شرک وبدعات، غیراسلامی رسومات سےتائب ہوکر قرآن وحدیث پرعمل کرنا شروع کردیا۔ اورتوحید کی نشرواشاعت کی غرض سے اپنے بچوں کو دینی درسگاہوں میں بھیجنے لگے، پھر یوں لوگ ساتھ آتےگئے اور قافلہ بنتاگیا۔
ضلع بیجاپور سےمتصل صوبہ مہاراشٹر کے صنعتی شہر شولاپور میں حضرت مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ کی عقیدہ توحید کی تبلیغ واشاعت میں بڑی خدمات رہیں،آپ کےخطباتِ جمعہ ودیگرمناسبات میں بیانات اور مواعظ حسنہ سےہمارا ضلع بیجاپور بھی فیضیاب ہوتارہا،سناہے آپ کرنول سےاٹھ کےیہاں آئےتھے، یہ وہی کرنول ہےجہاں مولانا عبدالعزیز رحمانی کرنولی ہوا کرتےتھے۔جو شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کی شہرہ آفاق درس گاہ ’دار الحدیث رحمانیہ‘ دلی کےتعلیم یافتہ تھے،غالبا مولانا عبداللہ مدنی اورمولانا عبدالعزیز رحمانی دونوں ہی کرنول میں رہےہوں، پھر حضرت مولانا عبداللہ مدنی شولاپور چلے آئے ہوں اوریہیں کےہو رہےہوں، شولاپور میں قلعہ کی مسجد آپ کا مستقر تھا، یایوں کہیےکہ یہ عقیدہ توحید کی نشرواشاعت کا مرکز تھا، یہاں سے لوگ فیض پاتے اوراپنےاپنے علاقوں میں جاکر اس کی تبلیغ کرتے گویا یہ سلسلہ ’مشکوة من نور النبوۃ‘تھا۔ اسی چراغ ِ مصطفوی سےکئی چراغ جلےاور اطراف واکناف کےاندھیاروں میں توحید کا اجالا پھیلتا چلاگیا۔
غالبا 1958ء کی بات ہےہمارے ضلع بیجاپور سے چند نفوسِ قدسیہ شولاپور کا رخ کرتےہیں، ہرے مسلی کےحاجی میراں صاحب، جالواد سےمولانا ابو شحمہ صاحب اور ان کے بھائی حافظ عبدالرحمن جالوادی صاحب تو بس یہیں کے ہورہے، اورمسجد فارسٹ اہل حدیث میں تادمِ حیات امامت وخطابت کرتےرہے، یہیں پر سپردِ خاک ہوئےاور اپنے پیچھے ہونہار سپوت حافظ عبداللہ جالوادی کو اپنا جانشین بناکر چلےگئے جو آج بھی الحمدللہ اسی مسجد فارسٹ میں ڈٹے ہوئے ہیں اللھم زد فی علمہ وعملہ وعمرہ ۔آج شولاپور میں کم وبیش بیس اہل حدیث مساجد و مکاتب کام کررہےہیں، مولانا ابو شحمہ جالوادی کے نسبتی برادرمولوی محمد اسماعیل مومن ہنچالی بھی ان کےساتھ ہولیے اس وقت وہ جوانِ رعنا تھے،اپنے والد کی پہلی نرینہ اولاد تھے، ان کےوالد جناب عبدالقادر صاحب مومن پیرسے معذور تھے اسی لیےوہ ہمیشہ اپنے گھوڑے پر ہی سفر کرتےتھے۔ ان کی کھیتی بھی تھی ، گھر سےکھیت بھی گھوڑے پر جاتے، دن بھرگھوڑا وہاں چرتا، شام کو لوٹتے وقت گھوڑے کےلیے کڑبی اورگھاس لیتےآتے۔
میں نے بچپن میں انھیں جالواد میں دیکھاتھا، بڑے موحد، متقی،صوم وصلاۃ کے پابند اور متحمس اہل حدیث تھے، عقیدہ توحید سےکبھی سمجھوتا نہیں کیا۔
شہر بیجاپور کی قنات اہل حدیث مسجد نزد بڑی کمان میں ان دنوں ایک صاحب ’مولی بخش سنگاپوری‘ امامت کرتےتھے، موصوف پیشہ سے پوسٹ مین تھےپھر پوسٹ ماسٹر اورمیل اور سیرہوکر سبکدوش ہوئے، قرآن وحدیث کاخاطر خواہ علم تھا،1960ء کی بات ہوگی مولوی اسماعیل مومن صاحب نے انھی مولی بخش سنگاپوری صاحب سےچند ماہ ترجمہ قرآن اورمنتخب احادیث کادرس لیا، ان کےساتھ بہنوئی مولانا ابوشحمہ صاحب جالوادی بھی ہم درس رہے، ان دونوں کو قرآن وحدیث سیکھنے کاجیسے جنون تھا، چند ہی ماہ میں انھوں نے قرآن مجید کاایک معتدبہ حصہ یادکرلیا اور بہت حد تک دینیات سےبہرہ مند ہوئے ۔
جناب عبدالقادر مومن صاحب کواللہ نےکل سات بیٹے بیٹیاں عطاکیں، پہلی بیٹی آمنہ جو جناب عبدالستار صاحب جالوادی کی والدہ ہیں، دوسری بیٹی حافظہ جوہنچگی میں بیاہی گئیں، تیسرے بیٹے مولوی محمد اسماعیل مومن رحمہ اللہ چوتھی بیٹی خدیجہ جو مولانا ابو شحمہ جالوادی سےبیاہی گئیں جن کی گود خوب ہری ہوئی اور کئی عالم وعالمات کی والدہ ہیں، پانچویں بیٹے جناب عبدالرحیم صاحب مومن جن کےبھی کئی بیٹے عالم حافظ اور بیٹیاں عالمہ ہوئیں۔ مولوی عبدالغفار عمری، مولوی عبدالمنان عمری اور مولوی حافظ عبدالحنان وغیرھم کےیہ والد بزرگوار ہیں۔
چھٹے بیٹے ہمارے سینئر بزرگوار مولوی محمد اسحاق صاحب مومن عمری ہیں جن کےکئی لڑکے عالم وحافظ ہیں، ساتویں بیٹی سلیمہ ہیں جو مولوی عبدالغفار مومن وغیرھم کی خوشدامن صاحبہ ہیں۔
حضرت مولانا محمد اسحاق مومن عمری کاتذکرہ کچھ یوں ہے کہ ان کےوالد بزرگوار کوہمیشہ یہ فکر لاحق رہی کہ اس علاقے میں توحید کابول بالا ہوتارہے، اس کےلیے میری اولاد میں کوئی عالم دین ہوتو یہ کام چلتا رہےگا اس غرض کےلیے وہ انھیں بستی سےباہربھیج کےتعلیم دلوانا چاہتےتھے، مگر کسی دور دراز علاقے میں بھیجنے کےحق میں نہیں تھے، کہتےتھے کہ شولاپور میں مولانا عبداللہ مدنی یا بیجاپور کے مولی بخش سنگاپوری صاحب کےپاس ایک آدھ سال رکھ چھوڑدیں عالم بن جائےگا۔مگر مولانا محمد اسماعیل مومن خوب جانتےتھے کہ ایسے کسی شخص کی خدمت میں رہ کران کی خدمت تو کی جاسکتی ہے لیکن علوم دینیہ میں مہارت حاصل نہیں کی جاسکتی، لہذا آپ نےاپنے چھوٹے بھائی کو 1964ء میں مدرسہ کاشف العلوم اورنگ آباد مہاراشٹرا روانہ کردیا، ابوبکر نامی دو اور طالب علم بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ ایک بیجاپور کے جناب مولی بخش سنگاپوری کےلڑکے اوردوسرے شولاپور کے جناب شرف الدین صاحب کے لڑکے، ان تینوں نے وہاں تقریبا دو سال تعلیم حاصل کی،پھراس کےبعد پتہ نہیں کن وجوہات کی بناپر انھیں اورنگ آباد سے اٹھا کر جامعہ دارالسلام عمرآباد میں داخل کروایا گیا ۔( مولانا اسحاق مومن 1971ء میں فارغ ہوئے)
آج کی نئی نسل نہیں جانتی کہ غربت کسے کہتےہیں اور افلاس کیاہوتاہے۔ 1964ء کی بات کررہاہوں جب ہمارے مولانا محمد اسماعیل مومن محض روزگار کےلیے بیجاپور میں قنات مسجد اہل حدیث سے متصل جناب محمد صاحب مجاور ٹیلر کی دکان میں ٹیلرنگ سیکھ کر وہیں کپڑے سیتے تھے جن کی ہفتہ واری مزدوری بارہ روپئے ہوا کرتی۔ یہ وہ رقم تھی جس سےایک پلاٹ (زمین کاایک ٹکڑا)خریدا جاسکتاتھا۔ہوابھی یوں کہ بڑی کمان کےقریب ایک نواب صاحب نے مولانا محمد اسماعیل مومن رحمہ اللہ سےیہیں رچ بس جانےکی گذارش کرتےہوئےکہا تھاکہ آپ کی ہفتہ واری مزدوری مبلغ بارہ روپئے دے دیں میں آپ کو اپنےمکان کے قریب ایک پلاٹ دےدوں گا جس پرمکان بناکر یہیں رہ جائیں مگر مولانا محمد اسماعیل مومن رحمہ اللہ نےیہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے یہ روپئے میرے چھوٹے بھائی محمد اسحاق مومن کو اورنگ آبادکو روانہ کرنے ہیں کہ وہ دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسی طرح مولوی محمد اسحاق مومن کی اورنگ آباد کی دوسالہ اور جامعہ دارالسلام عمرآباد کی چھ سالہ تعلیمی اخراجات ان کےبڑے بھائی مولانا محمد اسماعیل مومن رحمہ اللہ نےاپنا پیٹ کاٹ کر پورےکیے، نہ جانےاور کتنے بھائی بندوں کےبچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے ہوں اللہ ہی بہتر جانتاہے۔ بڑی قربانیاں دی ہیں اس مومن خاندان نے منہج سلف کی آبیاری کے لیے۔
انھی قربانیوں کا نتیجہ سمجھیے کہ ہنچال گاؤں جہاں پنچانوے فیصد مسلم آبادی ہے،سارے خاندان چاہے وہ سپاہی خاندان ہویا ساہوکار خاندان یاجھاڑ گھر خاندان سبھی سچےپکےموحد اہل حدیث ہیں۔ماشاءاللہ آج ہنچال علماء، حفاظ اور فضلاء کامرکز بن گیا۔ انھی سب کاوشوں سے وہاں ’عمرہ بنت عبدالرحمن الانصاریہ‘ کےنام سے لڑکیوں کا ایک مدرسہ قیام وطعام کے ساتھ بڑی کامیابی کےساتھ چل رہاہے۔جہاں دو دو مساجد، مدرسہ کی عمارت اور لڑکیوں کےلیے دار الاقامہ( ہاسٹل) قائم ہے۔اس مدرسہ سےاب تک کئی بچیاں عالمہ فاضلہ بن کرنکلی ہیں۔
اوپر لکھ آیاہوں کہ انڈی تعلقہ کے ہرےمسلی میں ایک صاحب حاجی میراں صاحب ہواکرتےتھے جو پیشےسےکپڑوں کے سوداگر تھے، ویسےآبائی زمین بھی تھی جس پران کےبھائی اوربچے آج بھی زراعت اور کاشت کرتےہیں، مگر حاجی صاحب کپڑوں کے سوداگر تھے، ان کا ایک صحت مند جوان گھوڑا تھا جس پر وہ کپڑوں کے گھٹڑیاں لاد کرگاؤں گاؤں جاکر فروخت کرتے تھے۔ان دنوں کیابلکہ آج بھی ہرہفتہ کسی نہ کسی گاؤں میں بازار لگتاہے، ہمارے گاؤں چٹرکی میں جمعرات کو بازار لگتاہے جہاں ہرطرح کےاجناس باہر سے آجاتےہیں، غلہ،اناج، مسالہ،تیل، کرانا،کپڑے، برتن بھانڈے اورمٹھائیاں وغیرہ باہرکےتاجر اپنےاپنے گھوڑوں پر لاد کرلاتے شام تک یہ بازار چلتا، شام ہوتے ہوتے اپنا سامان سمیٹ کر یہ لوگ کسی دوسرے گاؤں کا رخ کرتے۔
ہمارے حاجی میراں صاحب چونکہ مولانا عبداللہ مدنی شولاپوری کے شاگرد رشید تھے، ان سےقرآن وحدیث کا علم حاصل کیا تھا،عقیدہ توحید کے بڑے پکےتھے لہذا تجارت کم اور توحید کی تبلیغ واشاعت زیادہ کرتےتھے،نیز شرک وبدعات کےرد میں بڑے ماہرتھے، دکھنی اور کنڑا زبانوں میں رات رات بھر وعظ فرماتے، رورو کر حاضرین کا حال بےحال ہوتا، قرآن وحدیث کو سمجھنے کےلیے عربی اور ویدوں پرانوں کا حوالہ دینےکےلیے سنسکرت شلوکوں کابھی خوب استعمال کرتےتھے جہاں جاتےکپڑوں کی تجارت ہونہ ہوآخرت کاسودا ضرور کرتے، یوں ان کی تجارت ’یرجون تجارۃ لن تبور‘[فاطر:29](ترجمہ :یہ نیک لوگ ایسی تجارت کےامیدوار ہیں جو کبھی خسارے میں نہ ہوگی)کے مصداق تھی۔
حاجی میراں صاحب سوداگر سے متاثر ہوکر شرک وبدعات سےتائب ہونےوالوں میں میرے والد بزرگوار جناب عبدالحفیظ (عرف باوا صاحب کونڈگولی)جناب بسم اللہ صاحب مکاندار (مولوی محمد ابراہیم صاحب ملاں جامعی مقیم الحال سندگی کے خسر اورمولوی عبدالقیوم جامعی مقیم الحال تالیکوٹ کےوالد گرامی)اور جناب ابراہیم صاحب لالسنگی (میرے تایہ خسر ) السابقون الاولون میں سےتھے۔
پھر ان تینوں کی محنتوں سےکونڈگولی خاندان، لالسنگی خاندان، غور خاندان اور رامپور خاندان کےعلاوہ گاؤں کےاکثر افراد الحمدللہ اہل حدیث بن گئے۔
اس طرح چٹرکی میں جمعیت اہلحدیث کاقیام ہوااور زمانہ قدیم سےجو عاشور خانہ تھاوہاں سے ڈولی اور پنجے وغیرہ نکال کر مسجد بنادی گئی۔ جہاں پنج وقتہ اذان اورنماز شروع ہوگئی۔وقتا فوقتا ان نئے اہلحدیثوں کی ہدایت ورہنمائی اور دلبستگی کےلیے حاجی میراں صاحب مولوی ابو شحمہ صاحب مولوی محمد اسماعیل مومن رحمہ اللہ اور مولوی عبدالغفار ندوی وغیرھم آتے۔وعظ وارشاد کے علاوہ قرآنی نسخے اور کتب حدیث کےتراجم وغیرہ فراہم کرکے چلے جاتے۔
چٹرکی سےکئی طلبہ دینی درسگاہوں کا رخ کرنےلگے۔ پہلا قافلہ 1965ء میں راقم الحروف محبوب الرحمن بن عبدالحفیظ اور مولوی ابراہیم بن حسین صاحب ملاں پرمشتمل دارالعلوم احمد نگر کا رخ کیا۔ دوسرے سال 1966ء میں ہمارے علاوہ مولوی محمد حنیف عمری اور عبدالرشید بلگانور بھی احمد نگر آگئے۔ یہاں داخل ہونےکا سبب مولوی عبدالغفار ندوی تھے،جنھوں نے اپنے بھائی جناب عبدالستار صاحب کو ہمارے ساتھ کردیا جو داخلہ کرواکے ہی لوٹے۔ ساٹھ کی دہائی تھی کہ ہمارے اس علاقے میں پوسٹ مین مولی بخش صاحب سنگاپوری، مولانا عبدالغفار ندوی ،مولانا ابو شحمہ صاحب جالوادی اور مولانا محمد اسماعیل مومن ہنچالی نے یہاں کےبچوں کو مختلف دینی درسگاہوں میں داخل کروانے کی ایک طرح مہم چلارکھی تھی اور ہم اس مہم کاحصہ تھے جو الرعیل الاول کےطورپر گاؤں سے نکلے احمد نگر پہنچے وہاں سےنکلے 1967ء میں عمرآباد پہنچے پھر اس کے بعد یہ مبارک سلسلہ چلتا ہی رہا۔
چٹرکی، جالواد، ہنچال ہرےمسلی، روگی، انڈی اور تانبہ وغیرہ سے مختلف طلبہ مختلف اوقات میں جامعہ محمد عربیہ رائیدرگ اور جامعہ دارالسلام عمرآباد میں پڑھتےرہے۔ آج صرف چٹرکی میں کم وبیش تیس 30 علماء وحفاظ موجودہیں اسی طرح ہنچال، انڈی تانبہ ودیگر مقامات میں بھی سلفی علماء وحفاظ کی ایک بڑی تعداد مصروفِ عمل ہے۔
حاجی میراں صاحب جمعرات کابازار کرلینےکےبعد جمعہ کوآلمیل، سنیچر ہرےمسلی، اتوار انڈی، پیر دیور ہپرگی، چہارشنبہ تانبہ جایاکرتےتھے۔ اس علاقے میں حاجی صاحب کےعلاوہ مولانا ابو شحمہ صاحب مولانا محمد اسماعیل مومن کی خدمات بھی کچھ کم نہ تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندگی،انڈی۔ماون ہلی،تانبہ ہرےروگی، چکروگی، سالٹگی،چٹرکی بنتنال دیور ہپرگی، مدےبہال، تالیکوٹ اورکنور جیسے مقامات میں الحمدللہ جماعتیں قائم ہوئیں۔اور آج بھی کافی لوگ وہاں توحید پرقائم ہیں۔ہمارے مدارس ومکتبات ومساجد برابر کام کررہےہیں خدا رحم فرمائےان مرحومین پر کہ انھوں نےاس راہ میں بڑی تکالیف جھیلیں، مار کھائے،گالیاں سنیں مگر ہمت نہ ہاری آخر وہ کامیاب ہوگئےاور امر ہوگئے۔
ہرگز نہ میردآں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
(حافظ شیرازی)
آپ کے تبصرے