کاروان سلف نویں جلد: اہم علمائے اہل حدیث کے تذکروں کا مرقع

ڈاکٹر شمس کمال انجم تعارف و تبصرہ

ہندوستان میں نزہۃ الخواطر کے مولف مولانا عبد الحی حسنی لکھنوی، تاریخ علمائے حدیث ہند کے مولف امام ابو یحیی خاں نوشہروی، نقوش عظمت رفتہ اور بزم ارجمنداں کے مولف مولانا محمد اسحاق بھٹی کے بعد گذشتہ ایک صدی کے اکابر واصاغر، سینئر وجونیئر علمائے اہل حدیث کی سوانح اور ان کا تذکرہ مرتب کرنے کا جو اہتمام حضرت مولانا عبد الرؤف خاں ندوی مد ظلہ العالی نے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔

ان کی کتاب’کاروان سلف‘کے تمام حصوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر سوانح خود ان میں مذکور علمائے کرام کے بقلم خود لکھے گئے ہیں۔ اس لیے اس کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ابو یحی خان نوشہروی اور بھٹی صاحب کی کتابوں کے مقابلے میں ’کاروان سلف‘ کی ضخامت اور اس کی اہمیت کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں اگر مولانا ندوی صاحب کو’ابن خلکان جماعت اہل حدیث‘ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔

کاروان سلف کی تقریبا ساری جلدیں میں دیکھ چکا ہوں۔ وہ میرے پاس محفوظ بھی ہیں۔ ان پر میں پہلے ہی ایک مضمون لکھ چکا ہوں۔ فی الحال ’کاروان سلف‘ کی نویں جلد میرے سامنے ہے۔یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں علماء کے سوانح ہیں تو دوسرے حصے میں تاریخ اہل حدیث بلرام پور۔حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ موخر الذکر حصے کو الگ سے شائع کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

نویں جلد کے بیشتر تذکرے میں نے پڑھ لیے ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے دو حضرات کی سوانح نے متاثر کیا۔ ایک علامہ اظہر بہاری صاحب اور دوسرے ڈاکٹر سعید عابدی ازہری صاحب۔

اظہر بہاری صاحب کا نام تو میں نے پہلے سن رکھا تھا۔جستہ جستہ ان کے بارے میں پڑھا بھی تھا البتہ ڈاکٹر سعید عابدی صاحب کا نام پہلی بار سنا۔ سعید عابدی صاحب قاہرہ اور اس کے بعد سعودی عرب میں کم وبیش نصف صدی گزارنے کے بعد اپنے واطن واپس آچکے ہیں۔ مجھے یہ جان مسرت ہوئی کہ کرتھی ڈیہہ کے مولانا ممتاز علی صاحب جو رحمانیہ کے بھی فاضل تھے اور ندوی بھی تھے، موصوف کے سگے ماموں تھے۔ مولانا ممتاز علی صاحب تقوی وطہارت کی مثال تھے۔اسی لیے انھیں لوگ ’بابا‘ کہتے تھے۔ میں نے ان کے گاؤں ’کرتھی ڈیہہ‘ کے لوگوں سے سنا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد کوّے بھی ان کی مٹی دے رہے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی مولانا اقبال حسین صاحب بھی تقوی وطہارت کی مثال تھے۔ ان کے والد مولانا عبد الأول صاحب فیضی میرے استاد اور میرے والد کے ہم عصر تھے۔مولانا ممتاز علی علامہ اظہر بہاری کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ مولانا ممتاز صاحب جیسا متقی وپرہیزگار جس کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگا وہ ممدوح کس قدر تقوی وطہارت کی مثال ہوگا۔بلا خوف لومۃ لائم اور ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہنے کی جرات بہتوں کو رہی ہے لیکن اس میں علامہ اظہر بہاری صاحب کی مثال نہیں ملتی۔انھوں نے انیسویں صدی کے اخیر اور بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں مشرقی یوپی کے علاقے میں توحید وسنت کی اشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ سعید عابدی صاحب انھی اظہر بہاری کے معتقد مولانا اقبال حسین کے سگے بھانجے ہیں۔ عابدی صاحب نے اپنے خاندان، اپنے والد، براداران اور خود اپنی زندگی کے مسائل ومعاملات، طالب علمانہ زندگی، جامعہ ازہر میں داخلے کی کاروائی، ممبئی سے بحری سفر، قاہرہ ریڈیو اور جدہ ریڈیو میں ملازمت وغیرہ کی یادوں کو بہت خوب صورتی سے قلمبند کیا ہے۔آپ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری اور ڈاکٹر عبد العلی ازہری کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ اس وقت اسّی برس کی عمر کی لپیٹ میں ہوں گے۔

حالانکہ عابدی صاحب کی سوانح کے ابتدائی صفحات میں انھوں نے جو باتیں کہی ہیں وہ اتنی ضروری بھی نہیں تھیں لیکن بعد میں ان کی شخصیت کے خدوخال اچھی طرح سے اظہر من الشمس ہوجاتے ہیں۔ان کی شخصیت کے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جو انھیں ریڈیو پر ایک اناونسر کے ساتھ ساتھ ایک عالم اور محقق کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ریڈیو پر عالمانہ انداز میں کام کرنے کی آپ پہلی مثال آپ ہیں۔ان کا تذکرہ ایک سو دس صفحات پر مشتمل ہے۔ہر چند کہ وہ ابتدائی دس برس قاہرہ ریڈیو سے وابستہ رہے اس کے بعد تقریبا چالیس برس تک جدہ ریڈیو سے وابستہ رہے۔ نصف صدی کا عرصہ عالم عرب میں گزار کر جب انھیں اپنے وطن واپس آنا پڑا تو وہ کس تکلیف سے دوچار ہوئے ان کی تحریر سے اس کا صاف صاف انداز ہ کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ قاہرہ میں سعودی عرب سے زیادہ باہر کے لوگوں کی عزت کی جاتی ہے، انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس بات کا تذکرہ عابدی صاحب نے جس انداز میں کیا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے۔چالیس پچاس برس انسان جہاں رہے اسے اس کی ملازمت کے ختم ہونے کے بعدوہاں رہنے کے استحقاق سے بیک جنبش قلم خارج کردیا جانا بھی عجیب لگتاہے۔ حالانکہ یہ بات انھیں سعودی عرب میں رہتے ہوئے کہنی چاہیے تھی۔

بہرحال ڈاکٹر عابدی کا تذکرہ پڑھ کر ان کی عالمانہ شخصیت سامنے آتی ہے۔ ان کی تصنیفات وتالیفات کا بھی نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ مولانا جوناگڈھی کے اردو ترجمۂ قرآن پر انھوں نے بہت خوب صورت علمی بحث کی ہے اوراس ترجمے کا مختصرمگر بہت شاندار تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے جو کہ میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ قرآن کریم کے اردو ترجموں کا تنقیدی جائزہ کے نام سے میری کتاب زیر ترتیب ہے۔ ان کا یہ تذکرہ میں نے ایک نشست میں پڑھ ڈالا۔ درمیان میں صرف نماز کے لیے اٹھا۔ بارہ بجے دوپہر پڑھنا شروع کیا اور عشاء تک ایک سو دس صفحات نے اپنے ساتھ مجھے جکڑے رکھا یہاں تک کہ اسے ختم کردیا۔ موصوف کا تذکرہ پڑھ کر معلومات بھی حاصل ہوئی، علم بھی اور ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ بھی سامنے آیا۔

اس نویں جلد میں اور بھی چھوٹے بڑے تذکرے زیر قلم آئے ہیں لیکن اس میں ایک تذکرہ ’مدنی اردو‘ میں بھی ہے۔ حالانکہ نصف صدی سعودی عرب میں رہنے والے ڈاکٹر سعید کی اردو عربی زدہ نہیں۔ فصیح اور سلیس ہے۔ مگر ایک شیخ نے جن کا نام یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں، اپنی سوانح خوب صورت ’مدنی اردو‘ میں لکھی ہے۔ شروع شروع میں وہ اچھی زبان کا استعمال کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ سعودی کی سرزمین پر پہنچ کر اپنا ذکر خیر فرماتے ہیں تو ان کی زبان عربیت زدہ بن کر ’مدنی اردو‘ کے خول میں مقید ہوجاتی ہے۔ بڑے خوب صورت قسم کے عربی الفاظ اردو کو انھوں نے دیے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ الفاظ / جملے دیکھیے:

’’ماجستیر کی ’شہادت‘ حاصل کی۔کتاب پر ’موافقت‘ مل گئی۔ ’باحث شرعی‘ کی ضرورت تھی۔ وہ ’مستشار‘ کے عہدے پر فائز تھے۔مجھ سے ’تعاقد‘ اور ’نقل کفالہ‘ کی ’موافقت‘ لینے کے لیے۔۔۔ نظام کا سہارا لے کر ’رفض‘ کردیا۔شیخ کے ’تدخل‘ پر، میری طرف ’تحویل‘ کردیتے۔کتابوں کی ترتیب و ’تسجیل‘۔ ’انتساب‘ سے ’دکتورہ‘۔ مخطوطہ کو ’نسخ‘ کرنا۔ ’تخصصی‘ ڈاکٹر۔ میرے پاس کافی ’فراغ‘ تھا۔ اہم ’مشروعات‘ میں سے ہے۔ ’اقتراح‘ واصرار پر۔ ’تشجیع اساسی‘۔ ’فرع‘ بلوہا۔ وغیرہ وغیرہ۔ ’خوبصورت‘ اردو پڑھ کر میں بہت محظوظ ہوا۔ واضح ہو کہ قاری کی سہولت کے لیے یہ واوین میں نے لگائے ہیں، مدنی اردو والے شیخ صاحب نے نہیں۔ میں نے اپنی ڈائری میں یہ سب جملے نوٹ کرلیے ہیں۔ ’مدنی اردو‘ پر جلد ایک مضمون لکھوں گا۔

بہر حال کاروان سلف کی نویں جلد بہت دلچسپ ہے۔ میں مولانا ندوی صاحب کا شکر گزار ہوں کہ کہ انھوں نے مجھے یہ نسخہ بھیجا جس سے مجھے علامہ اظہر بہاری اور ڈاکٹر سعید عابدی جیسی شخصیات کے بارے میں تفصیلی طور سے جاننے کا موقع ملا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
محمد انیس خان

جس دور کے علماء میں سے شیخ عبد الرحمن لیثی مدنی ہیں انکے اکابر واصاغر کا تذکرہ تو کاروان سلف میں موجود ہے لیکن لیثی صاحب کا سوانح مجھے نہیں ملا اگر کاروان سلف کے کسی جلد میں موجود ہو تو رنمائی کریں ۔اور اگر نہیں ہے تو کاروان سلف میں شیخ شمار ‌‌ہوتاہو اضافہ کروا سکتے ہیں۔

محمد اکرام درگاہی

مولانا ابوالعلاء محمد اسماعیل گودھروی مرحوم کے حالات زندگی کس جلدمیں موجود ہے؟برائےکرم مطلع فرمائیں ۔ جزاک اللہ خیرا