’فلسطینی افسانے‘: مزاحمتی ادب میں ایک اہم اضافہ

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

’فلسطینی افسانے‘ (ترجمہ: شمس الرب خان ناشر: مرشد پبلیکیشن،نئی دہلی2021) پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ فیض کا یہ شعر یاد آگیا:
ترے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
عالمی ادب کے نقشے پر فلسطین کے زخموں کے جو شہر اور گلی کوچے آباد ہیں، اس کی ایک مثال ایک سو انیس (119) صفحات پر مشتمل یہ کتاب بھی ہے جس میں سرزمین فلسطین سے تعلق رکھنے والے نو(9)افسانہ نگاروں کے پندرہ(15) عربی افسانے کے اردو ترجمے شامل ہیں۔ افسانے مختصر ہیں اور مطول بھی۔ افسانہ نگاروں کی تاریخ پیدائش سے ان کے عہد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مترجم نے افسانہ نگاروں کا مختصر انداز میں جو تعارف پیش کیا ہے وہ خوب ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ غسان کنفانی(پ:1936) توفیق فیاض(پ: 1939) محمود شقیر(پ:1941) غریب عسقلانی(پ: 19448) زین العابدین الحسینی(پ:1938) جمال ناجی(پ:1955) جمال بنورہ(پ: 1937) رشاد ابوشاور(پ:1942) اکرم ھنیہ(پ:1953 )۔ یہ لوگ صرف نظریاتی حیثیت سے نہیں بلکہ عملی حیثیت سے بھی فلسطینی جدوجہد سے وابستہ تھے جس کی وجہ سے ان کی تخلیقات محسوسات اور مشاہدات کی کہانی ہے۔انھوں نے جارحیت کو دیکھا ہے اور جھیلا بھی، ایک آدھ کی پیدائش تو رفیوجی کیمپ میں ہوئی ہے۔ اسی لیے بے سروسامانی، پناہ گزینی، دربدری، ہجرت اور غریب الوطنی ان کے لیے محض الفاظ اور علامات نہیں بلکہ تجربات ہیں جو ان کی تخلیقات میں جلوہ گر ہیں۔
مترجم نے افسانوں کا انتخاب اپنی صواب دید پر کیا ہے۔ ’’بس دیکھا ہے تو صرف یہ کہ کسی افسانے نے ذاتی طور پر مجھے کتنا متاثر کیا ہے اور میرے اندرون کو جھنجھوڑا ہے۔‘‘(عرض مترجم ص:8) ادب پارے کا تاثر الگ الگ ہوتا ہے جو قرأت کے اصول کے ساتھ قاری کے رجحان پر بھی منحصر ہوتا ہے، اس کتاب کا انتساب ’’ان خوابیدہ نفوس کے نام جو بیدار ہونے کے لیے اپنے گھر آنگن کے فلسطین بننے کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ مترجم کی فکر کا ترجمان ہے اور افسانوں کے انتخاب کا اشاریہ بھی۔ انھوں نے ’عرض مترجم‘ میں فلسطینی ادب سے تعارف اور دل چسپی کی کہانی کو بیان کرنے کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے سیاسی منظر نامے کو بھی بیان کیا ہے اور گزشتہ چند سالوں کے دوران اس اہم ترین مسئلے پر عالمی برادری خاص طور پر عربوں میں قلب ماہیت ہوئی ہے اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے لیکن وہ پرامید ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ’لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے‘۔
’فلسطینی افسانے‘ فلسطینی عوام کے جدوجہد کی ولولہ انگیز داستان کا ایک ایسا باب ہے جس میں آزادی کی شدید تڑپ ہے، مزاحمت کی للک ہے، مسائل کے گرداب میں زندگی کرنے کا یارا ہے، موجوں کی کشاکش کے باوجود دریا پار کرنے کا عزم ہے۔ یہ افسانے بنیادی طور پر فلسطینی عوام کی سیاسی جدوجہد اور تحریک آزادی کے جذبات کا اظہار ہیں لیکن ان میں سماجی مسائل کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ دودوشرر کے درمیان شراب و شباب کے قصے بھی ہیں، جنس، بھوک اور ملازمت کے مسائل بھی ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے متعدد روپ دنیا کے سامنے آچکے ہیں کچھ ان افسانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ ’گم شدہ شے‘(ص:84 تا104) میں جسمانی اذیت کے جس سفاک روپ کی کہانی بیان کی گئی ہے اور ’شکست خوردہ‘(ص:74 تا78) میں غاصب فوجیوں کے ذریعے ایک اسپتال کے جنریٹر کو نشانہ بنانے کا جو درد ناک منظر پیش کیا گیا ہے، وہ ’’مہذب دنیا‘‘ دنیا کے چہرے پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے۔ افسانے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر ایک دو زخم نہیں بلکہ پورا بدن چھلنی ہے لیکن دل میں وطن کی آزادی کا جو شعلہ روشن ہے وہ سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
فلسطین، مزاحمت کا ایک لہکتا ہوا استعارہ بن چکا ہے اور اس کتاب میں اس کا سب سے موثر اظہار ایک شیر خوار بچے کا رد عمل ہے جو فوجیوں کو اپنے گھر میں دیکھ کر سامنے آتا ہے: ’’بچے کو اپنے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ملتی ہے جسے وہ دشمنوں کی جانب پھینک سکے، وہ غصے کے مارے تلملا کر رہ جاتا ہے، پھر اپنے منہ میں پڑی چوسنی کی طرف اس کا خیال جاتا ہے، اسے اپنے منہ سے نکال کر ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیتا ہے، ہاتھ کو ممکنہ حد تک بلند کرتا ہے پھر پوری طاقت سے چوسنی کو دشمنوں کی جانب پھینکتا ہے۔ چوسنی کسی کو لگتی تو نہیں ہے لیکن فوجی باہر چلے جاتے ہیں۔ بچے کی چوسنی اب خون کے اوپر تیر رہی ہے۔ ‘‘ (ص:54)
شمس الرب خان نے ان افسانوں کا ترجمہ براہ راست عربی زبان سے کیا ہے، ان کا شمار نئی نسل کے باصلاحیت اسکالرس میں ہوتا ہے، ان کی دینیات اور عربی ادبیات کی تعلیم مدرسے کی دین ہے، اس کے بعد انھوں نے دہلی اور ممبئی کی جدید دانش گاہوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور اس وقت عربی زبان و ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں، اردو ان کی مادری زبان ہے، عربی اور انگریزی میں اچھی صلاحیت کے حامل ہیں، بنارس، دہلی اور ممبئی، اساتذہ کی تعلیم نے ان کے عربی زبان و ادب کے علم اور ذوق کو کافی نکھار دیا تھا اور اس زبان میں ایک حد تک ماہرانہ دسترس پیدا کر دی ہے۔ درس وتدریس کے ساتھ تخلیق اور ترجمے کا مشغلہ بھی جاری ہے۔ ان کے عربی ادبیات کے ترجمے بعض ادبی مجلات میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ ترجمہ عربی متن سے کس حد تک قریب ہے، اس کا فیصلہ تو متن اور ترجمے کا ایک ساتھ مطالعہ کرنے کا بعد ہی کیا جاسکتا ہے لیکن ترجمے کی زبان میں جو سادگی اور سلاست ہے وہ قابل تعریف ہے، عبارت میں کوئی پیچیدگی یا بوجھل پن نہیں ہے جو ایک نووارد کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے اور درخشاں مستقبل کا اشاریہ بھی۔
فن ترجمہ، ثقافتی تبادلے کا ایک معتبر ذریعہ ہے جو ایک وسیع دنیا کا نظارہ کرنے کے لیے کھڑکی فراہم کرتا ہے جس سے قارئین کی ثقافت وسیع ہوتی ہے اور ان کے ذوق کو تسکین بھی ملتی ہے لیکن یہ فن بڑی مہارت اور ریاضت چاہتا ہے، اسی لیے بعض اہل علم نے ترجمہ کو تخلیق سے مشکل عمل کہا ہے کیوں کہ اس میں مترجم کو تخلیق کار کے خیالات کی ترسیل کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔ اسی لیے جرمن ادبی ناقد Heine Heinrich نے مترجم کی کوشش کو ’’تنکوں میں سے گزرتی ہوئی سورج کی کرنیں ترتیب دینے کا عمل کہا تھا‘‘ اور ظ انصاری نے ترجمہ نگاری کو ’’طوطا کے ادوان پر چلنے‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مترجم بھی ان دشواریوں سے واقف ہیں اور زیر تبصرہ کتاب سے ان کی محنت اور ریاضت عیاں ہے، غالباً ’فلسطینی افسانے‘ ترجمے کے میدان میں ان کی پہلی کوشش ہے۔ نقش اول میں جب اتنی پختگی نظر آرہی ہے اس سے ان کے مستقبل کے ادبی سفر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ترجمے میں پورب کی مقامی بولیوں کے محاورے اور لفظیات کا دھڑلے سے استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ترجمے کی فضا میں مقامی رنگ نظر آنے لگا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ’’کمرہ ہی کے اندر بکیاں بکیاں دوڑتا پھرتا ہے‘‘(ص:53) ’’اس کے گال پر چکوٹی کاٹتی ہے۔‘‘ (ص:89) ’’مان منول کرلیتے ہیں۔‘‘(ص:90)
مجھے لگتا ہے کہ ترجمے میں ایک آدھ جگہ تکلف کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے: یہ جملہ دیکھیں: ’’شرارتی بچہ وقت سے پہلے بیدار ہوجاتا ہے، پستان مادر سے شیر خواری کرتا ہے۔‘‘(ص:53) اس کا ترجمہ یوں بھی کرسکتے ہیں: ’’شرارتی بچہ وقت سے پہلے بیدار ہوجاتا ہے، ماں کا دودھ پیتا ہے۔‘‘ انھوں نے ایک افسانے ’’مقاومۃ‘‘ کا ترجمہ ’’مدافعت‘‘(ص:53) کیا ہے جب کہ کتاب میں ایک آدھ جگہ اس کا ترجمہ ’مزاحمت‘ بھی ملتا ہے، مجھے بھی یہی مناسب لگتا ہے۔
’مطالعۂ فلسطین‘ اردو ادب میں ایک مستقل موضوع کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، تخلیق و ترجمے میں جو سرمایہ جمع ہوچکا ہے وہ کم و کیف دونوں لحاظ سے اہم ہے اور قابل توجہ بھی، فلسطینی ادیبوں کی شعری اور نثری تخلیقات کے ترجمے کے ساتھ، دوسری زبانوں میں اس مسئلے کی تفہیم کا جو سلسلہ جاری ہے، اس کو بھی اردو قالب عطا کرنے کی سنجیدہ کوشش جاری ہے جس میں فلسطینی نژاد دانش ور Edward Wadie Said کی کتاب The Question of Palestine کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب ’مطالعۂ فلسطین‘ میں ایک ایسا اضافہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، مجھے امید ہے کہ مترجم فلسطینی ادیبوں کی تخلیقات سے اردو کے دامن کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔
کتاب خریدنے کے لیے رابطہ کریں: مرشد پبلیکیشن 9990674503

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ام ہشام

اس کتاب پر اب تک کا بہترین تبصرہ

Nehal Sagheer

فلسطین یا عربی ادب سے روشناس کرانے کیلٸے دل کی گہراٸیوں دعاٸیں براہ کرم عربی ادب کے مزید تراجم بھی ذہن میں ہو تو براہ کرم مطلع کریں میرا رابطہ نمبر 8080789761 ہے
نہال صغیر