مولانا ابوالکلام آزاد سے کس اہل علم کو محبت نہیں ہوگی۔مجھے بھی ہے۔ میں نے ان کی کتابیں اس وقت پڑھنا شروع کیں جب میں سولہ سترہ برس کی عمر کا تھا۔ غبار خاطر، تذکرہ اوران کی کئی دیگر معرکۃ الآراء کتابیں اسی وقت پڑھ ڈالیں جب میں بہت چھوٹا تھا پھر تھوڑا باشعور ہوا تو خاص طور سے غبار خاطر اور تذکرہ پھر دو تین بار مگر ذرا ٹھہر ٹھہر کر اور بغور پڑھا۔ البلاغ اور الہلال کے سارے ایڈیشن بھی میرے پاس موجود ہیں۔ مولانا پر میں نے کئی مضامین بھی لکھے۔ خاص طور سے ان کی تاریخ پیدائش پر میں نے ایک تحقیقی مضمون قلمبند کیا۔بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں میں نے ان پر ایک سیمینار بھی منعقد کیا اور ایک مرتبہ ان کے بارے میں لیکچر بھی دیا۔ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہء عربی و فارسی کے زیر اہتمام عالمی سیمینار میں میں نے غبار خاطر میں موجود عربی تراکیب واصطلاحات کا تنقیدی جائزہ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ بھی پیش کیا۔یہ مقالہ ایک معتبر اردو رسالے میں شائع بھی ہوا۔ میرے ایک شاگرد ڈاکٹر اشتیاق شاہ نے میری نگرانی میں ان پر عربی میں پی ایچ ڈی بھی کی۔ اس وقت مولانا کی عربی میں سوانح لکھنے میں میں نے بھی کافی دلچسپی لی، اور پھر اس دوران ان پر لکھی گئی بہت ساری کتابیں بھی پڑھنے کو ملیں۔ مولانا کی سوانح لکھنے میں سوانح نگاروں کے تسامحات کا خاص طور سے میں نے تفصیل سے جائزہ لیا ہے جو ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
مولانا کی ساری کتابیں علم وادب کا خزانہ ہے۔خاص طور سے تذکرہ پڑھتے پڑھتے وقت یہ خیال آتا تھا کہ اس میں علم کا جو خزانہ ہے اسے عربوں سے متعارف کرایا جانا چاہیے۔اللہ جزائے خیر دے مشہور صاحب قلم، شاعر، عالم جلیل، شیخ صلاح الدین مقبول احمد (کویت) حفظہ اللہ کو جنھوں نے تذکرہ کو عربی کا جامہ پہنایا۔عالم عرب میں یہ کتاب شائع ہوئی۔ عالم عرب میں اس کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن کے بعد یہ ترجمہ ہندوستان میں دارالثقافہ للبحوث والدراسات نئی دہلی کے اہتمام سے شائع ہواہے۔ بالکل وہی عربی گٹ اپ، کتابت، طباعت اور کاغذ سب کچھ عربی ایڈیشن سے ملتا جلتا ہے۔ میں کتاب دیکھ کر اول اول یہ سمجھا کہ عالم عرب والا نسخہ ہے پھر بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ دار الثقافہ شاہین باغ دہلی سے شائع شدہ ہندوستانی نسخہ ہے۔
میں شکر گذار ہوں شیخ صلاح صاحب کا اور جناب عبد القدیر صاحب کا جنھوں نے مجھے یہ کتاب بھیجی۔اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تذکرہ کی تعریب کے ساتھ ساتھ مولانا آزاد کی مفصل سوانح کو بھی فاضل مترجم شیخ صلاح الدین مقبول احمد نے قلم بند کرکے کتاب کی علمی حیثیت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ 1947 میں تقسیم ہندکے بعد جامع مسجد سے دیے جانے والے مولانا کے مشہور خطاب کا بھی ترجمہ شامل کتاب کردیا گیا ہے جو اصل کتاب کے مقابلے میں ایک اضافہ ہے جو عربی پڑھنے والوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ مولانا کی سوانح اور اس مشہور زمانہ خطاب سے مولانا کی شخصیت کی کچھ پرتیں اظہر من الشمس ہوجاتی ہیں۔ یہی کسی کتاب کے فاضل مترجم کا کمال ہوتا ہے کہ وہ صرف ترجمے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ کتاب میں ضروری مسائل پر یا تو اپنے مقدمے میں گفتگو کرتا ہے۔ اصل مولف کی حیات بھی قلمبند کرتا ہے اور کتاب کے موضوعات مسائل پر روشنی ڈال کر کتاب کو ایک جامع شکل میں پیش کرکے خود کو ایک مترجم کے ساتھ ایک عالم کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ یہی کام شیخ صلاح الدین صاحب نے اس کتاب کے ترجمے میں کیا ہے۔مزید یہ کہ شیخ صلاح صاحب کی زبان بہت شیریں، شگفتہ، مرصع، شاندار اور بہت فصیح وبلیغ ہے۔
ہر چند کہ مولانا آزاد کی کسی بھی تحریر کا ترجمہ ناکوں چنے چبانے کے مترادف ہے خاص طور سے تذکرے کی زبان کی تعریب تو بہت مشکل کام تھا لیکن شیخ صلاح نے عربی میں ترجمے کا حق ادا کردیا ہے اور اصل کتاب میں اضافی ابواب کے ذریعے ایک مترجم کے ساتھ ساتھ عالم اور محقق ہونے کا بھی فرض ادا کیا ہے۔
میں اس کتاب کے ترجمے کے لیے، کتاب کی اشاعت کے لیے شیخ صلاح صاحب کی خدمت میں گلہائے تبریک پیش کرتا ہوں اور میرے پاس یہ کتاب بھیجنے کے لیے شیخ کا اور جناب عبد القدیر صاحب کا ممنون ہوں۔
اللہ اس کتاب کو نہ صرف قبول عام عطا کرے بلکہ اسے عالم عرب میں مولانا ابوالکلام آزاد کے مآثر کی نشر واشاعت اور ان کے افکار ونظریات کی ترویج واشاعت کا ذریعہ بنائے۔ آمین
آپ کے تبصرے