امام باقی نہیں رہے گا

ابوالمرجان فیضی شعروسخن

مجھے یقیں ہے، نہیں ملو گے، سلام باقی نہیں رہے گا

جو کام باقی نہیں رہا تو، کلام باقی نہیں رہے گا


نمود و شہرت کی بھوکی دنیا، اسے ریا کی خوراک دے دو!

جو نام باقی نہیں رہا تو، مقام باقی نہیں رہے گا


مجھے فنا کی کیا فکر ہوگی، تجھے انا سے نہیں ہے فرصت

عوام باقی نہیں رہے تو، نظام باقی نہیں رہے گا


ہے میکشی کا بھی اک طریقہ، پیا جو تم نے یوں بے سلیقہ

یہ جام باقی نہیں رہے گا مُدام باقی نہیں رہے گا


ہجوم عالم میں گمشدہ سا، تھا ایک بندہ جو پارسا سا

ظہور اس کا ہوا تو ثاقب، امام باقی نہیں رہے گا

آپ کے تبصرے

3000