ماہ محرم الحرام کی عظمت:
ماہ محرم ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے سورہ التوبہ آیت ۳۶ (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ) کے اندر ابتدائے آفرینش سے ہی حرمت و ادب والا بنایا ہے اور بطور خاص ان میں جنگ و جدال، ظلم و زیادتی اور معاصی و سیئات سے اجتناب کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حرمت والے مہینوں کی تفصیل و توضیح ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس طرح آئی ہے:تین مہینے لگاتار ذو القعدہ، ذوالحجہ اورمحرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے۔(صحیح بخاری)
بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ سال کے بارہ مہینوں کے درمیان حرمت والے مہینوں کی جو ترتیب اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اس میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں کی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں امتیازی شان ہے۔ لہٰذا مناسب سمجھا گیا کہ اسی سے سال کاآغاز کیا جائے، وسط سال میں بھی یہ مہینہ پایا جائے اور اسی حرمت والے مہینہ پر سال کا اختتام بھی ہو۔ بلکہ لگاتار دو مہینوں (ذوالقعدہ و ذوالحجہ) پر سال کا اختتام کیا گیا کیوں کہ ان میں فریضہ حج ادا کیا جاتا ہے۔
ماہ محرم کو حدیث صحیح کے اندر ’شھر اللہ‘ اللہ کا مہینہ بھی کہا گیا ہے۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
افضل الصیام بعد رمضان صیام شھر اللہ المحرم و افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ صلاۃ اللیل(ماہ رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزے اللہ کے مہینہ ’محرم‘ کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز یعنی تہجد ہے۔(رواہ مسلم فی صحیحہ) اس حدیث میں ماہ محرم کی نسبت و اضافت برائے تشریف و تعظیم ہے۔ جو عنداللہ اس کی حرمت و عظمت کی دلیل ہے۔ ورنہ سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ کے ہی ہیں اور ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔میرے علم کی حد تک ماہ محرم کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص مذکورہ حدیث پر اعتراض کرتا ہوا یہ کہے کہ اگر رمضان کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام کے ہیں تو نبی اکرمﷺ اس ماہ کے مقابلہ میں ماہ شعبان کے اندر بکثرت نفلی روزے کیوں رکھتے تھے؟ علماء نے اس کے دو جوہات بتائے ہیں۔ پہلا یہ کہ نبیﷺ کو محرم کے روزوں کی افضلیت کا علم عمر کے آخری حصہ میں ہوا ہو، دوسرا یہ کہ شاید آپ کو ماہ محرم میں سفر یا بیماری یا ان کے علاوہ دوسرے اعذار پیش آجاتے رہے ہوں جن کے سبب آپ اس مہینہ میں بکثرت روزے نہ رکھتے ہوں۔ بعض اہل علم نے یہ فرمایا ہے کہ حدیث مذکورہ میں محرم کے روزے سے مراد عاشورہ (دسویں محرم) کا روزہ ہے گویا جز پر کل کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اگر اسے تسلیم کرلیا جائے تو مذکورہ بالا اعتراض سرے سے واقع ہی نہیں ہوتا لیکن راحج یہ ہے کہ ماہ محرم کے تمام روزے یا دسویں محرم کے علاوہ بھی روزے صیام شہر اللہ المحرم کے اندر داخل ہیں۔
ماہ محرم کی تکریم و تعظیم تمام آسمانی شریعتوں میں ملحوظ رکھی گئی اور تمام شریعتوں میں عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا۔ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے متفق علیہ روایت ہے کہ دورِ جاہلیت ( قبل از بعثت نبوی) میں قریش عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور نبی ﷺ نے بھی ہجرت مدینہ سے قبل مکی زندگی میں قریش کی موافقت میں عاشورہ کا روزہ رکھا۔
عاشورہ کا روزہ ایک سال گذشتہ کے گناہوں (صغائر) کا کفارہ ہوتا ہے:
صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ(صحیح مسلم عن ابی قتادہ)
ابوقتادہ کی اس روایت کے اندر عرفہ (نویں ذی الحجہ) کے روزہ کی بابت فرمایا گیا ہے کہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور عاشورہ ( دسویں محرم) کا روزہ ایک سال گذشتہ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی ظاہری دلالت یہی ہے کہ عرفہ کا روزہ عاشورہ کے روزہ سے افضل ہے اور اس کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ عاشورہ کی نسبت موسیٰ علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کی طرف ہے جب کہ عرفہ کی نسبت نبی کریمﷺ کی طرف ہے اس لیے یہ افضل ہے۔(فتح الباری۴/۳۱۵)
اس مقام پر ابن عباس کی ایک حدیث ذکر کر دینا بھی نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے جس سے بعض لوگوں نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عاشورہ سے مراد نویں محرم ہے نہ کہ دسویں محرم۔ یہ حدیث صحیح مسلم میں حکم بن اعرج سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس پہنچا، وہ چاہ زمزم پر اپنی چادر کو تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے تھے تو میں نے ان سے عرض کیا:
اخبرنی عن صوم عاشوراء فقال اذا ریت ھلال المحرم فاعدد وأصبح یوم التاسع صائماً فقلت ھکذا کان رسول اللہ ﷺ یصومہ قال انعم( صحیح مسلم کتاب الصیام باب ای یوم یصوم للعاشورا) مجھے عاشوراء کے روزہ کی بابت بتلائیے تو انھوں نے کہا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھ لو تو تاریخیں شمار کرو اور نویں محرم کی صبح اس حال میں کرو کہ تم روزہ دار ہو، میں نے کہا کہ کیا اسی طرح رسول اللہ ﷺ روزہ رکھتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا ہاں۔ واضح ہو کہ اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جتنی حدیثیں مروی ہیں ان سب پر نظر ڈالنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مذکورہ حدیث سے نویں محرم کو عاشوراء خیال کرنا غلط ہے۔ ابن عباس نے اپنے اس قول سے سائل کو صرف اس بات پر متنبہ کرنا چاہا کہ جو عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ اس روزہ کی ابتدا نویں محرم سے کرے اور صرف دسویں محرم کے روزہ پر اکتفا نہ کرے۔ چنانچہ ترمذی اور بیہقی میں ابن عباس کا قول اس طرح منقول ہے: ثم اصبح من یوم التاسع صائماً یعنی نویں کی صبح سے روزہ رکھو۔ طحاوی اور بیہقی میں ابن عباس سے مروی ہے:خالفوا الیھود و صوموا التاسع و العاشر (یہود کی مخالفت کرو اور نویں اور دسویں محرم کے روزے رکھو) گویا دسویں کے ساتھ نویں محرم کے روزہ رکھنے کی تلقین وہدایت کرنا ابن عباس کا مقصود تھا۔ وہ جانتے تھے کہ سائل خود بھی جانتا ہے کہ عاشورہ دسویں محرم کو کہتے ہیں جیسا کہ اس لفظ کا اشتقاق بھی دلالت کرتا ہے۔ پس سائل کو یہ سمجھانا تھا کہ اس موقع پر یہود کی مخالفت میں دو روزے رکھنے چاہئیں۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کرام اور صالحین بندوں پر انعام و اکرام دسویں محرم الحرام کو ہو اور اس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کو ہلاک و برباد کیا تو بھلا یہ بات کیوں کر معقول ہو سکتی ہے کہ آدمی اس دن کا روزہ نہ رکھ کر ایسے دن کا روزہ رکھے جس میں اس قسم کے انعامات نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی دسویں محرم الحرام کا روزہ رکھا، لہٰذا مناسب اور جائز نہیں ہے کہ ہم اس دن کو چھوڑ کر دوسرے دن کا روزہ رکھیں۔ ہاں یہ بات بالکل موافق عقل سلیم ہے کہ دسویں محرم کے ساتھ ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھا جائے تاکہ سنت کی بجا آوری اور نعمت الٰہی کی شکر گذاری کے ساتھ یہود کی مخالفت بھی ہوجائے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو زاد المعاد۔ ج۲/ص۷۵/۷۶ط۲۷ موسسۃ الرسالہ)
محرم الحرام اور موجودہ مسلمان:
ماہ محرم الحرام کی عظمت اور سنت نبوی کی ہدایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برصغیر ہندو پاک میں سنی مسلمانوں کی بڑی تعداد شیعوں کی ہمنوائی میں تعزیہ داری اور نوحہ و ماتم کی رسم ادا کرتی اور ایسے ایسے خرافی اعمال و حرکات کا مظاہرہ کرتی ہے کہ ایک باغیرت مسلمان کی گردن جھک جاتی ہے۔ یقینا سنت سے انحراف کا لازمی نتیجہ ضلالت و گمراہی ہے۔ اہل تاریخ اور اصحاب تحقیق سے یہ بات مخفی نہیں کہ کوفہ کے جن شیعوں نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو جھانسہ دے کر کوفہ طلب کیا اور یزید بن معاویہؓ کے مقابلہ میں مدد کا وعدہ کیا۔ انھوں نے ہی حسین رضی اللہ عنہ کو یزیدکی جانب سے متعین کوفہ کے گورنر ابن زیاد کی فوج سے نبرد آزما ہونے پر لا چار اور بے بس کر دیا اور خود دست تعاون اٹھالیا اور حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں کو خاک و خون میں تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس طرح حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کی مظلومانہ شہادت کا حادثہ فاجعہ پیش آیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پھر انھی شیعوں نے اپنے گھناؤنے فعل پر پردہ ڈالنے کی غرض سے چوتھی صدی ہجری میں مجلس عزاو مرثیہ منعقد کی اور شہادت حسین کی نہایت بھونڈے انداز میں یاد منائی۔ افسوس کہ شیطان لعین نے ان خرافی عملوں کو اہل سنت کہلانے والوں کی اکثریت کے لیے بھی اس طرح مزین کر دیا کہ وہ شیعوں سے بھی دو قدم آگے نکل گئی ہے۔ واقعہ کربلا کی تشہیر میں اہل سنت کے کم سواد خطباء و واعظین کا رول بھی کچھ کم نہیں ہے۔ چنانچہ ان واعظین نے اس واقعہ کو جعلی اور شیعی روایات و حکایات کی روشنی میں اس طرح عوام کے سامنے پیش کیا کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ تاریخ اسلام میں معرکہ کربلا حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ حالاں کہ یہ تصادم ایک سیاسی نوعیت کا تھا۔ کوئی اسلامی جہاد نہ تھا ورنہ صحابہ و تابعین حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو یزید کے مقابلہ میں صف آرا ہونے سے روکنے کے بجائے خود آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتے اور حسین کے ساتھ اسلام کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگادیتے۔ یقیناً حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بڑا دلدوز ہے لیکن تاریخ اسلام میں ایسے جگر سوز اور دل دہلادینے والے واقعات کی کمی نہیں ہے۔حضرت عمر اور حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہما کی شہادتیں بھی بڑی دلدوز ہیں لیکن ان شہادتوں کو نظرانداز کر دینا اور صرف واقعہ کربلا اور شہادت حسین کو اجاگر کرنا شیعی آئیڈیالوجی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علماء اور عوام دونوں کی صحیح رہنمائی فرمائے۔اسی طرح ہمارے عام علماء اور واعظین یزیدبن معاویہ کوفاسق و فاجر گرادنتے ہیں اور اس پر لعنت کرنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، حالانکہ محققین علماء اہل سنت نے یزیدپرلعن وطعن کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس بات کی صراحت کی ہے کہ حسین کے قتل میں یزید کا کوئی ہاتھ نہ تھا اور نہ ہی اس معاملہ میں اس کی رضامندی شامل تھی۔ بلکہ ابن زیادکی ضداورہٹ جنگ و جدال اور قتل وغارت گری کا سبب بنی۔اس سلسلہ میں معتبر کتب تاریخ مثلاًتاریخ طبری اور البدایہ والنہایہ لابن کثیر وغیرہ کی یہی تصریحات ہیں۔اور اگر تھوڑی دیر کے لیے یزید کے متعلق فسق وفجور کے افسانے قبول بھی کرلیے جائیں تو بہرحال فاسق وفاجرآدمی اہل سنت والجماعت کے عقیدہ کے مطابق عام مسلمانوں کی دعائے رحمت و مغفرت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جاتی ہے جوکہ دعائےرحمت و مغفرت ہی ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس معاملہ میں بے اعتدالی کرتے ہیں ان کے پاس حب حسینؓ اور بغض یزید کے جذبہ کے سواکوئی دلیل نہیں ہے۔ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کی جواب دہی سےخوف کھانا چاہیے۔ اگر ہم خودکوامت رسول کہتےاور سنی مسلمان کہلاتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ سنت کی پیروی کریں اس ماہ کے اندر بکثرت روزے رکھیں،یا کم از کم نویں اور دسویں کے روزے رکھیں۔خرافی عملوں سے خودبھی پرہیز کریں اور دوسرں کو بھی ان سے باز رہنے کی تلقین کریں۔تعزیہ بنانے اور اکھاڑے نکالنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں،اس مہینہ کو نہ سوگ وماتم کا مہینہ جانیں اور نہ ہی خوارج کی طرح عمدہ ولذیذ کھانے تناول کرنے اور عمدہ بیش قیمتی لباس پہننے اور اہل وعیال پر فراخی کرنے کا موسم سمجھیں۔ عاشوراء کے دن غسل کرنے اور سرمہ لگانے کے سلسلہ کی روایتیں موضوع اور من گھڑت ہیں علامہ سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اور ملاعلی قاری نےالموضوعات میں ایسی تمام روایتوں کا جعلی ہونا نقل کیا ہے جو عاشوراءمیں فرحت وسرور کے اظہارکی داعی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اہل سنت کا شیوہ یہ ہے کہ وہ نویں اور دسویں کے روزے رکھتے اور فسق وفجورسے پر ہیزکرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کوصحیح دین پر چلنے کی توفیق بخشے اور اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ وعزت نصیب کرے ۔آمین
آپ کے تبصرے