غیر شادی شدہ علمائے کرام

ڈاکٹر شمس کمال انجم تاریخ و سیرت

شادی بیاہ ایک فطری امر اور انسانی ضرورت ہے۔اسلام نے اس فطری وانسانی ضرورت پر بہت تاکید کی ہے۔بعض فقہائے کرام نے شادی کو ایک قسم کی عبادت سے تعبیر کیا ہے۔کیونکہ یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انسانی نسل پروان چڑھتی ہے اور روئے زمین پر اللہ کے پیغام کی اطاعت اور اس کی نشر واشاعت کا ذریعہ بنتی ہے۔دنیا کی سب سے افضل اور معززترین ہستیوں یعنی انبیائے کرام نے بھی شادی بیاہ سے اعراض نہیں کیا۔ اللہ کے حبیب پاک ﷺ نے کئی شادیاں کیں اور اپنی امت کے لوگوں کو اس کی ترغیب بھی دی۔ نکاح اور شادی کو اپنی سنت سے تعبیر کیا۔اللہ رب العالمین نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:(ترجمہ) ’’ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں اور اولاد والا بنایا تھا۔‘‘ (سورۃالرعد:۳۸)آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: (ترجمہ)’’اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے۔‘‘ (سورۃ الاعراف:۱۸۹)

شادی بیاہ کی تمام فطری وانسانی ضرورت واہمیت اور اسلام کی طرف سے شادی بیاہ پر تاکید کے باوجود اسلامی تاریخ میں ایسے بڑے بڑے علمائے کرام، مفسرین عظام، قراء، محدثین، فقہاء، قاضی صاحبان، مفتیان کرام، ادباء، مورخین، علمائے نحو، علمائے زبان اور بے شمار زاہد وعابد لوگوں کے نام درج ہیں جنھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی۔وہ علمائے کرام جو عمر بھر کنوارے رہے اور شادی نہیں کی ان میں سے سب سے مشہور شیخ المفسرین امام ابوجعفر ابن جریر طبری،مشہور مفسرامام زمخشری، شارح صحیح مسلم امام نووی کے علاوہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا نام نامی قابل ذکر ہے۔

اس موضوع پر عرب کے معاصر علمائے کرام میں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ اور شیخ بکر ابوزید نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے اور ان عظیم الشان علمائے کرام کے شادی نہ کرنے کے اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے اپنی کتاب ’’العلماء العزاب الذین آثروا العلم علی الزواج‘‘ میں شادی نہ کرنے والے درج ذیل علمائے کرام کے اسمائے گرامی درج کیے ہیں:

عبد اللہ بن ابو نجیح مکی(مفسر)،ابو عبد الرحمن یونس بن حبیب بصری(نحوی)،ابوعلی حسین بن علی جعفی(محدث)، بشر بن حارث بغدادی(مشہور زاہد)،ہناد بن سری کوفی(محدث) ،ابوجعفر محمد بن جریر طبری (مفسر)، ابو بکرابن الانباری(نحوی)، ابوعلی فارسی(نحوی)، ابونصر سجزی مکی (محدث)، ابو سعد سمان رازی(محدث)، عبدالوہاب انماطی(محدث)، ابوالقاسم محمود بن عمر زمخشری(مفسر)، ابواسحاق شیرازی (فقیہ)، ابومحمد ابن الخشاب بغدادی (ادیب)، ابوالفتح ناصح الدین حنبلی (فقیہ وزاہد)، جمال الدین شیبانی(ادیب)،محی الدین نووی دمشقی(محدث)، ابوعثمان اندلسی(قاضی)، ابوالحسن دمشقی(طبیب، فقیہ اصولی)، ابن تیمیہ حرانی (محدث فقیہ)، سعد بن احمد اندلسی(محدث)، عز الدین ابن جماعۃ مصری(فقیہ اصولی)، شمس الدین صالحی (محدث وفقیہ)، محمد بن طولون دمشقی (محدث ومورخ)، سلیمان بن عمر الجمل (مفسر محدث فقیہ)، محمد اشمونی(محدث متکلم ماہر بلاغت)، عبدالحکیم افغانی(محدث مفسر فقیہ قاری)، طاہر جزائری(محدث مفسر فقیہ اصولی مورخ)، بشیر غزّی حلبی(ادیب)، محمود شکری آلوسی(ماہر لسانیات ادیب)، خلیل خالدی مقدسی(محدث)، سعید بن میرزا نورسی ترکی(داعی)، محمد بن یوسف کافی(فقیہ صوفی)، ابوالوفاء افغانی ہندی(اصولی محدث قاری)، کریمہ بنت احمد مروزیہ (عالمہ)۔

یہ وہ علمائے کرام ہیں جنھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی۔سوال یہ ہے کہ شادی کی ضرورت واہمیت اور نکاح کے احکام سے یہ علمائے کرام غافل نہیں تھے مگرپھر بھی انھوں نے اتنے اہم فطری امر سے منہ کیوں موڑا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شیخ ابو غدہ لکھتے ہیں کہ ان علمائے کرام نے اپنے انفرادی حالات اور ذاتی اسباب کی بنا پر شادی نہیں کی۔علم اور شادی ان کی نظروں میں اچھے اعمال تھے مگر انھوں نے ایک اچھے کام کو دوسرے اچھے کام پر ترجیح دیا۔ انھوں نے نہ تو کسی کو شادی نہ کرنے کی ترغیب دی نہ یہ کہا کہ غیر شادی شدہ رہنا شادی کرنے سے افضل ہے۔نہ ہی شادی کے حوالے سے انھوں نے ایسا نظریہ پیش کیاجیسا نظریہ بعض حکماء اور فلاسفہ نے پیش کیا کہ بچہ پیدا کرنا اس پر ظلم کرنا ہے کیونکہ جب وہ اس کائنات میں وارد ہوتا ہے تو دنیا کے مسائل ومشکلات اور تکلیفوں کا سامنا کرتا ہے۔ عباسی دور کے مشہور شاعر ابوالعلاء معری نے یہ وصیت تک کردی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کا یہ شعر اس کی قبر پر لکھوادیا جائے کہ

ھذا ما جنی علی ابی

وما جنیت علی احد

(ترجمہ) یہ میرے باپ کے گناہوں کی سزا ہے۔ البتہ میں نے کسی پر اس طرح کا ظلم نہیں کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ علم ان علمائے کرام کی رگ رگ میں سرایت کیا ہواتھا۔علم ان کے لیے غذا ہوااور پانی کی طرح تھا۔ان کا خیال تھا کہ شادی کے بعد وہ علم کی اس قدر خدمت نہیں کرسکتے جس قدر کہ شادی کے بغیر کرسکتے ہیں۔لہذا وہ علمی مشغولیات کی وجہ سے شادی جیسی اہم سنت اور فطری ضرورت پر عمل نہ کرسکے۔یہ بات بھی درست ہے کہ شادی کے بعد انسان اس قدر مشغولیت کا شکار ہوجاتا ہے کہ وہ علم کے لیے مشکل سے فارغ ہوپاتا ہے۔حضرت عمر سے صحیح سند سے روایت ہے آپ نے فرمایا: تفقہوا قبل ان تسودوایعنی شادی سے قبل علم حاصل کرو۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شادی بیاہ اور بال بچے کسی نہ کسی طور علم وفن سے مشغولیت کا سبب بن جاتے ہیں۔خطیب بغدادی نے اپنی کتاب ’الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع‘ میں لکھا ہے کہ ’’جب تک ممکن ہو طالب علم کو غیر شادی شدہ رہنا چاہیے تاکہ شادی کی مصروفیات اور روزی روٹی کا چکر اسے تکمیل علم سے دور نہ کردے۔مشہور فقیہ سفیان ثوری کہتے ہیں جس نے شادی کی وہ سمندر کے سفر پر روانہ ہوااورجب اس کے یہاں کسی بچے کی پیدائش ہوجائے تو سمجھو کہ اس کی کشتی میں سوراخ ہوگیا۔چنانچہ شادی کی ضرورت محسوس نہ کرنے والے یا شادی کو ترک کرنے پر قدرت رکھنے والے خاص طور سے اس طالب علم کے لیے شادی نہ کرنا افضل ہے جس کا کام ہی ہے یک سوئی سے تعلیم حاصل کرناہے۔ امام ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’صید الخاطر‘ میں لکھا ہے کہ حصول علم کے لیے سفر کا آغاز کرنے والے کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ شادی سے احتراز کرے۔ امام احمد بن حنبل نے چالیس سال کی عمر تک حصول علم کی وجہ سے شادی سے احتراز کیا۔علمائے کرام نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شادی بیاہ بال بچوں اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے انسان علمی گہرائی سے قاصر رہ جاتا ہے۔ امام بشر حافی نے یہ مشہور مقولہ بھی کہا کہ عورتوں کے چکر میں علم ضائع ہوگیا۔ازدواجی مشغولیات کی وجہ سے بہت سارے علماء تواتر کے ساتھ علم کی خدمت سے قاصر رہے اور ان کا علمی مقام ومرتبہ متاثر ہوگیا۔بعض علماء نے یہ بھی کہا کہ شادی ایک طرح کا قید ہے۔امام تقی الدین سبکی نے اپنی کتاب ’ترتیب ثقات العجلی‘ میں مشہور محدث معمر بن راشد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ جب یمن گئے تو وہاں کے لوگ ان کے علم سے استفادہ کرنا چاہتے تھے اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان کے یہاں سے کہیں اور جائیں چنانچہ انھوں نے ان کی شادی کرادی۔ اس کے بعد وہ زندگی کی آخری سانس تک یمن کو چھوڑ کر اپنے وطن واپس نہیں گئے۔

شادی ایک قید ہے تکلیف ہے عذاب ہے۔ عربی کے کسی مزاحیہ شاعر نے اسی حوالے سے کیا خوب کہا ہے:

ان ذئبا امسکوہ

وتماروا فی عقابہ

قال شیخ: زوجوہ

ودعوہ فی عذابہ

یعنی کچھ لوگ ایک بھیڑیے کو پکڑ کر اسے سزا دیتے رہے۔ کسی تجربے کار بوڑھے کو معلوم ہوا تو اس نے کہا اسے کیوں تکلیف دیتے ہو۔ اس کی شادی کردو یہ عمر بھر عذاب میں مبتلا رہے گا۔معلوم ہوا کہ شادی بیاہ کسی نہ کسی طور علمی مشغولیات کے لیے سنگ راہ بن جاتے ہیں۔کیونکہ ازدواجی زندگی کی مصروفیات اوراہل وعیال کی ذمے داریاں علمی مشغلے سے انسان کو باز رکھتی ہیں۔ بہت ممکن ہے مذکورہ بالا علمائے کرام نے اسی لیے شادی کے بارے میں غور وفکر نہیں کیا کیونکہ انھیں سب سے پہلے علم وفن سے ایسا عشق ہوگیا تھا جس کے بغیر وہ جی نہیں سکتے تھے۔ انھوں نے اگر اس طرح کی دیوانگی کے ساتھ علم وفن کی خدمت نہ کی ہوتی تو علم وفن ہم تک کیسے پہنچتے۔ ہمیں ان علمائے کرام کا شکر گذار ہونا چاہیے اورانھیں اپنی دعاؤں میں یاد کرنا چاہیے کہ انھوں نے مختلف علوم کی خدمت کے پیش نظر بہت بڑی فطری اور انسانی ضروریات سے اعراض کیا اور ایسی بڑی بڑی کتابیں لکھیں جن کے پہلوؤں میں علم وفن کو قید کیا جاسکا۔

لیکن یہ بھی سچائی اور حقیقت ہے کہ کسی ذاتی یا انفرادی سبب کی وجہ سے شادی بیاہ سے اعراض کرنے والے علمائے کرام کی تعداد شادی کے ساتھ ساتھ، ازدواجی زندگی کے مسائل ومصروفیات کے ساتھ علم وفن کی خدمت کرنے والے علماء کی تعداد سے بہت کم ہے۔یہ کہنا بھی غیر مناسب نہیں ہوگا کہ غیر شادی شدہ علمائے کرام نے جس قدر علم وادب کی خدمت کی شادی شدہ علماء کی علمی خدمات کا دائرہ ان سے کسی طور کم نہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی کی وجہ سے انسان کو اطمینان وسکون اور دلی فرحت ومسرت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان زیادہ بہتر طریقے سے علم وادب کے حصول میں منہمک رہ سکتاہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن علماء کا اوپر ذکر کیا گیا انھیں علمی مقام اور مرتبہ اس لیے نہیں حاصل ہوا کہ انھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی یا شادی نہ کرنے کی وجہ سے وہ بڑے علماء کی صف میں شامل ہوسکے یا بڑا عالم بننے کی غرض سے انھوں نے شادی بیاہ سے اعراض کیا۔بلکہ سچائی یہ ہے کہ ان کے مقدر میں رب العالمین نے ایسا ہی لکھا ہوا تھا جس کے حساب سے انھوں نے اپنی زندگی بسر کی اور علم وفن کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ومشغول رہے۔بعض علماء نے بیوی کو کتاب پر فوقیت دی ہے۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کتاب کا مطالعہ کسی لڑکی سے زیادہ مونس وغم خوار ہوتا ہے:

کتاب اطالعہ مؤنس

احب لی من الآنسۃ

بعض علماء کا یہ بھی خیال ہے کہ کتابیں ہی ان کی نسل اور آل واولا د ہوتی ہیں۔ امام بسُتی نے کہا ہے:

یقولون ذکرالمرء یحیا بنسلہ

ولیس لہ ذکر ان لم یکن لہ نسل

فقلت لہم نسلی بدائع حکمتی

فان فاتنا نسل فانا بہ نسل

لوگ کہتے ہیں کہ انسان کی نسل اس کے ذکر کو زندہ رکھتی ہے۔ اگر اس کی کوئی نسل نہ ہوتو اسے کوئی یاد رکھنے والا نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ میرے عمدہ خیالات اورحکمتیں میری نسل ہیں۔گرچہ ہماری کوئی اولاد نہیں مگر یہ کتابیں ہماری نسل اور ہماری اولادہیں اور ہمارے ذکر کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہیں۔یہی بات ذوق نے بھی کہی ہے کہ :

رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق

اولاد سے تو بس یونہی دو پشت چار پشت

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
رفيع الدين نجم الدين

بارك الله فيكم ونفع بكم وشكر سعيكم

عمر بن خطاب کے قول “تعلموا قبل أن تسودوا” کا ترجمہ کھٹک رہا ہے، میرے نقص علم کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے

Shaikh zakariya

عمر بن الخطاب رضي الله عنه کے قول کا ترجمہ وہ نہیں جو آپ نے کیا بلکہ تسودوا یہ ساد یسود سے مشتق جسکا معنی ہے سردار بنانا