مولانا محمد زکریا فیضی، پرتاپ گڑھی، مدھوپوری:حیات اور کارنامے

اشفاق سجاد سلفی تاریخ و سیرت

ریاستِ جھارکھنڈ کے ضلع دیوگھر میں ایک چھوٹا مگر صاف ستھرا اور آب وہوا کے لحاظ سے پُر لطف شہر ’مدھوپور‘ ہے۔ صوبوں کی تقسیم سے قبل اس شہر کی خوش گوار آب وہوا کی بنا پر کلکتہ کی گنجان آبادی میں رہنے والے بہت سے بنگالیوں نے اچھی اچھی وسیع وعریض بلڈنگیں بنائی تھیں، تا کہ موسمِ گرما میں یہاں کی پُرلطف آب وہوا سے لطف اندوز ہوں۔ اس شہر کو اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت حاصل رہی ہے کہ ہوڑہ پٹنہ ریلوے لائن اس شہر کے قلب سے گزری ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف واکابرین جب کلکتہ اور دیگر مقامات کے لیے اس راستے سے ٹرین کا سفر کرتے تھے، تو بسا اوقات یہاں سے گزرتے ہوئے یہاں اترا کرتے تھے، اور موقع سے فائدہ اٹھا کر دعوت وتبلیغ بھی فرمایا کرتے تھے۔ آمد ورفت کی سہولت کے پیشِ نظر یہاں بہت سے علماء آتے رہے، اور جب اُنھیں کام کرنے کے لیے یہ جگہ اور یہ علاقہ موزوں نظر آیا، تو یہیں زمین وجائداد خرید کر اور پھر مکان بنا کر یہیں پر مقیم وآباد ہو گئے۔

انھی اللہ تعالیٰ کے مخلص بندوں اور انبیائے کرام کی وراثت کے امینوں میں سے ایک مناظرِ بے باک، عالمِ باکمال، متکلمِ جماعت، کتاب وسنت کے ترجمان، محنتی مدرس ومربی اور بے لوث مصلح مولانا محمد زکریا فیضی بن محمد یحیٰ بن مولانا محمد معصوم بن عبدالغفار؍ رحمہ اللہ تھے، آپ کا ایک نسبتی نام ’پرتاپ گڑھی‘ ہے، جو ضلع ’پرتاپ گڑھ‘ (یوپی) کی طرف منسوب ہے، اور مدھوپور میں اقامت اختیار کر لینے کی وجہ سے ’مدھوپوری‘ بھی لکھتے اور کہلاتے تھے۔

مولانا محمد زکریا فیضی کی ولادت ضلع پرتاپ گڑھ، یوپی کے گاؤں ’دیون مئو‘ میں ۱۹۴۸ء یعنی وطنِ عزیز ہندوستان کی آزادی کے ایک سال بعد ہوئی۔ ’’دیون مئو‘ میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم ہے۔ استاذِ محترم مولانا عزیز الرحمن سلفی؍حفظہ اللہ نے اپنی شاندار کتاب ’جماعتِ اہل حدیث کی تدریسی خدمات‘ (ص: ۷۸) میں لکھا ہے کہ ’’مدرسہ موضع دیون مئو میں ۷۰؍ بچے بچیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘‘۔ استاذِ محترم کی اس تحریر سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ کے گاؤں کا نام ’دیون مئو‘ ہے، نہ کہ ’دیوند مئو‘، جن لوگوں نے گاؤں کا نام ’دیوند مئو‘ لکھا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔

آپ چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، دوسرے بھائی کا نام عبدالحنان، تیسرے کا عبدالدیان، اور چوتھے کا محمد نسیم تھا۔آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، آپ کے دادا محمد معصوم ایک بڑے عالم دین تھے، اور پھوپھی ہاجرہ خاتون ایک تعلیم یافتہ عورت تھی، ان دونوں سے ٹھوس ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ دادا مولانا محمد معصوم کے عالم بننے سے پہلے پورا گھرانہ حنفی تھا، تقلید وجمود کا گھر میں بول بالا تھا، انھوں نے کہاں سے اور کن شخصیات سے کسبِ علوم وفنون کر کے مسلکِ اہل حدیث کو قبول کیا تھا، اس کا علم نہ ہوسکا، ان کی دعوت پر سوائے ایک چچا کے گھر کے سارے افراد اہل حدیث ہوگئے، اور وہ چچا بھی تب اہل حدیث بنا، جب اسے حج کی توفیق نصیب ہوئی۔ چوں کہ پورا گھرانہ نیا نیا اہل حدیث بنا تھا، اور ایسے لوگوں میں مسلک کے تئیں تحمس کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے، اس لیے گھر والوں میں مسلک کے تئیں تحمس بے پناہ پایا جاتا تھا،اور کتاب وسنت کی اتباع وپیروی میں کوئی لچک گوارا نہ تھی، اور اسی ماحول میں مولانا محمد زکریا فیضی کی پیدائش، نشو ونما اور تربیت وتعلیم ہوئی، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے اندر بے پناہ مسلکی تحمس نظر آتا تھا، اور اتباعِ کتاب وسنت میں کسی بھی طرح لچک کو برداشت نہیں کرتے تھے۔

مولانا نے مختلف مدارس ومعاہد میں کسبِ علوم وفنون کیا تھا، اور بڑے بڑے علماء ومدرسین کی شاگردی اختیار کی تھی، گھر سے باہر کا پہلا تعلیمی سفر سلطان پور (یوپی) کا کیا، اور محلہ ’خیرآباد‘ میں قائم ’مدرسہ اسلامیہ دانش گاہ‘ میں داخلہ لیا اور مولانا عبداللطیف، مولانا کفایت اللہ، مولانا عبدالاول اور مولانا امام الدین سے علوم وفنون کی تحصیل کی۔ اس کے بعد علمی تشنگی اور اعلیٰ تعلیم کی تحصیل کی رغبت وشوق نے ملک کی راجدھانی دہلی جانے پر مجبور کر دیا، دہلی میں اُن دنوں مدرسہ سبل السلام چل رہا تھا، جسے حاجی محمد عمر رحمہ اللہ نے پھاٹک حبش خاں میں قائم کیا تھا، اور اپنی جیب خاص سے چلاتے تھے۔ بقول استاذِ محترم مولانا عزیز الرحمن سلفی: ’’سبل السلام میں تیسری جماعت تک کے لڑکے عموماً پڑھتے تھے‘‘ [جماعت اہل حدیث کی تدریسی خدمات: ۱۹]۔ اس مدرسہ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد اس میں جماعت اولیٰ سے جماعتِ رابعہ تک کی تعلیم ہوتی تھی [مدارس اہل حدیث: ۲۲۱]۔ مولانا نے اس قدیم ادارہ میں ۱۹۶۰ء میں داخلہ لیا اور دو سال یہاں رہ کر مولانا عبدالصمد رحمانی اور مولانا ابوالمنصور کھنڈیلوی سے درس لیا۔ مولانا عبدالصمد رحمانی جامعہ رحمانیہ، مدنپورہ، بنارس کے فارغ التحصیل اور علامہ نذیر احمد رحمانی املوی کے تلمیذ اور اعلیٰ درجے کے مدرس، مصنف اور خطیب تھے، اور مولانا ابوالمنصور کھنڈیلوی نحو وصرف کے امام تھے۔

سبل السلام میں دو سال رہ کر جامعہ اثریہ دارالحدیث، مئو چلے آئے، اور یہاں بھی دو سال ہی رہے، اس مدت میں یہاں کے اساطین علوم وفنون سے خوب خوب پڑھا، یہاں کے اساتذہ کرام میں مشہور عربی ادیب، دارالحدیث کے بانی علامہ عبداللہ شائق اور معروف سیرت نگار شیخ صفی الرحمن مبارکپوری بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔

اس کے بعد مئو ہی کے ایک دوسرے قدیم علمی مرکز جامعہ اسلامیہ فیض عام میں ۱۹۶۸ء میں داخلہ لیا، اور یہاں بھی دو سال رہ کر احادیث اور شرعی علوم کے منتہی درجے کی کتابیں پڑھیں، اور یہیں سے فراغت حاصل کی اور افتاء، مناظرہ، درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کی سند پائی۔

فراغت کے بعد میدانِ دعوت وارشاد اور تدریس وتربیت میں قدم رکھا، اور اس کا آغاز مدھیہ پردیش کے ’جنار دیو‘ مقام میں درس وتدریس سے منسلک ہو کر کیا، یہاں پر دو سال (۷۲۔۱۹۷۱) تک قیام رہا، اس کے بعد اترپردیش کے ضلع ’ایٹہ‘ کے مشہور قصبہ ’گنج ڈونڈوارہ‘ چلے آئے، اور ڈیڑھ سال تک یہاں خدمات سر انجام دیں، ۱۹۷۴ء کے کسی مہینے میں یہاں کی ملازمت چھوڑ دی، البتہ مارچ ۱۹۷۴ء تک یہیں تھے۔ اس لیے کہ آپ کے نام شیخ صفی الرحمن مبارکپوری نے گنج ڈونڈوارہ کے پتے پر ایک خط لکھا تھا، جس میں تاریخ ۱۷؍مارچ ۱۹۷۴ء درج ہے، اور مولانا محمد زکریا فیضی نے اسی پوسٹ کارڈ پر اپنے قلم سے لکھا ہے کہ یہ خط مجھے ۲۶؍ مارچ ۱۹۷۴ء کو ملا ہے۔

اب تک کا آپ کا عملی کار مشق وتمرین کے طور پر تھا، عمل وکار کا اصل زمانہ تب شروع ہوتا ہے، جب آپ گنج ڈونڈوارہ چھوڑ کر ۱۹۷۵ء میں ضلع دیوگھر کے مشہور مقام ’مدھوپور‘ تشریف لے آئے، یہاں آنے کا آپ کا پہلے سے کوئی پروگرام نہیں تھا، بلکہ ایک حسنِ اتفاق تھا، رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ مطابق ستمبر ۱۹۷۵ء کا مہینہ تھا، رمضان المبارک کی مناسبت سے آپ حصولِ تعاون کی غرض سے کلکتہ کے سفر پر نکلے، کلکتہ جاتے ہوئے راستے میں پٹنہ میں اتر گئے، تا کہ وہاں کچھ تعاون حاصل ہوجائے، اسٹیشن سے محلہ درزی ٹولہ کی جامع مسجد اہل حدیث پہنچ گئے، اُن دنوں اس مسجد کے امام وخطیب مولانا شفیع احمد اصلاحی رحمہ اللہ تھے، اور ضلع گریڈیہہ کے مولانا محمد یونس تکمیلی اُن دنوں مدرسہ اصلاح المسلمین (پٹنہ) میں زیر تعلیم تھے، اور اسی مسجد میں رمضان المبارک میں ’جاگو جگاؤ تحریک‘ کے تحت سحری کے لیے لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری پر مامور تھے۔ نمازِ ظہر ہوچکی تھی، مسجد میں مولانا کی ملاقات مولانا محمد یونس تکمیلی سے ہوئی، ان کے سامنے اپنا مقصد رکھا اور کہا کہ بابو مجھے عصر میں چندہ کے لیے اعلان کرنے کی اجازت چاہیے، انھوں نے کہا کہ مسجد کے امام وخطیب مولانا محمد شفیع اصلاحی سے اجازت لے کر بتاتا ہوں، مولانا نے اجازت دے دی، عصر کی نماز کے بعد پانچ منٹ زور دار خطاب کیا، جس نے مصلیان کو بہت زیادہ متاثر کیا، بقول مولانا محمد یونس تکمیلی ’’سمندر کو کوزے میں بند کر دیا،،۔ لوگوں نے مولانا تکمیلی سے کہا کہ نمازِ مغرب کے بعد مولانا کو ہم لوگوں کی دوکان پر لے کر آئیے، چنانچہ مغرب بعد انھیں متعدد اہل ثروت وصاحب خیر حضرات سے ملاقات کرائی، اور مغرب تا عشاء پانچ ہزار چونتیس روپے کا ایک گراں قدر تعاون ملا، یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ رات کو مولانا تکمیلی کے ساتھ ہی قیام رہا۔ باتوں باتوں میں یہ ذکر آیا کہ یہاں سے کلکتہ جانا ہے۔ تکمیلی صاحب نے کہا کہ راستے میں مدھوپور ایک جگہ ہے، وہاں کی عیدگاہ مسجد میں ایک بہترین، قابل اور لائق وفائق امام وخطیب اور داعی کی ضرورت ہے، آپ کلکتہ جاتے ہوئے وہاں اتر جائیں، اگر وہاں کے لوگوں نے آپ کو پسند کرلیا تو رہ جائیے گا، اور اگر ایسا نہیں ہوا تو وہاں بھی اچھا خاصا چندہ ہوجائے گا، اور پھر کلکتہ نکل جائیے گا، اور مولانا کو جناب حاجی محمد طیب مدھوپوری رحمہ اللہ کے کی دوکان کا پتہ دے دیا، مولانا مدھوپور پہنچ گئے، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا، اور حاجی محمد طیب صاحب اپنی دوکان کھول ہی رہے تھے کہ مولانا پوچھتے ہوئے اُن کی دوکان پر پہنچ گئے، سلام ومصافحہ کے بعد اپنا تعارف کرایا، اور آنے کے متعلق مولاناتکمیلی صاحب کی بات رکھی، حاجی صاحب نے دوکان کھولنے کی بجائے بند کردی، اور مولانا کو لے کر عیدگاہ مسجد (محلہ پتھر چپٹی) آئے، مولانا کو ٹھہرایا اور کہا کہ آج آپ ہی کو جمعہ کا خطبہ دینا ہے، مولانا کے پاس صرف وہی ایک کرتا اور پاجامہ تھا، جو زیب تن تھا، اور سفر کی وجہ سے گندا ہوگیا تھا، حاجی طیب صاحب نے کپڑا کھولوایا اور خود اپنے ہاتھ سے دھویا، پھر اسے پہن کر مولانا نے زبردست خطبہ جمعہ دیا، جو حاضرینِ جمعہ کو بالعموم اور حاجی طیب صاحب کو بالخصوص بہت پسند آیا، اور اس کے بعد انھیں مسجد میں امام وداعی اور خطیب کی حیثیت سے رکھ لیا، اور کہا کہ آپ رکیں، ان شاء اللہ کلکتہ میں جو چندہ ہوگا، اس سے زیادہ ہم لوگ یہاں کرکے دیں گے، اور دلائیں گے۔

حاجی محمد طیب صاحب بہت دیندار اور نیک انسان تھے۔ علماء نوازی اور اہل علم کی قدر دانی کے وصف سے متصف تھے۔ ۱۹۷۶ء میں اپنی والدہ کے ساتھ حج کیا تھا، جب وہ حج پر جارہے تھے، تو اُن کی بیوی نے کہا اور میں کب حج کروں گی؟، انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی والدہ کو لے کر جا رہا ہوں، ان شاء اللہ تمھارے بچے تمھیں لے کر جائیں گے، اور حج کرائیں گے، ان کو ۲۰۱۶ء میں اپنے لڑکے حاجی محمد عابد کے ساتھ حج کرنے کا شرف حاصل ہوا، حاجی محمد طیب صاحب کا انتقال جمعرات کے دن ۱۹۹۲ء میں ہوا، نماز جنازہ مولانا محمد طیب مدنی حفظہ اللہ نے پڑھائی تھی، مدھوپور کے پناہ کولہ قبرستان میں مدفون ہیں۔

مولانا محمد زکریا فیضی مدھوپور میں رہنے لگے، اور ابتدائی سالوں میں ان کے جو بھی خطوط آتے تھے، وہ حاجی محمد طیب صاحب کے پتے پر ہی آتے تھے، اور پھر ڈاکٹر بلال صاحب کے پتے پر۔ ۱۹۷۵ء میں مدرسہ اسلامیہ، حاجی گلی، مدھوپور میں ’صدر مدرس‘ کی جگہ خالی تھی، یہ مدرسہ ۱۹۲۳ء میں قائم ہوا ہے، اور پہلے بہار ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ سے ملحق تھا، اور اب جھارکھنڈ اکیڈمک کونسل رانچی سے ملحق ہے۔ مولانا بحیثیت صدر مدرس بحال ہوگئے، اور پوری نشاط وسرگرمی اور گرم جوشی کے ساتھ دعوت وتعلیم، افتاء ومناظرہ، دفاعِ اسلام، دفاعِ حدیث واصحابِ حدیث اور خطابت کے فرائض انجام دینے لگے۔ اس زمانے میں مدھوپور میں فتنہ انکارِ حدیث شباب پر تھا، اور حالات انتہائی سنگین تھے، اس لیے کہ باپ اہل حدیث تھا، تو بیٹا منکر بن چکا تھا، بیٹا اہل حدیث تھا تو باپ منکر حدیث۔ علاقے میں دو چار ہی علماء تھے، مولانا نے ہر طرح سے اس فتنے کی سرکوبی شروع کردی، مدرسہ اسلامیہ پر بھی منکرینِ حدیث قابض ہوچکے تھے، جن سے مولانا کی بحث وگفتگو ہوتی رہتی تھی، مولانا نے منکرین کے آگے ہمت نہ ہاری، اور پوری جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کیا، مگر حالات آپ کے بالکل ناموافق بنا دیے گئے، آپ پر دفعہ ۱۴۴ کے تحت پانچ مقدمات قائم کیے گئے، اور یہ مقدمات کئی سال تک لڑتے رہے، بالآخر ۱۹۸۲ء میں مدرسہ اسلامیہ سے سبکدوش ہوجانا پڑا، بعد میں بعض مقدمات جیت بھی گئے، مگر دوبارہ مدرسہ اسلامیہ میں واپسی ممکن نہ ہوسکی۔ اس کے بعد کچھ معاشی پریشانیوں سے بھی گزرنا پڑا، اور کسبِ معاش کے لیے مدھوپور سے باہر جانا پڑا، اور جھوم پورہ، اڈیشہ چلے گئے، اور وہاں کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری ادا کرنے لگے۔ یہاں رہنے کے دوران نیم سرکاری اقلیتی مدرسہ شمس العلوم میں تدریس وتعلیم کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔اس بیچ میں آپ کو گھریلو الجھنوں کا بھی بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا، اور اسی لیے وہاں زیادہ دن نہ رہ کر ۱۹۸۷ء میں مستعفی ہو کر گھر آ گئے، پھر ۱۹۸۸ء میں علاقے کے ایک ادارہ مدرسہ فیض عام (چھاتا پتھر، دیوگھر) سے منسلک ہوگئے، اور درس وتدریس، جمعہ کے خطبے اور دعوت وتبلیغ کی ذمہ داریاں انجام دینے لگے، پھر ۱۹۹۵ء میں اس سے الگ ہوکر جامعہ رحمانیہ، مدھوپور سے وابسہ ہوگئے، اور ۲۰۰۵ء تک اس سے وابستہ رہے، اس کے بعد پھر کہیں کوئی ملازمت نہیں کی۔

مولانا محمد زکریا فیضی ایک با کمال مناظر اور با غیرت داعی ومصلح تھے، ہمیشہ مخالف فریق کو بحث ومناظرہ میں دھول چٹائی، علاقہ مدھوپور میں آپ نے متعدد مناظرے اور مباحثے کیے، کبھی کسی سے خائف ہوئے اور نہ مرعوب، جب کہ آپ کا یہ وطن نہیں تھا، ہاتھا پائی تک کی نوبت آئی، تو بھی جواں مرد کی طرح میدان میں ڈٹے رہے، کبھی بریلویوں سے مناظرہ کیا، تو کبھی منکرینِ حدیث سے۔

آپ کے اندر دعوتی تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، آپ نے درجنوں گھر اور خاندان کو شرک وبدعت اور قبر پرستی سے نکال کر توحید کی روشن شاہ راہ پر لگایا۔ ایک بار مدھوپور کے کپڑے کے ایک تاجر جناب عبدالواحد صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرا پورا گھرانہ بدعتی تھا، مولانا کی دعوت پر اہل حدیث ہوا۔ مولانا علاقے میں منعقد ہونے والے چھوٹے بڑے جلسوں کے روحِ رواں ہوتے تھے، آپ کی شرکت پر جلسے کی کامیابی منحصر مانی جاتی تھی، آپ کی تقریر بڑی زور دار ہوا کرتی تھی، علاقے میں منعقد ہونے والے جلسوں کی صدارت ونظامت بھی آپ کے ذمہ ہوا کرتی تھی۔ آپ کی صدارت میں بڑے بڑوں جیسے مولانا عبدالمبین منظر، مولانا داؤد راز دہلوی، مولانا عبدالرؤف جھنڈانگری، مولانا عبدالقیوم رحمانی، مولانا عبدالسلام اسلم کانپوری، مولانا عبدالرشید خانجہانپوری وغیرہم کی تقریریں ہوچکی ہیں۔ غالباً ۱۹۸۵ء میں ہمارے گاؤں (ہرلا، گریڈیہہ) میں ایک دو روزہ عظیم الشان اجلاس منعقد ہوا تھا، جس کے صدرِ با وقار آپ ہی تھے، اور اس میں جن نابغہ روزگار شخصیات وعلماء کی شرکت ہوئی تھی، اُن میں مفسر قرآن مولانا عبدالقیوم رحمانی، مولانا عبدالرشید خانجہانپوری، مولانا ذاکر حسین ذاکر ندوی، مولانا سید عبدالاول، مولانا عبدالرب گونڈوی بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔

آپ دعوت وتبلیغ کے لیے اور اجلاسِ عام میں بحیثیت مقرر باہر بھی مدعو ہوتے تھے، آپ اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’بتاریخ ۲؍ مئی ۲۰۰۲ء، بروز جمعرات بمقام جینت گڑھ مسجد کے افتتاحی اجلاس میں حاضر ہوا، اور دیگر مقررین میں مولانا عبدالشکور اثری اور مولانا ذکی انور مدنی (خطیب جامع مسجد اہل حدیث، کولوٹولہ، کلکتہ) بھی شریک تھے، اور مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا، اور انھی کے توسط سے مسجد اہل جدیث، جینت گرھ کا افتتاح ہوا، اور شب میں اجلاسِ عام کو خطاب کرنے کا پروگرام بھی تھا، حسن اتفاق سے پہلا مقرر خاکسار تھا‘‘۔

آپ نے جہاں بھی دعوتی زندگی گزاری، وہاں انمٹ نقوشِ تاباں چھوڑ گئے، مدھوپور میں جب مدرسہ اسلامیہ کی مدرسی ترک کرنے اور باہر جا کر کسب معاش کرنے پر مجبور ہوئے، تو اڈیشہ چلے گئے، اور وہاں مختصر مدت کے لیے کام کیا، جہاں کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر جمعیت اہل حدیث، جھوم پورہ، اڈیشہ اپنی ایک تاثراتی تحریر میں (واٹس ایپ میں) یوں لکھتے ہیں کہ ’’مولانا موصوف رحمہ اللہ کی علمی ودعوتی خدمات صوبہ جھارکھنڈ سے لے کر اڈیشہ تک پھیلی ہوئی ہیں، غالباً ۸۸۔۱۹۸۷ کی بات ہے، جب آپ بحیثیت امام وخطیب جامع مسجد اہل حدیث، جھوم پورہ تشریف لائے، اور مختصر سی مدت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے، جس کی نظیر ملنی مشکل ہے، آپ کے خطبات جمعہ اور دروس کے ذریعہ جھوم پورہ ومضافات میں دینی وعلمی انقلاب برپا ہوا، اور اصلاح سماج کے مثبت نتائج بر آمد ہوئے، خطبات ودروس کے علاوہ مدرسہ شمس العلوم، جھوم پورہ کے مدرس ومربی بھی تھے، اور اُن ہزاروں فیض یافتگان میں سے میں بھی ایک ہوں، جس نے استاذ محترم سے ابتدائی دینی کتابوں کا کسب فیض کیا، اور جس سے الحمد للہ آج تک مستفید ہو رہا ہوں۔آپ ایک داعی، مبلغ، خطیب اور مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مناظر بھی تھے، قیام جھوم پورہ کے دوران ایک مرتبہ اڈیشہ کی مشہور ومعروف بستی بونت، ضلع بھدرک میں بریلویوں اور اہل حدیثوں کے ما بین مناظرہ ہوا، جس میں بحیثیت امام المناظرین آپ بھی مدعو کیے گئے، آپ نے قرآن وسنت سے لبریز اور دلائل سے بھرپور ایسے دندانِ شکن جوابات دیے کہ بریلویوں کے دانت کھٹے ہوگئے اور باطل کو شکست فاش ہوئی‘‘۔

آپ کے درخشاں کارناموں میں سے ایک کالج روڈ، مدھوپور میں موجود ’محمدی مسجد‘ کی تعمیر وسرپرستی بھی ہے۔ یہ مسجد ’چھوٹی مسجد‘ سے مشہور تھی، اور تھی بھی، جہاں پر کبھی قاری عبدالمنان اثری شنکرنگری رحمہ اللہ نے ’مدرسۃ الرشاد‘ کے نام سے ایک مدرسہ جاری فرمایا تھا، مولانا محمد زکریا فیضی اس مسجد کے تا وفات متولی اور سکریٹری رہے، انھوں نے چندے کر کے اس مسجد کی توسیع ۲۰۰۲ء میں فرمائی، آپ اس مسجد میں جمعہ کے خطبے اور دروس بھی دیتے رہے۔ مسجد کا وقف نامہ اور دیگر کاغذات میں نے خود آپ کی فائل میں آپ کی وفات کے بعد دیکھے ہیں۔

آپ کتابوں کے مطالعہ اور ان کو اکٹھا کرنے کے بڑے شوقین تھے، آپ کے پاس بیش قیمت کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ تھا، آپ کے لڑکے کا ارادہ ہے کہ باپ کی لائبریری کو باقی رکھا جائے، کتابیں کسی کے حوالے نہ کی جائیں، اور ایک لڑکے کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا جائے، جو دادا کی کتابوں کی حفاظت کرے۔ کتاب کے مطالعہ اور جمع کرنے کے شوق وذوق کا عالم یہ تھا کہ اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے، آپ کے ایک خط کے جواب میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ۲۷؍ جنوری ۱۹۷۶ء کو لکھے ایک پوسٹ کارڈ خط میں لکھتے ہیں کہ ’’آپ سیرۃ النبی منگانے کی فکر میں ہیں، تو منگا لیجیے، ظاہر ہے کہ تازہ نسخہ بہر حال تازہ ہی ہوگا‘‘۔ آپ کی لائبریری میں موجود کتابوں پر میں نے آپ کے انتقال کے بعد سرسری نظر ڈالی، تاکہ آپ کی کچھ خوبیوں اور اوصاف وخصائل کا علم ہو، تو ہر کتاب کے سرِ ورق یا اس کے بعد کے ٹائٹل پیج پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا پایا، ام عبد منیب کی کتاب ’سیرۃ النبی ﷺ کا انسائیکلو پیڈیا‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب مولانا محمد شفیق لکھن پوری مدظلہ العالی نے مانگنے پر عنایت فرمائی ہے، ۹؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ان کے گھر گیا تھا‘‘۔ مطالعہ کے دوران کسی اہم بات سے گزرتے تو کتاب کے ابتدائی اوراق میں اشاریہ نوٹ کرنے کا اہتمام بھی دیکھا گیا۔ کتابوں کے مطالعہ کے دوران کسی صاحبِ قلم کی کوئی علمی وفکری لغزش محسوس کرتے تو کتاب کے حاشیہ میں یا اپنی ڈائری میں نوٹ چڑھانے کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ اپنی ایک ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے قرآن مجید کی سورتوں کے خواص کے عنوان سے جو باتیں لکھی ہیں، اُن میں سے زیادہ تر باتیں موضوع (من گھڑت) ہیں، جن کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا ان پر عمل کرنا درست نہیں ہے‘‘۔

مولانا کے بڑے بڑے علماء ومشائخ سے روابط وتعلقات استوار تھے، اور دعوت وتعلیم اور اصلاح وغیرہ کے کاموں میں اُن سے مشورے لیا کرتے تھے، آپ کے پاس بڑے بڑے علماء کے بہت سارے خطوط تھے، جن میں شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری اور شیخ صفی الرحمن مبارکپوری خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

مولانا محمد زکریا فیضی کی فائل میں موجود خطوط میں شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی کے دو خط ملے، دونوں پوسٹ کارڈ ہیں، اور ایک ۱۶؍ اپریل ۱۹۷۸ء کا لکھا ہوا ہے، جو مولانا کو ۲۲؍ اپریل ، سنیچر کو ملا تھا، اور دوسرا خط ۱۱؍ مارچ ۱۹۸۰ء کا تحریر کردہ ہے، جو مولانا کو ۱۴؍ مارچ، جمعہ کو ملا تھا، مولانا ملنے کی تاریخ اسی خط میں درج کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ یہاں شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے ایک خط کو نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، لکھتے ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مکرمی جناب مولوی محمدزکریا فیضی، بارک اللہ لہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جوابی کارڈ ۱۰؍ مارچ کو موصول ہوا۔ خیریت پر اطلاع پا کر خوشی ہوئی۔ الحمد للہ یہاں بھی بفضلہ تعالیٰ خیریت ہے۔ یہ معلوم ہو کر بہت افسوس ہو رہا ہے کہ مدھوپور میں منکرینِ حدیث اور اہلِ حدیث کے درمیان مقدمات کا سلسلہ ہنوز چل رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ دشمنوں کو ناکام ونامراد کرے، اور اہلِ حدیثوں کو فتح مبین عنایت فرمائے، اور انکار حدیث کے فتنے وہاں سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے، آمین!

(۱)میرے پاس فی الحال کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ حضرت شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ رحمہ اللہ دار الحدیث رحمانیہ، دہلی میں کس سنہ میں تشریف لائے اور کس سنہ میں وہاں سے علیٰحدہ ہوئے اور دار الحدیث رحمانیہ میں ان کی مدتِ تدریس کتنے سال رہی۔

(۲)اس عاجز نے حضرت ممدوح سے ساتویں جماعت میں پوری موطا مالک رحمہ اللہ اور پوری صحیح مسلم اور صحیح بخاری جلد اول اور آٹھویں جماعت میں صحیح بخاری جلد ثانی پڑھی ہے۔

(۳)میرے پاس حضرت کی دی ہوئی مطبوعہ سند موجود ومحفوظ ہے۔

مولانا قاری عبدالمنان صاحب اثری سے سلام کہہ دیجیے۔

والسلام

عبیداللہ رحمانی

۱۱؍ ۳؍ ۸۰ء

اور ثانی ذکر شیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تو آپ کے باضابطہ استاذ تھے، اُن کے ساتھ ہمیشہ مراسلات کا سلسلہ قائم رہا، مجھے مولانا زکریا فیضی کی فائل میں شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کے گیارہ خطوط ملے، جن میں سے چھ انتردیشی اور پانچ پوسٹ کارڈ ہیں۔ ہر خط میں شیخ نے علمی ودعوتی رہنمائی فرمائی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا زکریا ان سے ہر طرح سے رہنمائی اور تعاون لیا کرتے تھے۔ شیخ صفی الرحمن مبارکپوری کا ایک خط یہاں بطور نمونہ نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتاہے، شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز گرامی مولوی محمد زکریا صاحب ، لطف اللہ بکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الحمد للہ خیریت ہے۔ آپ کاخط چند یوم ہوئے دستیاب ہوگیا تھا۔ میں نے جواب میں اس لیے کسی قدر تاخیر کی کہ آپ کے حکم کی تعمیل کرلوں، اس کے بعد آپ کو صورتِ حال سے با خبر کروں۔ امید ہے کہ اس حکم کی تعمیل کی علامت اس خط کے پہنچنے سے پہلے ہی ظاہر ہو جائے گی۔

کچھ طلبہ مدینہ جا رہے تھے، اس میں ہمارے ایک عزیز (رشتے کے نہیں، بلکہ محض راہ ورسم کے) بھی تھے، جو میرے ہی پاس مقیم تھے۔ ان کی موجودگی تک میری مشغولیات کچھ بڑھی ہوئی تھیں۔ کلکتہ آمدو رفت گیا کے راستے ہوئی تھی، پھر سفر کا بیشتر حصہ رات کے وقت گزرا تھا۔ تعلیمی نقصان کی تلافی بھی مقصود تھی، اس لیے مدھوپور میں نزول کی گنجائش نہ تھی۔ سعودیہ سے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی ہے، معلوم نہیں ابھی کتنی تاخیر ہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

صفی الرحمن الاعظمی

یکم جنوری ۱۹۷۹ء

مولانا محمدزکریا فیضی مجلات وجرائد اور اخبارات ورسائل کے مطالعہ کے بھی بڑے شوقین تھے۔ جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ، گریڈیہہ، جھارکھنڈ کے رسالہ اور جماعتِ اہل حدیث، جھارکھنڈ کے نقیب وترجمان سہ ماہی مجلہ ’صدائے حق‘ پوری پابندی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے، اور ملاحظات ومواخذات نوٹ کر کے رکھتے تھے، اور ملاقات کے بعد ان کی طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے۔

مولانا کی گوناگوں تدریسی ودعوتی اور اصلاحی وتعمیری خدمات وکارناموں کے اعتراف وشکر میں علاقے کی مرکزی درس گاہ جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ نے آپ کو ۳؍ مئی ۲۰۱۸ء کو جامعہ میں منعقد دوسرے تکریمِ علماء ودعاۃ اجلاس میں ’امام ابن باز علمی ایوارڈ‘ اور ’توصیفی سند‘ عطا کیا تھا۔

مولانا اپنی زندگی کے آخری دنوں میں گھٹنے کے درد وغیرہ امراض میں مبتلا ہوگئے تھے۔ وفات سے کچھ دنوں پہلے گر گئے، جس کی وجہ سے کافی چوٹیں آئیں، بالخصوص سر میں چوٹ لگی، طبیعت بگڑنے پر دیوگھر کے سرکاری اسپتال میں داخل کیے گئے، جہاں سے رانچی ریفر کر دیے گئے، وہاں ریمس میں زیرِ علاج تھے کہ ۳۰؍ اگست ۲۰۲۱ء مطابق ۲۰؍ محرم ۱۴۴۳ھ، سوموار کو صبح چھ بجے انتقال کرگئے، نعش مدھوپور لائی گئی، اور دوسرے دن ۹؍ بجے صبح مدھوپور کے پناہ کولہ قبرستان میں تدفین ہوئی، نماز جنازہ اور تدفین میں علماء وعوام کی ایک بڑی بھیڑ نے شرکت کی اور پُرنم آنکھوں سے علاقے کے ایک داعیِ کبیر کو سپردِ خاک کیا۔ نماز جنازہ مولانا کے بڑے داماد مولانا عظیم الدین اثری نے پڑھائی۔

مولانا نے یکے بعد دیگرے کل پانچ شادیاں کی تھیں، جن سے دو بیٹے، عبیداللہ (بڑے) اور عبدالباسط (چھوٹے) اور پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑے بیٹے اپنے آبائی گھر پرتاپ گڑھ میں رہتے ہیں۔ مولانا کا گھر اور زمین مدھوپور شہر میں کالج روڈ میں موجود ہے، اور آپ کی بیوہ رکھوالی کی ذمہ داری ادا کر رہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت کرے، حسنات واعمال کو شرفِ قبولیت بخشے، اور جنتِ بریں میں داخل کرے۔آمین

آپ کے تبصرے

3000