زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے، اور کس قدر مجبور ہے!
متحدہ بہار میں تو بہت سے اہلِ قلم اور صاحبِ زبان ولسان پیدا ہوئے، اور پوری دنیا سے اپنے علم وفضل، مقام ومرتبہ اور حیثیت ووقعت کا لوہا منوایا۔ جھارکھنڈ ، جب بہار سے الگ ہو کر نیا اسٹیٹ بنا تو یہاں کے اہلِ علم کو الگ سے پہچان ومقام بنانے کا موقع ملا، بہتوں نے منوانے کے لیے مکر وفریب کی راہ اختیار کی اور بہتوں نے اپنی علمی لیاقت، فکری صلاحیت، زبان دانی اور قلم وقرطاس کی خدمت وآبیاری کے ذریعے اپنی شناخت بنائی۔ ثانیِ ذکر خانے سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہمارے ممدوح استاذِ محترم مولانا محمد خالد فیضی رحمہ اللہ کی تھی۔ آپ ایک صاحبِ قلم وزبان انسان تھے۔ آپ بیک وقت اردو زبان وادب کے ادیب وناقد، ایک کامیاب انشاپرداز، منجھے ہوئے صحافی اور بے باک قلم کار، عربی، اردو، ہندی اور انگریزی کے یکساں جانکار، ماہر ترین مدرس ومربی، کہنہ مشق مصنف ومترجم اور بہترین ناظمِ اجلاس اور بہت کچھ تھے۔
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
مولانا محمد خالد فیضی بن محمد حدیث بن ہمۃ اللہ بن رضوان اللہ بن جوہر علی بن شیر علی کی پیدائش جھارکھنڈ کے ضلع دیوگھر کے مشہور گاؤں ’چھاتاپتھر‘ میں ۲؍ فروری ۱۹۵۹ء کو ہوئی، ماں کا نام حفیظہ خاتون بنت نبی خلیفہ تھا، جو موضع ’برسون‘(BIRSN) ضلع آرہ، بہار کی رہنے والی تھیں، نانا آرہ سے آ کر دیوگھر کے گاؤں ’پاروجوری‘ میں مقیم ہو گئے۔ آل اولاد ابھی یہیں ہیں۔
مولانا کی پیدائش کے زمانے میں علاقے کے دیہات میں پڑھنے پڑھانے کا کوئی خاص نظم وضبط نہیں پایا جاتا تھا، خال خال ہی کوئی بچہ پڑھتا لکھتا تھا، مگر والدِ گرامی نے مولانا کی تعلیم وتربیت پر بڑی توجہ دی، اور جب پڑھنے لکھنے کے لائق ہوئے تو غیر رسمی انداز میں ابتدائی تعلیم پوری کی۔ والد نے علاقے کے ایک مشہور عالم اور داعی زمانہ مولانا محمد طالوت سلفی (ساکن سیمرگڈھا، مارگومنڈا، دیوگھر) سے درخواست کی کہ وہ ان کے گھر آ کر ان کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کی زحمت وتکلیف قبول کریں۔ مولانا نے یہ درخواست قبول کی، اور مولانا محمد خالد فیضی کے گھر پر رہ کر ان کی تعلیم وتربیت کی، اور اپنی رہنمائی میں آگے کی تعلیم کے لیے انھیں مدرسہ شمس العلوم، سیمرا، پوسٹ سمری، ضلع بستی (یوپی) لے گئے۔ یہ مدرسہ اُن دنوں مناظرِ اسلام مولانا عبدالمبین منظر رحمہ اللہ کی نظامت میں رواں دواں تھا، مولانا کا داخلہ اس مدرسہ میں ہو گیا، اور وہاں کے اساتذہ کرام سے کسبِ علوم وفنون کیا، بطورِ خاص مولانا عبدالعلیم ماہر رحمہ اللہ سے استفادہ کا بہا غنیمت موقع ملا۔ مولانا محمد خالد فیضی کے بقول ’’یہاں میرے کھانے پینے اور ناشتے وغیرہ کی کفالت ثناء اللہ پردھان بشن پور والے نے کی، پردھان صاحب خود مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز رکھتے تھے، اور ان کے اہلِ خاندان سے بھی مجھے گھر کا پیار ملا، آج بھی وہ لوگ میرے لیے بے پناہ محبت وانس رکھتے ہیں، اللہ قبول فرمائے، اور جزائے خیر دے، آمین!۔‘‘
مولانا بھی اس علاقے سے بالعموم اور جناب ثناء اللہ پردھان اور اُن کے اہلِ خانہ سے لگاؤ اور محبت رکھتے تھے، آپ نے اپنی کتاب ’بر سرِ محفل‘ کا انتساب انہی لوگوں کی طرف کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ضلع بستی وگونڈہ کے اُن غیور اور حق وصداقت کے لیے ہمہ دم کفن بردوش احباب کے نام، جن میں ہمارے اساتذہ بھی ہیں، اور رفقاء بھی، اور مجھ پر جان چھڑکنے والے بشن پور کے پردھان ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کے اہلِ خاندان بھی، اللہ سبھوں کو جزائے خیر دے، اور حق وصداقت کی تائید وحمایت کرنے کی توفیق بخشے!‘‘
شمس العلوم، سیمرا میں دو سال رہے، اس کے بعد ۱۹۷۰ء میں اپنے والدِ گرامی کے ساتھ مئو ناتھ بھنجن کا سفر کیا، اور جامعہ اسلامیہ فیض عام میں داخلہ لیا، اور پوری تندہی کے ساتھ تحصیلِ علم وفن کرنے لگے، ۱۹۷۴ء میں فوقانیہ امتحان دینے کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ جامعہ کو چھوڑنا پڑا، اور جب نیا تعلیمی سال شروع ہوا، تو جامعہ سلفیہ بنارس میں اپنے رفقاء (مولانا شفاء اللہ فیضی ناظم صاحب اور مولانا مسعود عالم فیضی) کے ساتھ داخلہ لیا، اور تقریباً دو سال یہاں رہے، اور پھر ۱۹۷۶ء کے آخری مہینے میں تینوں حضرات عازمِ فیض عام ہوئے، اور دوبارہ داخلہ لے کر ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹۷۷ء میں فراغت وفضیلت کی سند سے سرفراز کیے گئے۔ فراغت کے سال آپ نے اپنے درجے میں پہلی پوزیشن حاصل کی، آپ کی مارکشیٹ میں درج ہے ’درجہ میں اول‘، اور شیخ الجامعہ کی جگہ پر مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی کا دستخط ہے۔ آپ نے بہار ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ کے امتحانات بھی دیے، اور فاضلِ اردو تک کی ڈگریاں حاصل کیں، بعد میں نوکری کرتے ہوئے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد سے ایم، اے بھی کیا۔
آپ ایک ذہین وفطین طالب علم تھے، اس لیے جہاں بھی رہے اساتذہ کرام کے محبوبِ نظر رہے، جن دنوں آپ فیض عام میں تھے، وہاں کے ناظم ’ناظم صاحب‘ سے معروف مولانا محمد احمد قاسمی مئوی رحمہ اللہ تھے، جن سے بڑا گہرا رشتہ تھا، انھوں نے ایک دن اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ خالد!ایک بات بتاؤ لڑکے فیض عام کو چھوڑ کر جامعہ سلفیہ کیوں چلے جاتے ہیں؟ انھوں نے کہا:اس کی تین وجہیں سمجھ میں آتی ہیں، ایک یہ کہ وہاں تعلیم عربی میں ہوتی ہے، اور عربی میں بول چال پر بڑا فوکس ہوتا ہے، دوم یہ کہ وہاں کھانا اچھا ملتا ہے، اور سوم یہ کہ وہاں کا معادلہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے ہے۔ مولانا محمد خالد کے بقول ناظم صاحب نے کہا کہ کھانا کے علاوہ بقیہ دو چیزوں کی کوشش فوراً شروع کرتا ہوں، اور اس طرح سے فیض عام کا معادلہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ سے کرایا گیا۔
فیض عام کی زندگی میں شیخ محفوظ الرحمن فیضی حفظہ اللہ بھی آپ کو بے حد مانتے اور عزیز رکھتے تھے، اور دونوں کے درمیان گہرے روابط وتعلقات تا زندگی باقی رہے۔ آپ نے جن اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے انسان بن کر فراغت حاصل کی، وہ ہیں:مولانا طالوت سلفی(گھر پر)، مولانا عبدالمبین منظر، مولانا عبدالعلیم ماہر (سیمرا)، قاری عبدالسبحان، قاری خلیل الرحمن، مولانا محمد اسماعیل سلفی، قاری نثار احمد فیضی، مولانا مختار احمد فیضی، مولانا محمد احمد ناظم صاحب، مولانا محفوظ الرحمن فیضی، مولانا مفتی حبیب الرحمن فیضی، مولانا محمد حنیف فیضی، ماسٹر رفیع اللہ، منشی ذکاء اللہ (فیض عام)، مولانا شمس الحق سلفی شیخ الحدیث، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری، علامہ محمد رئیس ندوی، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری، مولانا عبدالحنان فیضی، مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی، مولانا عبدالوحید رحمانی شیخ الجامعہ، مولانا عبدالسلام مدنی، شیخ انیس الرحمن اعظمی، ماسٹر اکبر علی وغیرہم (جامعہ سلفیہ)۔
اِدھر آپ اور آپ کے رفقاء (مولانا شفاء اللہ فیضی ومولانا مسعود عالم فیضی) کی جامعہ فیض عام سے فراغت ہو رہی تھی، اور ادھر استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبدالرشید شائقی (فاضل جامعہ اثریہ دارالحدیث) اور استاذ گرامی قدر حضرت قاری جمال الدین مظاہری کی علاقے کے دیگر علماء کے ساتھ جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند کے قیام کی تحریک چل رہی تھی، اور جامعہ کے قیام کے تاریخی فیصلے کے لیے جگہ جگہ نشستیں اور میٹنگیں ہو رہی تھیں، آخری میٹنگ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء کو سیمرگڈھا کی سرزمین پر منعقد ہوئی، جس میں علاقے کی خلقِ کثیر نے اپنی شرکت سے اس میٹنگ کو کامیابی سے ہم کنار کیا تھا، اس عظیم مجمع میں آپ نے تعلیم وتعلم کی اہمیت وافادیت اور مدارس اسلامیہ کے کردار کے موضوع پر ایک مقالہ پیش کیا تھا، جس کو سامعین نے بہت سراہا تھا، اور علاقے کے پہلے شاعر اہل حدیث مولانا محمد قاسم مخلص نے پیٹھ تھپ تھپائی تھی، علاقے کی تاریخ میں یہ پہلا مقالہ تھا، جسے لکھا اور پڑھا گیا تھا، بہر حال ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء کی اس تاریخی اور انقلابی میٹنگ میں جامعہ محمدیہ کے قیام کی تجویز پاس ہو گئی، اور ڈابھاکیند کی مسجد میں کام آناً فاناً شروع کر دیا گیا، اول اول جو اساتذہ کرام بحال ہوئے، ان میں حضرت مولانا عبدالرشید شائقی، قاری جمال الدین مظاہری، قاری محمد یونس اثری، مولانا عبدالستار اثری، مولانا عبدالخالق جامعی کے ساتھ ساتھ آپ اور آپ کے رفقاء (مولانا شفاء اللہ فیضی اور مولانا مسعود عالم فیضی) بھی تھے، اور جامعہ کی تعمیر وترقی اور استحکام میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ دنیا دیکھ سن کر دنگ رہ گئی۔ آپ کے بقول ’’جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند کی تاسیسی مجلس منعقدہ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۷۷ء، (بمقام سیمرگڈھا، دیوگھر) سے لے کر ۱۹۸۸ء تک میں درس وتدریس، اور ۱۹۹۷ء تک مراسلت ومضمون نگاری، دفتری امور کی انجام دہی میں ناظم صاحب مرحوم کی معاونت، جلسوں اور مجلسوں کی نظامت، نشستوں کی تجویز نویسی اور دیگر امور مفوضہ ادا کرتا رہا ہوں‘‘۔ ۱۹۸۸ء میں مولانا کا تقرر پرائمری ٹیچر کی حیثیت سے سرکاری محکمہ تعلیم میں ہوا، اور پہلی بار پوسٹنگ مدھوپور میں ہوئی، اور ریٹائر ۲۰۱۸ء میں برآباد، دیوگھر کے اردو اسکول سے ہوئے۔
آپ نے جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۸ء تک ایک کامیاب ترین استاذ کی حیثیت سے فریضہ تدریس وتعلیم انجام دیا، اس مدت میں جامعہ میں آپ کی صلاحیت اور تدریسی علم وہنر اور لیاقتِ تفیہم وافادہ کی طوطی بولتی تھی۔ آپ کا ثانی وہم پلہ کوئی نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے بلا کی تدریسی مہارت ولیاقت عطا فرمائی تھی، اس کی گواہی آپ کے جملہ تلامذہ دیتے نظر آتے ہیں، بعض کو کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ جو کچھ ہوں مولانا محمد خالد فیضی کی چھڑی کا اثر ہے۔ آپ نے علم وہنر، قلم وقرطاس اور زبان وبیان کے ذریعے جامعہ محمدیہ کو اعتبار ووقار بخشا۔ ۱۹۹۷ء یعنی ناظم مولانا شفاء اللہ فیضی کی وفات تک لکھنے پڑھنے کا سارا کام آپ ہی کے ذریعہ انجام پاتا تھا۔ وہ زمانہ خطوط ومراسلات کا تھا، سارے خطوط لکھنے کی ذمہ داری ادا کرتے تھے، اس زمانے میں جماعت اہل حدیث کی کوئی ایسی عظیم شخصیت نہ رہی ہوگی، جن کے نام ان کے قلم سے کوئی خط جامعہ کی جانب سے بھیجا نہ گیا ہوگا، اسی طرح ساری میٹنگوں کی تجویز نویسی آپ ہی کرتے تھے، درجنوں قدیم رجسٹر اس کے گواہ ہیں۔ جامعہ محمدیہ میں سالانہ دو روزہ عظیم الشان جلسے ہوا کرتے تھے، اور ملک کی چیدہ چیدہ شخصیتیں مہمان مقرر کی حیثیت سے مدعو ہوتی تھیں، تمام جلسوں کی نظامت آپ ہی کے ذمے ہوا کرتی تھی۔ علاقے میں سب سے زیادہ نظامت کرانے کا سہرہ آپ کے سر جاتا ہے، اور گزشتہ دو دہائی سے آپ کی جگہ آپ کے ایک خاص شاگرد (احقر) نے لے لی ہے۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاذ کے بغیر
جامعہ محمدیہ میں رہنے کے دوران استقبالیہ خطبے، سپاس نامے، مضامین ومقالات آپ ہی لکھتے تھے، آپ کے چھوڑ دینے کے بعد یہ شاندار روایت بھی قائم نہ رہ سکی، بعض میٹنگوں میں بعض اہم شخصیات کی آمد پر طلبہ کے لیے استقبالیہ آپ تحریر کر دیتے تھے، اور کوئی ہونہار طالب اس کو پروگرام میں پیش کرتا تھا، یہ شرفِ صد افتخار کاتب سطور کو بھی حاصل ہو چکا ہے۔ جامعہ کے ایک سالانہ اجلاس کے موقع سے آپ نے ایک مبسوط مقالہ علاقے کی تاریخ اہل حدیث پر بعنوان ’سراغِ گم گشتہ‘ قلم بند فرمایا تھا، اور جلسے کے اسٹیج سے پیش کیا تھا، افسوس کہ وہ مقالہ جامعہ کے نظماء کی تبدیلی کی نذر ہو گیا۔ اسی زمانے میں آپ نے اسی موضوع پر ایک منظوم کلام بھی تخلیق کیا تھا، جو شاید جامعہ کی کسی فائل میں موجود ہو!۔ جامعہ محمدیہ کے آپ تاسیسی مدرس رہے تھے، اور کوئی بھی ادارہ ابتدا میں بڑی قربانیاں چاہتا ہے، اور آپ ہر نوع کی قربانی پیش کر چکے تھے، اس لیے تا زندگی اس سے محبت ولگاؤ رہا، کبھی اشاعت واستحکام میں رول ادا کیا، تو کبھی اس کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے روحِ رواں رہے۔ ادارہ کا نام ’جامعہ محمدیہ‘ آپ ہی کی تجویز وایما پر رکھا گیا تھا، اور اس کی اور حضرت مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے ’جامعہ محمدیہ‘ کی عمر ایک ہے۔
جامعہ محمدیہ سے الگ ہونے اور سرکاری ملازمت سے وابستہ ہو جانے کے باوجود آپ نو نہالانِ مسلم امت کی تعلیم وتربیت کے لیے کوشاں اور فکر مند رہے، آپ چاہتے تھے کہ تمام مساجد میں مکاتب بھی کھل جائیں، اور با ضابطہ اس کی آپ نے تحریکیں چلائیں۔ صفا فاؤنڈیشن کو اس تحریک کا پلیٹ فارم بنایا، یہ ان کی ایک تنظیم تھی، جس کے لیے وہ کہیں سے کوئی چندہ نہیں لیتے تھے، بلکہ اس کی میٹنگ وغیرہ کے سارے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتے تھے، ایسا آدمی بہت کم نظر آئے گا، صفا فاؤنڈیشن کے بینر تلے انھوں نے بڑی کوششیں کیں، تقریریں کیں، اور مکاتب کے قیام کی اہمیت وافادیت پر مضامین ومقالات اور پمفلٹس بھی لکھے اور شائع کیے۔ ایک بار ایک اعلان شائع کیا تھا، جس کا عنوان تھا ’خبر کرو میرے گلشن ۔۔۔۔‘ اور اس میں لکھا تھا کہ ’’بڑی خوشی کے ساتھ یہ خبر دی جا رہی ہے کہ صفا فاؤنڈیشن ، چھاتاپتھر نے اپنے معروف پروگرام ’مکتب قائم کرو‘ پر عمل در آمد شروع کر دیا ہے‘‘۔ صفا فاؤنڈیشن کے بینر تلے ذاتی اخراجات پر کئی پروگرام بھی کیے، بعض پروگراموں میں مجھے بھی شرکت وخطاب کا موقع ملا تھا۔
کبھی کبھی کسی انسان کو کسی خاص علاقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر بہت زیادہ آگے بڑھنے کا موقع نہیں مل پاتا ہے اور اس کی قابلیت وفکر سے عام لوگ مستفید نہیں ہو پاتے ہیں۔ یہ مولانا محمد خالد فیضی کے ساتھ بھی ہوا، مولانا ایک دور اندیش عالم دین تھے، آپ کی نظر بڑی وسیع تھی اور فکری صلاحیت کے مالک تھے۔ اس کا اندازہ آپ کی تحریروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، یہاں آپ کے ایک غیر مطبوع مضمون کا ایک اقتباس نقل کرتا ہوں، جس سے آپ کی وسعتِ فکر ودانش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’میں علاقے کی نفسیات کے سلسلے میں چند نقاط قلم بند کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اس علاقے میں اداروں کی کمی نہیں ہے، پھر بھی تعلیمی وتربیتی ضرورتیں پوری نہیں ہو پا رہی ہیں، اور نونہالانِ ملت کی ایک کثیر تعداد نوشت وخواند سے محروم رہ جاتی ہے، اور جو مختصر تعداد درس گاہوں تک پہنچ پاتی ہے، اس میں اکثر بیچ میں تعلیم چھوڑ کر دوسری مصروفیات اختیار کر لیتی ہے۔ یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ مفکرین ملت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے، اور باہمی غور وفکر ومشاورت سے کسی مثبت حل تک پہنچنا چاہیے، پھر درس گاہ قائم کر دینا ہی کافی نہیں ہے، اس کو مقصد بر آری کا وسیلہ بنانا چاہیے۔ ہمارا مقصد کیا ہو؟ ایک ذمہ دار، حساس معاشرہ کی تشکیل کے لیے ایک مرکزی ادارے کا قیام ، جہاں:
(الف)دینی وفکری ذہن سازی کے ذریعہ رجال سازی ہو۔
(ب)دینی وعصری مواد پر مشتمل نصاب کو اسلامی ماحول دستیاب ہو۔
(ج)سیر چشمی وفراخ دلی کی فضا ہو۔
(د)جس کے ذیلی ادارے اور شاخیں ہوں (اداروں اور شاخوں کے واسطے سے پورا علاقہ مرکزی ادارہ سے مربوط ہو)۔
(ہ)شاخوں کی فکری وتعلیمی ضروریات کی تکمیل مرکزی ادارہ کی رہنمائی کے مطابق ہو (نصاب، اوقاتِ کار، امتحانات، مقابلے میں یکسانیت ہو یعنی ایک نیٹ ورک ہو، جو ایک اشارے پر حرکت کرے)۔
(و)ذمہ داران عملہ، کارکنان اور متعلقین کی ذمہ داری طے شدہ اور مقررہوں۔
(ز)احساسِ ذمہ داری، جواب دہی اور جواب طلبی کا بے لوث نظام ہو، وغیرہ وغیرہ‘‘۔
ایک مرتبہ میں نے ان سے ان کا تعارف تحریری طور پر مانگا، تو دو صفحات میں قلم بند کر کے عنایت کیا، اس میں انھوں نے ایک ذیلی عنوان قائم کیا تھا’مستقبل کا منصوبہ‘، اور اس کے تحت لکھا کہ ’’جس مقصد کے تحت میں نے خود کو اس وادی غیر ذی زرع میں ضائع کیا، اور اپنے ساتھ اوروں کو بھی برباد کیا، وہ ابھی بھی تشنہ تکمیل ہے۔ تمنا ہے کہ نونہالانِ ملت کے لیے کوئی معیاری درس گاہ اس علاقے میں قائم ہو جائے۔ زندگی نے موافقت کی، اور صحت نے ساتھ دیا، تو ان شاء اللہ کوشش جاری رہے گی‘‘۔ غرض کہ ایک معیاری درس گاہ کے قیام کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہی، اور جب جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ کا قیام عمل میں آیا، تو آپ نے برسوں کے مرکزی درس گاہ کے قیام کے سجائے خواب کو اپنی آنکھوں سے شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھا، آپ پورے طور پر جامعہ سے وابستہ ہو گئے، جامعہ کی مجلسِ تنفیذی میں آپ کو شامل کیا گیا، اور نائب صدر کا عہدہ تفویض کیا گیا، اور ۲۰۱۰ء میں جب جامعہ سے سہ ماہی مجلہ ’’صدائے حق‘‘ کا اجرا عمل میں آیا، تو آپ کو مجلہ کا مدیر اور کاتبِ سطور کو مساعد مدیر بنایا گیا، اور آپ تب تک مدیر رہے، جب تک صحت وبینائی نے آپ کا ساتھ دیا۔ جامعہ سے پہلی کتاب ’حقیقتِ توحید‘ شائع ہوئی، تو آپ ہی نے ایڈیٹنگ فرمائی، اور عرضِ ناشر لکھا، اور میں نے تقریظ لکھی۔
آپ کو جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں کام کرنے کا اچھا مجال ومیدان ملا تھا، اگر آپ سرکاری ملازمت سے منسلک نہ ہوتے تو کچھ اور ہی ہوتے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ جب ۱۹۸۸ء میں مجھے سرکاری ملازمت ملی اور جامعہ محمدیہ چھوڑ دیا، اور اس کا علم استاذِ گرامی مفکرِ جماعت علامہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ کو ہوا، تو ایک ملاقات کے دوران ناظمِ جامعہ مولانا شفاء اللہ فیضی رحمہ اللہ سے کہا کہ ’’خالد نے اچھا نہیں کیا‘‘۔
مولانا علاقے کی تاریخِ اہل حدیث کے سب سے بڑے جانکار تھے۔ اور انھیں اس سے دل چسپی بھی تھی۔ مجھے جب کبھی بھی کسی واقعہ کی تصدیق کی ضرورت پڑی تو آپ سے رجوع کیا۔ یہ چیز علاقے کے کسی بھی عالم میں نظر نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی کتاب ’دامنِ کوہ میں کاروانِ رفتگاں‘ میں جا بجا آپ کا حوالہ دیا ہے، جو بہتوں کو پسند نہیں آیا، جیسا کہ گزرا کہ آپ نے سب سے پہلے علاقے کی جماعتِ اہل حدیث کی دعوتی وتعلیمی خدمات کے تعارف پر ایک مبسوط مقالہ ’سراغِ گم گشتہ‘ تحریر فرمایا تھا، اور جامعہ محمدیہ کے کسی اجلاس میں مکمل پڑھ کر لوگوں کو مبہوت کر دیا تھا، ابھی ماضی قریب میں آپ کا ایک مقالہ ’تاریخِ اہل حدیث جنوبی سنتھال پرگنہ، دمکا، گریڈیہہ ودیوگھر‘منظر عام پر آیا تھا۔
مولانا ایک صاحبِ قلم اور صاحبِ طرز انشا پرداز وقلم کار تھے۔ اردو، ہندی، عربی اور فارسی کے اشعار کو برمحل زبان وبیان اور تحریر میں استعمال کرنے کا نرالا ہنر آپ کو رب کریم نے عطا کیا تھا۔ قرآنی آیات، عربی واردو اور فارسی کے ضروب الامثال، محاورات اور نبی کریم ﷺ کے فرمودات کے ٹکڑوں کو تحریروں اور خطابات میں ایسے استعمال کر دیتے تھے کہ بہتوں کو پلے بھی نہیں پڑتا تھا۔ آپ مترادفات کے استعمال پر پوری قدرت اور مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ بلا کے ذہین اور قلمی لیاقت وصلاحیت کے انسان تھے۔ آپ کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے استاذِ گرامی شیخ محفوظ الرحمن فیضی (شیخ الجامعہ فیض عام) کو اپنی ایک تحریر دکھلائی، تو انھوں نے کہا کہ اب آپ ’’لکھ سکتے ہیں‘‘، اور میں نے لکھنا شروع کر دیا۔ آپ نے درجنوں مقالات لکھے، اور برجستہ لکھے، اور ہر مقالہ کا عنوان ایسا دل چسپ اور ادب وزبان سے پُر کہ اسی پر آپ کو ایوارڈ دیا جانا چاہیے، آپ کے مقالات ترجمان، طوبیٰ (جامعہ امام ابن تیمیہ) اور صدائے حق (جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ) میں دیکھے اور پڑھے جا سکتے ہیں۔ ان مجلات میں شائع آپ کے مقالات کو بہت پسند کیا گیا، اور آپ کو خراجِ تحسین وتعریف سے نوازا گیا۔ مجھے ادارہ طوبیٰ کے چار خطوط آپ کی فائل میں ملے۔ یہ چاروں خطوط طوبیٰ کے اُس وقت کے معاون مدیر مولانا ابو نصر ندوی رحمہ اللہ کے ہیں۔ ۱۰؍ اگست ۲۰۰۳ء کو لکھے ایک خط میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’مضمون نہیں بھیج رہے ہیں، حالانکہ آپ کے مضامین یہاں کے اساتذہ قارئین بے حد پسند کرتے ہیں۔ چند نے مشورہ بھی دیا ہے کہ خط لکھ کر مضامین منگائے جائیں۔ ایڈیٹر نے بھی آپ سے درخواست کی ہے کہ مضامین ضرور ارسال فرمائیں‘‘۔ ۲۴؍ مارچ ۲۰۰۴ء کو ارسال کردہ ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’ایک کارڈ عبدالقیوم صاحب کا جام تاڑا سے آیا ہے، انھوں نے لکھا ہے کہ خالد صاحب کے مضمون کا مجھے اور میرے بہت سے احباب کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔ ہر شمارہ میں ان کا مضمون شریکِ اشاعت کیجیے، تا کہ تشنگی دور ہو‘‘۔ مولانا ابو نصر ندوی نے ایک لمبا خط ماہنامہ مجلہ طوبیٰ کے لیٹر پیڈ پر بھی بھیجا تھا۔ خط دو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا ایک پیرا گراف ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں کہ چار عدد مضامین موصول ہوئے۔ بہت بہت شکریہ۔ آپ کے مضامین بڑے دل چسپ ہوتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ دل چسپی سے پڑھتے ہیں۔ مضمون ’فاتحہ خوانی کی درگت‘ کی چاشنی ابھی تک محسوس کر رہے ہیں۔ آپ کے مضامین سے مجلہ میں چار چاند لگ جائیں گے۔ عبدالعلام عارف سلفی نے یہ مضامین پڑھے اور بے حد سراہا۔ اندازِ بیان بھی خوب ہے‘‘۔ آپ کے وقیع مقالات ومضامین کو جمع کر کے کتابی شکل دی جائے، تو ادبیات کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ ہوگا۔
آپ کی قدیم تحریروں میں ایک تحریر ’یہ بھی ایک انداز ہے‘ ہے، جو ۱۹۹۲ء کی ہے، یہ کتابچہ کی شکل میں شائع ہوئی تھی، یہ تحریر جامعہ محمدیہ کی تعلیمی پیش رفت کی ایک داستان ہے، اور اس میں اُن مخلصین کا تذکرہ ہے، جنھوں نے ’’آدھی روٹی کھائیں گے اور جامعہ کو آگے بڑھائیں گے‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا،جن دنوں میں جامعہ امام ابن تیمیہ کے ترجمان مجلہ طوبیٰ کا معاون مدیر تھا، اور مجلہ کی ساری ذمہ داریاں میں ہی انجام دیتا تھا، آپ کی اس تحریر سے کچھ اقتباسات اخذ کر کے ایک نئے مضمون کی شکل دے کر آپ ہی کے نام سے بعنوان ’علماء نوازی وقدر شناسی دارالحدیث رحمانیہ کے تناظر میں‘ شائع کیا تھا، جسے بے حد پسند کیاگیا تھا، اور دارالحدیث رحمانیہ کے مورخ مولانا محمد اسعد اعظمی نے اپنی کتاب ’تاریخ وتعارف:دارالحدیث رحمانیہ، دہلی‘میں اس مقالے سے استفادہ کیا ہے۔
دیہات(جہاں انسان سہولیات وعلمی ماحول سے یکسر محروم رہتا ہے) میں بود وباش رکھنے کے باوجود آپ نے کئی کتابیں لکھیں، اور اردو وہندی میں ترجمے بھی کیے، جن میں سے بعض کتابیں اور ترجمے شائع بھی ہوئے، آپ کی کتابوں میں:تذکرہ مولانا شفاء اللہ فیضی ناظم صاحب، ’جھارکھنڈ ایک تعارف، امید ویاس کے دو راہے پر ریاستی جمعیت اہل حدیث جھارکھنڈ، خطبہ استقبالیہ مدرسہ فیض عام چھاتا پتھر، بر سرِ محفل، اور عربی سے ہندی ترجمہ میں امام ابن باز رحمہ اللہ کی کتاب ’نصیحۃ عامۃ‘ کا ترجمہ ’کھلی چٹھی‘، اور اردوسے ہندی ترجمہ میں امام ابن قیم کی کتاب ’رسول اکرم ﷺ پر درود وسلام‘ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ لائقِ ذکر ہیں۔
’تذکرہ مولانا شفاء اللہ فیضی ناظم صاحب‘میں ناظم صاحب کی حیات ، اور وفات وتدفین تک کا بہترین تعارف کرایا گیا ہے، اور اُن کی مظلومیت کی داستان بھی بیان کی گئی ہے، خدمات کا تذکرہ باقی رہ گیا تھا، جو آپ دونوں کے شاگرد کاتبِ سطور کے قلم سے انجام پا چکا ہے، اور کتاب کمپوزنگ کے مرحلہ سے گزر کر طباعت کی منتظر ہے۔ ’جھارکھنڈ ایک تعارف‘ لگ بھگ سو صفحات پر مشتمل ایک تاریخی کتاب ہے، جو نہایت ہی جامع ہے، اس کا کمپیوٹر سے لکھا نسخہ آپ کی فائل میں ملا، جس میں سالِ اشاعت ۲۰۰۲ء درج ہے، اور ناشر میں نرالی دنیا پلیکیشنزA-358 ، بازار دہلی گیٹ، دریا گنج، نئی دہلی تحریر ہے، پتہ نہیں طباعت کا مرحلہ پورا ہو پایا ہے یا نہیں؟
’برسرِ محفل‘نامی کتاب مولانا عبدالرزاق عبدالغفار سلفی کی کتاب ’مرکزی دارالعلوم (جامعہ سلفیہ) بنارس نوگڑھ کانفرنس کی ہی دین ہے‘ کے مطالعہ کے بعد لکھی ہے، اور اس میں اپنے استاذ مولانا محفوظ الرحمن فیضی پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دیا ہے، کتاب غیر مطبوع ہے۔ ’رسول اکرم ﷺ پر درود وسلام‘ نامی کتاب کا ہندی ترجمہ جامعہ امام ابن تیمیہ ، بہار کی درخواست پر کیا تھا، اب تک شائع ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
آپ کی کتابوں میں ’سلفی نصابِ تعلیم‘ کا تذکرہ ضروری ہے، یہ کتاب آپ نے بڑی محنت سے تیار کی تھی، اس کا تذکرہ انھوں نے ۲۰۱۴ء میں سنتھال پرگنہ اور اتری چھوٹاناگپور کے علاقے میں شیخ صلاح الدین مقبول مدنی اور شیخ ارشد مختار حفظہما اللہ کے تعلیمی ودعوتی دورہ کی رپورٹ ، جو دس صفحات پر مشتمل ہے، میں کیا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’میں نے شیخین کی خدمت میں سلفی نصابِ تعلیم کا قلمی مخطوطہ پیش کیا، جس کو میں نے درجہ (۱)سے (۱۲) تک کے لیے ترتیب دیا تھا، مرکزی مضمون عربی ودینی کو قرار دے کر ایک متوازی عصری نصاب بنانے کی کوشش کی تھی، مسودہ شیخ محترم کے پاس موجود ہے۔ میری ترجیحات میں عربی میڈیم بھی ہے، میڈیم (زبانی رابطہ)کے حوالے سے میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا تقی الدین ہلالی رحمہما اللہ وعافاہما کے نظریہ کا مکمل مرید ہوں۔ اس لیے مذکورہ نصاب میں عربی میڈیم کی وکالت کی ہے۔ میں نے شیخ کو حذف واضافہ اور ترمیم وتنسیخ کا کلی اختیار بھی دے دیا ہے۔ (ممکن ہے آئندہ کسی کام آ جائے)‘‘۔
مولانا محمد خالد فیضی ملک میں منعقد ہونے والی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنسوں کی روداد اور تجاویز بھی لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقدہ بمقام پاکوڑ (جھارکھنڈ) کی مناسبت سے چالیس نقاط پر مشتمل اپنی تجاویز ذمہ دارانِ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی نذر کی تھیں۔ تجاویز کے شروع میں تمہیدی کلمات کے طور پر لکھا ہے کہ ’’ملکی پیمانے پر ملت کے دانشوروں کے اندر جھارکھنڈ کی مسلم ملت کے حوالے سے ایک شدید احساس ہے کہ یہاں کے مسلمان دینی ودنیوی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ علمی وفکری طور پر تہی دست ہیں، معاشی واقتصادی صورتِ حال نا گفتہ بہ ہے۔
مذکورہ بالا احساس کی صداقت سے انکار وسرتابی کی گنجائش نہیں ہے، مگر سوال یہ ہے کہ انقلابِ احوال کے لیے کیا کسی دینی وملی رفاہی تنظیم نے کوئی عملی اقدام کیا؟ اگر نہیں کیا تو صورتِ حال کی سنگینی پر اظہارِ افسوس کر دینا کافی ہے؟ آہ وکراہ سے تبدیلیِ احوال ممکن ہے؟ اور مسیحائی ومداوا کے لیے کیا زبانی جمع خرچ کر دینا سود مند ہے؟
ذمہ دارانِ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند اگر واقعی سنجیدہ اور عملی اقدامات کے لیے تیار ہیں، تو ادب واحترام کے ساتھ ان کی خدمت میں یہ چند نقاط پیش ہیں‘‘۔
مولانا محمد خالد فیضی کام کے اور انقلابی ذہن ودماغ کے مالک انسا ن تھے۔ علاقے میں منعقد ہونے والی تمام اصلاحی ودعوتی تحریکوں میں آپ کی شرکت یقینی ہوتی تھی، اسی طرح علاقے میں دعوت وتعمیر اور اصلاح وانقلاب کے لیے بننے والی تنظیموں کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے اپنی کوششیں پیش کرتے تھے۔ جھارکھنڈ بننے سے پہلے ’جمعیت اہل حدیث جنوبی سنتھال پرگنہ وگریڈیہہ‘کے نام سے ایک جمعیت تشکیل پائی تھی، اور جس کا دفتر جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند میں تھا، آپ اس کے سکریٹری بنائے گئے تھے، اسی جمعیت کے لیٹر پیڈ پر مدھوپور میں قائم ہونے والے ادارہ جامعہ رحمانیہ کو ۲۵؍ جنوری ۱۹۸۸ء کو اپنا تصدیق نامہ دیا تھا، جو جامعہ رحمانیہ کے اردو تعارف نامے میں شاملِ اشاعت ہے۔ پھر جب ضلعی جمعیت اہل حدیث دیوگھر قائم ہوئی تو اس کے ناظم بنے اور پھر جھارکھنڈ بننے کے بعد بھی ایک دو بار ضلعی جمعیت کے ناظم رہے، اور جب جمعیت اہل حدیث، ہند یعنی نئی جمعیت قائم ہوئی، تو آپ اس میں شامل ہو گئے، اور آپ کو ۴؍ دسمبر ۲۰۱۳ء کو حافظ محمد سلیمان میرٹھی کی صدارت میں مدھوپور میں منعقد ایک میٹنگ میں اتفاقِ آراء سے جمعیت اہل حدیث رابطہ کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا، اور یہ اختیار دیا گیا کہ پورے جھارکھنڈ سے ایڈھاک کمیٹی کے ممبران کو اپنی صواب دید کے مطابق نامزد کر لیں۔ آپ نے اس کے لیے جھارکھنڈ کے کئی اضلاع کے دورے کیے، اور بعض دوروں میں شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے رفیق سفر بھی رہے۔ آپ جمعیت اہل حدیث، ہند کی میٹنگوں میں ایک فعال رکن کی حیثیت سے شرکت کرتے رہے، اور شیخ صلاح الدین مقبول مدنی کے دست وبازو بن کر جھارکھنڈ میں کام کرتے رہے۔
انسان کی زندگی میں مخلص رفقاء کی بڑی اہمیت وافادیت ہے، مگر ایسے رفقاء خال خال ہی ملتے ہیں۔ مولانا نے مجھے جو تعارف نامہ لکھ کر دیا تھا، اس میں ایک ذیلی سرخی ’رفقاء‘قائم کی ہے، اور اس میں لکھا ہے کہ ’’مولانا شفاء اللہ فیضی (ناظم جامعہ محمدیہ، ڈابھاکیند)اور مولانا عبداللہ مدنی لنگوٹیا یار رہے ہیں، (اور آخر ذکر اب تک ہیں)، ان کے علاوہ جماعت کے ہر ہمدرد کو ہم نے رفیق ہی جانا ہے، اور سیدھا صاف معاملہ کیا ہے‘‘۔
آپ کے دیرینہ رفیق استاذِ محترم مولانا عبدالغنی فیضی حفظہ اللہ (سابق استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام) بھی رہے ہیں، تا وفات ان کے ساتھ روابط وتعلقات استوار رہے اور خط وکتابت کا سلسلہ جاری رہا، اور پھر بعد میں موبائل سے بھی رابطے ہوتے رہے۔ مولانا عبدالغنی فیضی نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے خطوط کی روشنی میں ایک مقالہ بعنوان ’مولانا محمد خالد فیضی کی چند یادوں کے خطوط‘قلم بند کیا ہے، اس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’’مرحوم فیضی سے راقم کی یگانگت پچھلی پانچ دہائی سے زیادہ مدت پر محیط ہے، جو ہماری مکاتبت ومراسلت میں محفوظ ہے، انھیں لکھنے اور سنانے کا شوق تھا، میں بھی سننے اور سنانے کا عادی ہو گیا، یہ نوشتے اور نامہ وپیام با مقصد تحریروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے‘‘۔ شیخ صلاح الدین مقبول مدنی سے بھی گہرے مراسم قائم رہے۔
مولانا کے تلامذہ اور شاگردان کی تعداد سینکڑوں میں ہے، آپ اپنے تلامذہ کو سراہتے بھی تھے، اور کچھ کر گزرنے کی ترغیب وتحریض بھی کرتے رہتے تھے۔ میں جب بھی آپ سے ملتا یا آپ سے فون پر رابطہ کرتا، تو آپ پوچھتے کہ ان دنوں کیا کچھ چل رہا ہے؟اُن کا مقصد ہوتا تھا کہ کون سا تحریری کام کر رہے ہیں۔ میں نے جب جمعیت اہل حدیث، ہند کی طرف سے منعقد سیمینار بمقام پھاٹک حبش خان، دہلی کے لیے علاقے کی تاریخ کے ایک گوشہ ’جھارکھنڈ میں میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ: خدمات واثرات‘پر مبسوط مقالہ لکھا، تو آپ نے ارسال کرنے سے پہلے پڑھوا کر سنا، اسی طرح ممبئی سے شائع ہونے والی حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی حیات وخدمات پر شاندار وجامع کتاب کے لیے مجھے اُن کی فقہی بصیرت پر مقالہ لکھنے کا حکم مولانا محمد رفیق رئیس سلفی (علی گڑھ)نے دیا، تو آپ کو بتلایا، اور جب مقالہ پورا ہو گیا، تو حرف حرف آپ کو پڑھ کر سنایا، اس موقع سے آپ نے حوصلہ افزائی کے جو کلمات ارشاد فرمائے، وہ ہمارے لیے امام بخاری کے امام ترمذی کے لیے فرمائے ہوئے جملہ ’ما انتفعت بک أکثر مما انتفعت بي‘ کی طرح زندگی بھر ہمیں ہمت وحوصلہ عطا کرتے رہیں گے، آپ نے کہا تھا کہ ’’آپ کی تحریر واسلوبِ تحریر سے علامہ اسماعیل سلفی گجرانوالہ کی تحریر واسلوب کی خوشبو آتی ہے‘‘۔ ۲۰۱۹ء میں علاقے کی مرکزی عظیم الشان درس گاہ، جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ سے میری علاقے کی تعلیمی ودعوتی تاریخ پر مشتمل کتاب ’دامنِ کوہ میں کاروانِ رفتگاں‘شائع ہونے جا رہی تھی، تو آپ نے اس کے لیے وقیع تقریظ تحریر فرما کر عنایت کی، جس کا عنوان مادرِ علمی جامعہ سلفیہ کے شاندار ترانے کا ایک مصرعہ رکھا، ’’کھلیں گے رمز لوح کے کہ اب قلم ہے سامنے‘‘، اور اس میں دل کھول کر میری ہمت افزائی فرمائی۔
استاذ کے احسان کا، کر شکر منیر آج
کی اہلِ سخن نے تری تعریف، بڑی بات
جب میری عربی کتاب ’رجال من التاریخ وأعمالہم في ولایۃ جارکند‘(جو جھارکھنڈ کی سرزمین سے عربی زبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب ہے) منظر عام پر آئی، تو میں آپ کے گھر مہمان بنا، اور اس میں شامل آپ کا تعارف پڑھ کر سنایا، تو گویا ہوئے، چلیے آپ نے ایک کام کر دیا، اب جو بھی میرے بارے میں لکھے گا، اس کو یہیں سے روشنی فراہم ہوگی، اور ایک آدھ آدمی نے لکھا بھی، تو یہیں سے اکتساب کیا، مگر حوالہ نہیں دیا۔
مولانا اپنی زندگی کے آخری چند سال سے بیمار رہنے لگے تھے، سب سے پہلے آپ پر فالج کا حملہ ہوا، پھر ذیابیطس کی بیماری نے آ گھیرا، مزید آنکھوں کی بینائی چلی گئی، اور پڑھ لکھ پانے سے محروم ہو گئے، صرف اس حد تک بینائی باقی تھی کہ لوگوں کو دیکھ اور پہچان سکیں۔ پھر آہستہ آہستہ ہاتھ پیر نے کام کرنا بند کر دیا، اور آپ صاحبِ فراش ہو گئے، اس حال میں جب بھی آپ سے ملنا ہوتا تو یقین نہیں آتا کہ یہ وہی انسان ہے، جس کو کبھی اسٹیجوں پر گرجتے اور مترادفات کی جھڑیاں لگاتے دیکھا تھا، مگر قضائے الٰہی کے آگے سب فیل ہے۔ آپ کا علاج ومعالجہ لوگوں کے مشوروں کے مطابق ہمیشہ چلتا رہا، مگر افاقہ کے بجائے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بالآخر یکم رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۳؍ اپریل ۲۰۲۲ء، اتوار کو دوپہر دو بج کر پینتالیس منٹ پر آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔تدفین دوسرے دن (۲؍ رمضان المبارک ۱۴۴۳ھ مطابق ۴؍ اپیل ۲۰۲۲ء، بروز سوموار، بوقت ۹؍ بجے صبح) اُن کے گاؤں کے قبرستان میں ہوئی، جنازے کی نماز میں علماء وعوام اور شاگردان کی بڑی تعداد نے شرکت کی، نماز جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق دیرینہ ہمدم مولاناعبدالعلیم مدنی (شیخ الحدیث، جامعہ امام ابن باز الاسلامیہ)نے پڑھائی۔
اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل
احباب زیرِ خاک سلا کر چلے گئے
آپ کا گھر اولاد واحفاد اور نواسے نواسیوں سے پُر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی لغزشوں کو معاف فرمائے، نیکیوں اور عبادات کو شرفِ قبولیت بخشے اور جنت الفردوس میں داخل کرے۔ آمین
الحمد للہ حرف بحرف پڑھابہت ہی معلومات خیزباتیں معلوم ہوئیں،اللہ مزید توفیقات وعنایات سےنوازتےرہے۔
کیا خوب لکھتے ہیں استاذی!
بلا شبہ وہ ایک عظیم محرر تھے۔
صدائے حق میں ان کی کئی تحرییں پڑھیں
ان شاءاللہ یہ تحریر ”دامن کوہ میں کاروان رفتگاں“ کی دوسری جلد میں ضرور آئے گی۔
اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے آمین یا رب العالمین۔
کیا خوب لکھتے ہیں استاذی!
بلا شبہ وہ ایک عظیم محرر تھے۔
صدائے حق میں ان کی کئی تحرییں پڑھیں
ان شاءاللہ یہ تحریر ”دامن کوہ میں کاروان رفتگاں“ کی دوسری جلد میں ضرور آئے گی۔
اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے آمین یا رب العالمین۔