بات تقریبا 18 سال پرانی ہے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ سے فراغت کے بعد میں جب ہندوستان لوٹ کر آیا تو ایک شوق تھا کہ جنوبی ہند میں تاریخ اہل حدیث سے متعلق اوراق پارینہ کو یکجا کیا جائے۔
(اس وقت تک تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو از مولانا عبدالوهاب جامعی حفظہ اللہ شائع نہیں ہوئی تھی) ابتدائی کوشش کے باوجود اللہ کی مرضی کہ بوجوہ یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ پایا۔
تاہم اس دوران جو اکا دکا تحریریں ملیں اور قدیم اہل حدیث آبادیوں میں جن حضرات سے شخصی ملاقاتیں ہوئیں ان کی روشنی میں ایک بات نظر میں آئی کہ اکثر لوگ جنوبی ہند میں اہل حدیث کی دعوت کو تحریک شہیدین(سید احمد 1786ء-1831ء اور شاہ اسماعیل 1779-1831ء رحمہما اللہ) سے جوڑتے ہیں اور جنوب کے علاقہ میں اتباع کتاب و سنت کی اس دعوت کو معرکہ بالاکوٹ (1831ء) کے بعد اس تحریک سے جڑے مجاہدین کے زیر زمین ہوجانے اور پھر دعاة کی حیثیت سے دعوت و تبلیغ کے میدان کو اپنی کوششوں کا مرکز و محور بنالینے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ جنوبی ہند میں یہ دعوت بس اتنی ہی قدیم ہے۔
یہ بات میرے لیے قابل ہضم نہیں تھی جس کی کئی معقول وجوہات تھیں اور سرسری جائزہ ہی سے کئی ایسے شواہد ملے تھے جو بتلا رہے تھے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سردست ان وجوہات و شواہد کی تفصیل کی یہ تحریر متحمل نہیں ہے۔
بات تحقیق طلب تھی مگر جیسا کہ عرض کیا بوجوہ آگے نہ بڑھ سکی۔ انتظار ہی تھا کہ کبھی اللہ مجھے ہی توفیق دے یا پھر اللہ کا کوئی بندہ اپنی تحقیق سے اس حقیقت سے پردہ اٹھادے۔
اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ ابھی چند دن قبل تامل ناڈو کے معروف شہر ویلور کے ایک اجلاس میں شرکت کا موقعہ ملا جس کی ایک اہم کڑی مولوی محمد انعام الحق عمری کی تازہ تصنیف “ریاست تاملناڈو میں مسلک اہل حدیث کے علمبردار اربابِ فضیلت اور اصحابِ ثروت” کا اجراء بھی تھی۔
مؤلف نے بڑی جانفشانی سے تاریخ کی بکھری کڑیوں کو باہم جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تاہم یہ نقشِ اول نقشِ ثانی کا بھی متقاضی ہے کہ
نقاش نقش ثانی بہتر کشد ز اول
مؤلف کتاب ہذا نے بھی میسر حوالہ جات کی روشنی میں اس تحریک کے داعی کے طور پر سب سے قدیم جس شخصیت کا تذکرہ کیا ہے وہ سید محمد علی رامپوری رحمہ اللہ ہیں جو پہلے پہل ١٢٤٥ھ مطابق 1829ء میں مدراس آئے تھے۔ (یعنی آج سے تقریبا دو سو سال قبل)
کتاب پر تبصرہ کے دوران مجلس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ جنوب میں دعوتِ اتباعِ کتاب و سنت کی قدامت کے سلسلے میں تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ایسے کئی تاریخی شواہد موجود ہیں جو بتلاتے ہیں کہ اتباع کتاب و سنت کی دعوت جنوبی ہند میں اس سے زیادہ قدیم ہے، تحریک شہیدین کے دعاة نے ضرور اس کی تاریخ میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے تاہم یہ دعوت محض ان کی کوششوں کی مرہون منت نہیں ہے۔
مولانا حافظ ابوبکر زہیر عمری حفظہ اللہ نے بھی بڑے مفید اضافے فرمائے اور کئی مستند حوالے پیش کیے۔
اس سلسلے میں جو حوالے پیش ہوئے ان میں سے چند یہاں درج کیے جارہے ہیں:
1۔ سید محمد علی رامپوری رحمہ اللہ پہلے داعی نہیں تھے بلکہ ان سے پہلے ایک اور شخصیت سید احمد علی صاحب کی تھی جنھوں نے ١٢٤٠ھ میں تاملناڈو کے علاقہ میں کام کیا تھا۔
2. اس بات کے بھی شواہد ہیں کہ جب سید محمد علی رامپوری آئے اور مدراس میں اپنے دروس کا آغاز کیا تو آپ کے خلاف یہ بات عام کی گئی کہ یہ”تقویة الإيمان” کی تعلیمات کو عام کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کی شدید مخالفت ہوئی یہاں تک کہ ان کی جان پر بن آئی۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مدراس آنے سے پہلے ہی اتباع کتاب و سنت اور رد بدعت کی یہ دعوت لوگوں میں معروف تھی اور اس دعوت کے خلاف برگشتگی کا ایک رمز تقویة الإيمان اور اس کے مضامین بھی تھے۔
3۔ مدراس کی بعض قدیم اہل حدیث مساجد کے کتبہ جات اور ان مساجد سے متعلق سرکاری کاغذات میں جہاں ان کی قدامت کے ثبوت ہیں وہیں یہ صراحت بھی ہے کہ یہ اہل حدیث مسجد ہے۔ بطور نمونہ دیکھیں کہ مدراس میں مُتْيال پیٹ کی مسجد اہل حدیث کا سن تعمیر ١١٩٦ھ 1782ء درج ہے اور مسجد یعقوبیہ پٹالم مدراس کا سن تعمیر ١٢١٦ھ 1801ء درج ہے۔
4۔ جنوبی ہند میں جو مقامات اہل حدیثوں کے وجود کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ان میں سے ایک بستی پرنامبٹ ہے، جو عمرآباد سے تقریبا 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس بستی کی سب سے قدیم اہل حدیث مسجد چھوٹی مسجد سن ١٢٢٠ھ 1805ء کی تعمیر شدہ ہے اور اسی مسجد کے حوالے سے گلی کا نام چھوٹی مسجد گلی ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ ان مسجدوں کے وجود سے قبل اتباع کتاب و سنت کی اس دعوت کو اپنے قدم جمانے اور اس قدر مستحکم ہونے میں کہ باقاعدہ مسجد بھی تعمیر کر لے جائیں ایک طویل عرصہ لگا ہوگا۔ اس حساب سے دعوت کی تاریخ مساجد کی تاریخ سے زیادہ قدیم ہے۔
گویا یوں سمجھیں کہ ہم ان معلوم حوالہ جات کی روشنی میں یہ تو طے کرسکتے ہیں کہ جنوب میں اس دعوت کا وجود تحریک شہیدین سے بہت پہلے سے ہے لیکن یہ پہلو ابھی تحقیق طلب ہے کہ اس کا آغاز کب سے ہے؟؟
اس سلسلے میں تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو از مولانا عبدالوهاب جامعی حفظہ اللہ، اسی طرح جنوبی ہند کی تاریخ اہل حدیث سے دلچسپی رکھنے والی بعض علم دوست شخصیات اور ساتھ ہی کئی ایک زبانی شہادتیں جو بعض مساجد کی قدامت کے سلسلے میں تین سو سال سے زیادہ کا عرصہ بتلاتی ہیں اور ان کے علاوہ دیگر اور کئی ایسے حوالے ہیں جن کی مدد سے یہ نیک کام اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی دیوانے کے سر میں یہ سودا سما جائے۔
سردست اپنی اس تحریر کو اس اعتراف کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ جنوبی ہند میں تاریخ اہل حدیث کے آغاز کے حوالے سے کوئی حتمی تاریخ متعین کرنا بہت مشکل ہے، تاریخی تسلسل کی بات نہ ہو تو یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ عہد نبوی میں مالابار کے ساحل پر آنے والے عرب تاجروں سے ہی اس دعوت کا آغاز ہوا ہے۔
تاہم تاریخ کے اب تک میسر حوالوں کی بات ہو تو اس میں بس چند مٹے مٹے سے نشان ضرور ملتے ہیں جو بتلاتے ہیں کہ
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
حوصلہ افزا کلمات پڑھ کر حافظ صاحب کے لئے دل سے خوب دعائیں نکلیں، مختصر مگر جامع تحریر ہے، میں نے کتاب میں اعتراف بھی کیا ہے اور توجہ بھی دلائی ہے کہ شعبۂ نشر و اشاعت کی اہمیت نہ ہونے کی وجہ تاریخ کی کئی کڑیاں گم ہیں، حتی کہ جنوبی ہند میں مولانا رامپوری رحمہ اللہ تا حال بھی درمیان میں ایک دو کڑی ندارد۔
ایک بار پھر حافظ عبدالحسیب صاحب کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس جانب توجہ دی
ماشاء الله تبارك الرحمن اللهم زد فزد وتقبل الله جهود شيخنا الفاضل وأخونا الغالي ونفع الله به أمة الإسلام والمسلمين وجزى الله عنا خير الجزاء….
*جنوبی ہند میں دعوت کتاب وسنت کی قدامت* 🖊️: مولانا عبدالوهاب عبدالعزیز جامعی حفظہ اللہ (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا) آج صبح مؤرخہ 2022-9-8 کو ہمارے نوجوان فاضل عالم دین شیخ حافظ عبدالحسیب عمری مدنی حفظہ اللہ کا ایک مضمون “جنوبی ہند میں قدامت اہل حدیث کے چند مٹے مٹے سے نشان” نظر سے گزرا۔ صحیح بات یہی ہے کہ تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند پر اب تک شائع شدہ کتب، رسائل، مقالے، مراسلے، مکتوبات کا مطالعہ کیا جائے تو بادی النظر میں یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہاں کتاب وسنت کی دعوت کا آغاز تحریک… Read more »
4) اسی طرح شہر کولہاپور (مہاراشٹرا) میں بھی جو قدیم مسجد اہل حدیث ہے اس پر بھی یہی عبارت کندہ ہے۔ دونوں مساجد کے بانی ایک ہی صاحب خیر ہیں۔ اس وقت یہ مسجد اپنی اصلی حالت پر ہے۔ 5) ابھی چند دنوں بیشتر اخبار اہل حدیث امرتسر میں شہر مدراس کے علماء کرام میں ایک نیا نام مولانا احمد علی کا دیکھا جو مولانا سید محمد علی رامپوری کے مدراس آنے سے پہلے داعئ کتاب و سنت تھے۔ یہ میرے لیے ایک نئی دریافت تھی پھر اب مذکورہ بالا مضمون میں مولانا حافظ ابوبکر زہیر عمری حفظہ اللہ کے… Read more »
*جنوبی ہند میں دعوت کتاب وسنت کی قدامت* 🖊️: مولانا عبدالوهاب عبدالعزیز جامعی حفظہ اللہ (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث کرناٹک و گوا) آج صبح مؤرخہ 2022-9-8 کو ہمارے نوجوان فاضل عالم دین شیخ حافظ عبدالحسیب عمری مدنی حفظہ اللہ کا ایک مضمون “جنوبی ہند میں قدامت اہل حدیث کے چند مٹے مٹے سے نشان” نظر سے گزرا۔ صحیح بات یہی ہے کہ تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند پر اب تک شائع شدہ کتب، رسائل، مقالے، مراسلے، مکتوبات کا مطالعہ کیا جائے تو بادی النظر میں یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہاں کتاب وسنت کی دعوت کا آغاز تحریک… Read more »
ماشاء الله تبارك الله
ماشاءاللہ تبارک اللہ
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی