آزاد شناسی کا ایک اور در کھلا: التذکرہ لأولی العزم من أعلام الأمۃ فی التاریخ

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

’’عالمی ادب کے تصور کو ایک ٹھوس حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ترجمہ ایک ناگزیر وسیلہ ہے‘‘۔(البرٹ گیرارڈ)

کچھ ’تذکرہ‘کے بارے میں
ایک صدی پرانی بات ہے،23 ؍مارچ 1916کوبنگال حکومت نے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت مولانا ابوالکلام آزاد کو ایک ہفتے کے اندر حدود بنگال سے باہر چلے جانے کا حکم نامہ جاری کردیا تھا، پنجاب اور یوپی کی حکومتیں پہلے ہی اپنے ہاں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے چکی تھیں،اسی لیے انھوں نے رانچی(جھارکھنڈ کی راجدھانی ) کے باہر ایک گاؤں مورا بادی میں پناہ لے لی۔ مولانا کی زندگی میں قیام رانچی کوغیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ علمی نشاطات کے اعتبار سے یہ نظر بندی(جو بعد میں قید میں بدل گئی تھی)کافی بابرکت ثابت ہوئی جس کی تفصیل مولانا سے متعلق کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔مولانا کی مشہور تصنیف ’تذکرہ‘ اسی شہرکی یادگار ہے جس کو مولانا کے تخلیقی سفر میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ ہوا یوں کہ مولانا کے ہم دم دیرینہ فضل الدین احمد مرزا(جو الہلال و البلاغ کے مہتمم بھی تھے) نے مولانا سے آپ بیتی لکھنے کی درخواست کی، دوست کا دل رکھنے کے لیے مولانا نے اپنے اجداد کی کہانی کو غیر مرتب انداز میں کاغذ پر اتارنا شروع کیا تو تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک درخشاں باب تیار ہوگیا، لیکن مرزا صاحب کی خواہش کے مطابق مولانا کی آپ بیتی وجود میں نہ آسکی بس اس کی ایک جھلک ہی آپائی، اسی لیے اس کو اجداد بیتی بلکہ اسلاف بیتی کہنا زیادہ بہتر ہوگا، خیر جو بھی ہو لیکن پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور بار بارپڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ
پڑھتے رہو ہمیں کہ ہمارا مطالعہ
شاید غبار دیدۂ بینا نکال دے
(فضا ابن فیضی)
’تذکرہ ‘کی اشاعت پر ایک صدی کا عرصہ بیت چکا ہے، تب سے آج تک اس کی قرأت کے ساتھ تحلیل، تجزیے اور نقد و نظر کابھی سلسلہ جاری ہے۔ اس کی زبان، اسلوب اور مشتملات کے حوالے سے ڈھیر ساری گفتگو ہوچکی ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کا اسلوب مولانا کا مثالی اسلوب نہیں ماناجاتا ہے، اس میں تکرار کے ساتھ ارتباط و ترتیب کا فقدان بھی ہے، خاص طور پر کتاب کا آخری حصہ جو مولانا کے ذاتی کوائف پر مشتمل ہے اس کو ’اردو رسم الخط میں عربی کتاب‘ اور ’فارسی گزیدہ نثر‘ تک کہا گیا اور یہ کہنا بیجا بھی نہیں ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ مولانا نے اپنے سن پیدائش کا جس انداز سے تذکرہ کیا ہے: ’’اب لوگ اس طرح نہیں لکھتے۔ اس طرح پیدا بھی نہیں ہوتے۔ اتنی خجالت، طوالت و اذیت توآج کل سیزیرین پیدائش میں بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘ یہاں تک تو درست تھا لیکن اردو کے ایک پروفیسر نے ’تذکرہ‘ کو ’انتشارِ ذہنی کا اقرار نامہ‘ قرار دیا تو مجھے مرحوم شمس الرحمان فارقی یادآگئے اور اسی کے ساتھ ان کا مشہور زمانہ قول جو انھوں نے اردو کے پروفیسروں کے بارے میں کہا تھا۔ اسی پر بس نہیں، پروفیسر موصوف نے ’تذکرہ‘ میں مولانا کی تحریر’اعتذار‘ کی روشنی میں معاصر حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جب ایسے حالات تھے تو اتنے اہم موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ اب اس بیچارے پروفیسر کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ قلم سے لکھا ضرور جاتا ہے، لیکن بقول منور رانا’’قلم سے پاجامے میں ناڑا ڈالنے کا کام بھی لیا جاتا ہے‘‘ اور مذکورہ پروفیسر کے لیے قلم کا بہترین استعمال یہی ہے۔
مولانا آزاد عالم عرب میں:ردالجمیل بالجمیل
مولانا آزاد کی شخصیت عالم عرب میں محتاج تعارف نہیں ہے، ان کی شخصیت اور فکر کی تفہیم کا سلسلہ بہت پہلے سے جاری ہے،عربی مجلہ’الجامعۃ‘ (اجرا:1923)کے توسط سے ان کے افکارسے عالم عرب متعارف ہوچکا تھا، ’مسئلہ خلافت‘ پر ان کی گراں قدر علمی تحریر کا عربی ترجمہ مجلہ المنار (مدیر:رشید رضا مصری) میں شائع ہوا تھا۔ آزاد ہندستان میں وزارت تعلیم کا قلم دان سنبھالنے کے بعد، عرب دنیا سے ثقافتی تعلقات استوار کرنے کے لیے مولانا نے ’مجلۃ ثقافۃ الھند‘ کا اجراکیا تو اس کے ذریعے بھی عرب قارئین کو مولانا کے افکارو خیالات سے آگاہی ہوئی۔ پروفیسر نثار احمد فاروقی کی ذاتی دلچسپی اور محنت سے اس مجلے کادوجلدوں پر مشتمل ایک وقیع نمبر مجلۃثقافۃ الھند:عدد ممتازبمناسبۃ المئویۃ الأولی لمولد مولانا أبی الکلام آزاد (المجلس الھندی للعلاقات الثقافیۃ، آزاد بھون،نیو دلھی) شائع ہوا تھا، جس نے عرب دنیا میں تفہیم آزاد کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا۔ ڈاکٹرعبد المنعم النمرکی کتاب ’مولانا ابوالکلام آزاد:المصلح الدینی و الزعیم السیاسی فی الھند‘نے مولانا کے تعارف میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ احمد حسن الباقوری اورانورالجندی جیسے اہل قلم نے بھی مولانا کی علمی اور سیاسی زندگی کے متنوع گوشوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
مولانا کی کتابوں کے عربی ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔’غبار خاطر‘کو جلال سعید الحفناوی نے ’غبارالخاطر‘کے نام سے عربی قالب عطا کیا ہے ۔ ڈاکٹر نبیلہ یوسف الزواوی نے India Wins Freedom کا ترجمہ’ الھند تظفر بالحریۃ ‘ کے نام سے کیا تھا جس سے مولانا کی ادبیات شناسی اور سیاست کی حرکیات سے آگاہی سے متعلق اہم گوشے عرب قارئین کے سامنے آچکے ہیں۔ ’تذکرہ‘ بھی کسی محب آزاد کے انتظار میں تھی جو اس کو عربی دنیا کے قارئین کے سامنے پیش کر سکے کیونکہ اس کا ایک حصہ اس خطے کی شخصیات کی دعوت و عزیمت اورایثارو استقامت کی ایمان افروز اور روح پرور داستان پر بھی مشتمل ہے ۔انھوں نے اس کتاب میں امام احمد بن حنبل اورامام ابن تیمیہ کی شخصیت کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، ہوسکتا ہے، بہت سے آزاد شناسوں کی نظر میں اس کی اہمیت نہ ہو لیکن فکر آزاد سے اگر اس باب کو علاحدہ کردیا جائے تو آزاد شناسی کی جو تصویر بنے گی وہ نامکمل ہونے کے ساتھ Misguiding بھی ہوگی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ضروری تھا کیونکہ مولانا کی فکر کا ایک گوشہ جو تذکرہ کے ورق در ورق پر پھیلا ہوا ہے، اس سے بھی عالم عرب کاتعارف ضروری تھااور اس اہم کام کے لیے شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اللہ سے بہتر کون ہوسکتا تھا؟ کیونکہ ’تذکرہ ‘میں سب سے طویل سوانح شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی ہے اور مولانا آزاد ان سے کافی متاثر تھے۔ مترجم کا شمارہندستان کے ان عربی قلم کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے موجودہ دور میں ابن تیمیہ کے افکار کی تفہیم میں، قابل تحسین کردار ادا کیا ہے ۔اس موضوع پر ان کی دو کتابیں شائع ہوچکی ہیں:
٭دعوۃ شیخ الاسلام و أثرھا فی الحرکات الإسلامیۃ المعاصرۃ(الطبعۃ الثالثۃ)دار لطائف بالکویت
٭معارف شیخ الاسلام ابن تیمیۃ:معالم الانطلاقۃ الکبری للاصلاح و التجدید،دار ایلاف الدولیۃ بالکویت
کچھ مترجم کے بارے میں
شیخ صلاح الدین کا تعلق فضلائے جامعہ سلفیہ (بنارس)کی اس نسل سے ہے جن کی ذہانت و طباعی نے اس درس گاہ کو وقار و اعتبار بخشا تھا۔ان کا علمی سفر نصف صدی پر مشتمل ہے، دینیات ان کا اختصاص ہے لیکن ادبیات سے غیر معمولی انسلاک ہے۔ ان کے تخلیقی سفرکی ایک جہت ہند۔ اسلامی ادبیات کے عالم عرب میں تعارف پر مشتمل ہے، جس کا آغاز ستر کی دہائی میں ہوا تھا جب انھوں نے چند رجال اہل حدیث پر مختصر مقالے قلم بند کیے تھے جو جامعہ کے عربی مجلے میں شائع ہوئے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور مضامین نو کے انبار لگاتے چلے گئے، زیر تبصرہ کتاب کے آخر میں ان کی علمی فتوحات کی جو تفصیل درج ہے اس کے مطابق تحقیق،تخلیق اور ترجمے میں ان کے انتاجات کی تعداد تیس تک پہنچتی ہے جب کہ یہ فہرست مکمل نہیں ہے۔ آج سے بیس (20)سال قبل،ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نے ان کی کتاب’زوابع فی وجہ السنۃ قدیما وحدیثاً‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے جو کچھ لکھا تھا میں اس پر کسی اضافے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہوں:
’’مؤلف ھذا الکتاب أخونا الشیخ صلاح الدین مقبول أحمد من الشباب الذین تخرجوا فی الجامعۃ السلفیۃ ببنارس، وآثرواخدمۃ علوم الکتاب والسنۃ علی متع الحیاۃ الأخری، وتجرّدوا للبحث العلمی مع الإدراک بما فی ھذاالطریق من العناء والمشقۃ۔وفقہ اللہ تعالی للالتحاق بالجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ وبعد الانتھاء من الدراسۃ أکبّ علی المطالعۃ والبحث، وقام بالتدریس والدعوۃ فی دولۃ الکویت ،فأتحف المکتبۃ الاسلامیۃ بعدۃ مؤلفات قیمۃ وتحقیقات علمیۃ نافعۃ فی علوم السنۃ الشریفۃ. تأثیرہ فی شباب الکویت ملموس وجھودہ مشکورۃ فی توجیھھم الی الوجھۃ السلیمۃ وتبصیرھم بالاتجاھات المعادیۃللسنۃ وبالشخصیات التی جنت علی الحدیث الشریف باسم العلم والتحقیق، فجزاہ اللہ تعالی عناوعن العلم خیرا الجزاء وکثرأمثالہ فی الأمۃ الاسلامیۃ۔‘‘(مجلہ المنار،ندوۃ الطلبہ، جامعہ سلفیہ، بنارس،1992)
گزشتہ دو دہائی کے دوران شیخ صلاح الدین نے تحقیق و تصنیف اور ترجمہ نگاری کے میدان میں قابل قدر اضافہ کیا ہے جس کا تازہ ثبوت ’تذکرہ‘ کا ترجمہ ہے جو انھوں نے ’التذکرہ لأولی العزم من أعلام الأمۃ فی التاریخ‘ کے نام سے کیاہے جس کی اشاعت سوم (دار الثقافۃ للبحوث والدراسات،نیودلھی 2022) میرے سامنے ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن2021 میں دارایلاف الدولیۃ للنشر والتوزیع بالکویت سے منظر عام پر آیا تھا جس سے اس ترجمے کی مقبولیت کا اندازہ لگایاجاتا ہے۔645 صفحات پر مشتمل اس ترجمے میں مترجم نے ترجمۃ اما م الھند ابوالکلام آزاد:مآثرہ العلمیۃ الخالدۃ وأعمالہ السیاسیۃ الرائدۃ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مقدمہ (ص11 تا118)زیب قلم کیا ہے، جس میں مولانا آزاد کی شخصیت اور سیرت کے متنوع گوشوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ، صحافت، سیاست اور تصنیف و تالیف کے میدان میں ان کی گوناگوں خدمات کے بارے میں جو کچھ قلم بند کیا ہے وہ معلومات افزا ہے اور دل چسپ بھی۔ انھوں نے مولانا کی شخصیت کے ان گوشوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جن کی طرف آزاد پر لکھنے والوں نے کم توجہ دی ہے۔ خانقا ہی ماحول میں آنکھ کھولنے والا’فیروز بخت‘، جب ابن تیمیہ کی علم افروز اور ایمان پرورمجلس میں حاضر ہوتا ہے تو تقلید و تصوف کی زنجیروں کو توڑ کر کس طرح ’آزاد‘ ہوجاتا ہے، اس کی طرف مترجم نے سلیقے سے اشارہ کیا ہے۔ یہ مقدمہ الگ سے اما م الھند ابوالکلام آزاد(وزیر التعلیم الأول بعد استقلال الھند):مآثرہ العلمیۃ والسیاسیۃ کے نام سے شائع ہونے والا ہے جس کو آزاد شناسی کے باب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
کچھ ترجمہ کے بارے میں
فن ترجمہ، ایک وسیع دنیا کا نظارہ کرنے کے لیے کھڑکی فراہم کرتا ہے، اس سے قاری کی ثقافت وسیع ہوتی ہے اور زبان کا دامن بھی، لیکن یہ فن بڑی ریاضت چاہتا ہے، اسی لیے ترجمہ کو تخلیق سے مشکل عمل بھی کہاجاتاہے کیوں کہ اس میں مترجم کو تخلیق کار کے خیالات کی ترسیل کا کام انجام دینا ہوتا ہے۔شاید اسی لیے امریکی علمی حلقوں میں ترجمہ کے لیے Recreation کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تکنیکی، معلوماتی اور سائنسی موضوعات کے مقابلے میں تخلیقی ادب کا ترجمہ زیادہ دشوار ہوتا ہے اور یہ عمل اس وقت دشوار تر ہوجاتا ہے جب ’تذکرہ‘جیسا تخلیقی فن پارہ سامنے ہو۔ اس فن کے ماہرین نے لکھا ہے کہ مترجم کے لیے Source Language اورTarget Language میں مہارت کے ساتھ ان کے مزاج کا یکساں شعور، تہذیبی روایات، سماجی رشتوں اور محاورات سے اچھی واقفیت ضروری ہے۔مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی سنکوچ نہیں ہے کہ’تذکرہ‘ کا مترجم ان صفات کا حامل ہے۔ ان کی مادری زبان اردو ہے، عربی انھوں نے اس فن کے ماہر اساتذہ سے سیکھی ہے۔ ایک زمانے تک سعودی عرب اور کویت میں قیام اور یہاں کے ارباب دانش سے تعلقات نے ان کی فکر کو وسعت عطا کرنے کے ساتھ، عربی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کا موقع بھی عطا کیا ہے جو ان کے انتاجات میں جلوہ گر ہے اوراس کی ایک جھلک ترجمے میں بھی نظر آتی ہے۔ متن اور ترجمہ ایک ساتھ پڑھتے وقت قارئین کواندازہ ہوگا کہ مترجم نے متن کی معنویت کے ساتھ جمالیا تی فضا اور لسانی سطح کو بھی محتاط طریقے سے منتقل کرنے کی کوشش کی ہے، ترجمے میں زبان و بیان کا جوحسن ہے وہ قابل تعریف ہے، ترجمے کی عبارت میں پیچیدگی یا بوجھل پن نہیں ہے، جب کہ ’تذکرہ‘ کے طول طویل جملے، بوجھل اور غیرمانوس ترکیب، ورق در ورق پھیلے ہوئے فارسی اور اردو کے اشعار کا ترجمہ کرتے وقت دانتوں سے پسینہ آجاتا ہے، لیکن مترجم اس مشکل رہ گزر سے بھی کام یاب گزرے ہیں جو ان کی غزارت علمی کا شہادت نامہ ہے۔
مترجم نے بین یدی الکتاب(ص:5 تا8) میں نقل الکتاب الی العربیۃ وصعوبتہ اور أمور لابد من توضیحھا کے ذیلی عناوین سے ترجمے کے اسلوب اورطریقے کو بیان کردیا ہے جس سے ترجمے کی خصوصیت اور انفرادیت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے:
٭مترجم نے ہر بحث کو ذیلی عنوان سے سجایا ہے اور ہر ایک عنوان[]کے اندر ہے تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ پیدا ہونے پائے۔
٭انھوں نے موقع محل کے لحاظ سے تعلیقات اورحواشی کا اضافہ بھی کیا ہے جو کہیں وضاحت کے لیے ہیں اور کہیں تنقید و تعقیب اور تنبیہ کے لیے، اس کے آخر میں (صلاح) لکھ دیا ہے تاکہ مولاناآزادیامالک رام کے حواشی سے گڈ مڈ نہ ہونے پائے۔
٭انھوں نے اشعار کا ترجمہ توکیا ہے لیکن جہاں جہاں اشعار کے ترجمے سے عبارت میں خلل پیدا ہوتا تھا،اشعار کا ترجمہ حذ ف کردیا ہے لیکن اس کی وجہ سے متن کا مفہوم متاثر نہیں ہورہا ہے۔
٭محمداسحا ق بھٹی نے لکھا ہے کہ ’’ہم ’وہابی‘ ٹھہرے، جب تک اپنے مسلک کی بات نہ کرلیں، تسلی نہیں ہوتی ہے۔‘‘(بزم ارجمنداں،ص:49،الکتاب انٹر نیشنل ،نئی دہلی ، 2005) مترجم کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہیں، اسی لیے منہج کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں کہیں ان کو کوئی بات اپنے منہج کے خلاف نظر آئی، اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ دہلوی،شاہ اسما عیل شہید دہلوی،سید نذیرحسین محدث دہلوی اورقصوری خاندان وغیرہ کے بارے میں ان کی تنبیہات اور تعلیقات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
علم و فن اور حرف و ہنر کی وادی میں کوئی تحریر حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی ہے، بلکہ ہر آنے والا اپنی فکروفہم کے مطابق اس میں اضافہ کرتا ہے حتی کہ ایک مصنف ؍مترجم جب اپنی تخلیق اور ترجمے کو چھپنے کے بعد پڑھتا ہے تو اس کو مزید بہتر کردیتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ’ نقاش نقش ثانی بہتر کشد زاول‘ اور یہ بات مترجم پر بھی صادق آرہی ہے مجھے یقین ہے کہ یہاں پر جو ملاحظات پیش کیے جارہے ہیں، وہ ان کے سامنے آچکے ہوں گے پھر بھی ایک تبصرہ نگار کی ذمے داری کا ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہوئے چند باتوں کی طرف اشارہ کردینا ضروری سمجھتا ہوں:گر قبول افتد زہے عز و شرف
٭مترجم نے مولانا کی صحافت کے ضمن میں ’الجامعۃ‘پر گفتگو کرتے ہوئے اس کو’’ہندستان کا پہلا عربی صحیفہ‘‘(ص:40)قرار دیا ہے جو محل نظر ہے، کیوں کہ اس سے قبل ہفتہ وار’النفع العظیم لأھل ھذا الاقلیم‘،لاہور(1871،مدیر:شیخ مقرب علی) اورماہنامہ ’البیان‘ لکھنؤ (1902 مدیر: عبداللہ عمادی) منظر عام پر آچکے تھے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:تاریخ صحافت اردو ،ج:دوم، امداد صابری، الصحافۃ العربیۃ فی الہندنشأتھا وتطورھا،پروفیسر محمد ایوب ندوی)
٭مترجم نے مولانا کے مشہور زمانہ خطاب کا بھی عربی ترجمہ کیا ہے اور خوب کیا ہے، لیکن یہ ترجمہ کتاب میں جس جگہ پر موجود ہے، اس کی وجہ سے ترتیب متاثر ہورہی ہے اور ’قضیۃ منصب امام الھند‘ اور ’مناصبہ السیاسیۃ قبل استقلال الھند و بعدہ‘کے درمیان (ص:70 تا75)، اورمذکورہ خطبے کا ترجمہ دیکھ کر قاری اچنبھے میں پڑسکتا ہے۔ اس کو ضمیمہ، مقدمے کے آخریا عبقریتہ فی الخطابۃ(ص:31) کے آخرمیں خطابت کے نمونے کے طور پر بھی رکھا جاسکتا تھا۔
٭املا میں یکسانیت کا مسئلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی الجھا ہوا ہے اور یہ کتاب بھی اس سے الگ نہیں ہے۔کتاب میں ایک ہی مقام کا الگ الگ املا گراں گزرتا ہے، اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر: رام کرہ(ص:56) رام جرہ(ص:59) لکناؤو(ص:34)لکناؤ(ص:47)، رانجی (حاشیہ، ص:561) رانشی (568) میں صحیح اور غلط کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن یکسانیت ضروری ہے۔
٭اسی طرح مناصب لکھنے میں بھی یکسانیت نہیں ہے، جیسے راجندر پرشاد(رئیس جمھوریۃ الھند)،رادھا کرشنن(نائب رئیس الجمھوریۃ) ذاکر حسین (رئیس جمھوریۃ الھند سابقاً) لکھا گیا ہے جب کہ مذکورہ بالا تینوں شخصیات ہندستان کے صدر جمہوریہ کے منصب پر فائز رہ چکی ہیں اور آخر الذکر دونوں نائب صدر رہ بھی رہ چکے ہیں، لیکن تینوں کے ساتھ الگ الگ منصب لکھا گیا ہے۔میرا خیال ہے کہ آخر الذکر شخصیت کے ساتھ جو لکھا ہے وہی دوسروں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
٭کہیں کہیں شخصیات کی تاریخ پیدائش و وفات لکھنے میں چوک ہوگئی ہے جیسے صفحہ (51)پرحکیم اجمل خان کی تاریخ وفات(1928 اور1977)لکھی گئی ہے جب کہ صحیح تاریخ وفات (1928)ہے۔
٭ایک اقتباس ڈاکٹر عابد حسین(1926-2012) کے حوالے سے نقل کیا گیاہے(ص:32)اس میں تاریخ پیدائش اور وفات کے ساتھ جو شخصیت معروف ہے ، وہ ایک معروف سفارت کار اور سول سرونٹ تھے جب کہ یہ اقتباس ڈاکٹر سید عابد حسین(1896-1978)کا ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی سے وابستہ تھے۔
٭پروف ریڈنگ کی اکا دکا غلطیاں بھی نظر آرہی ہیں جیسے تفسر(ص:45) حققۃ(ص:49) جس کو اگلے اڈیشن میں درست کیاجاسکتا ہے۔
کتاب کی طباعت نہایت عمدہ ہے، سرورق اورترتیب و تزئین قاری کی آنکھوں کو بھاتی ہے اور وہی پرانا جملہ دہرانے کو جی چاہتا ہے جو مہدی افادی مرحوم نے علامہ شبلی نعمانی کی کسی کتاب (غالباً المامون) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا:’عروس جمیل در لباس حریر‘۔
تبصرہ سمیٹ رہا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ ’تذکرہ ‘کی تصنیف رانچی کی نظر بندی(1916)اوراس کا ترجمہ Covid-19 کی تالابندی (2020)کے دوران ہوا جس کوایک خوش گوار اتفاق ہی کہاجاسکتا ہے اور ذرا یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہندستان میں ابن تیمیہ کے تعارف میں کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت (جن کو ’ہندستان کے ابن تیمیہ‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے)کی تصنیف ’تذکرہ‘کو عربی قالب عطا کرنے کا شرف ایک ایسی شخصیت کو حاصل ہورہا ہے جس کے انتاجات کے آسمان پر ابن تیمیہ شمس و قمر کی طرف چمک رہے ہیں۔ خواہش ہے اور دعا بھی کہ مترجم کا تخلیقی سفر مزید آب و تاب کے ساتھ جاری رہے اور ہند۔اسلامی ادبیات کے جواہر پاروں سے عرب قارئین کے فکری افق کو روشن کرتا رہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالمحسن

میری ناقص رائے کے مطابق، تذکرہ کا اسلوب ادبی ہے جبکہ مترجم حفظہ اللہ نے ترجمہ میں علمی اسلوب کو اپنایا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا جب اس کا ترجمہ بھی خالص ادبی اسلوب میں ہوتا۔