روایتی دین، تجدید اور تجدد پسندی (تیسری قسط)

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی فقہیات

روایتی دین، تجدید اور تجدد پسندی (پہلی قسط)

روایتی دین، تجدید اور تجدد پسندی (دوسری قسط)


تجدد پسندی:
عصر حاضر میں دین کی خدمت کے نام پر ایک طبقہ ظاہر ہوا جس کا منہج تجدد پسندی ہے، تجدد پسندی دین کے نام پر نئے افکار کو متعارف کروانے کا نام ہے اس طرح کہ اس کا ایک پہلو بظاہر دین سے جڑا بھی نظر آئے مگرساتھ ہی وہ ’روایتی دین‘ سے جدابھی نظر آئے۔ دین کی ایسی تعبیر وتشریح جس میں جدت اور نیا پن ہو اور اگر کسی حدتک انوکھا پن بھی ہوتو سونے پر سہاگہ،جسے پڑھ کریا سن کر لوگ کہیں: آج تک تو ہم نے ایسی تعبیر نہیں سنی تھی؟ آج تک کسی مولوی کو ایسا کہتے نہیں سنا؟ تجدد پسند زبان حال سے اس بات کے دعویدار ہوتے ہیں

وإني وإن کنت الأخیر زمانہ

لآت بما لم تستطعہ الأوائل

(میں زمانی اعتبار سے بعد میں آیا ہوں تاہم جو میں پیش کرسکتا ہوں وہ مجھ سے پہلے کسی کے بس کا نہیں تھا)

تجدد پسندی کا یہ رجحان کبھی دین کو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر اور کبھی نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے شبہات کے ازالہ کی کوشش کے نام پر تو کبھی اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب اور اسلام کے دفاع کے نام پر امت کے اندر اپنے وجود کے لیے اخلاقی جواز پیدا کرتا رہا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ بھی ہوا کہ عصر حاضر میں احیاء ملت کے نام پر اٹھنے والی بہت ساری تنظیموں نے اپنے افراد کی تربیت کی بنیاد علم پر نہیں رکھی۔ کچھ تنظیموں نے دین کی بعض منتخب باتوں کو اپنی کل دعوت کا محور بنایا تو بعض تحریکوں نے نوجوانوں میں جذباتیت اور دین پسندی کا ایک عمومی مزاج پیدا کیا، تاہم علم کی بنیاد پر نشوونما اور’العلم قبل القول والعمل‘ کے بنیادی اصول پر ان کی تربیت نہیں کی۔ اس طرح ایک علمی خلاء تھا جو ان دین پسند نوجوانوں کے اندر پایا جاتا تھا۔علم سے خالی ذہن بڑی ہی آسانی کے ساتھ عقلانیت کی طرف مائل بھی ہوتے ہیں اور اس کا شکاربھی ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس علمی خلا اورتشنگی کی بھر پائی کے لیے ان دین پسند نوجوانوں کے ذہن نے عقلانیت کی راہ کو شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا لیااوریوں تجدد پسندوں کے افکار کی کھیتی کے لیے زرخیز وہموار زمین فراہم ہوگئی،نوجوانوں کے ذہن کے اس علمی خلاء کی بھرپائی ان تجدد پسندوں کی فکری تحریروں نے کی۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک ملت اسلامیہ کی دینی تاریخ پر نظر رکھنے والاہر صاحب بصیرت بخوبی کرسکتا ہے ۔ اسی لیے عصر حاضر کے تجدد پسندوں کی پوری فہرست دیکھ لیجیے ان کے پیروکاروں میں مضبوط علمی بنیاد رکھنے والے مستند علماء خال خال ہی نظر آئیں گے اورجو نظر آئیں گے وہ بھی ان تجدد پسندوں کی کسی اور ادا کے مارے ہوں گے۔ کوئی کسی کی زبان سے تو کوئی کسی کے اسلوب بیان سے متاثر نظر آئے گا یا پھر چڑھتے سورج کے پجاریوں کی طرح کسی کی شہرت انھیں ان کا گرویدہ بنائے ہوئے ہوگی ۔

ان تجدد پسندوں کے سامنے ایک بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ تجدد پسندی کے نام پر ان نت نئے افکارکوجو ایک پہلو سے بظاہردین سے جڑے نظر آتے ہیں مگرساتھ ہی ’روایتی دین‘ سے جدابھی ہوتے ہیں کیسے سند جوازفراہم کریں ؟ یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا،اس لیے کہ کتاب وسنت اور ان سے استنباط واستدلال کو وہ طریقہ جو علماء امت کا خاصہ اور کتاب وسنت کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنے کا تقاضہ ہے اس سے ان تجدد پسندوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔قرآن وسنت کی استنادی حیثیت اور اصول فقہ اور اصول حدیث جیسے علوم آلہ سے عام طور پر ان کو کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ان میں سے اکثر کی عربی زبان سے واقفیت بھی عموما واجبی سی ہوتی ہے،وہ اکثر خود ساختہ تخیلاتی پیمانوں کی مدد سے تفہیم دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔

ایسی صورت میں ان حضرات کواپنے افکار کو اسلامیانے کے لیے اوران پر دین کا رنگ چڑھانے کے لیے ایک ہی پناہ گاہ نظر آتی ہے اور وہ ہے ’تجدید دین‘ کا سائبان یعنی تجدید دین کا یہ غلط مفہوم لیا جائے کہ دین میں جدت کی گنجائش ہے۔حالانکہ تجدد پسندی اپنی حقیقت اور اثرات کے اعتبار سے تجدید کی عین ضد ہے۔ تجدید اسی قدیم روایتی دین کی طرف لوٹنے اور لوٹانے کا نام ہے تو تجدد پسندی جدت کے نام پر فکری بدعت کا ۔

یوں لگتا ہے کہ ’تجدید‘ کے اصل کلمات ’جدد‘یا لفظ ’جدید‘سے ان حضرات نے یہ معنی لیا ہے کہ ہر دورمیں اسلام کی ایک نئی تعبیراور تفسیر ہوگی ۔ حالانکہ تجدید اپنے لغوی اور شرعی دونوں معنوں میں قدیم کو بحال کرنے اور فعال بنانے ہی کا نام ہے۔

دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے افکار کو علمی وشرعی اصولوں کی روشنی میں تولاجائے تو پھر ان افکار کا کھوٹا پن کھل کر سامنے آجائے گا اس لیے اس دین کو اور اس کے طے کردہ اصولوں کو ’روایتی‘ قراردے کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ نئے دور کے تقاضوں میں پرانے دور کے یہ اصول مفید اورکارگر نہیں ہیں۔ اسی لیے تجدید کے دعویدار ان تجدد پسندوں کی پوری فہرست دیکھ لیجیے وہ سب کے سب اس روایتی دین کے تئیں اس بنیادی مسئلہ اور سوچ میں متفق نظر آئیں گے کہ دین کی یہ روایتی تفسیر جدید دور کے لیے ناکافی ہے یا جدید دور سے ہم آہنگ نہیں ہے گرچہ اس نفی کے بعد جونئی تعبیر یا تفسیر وہ کریں گے خود ان کی اپنی ان فکری جدتوں کو دیکھیے تو وہ خود باہم مختلف اور بسا اوقات متضاد نظر آئیں گی۔

تجدد پسندوں نے ایک طرف تو یہ کیا کہ اپنی تجدد پسندی کو تجدیدکا نام دے کر سند جواز فراہم کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ وہ حقائق جن کے خلاف جاکر ان تجدد پسندوں نے نئی تعبیر اور نئی تفسیر ایجاد کی ان حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے دین اسلام کو ’ روایتی دین‘ اور اس کے اس حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلف صالحین کے پاس تھی ’روایتی فکر‘ کا نام دیا ۔

’روایتی فکر‘ کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کاطنز پوشیدہ ہے، یہ تعبیر بالکل مغربی مصنفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو ’رجعت پسندی‘ اور’دقیانوسیت‘قراردیتے ہیں ۔اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس طبقہ کے نزدیک روایتی دین کے ترجمان اور علمبردارعلماء عقل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تجددپسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تہذیب جس طرح ترقی کے مدارج طے کرتی ہے اسی طرح مذہب کو بھی ’ترقی‘ کرنی چاہیے اور علماء زمانے کے تقاضوں کے مطابق نہیں چل پاتے ہیں۔حالانکہ مذہب بنیادی طور پرثوابت کا اور بہت کم متغیرات کے مجموعے کا نام ہے ۔

دین اسلام اور علماء اسلام کے لیے ’روایتی دین‘اور’روایتی فکر کے حاملین‘کی یہ اصطلاحات استعمال کرنے والے عصر حاضر کے ان تجدُّد پسندوں یا تجدید کے دعویدار وں کی جانب سے معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ روایتی دین کے ان دونوں مفاہیم کو باہم خلط ملط کردیتے ہیں جن کا تذکرہ مضمون کے آغاز میں ہوا یا پھر ان کی نظر میں روایتی دین اپنے پہلے مفہوم میں بھی وہی حیثیت رکھتا ہے جو حیثیت دوسرے مفہوم کی ہے قابل تنقیح ‘قابل تنقید‘ یعنی چونکہ یہ روایتی ہے اس لیے نئے زمانے میں،نئے حالات کے مطابق ایک مرتبہ پھر انسانی عقل کے سانچے کے مطابق قابل ترمیم وتعدیل بھی ہے اور قابل اصلاح بھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب یہ حضرات’روایتی دین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو خود پر اور خود کی سوچ پر اس دین کو حاکم و فیصل بنانے کے بجائے ان میں کا ہر ایرا غیرا اپنی عقل کے ترازو پر اس دین کو یا اس کے احکام وفرامین کو تولنا ضروری سمجھتا ہے اور پھر ہر کسی کی عقل اس دین کے لیے ’میزان‘ بن جاتی ہے۔

تجدد پسندوں کے دین اسلام کو بالعموم ’روایتی دین‘ کا نام دینے کے پیچھے ایک اور حقیقت بھی مضمر ہے، عصر حاضر کے بہت سارے تجددپسندوہ ہیں جن کا مطالعہ اسلامی لٹریچر سے زیادہ مغربی لٹریچر کا ہے۔ مغربی لٹریچر میں مذہبی افکار کے مناقشہ کا ایک خاص اسلوب ہوتا ہے کیونکہ وہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان پائے جانے والے ایک بنیادی فرق سے نا آشنا ہیں یا جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتے ہیں ۔

مذہب اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان باہم ایک عظیم فرق ہے۔اور وہ یہ ہے کہ دین اسلام کے بنیادی مصادر قرآن و سنت کی شکل میں جوں کے توں محفوظ ہیں۔ اور وہ اپنے معانی و مفہوم کے ساتھ بلا انقطاع تسلسل کے ساتھ امت میں نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ جبکہ دیگر مذاہب اپنی اصل کتابیں اور مراجع محفوظ نہ رکھ سکے۔ جس کے نتیجے میں آج جو کچھ ان کے پاس مذہب کے نام پر محفوظ ہے وہ یاتو غیر مستند ہے یا پھر ان مذاہب کے نام لیوا و پیشوا حضرات کے فرمودات کا مجموعہ ہے حتی کہ بسا اوقات ہر اس شخص کی رائے ان کے دین کے معاملہ میں اہمیت اختیار کرجاتی ہے جو اس دین کا حامل نہ بھی ہو مگر اس نے اس دین پر ریسرچ اور تحقیق کی ہو۔ اس طرح مذہب اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ بنیادی فرق ہے کہ اسلام ابھی بھی دین ہے جبکہ دیگر مذاہب امتیوں کے مذہبی افکار کا مجموعہ ۔مذاہب کے درمیان کا یہ فرق اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان دونوں قسم کے ادیان کے ساتھ تعامل کا طرز بھی جداگانہ ہو۔

ظاہر بات ہے شخصی افکار ہمیشہ قابل مناقشہ ہوتے ہیں،لہذا جب مذہب شخصی افکار کی آمیزش سے پاک نہ ہو تو نئے دور کے کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ معقول بنیادوں پر اس مذہب کی تعلیمات سے متعلق اظہار خیال کرے، ان افکار اور تصورات سے اتفاق یا اختلاف یا ان کی اپنی سی توجیہ کرے ۔

مغربی مفکرین ہوں کہ خود بر صغیر کے تجدد پسند جب ان سب کے نزدیک مذہب اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان پایا جانے والا یہ بنیادی فرق ہی غیر معتبر ہواور وہ سبھی مذاہب کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کے عادی ہوں تو ظاہر بات ہے یہ ایک ایسی بھیانک اوربنیادی غلطی ہے جس کا اثر نتائج پر ضرورمرتب ہوگا۔ مذہب اسلام کی وحی الہی کے ساتھ بھی یہ لوگ وہی روش روا رکھیں گے جو دیگر مذاہب میں پائے جانے والے شخصی افکار سے متعلق اپناتے ہیں، سبھی اسی طرز فکر کے حامل ہوجائیں گے کہ جب وہ اپنے آپ کو کسی مذہب کا ماہر تصور کرلیتے ہیں تو اس مذہب کے متعلقات سے متعلق اپنی بے لاگ رائے رکھنا ان کا حق ہے۔ جبکہ اسلام اپنے بنیادی مصادر ومراجع کو محفوظ رکھے ہوئے ہے جن کی روشنی میں اسلام سے متعلق پیش کی جانے والی ہربات کو جانچا جائے گا اور اسی کو کسوٹی مان کر ہر بات کرنے والے کی با ت کو پرکھا جائے گااور اسی کی روشنی میں افکار کی صحت یا غلط ہونے کا فیصلہ بھی صادر کیا جائے گا ۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس بنیادی حقیقت کو مغربی مصنفین جس طرح نظر انداز کرتے ہیں بالکل اسی طرح یہ تجدد پسند بھی ان مراجع ومصادر اور ان کی اصل سلفی تفسیر وتشریح کو ’روایتی دین‘ اور ’روایتی فکر‘ کا نام دے کرنظر انداز کرتے ہیں اور اپنی ہی ایک نئی دنیا بسانے کے درپے رہتے ہیں۔ اور اسلامی عقائد سے لے کر احکام و مسائل سب کے بارے میں اپنی رائے دینا اپنا حق اورفرض سمجھتے ہیں،دین ِحق کی باتوں کو خود کی عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھتے ہیں۔ جیسے اس دین ِحق میں بھی حق و باطل کا امکان ہو۔ جیسے وہ مکلف ہی اس بات کے ہوں کہ ہر چیز کو اپنی عقل پر پرکھ کر ہی قبول کریں اور اپنی اس کجروی کو قرآن کریم میں مطلوب تفکُّرتدبُّر اور قوم یعقلون کی روش قرار دیتے ہیں۔

یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ مذہب اسلام کے ساتھ معاملہ سراپا تسلیم ورضا کا ہے،یہاں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہی ہوتی ہے الا اینکہ بات (مستجدات )ان نئے مسائل کی ہو جو نئے دور میں وجود پذیر ہوئے ہوں ۔ اگربات ایسے نئے مسائل کی ہو تو ان کا حل بھی پرانے مسائل ہی کی روشنی میں ہوگا چاہے انھیں قیاس کے ذریعے حل کریں یا نصوص کے عموم سے لیں یا اصول فقہ و قواعد شرعیہ کی روشنی میں طے کریں۔اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ کہنے کے بعد کہ (اتبعوا ولاتبتدعوا )’’تم طے شدہ راستے پر چلو،نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو ‘‘ یہ بھی ارشاد فرمایا (فقد کفیتم )تمھیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کردیا گیا ہے۔

تجدد پسندی کے علمبردار حضرات کا اصل معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ دین کے اس بنیادی مفہوم سے ناآشنا ہوتے ہیں جو قرآن و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں منقح ہوکر سامنے آتا ہے۔ان میں کی اکثریت محض قرآن کریم کے ظاہر کا علم رکھتی ہے۔ قرآن کی سلفی تفسیر کے ساتھ حدیث فہمی کے لیے درکار محنت کرنے سے وہ قاصر ہوتے ہیں،بلکہ قرآن کی سلفی تفسیر اور حدیث فہمی کے سلسلے میں ایک قسم کا استغنا وبے نیازی کا مزاج ان کی پہچان ہوتا ہے تو دوسری طرف اپنی عقل کے تئیں احساس برتری میں مبتلا رہتے ہیں اور فکر ونظر کی ایسی وادیوں کے رہرو ہوتے ہیں جو انھیں متبع بننے میں عار دلاتی اور مجتہد بلکہ مجدد بننے کی ترغیب دلاتی رہتی ہیں۔یہ وہی مرض ہے جس کی تشخیص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں فرمائی تھی:

(أصحاب الرأی أعداء السنن أعیتہم الأحادیث أن یحفظوہا وتفلتت منہم أن یعوہا واستحیوا حین سُئلوا أن یقولوا لا نعلم فعارضوا السنن برأیہم.. )عقل پرست لوگ سنت کے دشمن ہوتے ہیں، وہ احادیث کو یادنہیں رکھ سکتے اور ان احادیث کی سمجھ اور ان کا استحضار ان کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ اب جب صورت حال یہ ہو اورپھر ان سے دین کے بارے میں سوالات کیے جائیں تو انھیں ’’میں نہیں جانتا ‘‘کہنے میں عار محسوس ہوتا ہے، لہذا یہ لوگ تفہیم دین میں سنت کے بجائے اپنی عقل کو ہی معیار بنالیتے ہیں ۔(جامع بیان العلم وفضلہ: ۲۰۰۱)

یہی وجہ ہے کہ آ پ جتنے بھی تجدد پسند وں کو دیکھیں ان کے اندر یہ بات قدر مشترک کے طور پر پائی جائے گی کہ ان میں سے اکثر کے اندرحدیث و سنت کا علم سطحی درجہ کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے۔ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیزیعنی درایت (تجدد پسندی) حاصل ہے اس لیے ان سے روایت حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل خود کی کم فہمی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔

اورساتھ ہی یہ بھی باور کرائیں گے کہ علماء کا طبقہ اس شعور و آگہی سے محروم ہے جس کے ہم حامل ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علماء ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں جن وادیوں کے رہرو یہ تجدد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں اسی لیے وہ اس راہ نہیں چلتے جو تجدد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تجدد پسند جس چیز کو جدت سمجھتے ہیں شرعا وہ اکثر بدعت یا آزاد خیالی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ان جیسی نہیں کہتے۔ورنہ ایسی کوئی بات نہیں کہ وہ ان تجدد پسندوں کی طرح اٹکلیں لگانے سے قاصر ہوں۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اسی حقیقت کو یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

(قف حیث وقف القوم، فإنہم عن علم وقفوا، وببصر نافذ کفُّوا، ولہم علی کشفہا کانوا أقوی، وبالفضل – لو کان فیہا – أحری، لئن قلتم:حدث بعدہم، فما أحدثہ إلا من خالف ہدیہم، ورغب عن سنتہم، ولقد وصفوا منہ ما یشفی، وتکلموا منہ بما یکفی، فما فوقہم مُحَسِّر، وما دونہم مُقَصِّر، لقد قصَّر عنہم قوم فجَفَوا، وتجاوزہم آخرون فغلوا، وإنہم فیما بین ذلک لعلی ہدیً مستقیم)

تم (دین کے معاملہ میں)خود کو وہاں روک لو جہاں وہ (سلف صالحین)رک گئے، کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آگئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری قوت رکھتے تھے۔ اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات تھی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے ۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدد پسندی)ان کے دور کے بعد وجود پذیر ہوئی ہے تو پھریہ (جان لوکہ )ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کرچل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑرہا ہے ۔ انھوں (سلف صالحین )نے اس دین کے وہ مواصفات گنا دیے ہیں جو شافی وکافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انھوں نے وضاحت کردی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور کچھ لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غلو کا شکار ہوئے ۔ وہ (سلف صالحین)تو ان دونوں (غلو وجفا)کے درمیان ہدایت کی سیدھی راہ پر گامزن ہیں ۔(أبوداود :۴۶۱۲)

اور امام اوزاعی فرماتے ہیں:

(اصبر علی السنۃ وقف حیث وقف القوم وقل فیما قالواوکف عما کفواواسلک سبیل سلفک الصالح فإنہ یسعک ما وسعہم)تم اپنے آپ کو سلف صالحین کے راستے کا پابند بناکے رکھو،جہاں وہ لوگ رک گئے تم بھی رک جاؤ اور تم بھی انہی مسائل میں گفتگو کروجن میں ان لوگوں نے گفتگو کی اور ان باتوں سے رک جاؤ جن سے انھوں نے خود کو روک لیا ہے اور تم اپنے سلف صالحین کی راہ پر چلو، جو ان کے لیے کافی تھا وہ تمھار ے لیے بھی کافی ہوگا۔(الشریعۃ للآجري :۲۹۴)

متقدمین اہل علم، فقہاء، محدثین ومفسرین اور سلف صالحین کی بابت مذکورہ بالا صحیح اور متوازن اسلامی تصور کے بجائے غلط فہمی پر مبنی فکری برتری کا احساس ہی ہے جو ان تجدد پسندوں کو بے لگام چھوڑدیتا ہے۔اور وہ اٹکلیں لگاتے ہیں۔ اور پھر سامعین اور قارئین میں سے ایسے ہی لوگ جو علمی بے بضاعتی کا شکار ہوتے ہیں مگروہ بھی طالع آزما ہوتے ہیں ایسے تجدد پسندوں کے پیروکار بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور انھیں مجدد اور خود کوان کے تجدیدی مشن کا حصہ تصور کرتے ہیں۔یہی خلاصہ ہے روایتی دین،روایتی فکراور تجدد پسندی کا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
عبد اللطیف مدنی

تجدّد پسند اور ماڈرن سپیکرز کے اس دور ودوڑ میں یہ اور ایسی دیگر تحریریں قابل ستائش اور فرض کفایہ ہیں، شیخ محترم نے عقل ونقل اور اصولی قواعد کی روشنی میں قدرے مثبت انداز سے ان کا رد کیا ہے جزاہ اللہ خیرا، البتہ تجدیدِ دین کی بعض مثالوں اور اسکے خوگر داعیوں کا ذکر کرتے تو بحث مزید آسان اور مفید ہوتی، خدشہ ہے کہ کہیں بعض عام وخاص ان باتوں کی تطبیق اپنے جذبات کے تئیں بے محل کریں گے تو دوسرے مسائل پیدا ہوں گے جو کہ غلو وافراط کی پہیلی ہوی ایک موجودہ شکل ہے۔

عبد اللطیف مدنی

نفع الله بكم