روایتی دین، تجدید اور تجدد پسندی (پہلی قسط)
تجدید دین کیا ہے؟
حقیقی ’روایتی دین‘ کو ایسی’روایاتی‘ آمیزش سے پاک کرنے کے لیے اللہ تعالی نے کئی انتظام فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے تو دین کے بنیادی مصادر کے طور پر قرآن وسنت کو متعین ومحدود فرمادیا، پھر ان کی قرب قیامت تک حفاظت کی ذمہ داری خود پر لے لی۔ دوسری طرف علماء فقہاء صلحاء مفسرین و محدثین کے دائرہ کار کو بھی دوٹوک الفاظ میں متعین اور واضح فرمادیا۔ ارشاد باری تعالی ہے {یا أیھا الذین آمنوا أطیعوا اللہ وأطیعو ا الرسول وأولي الأمر منکم} اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور تم میں سے اختیار والوں کی (النساء:۵۹) اس آیت میں اللہ تعالی نے جن اولوالأمر یعنی اصحاب اختیار کا تذکرہ فرمایا ہے ان کی تعیین کرتے ہوئے حضرات ابن عباس وجابر رضي اللہ عنہم نے فرمایا ہے:(ھم الفقہاء والعلماء الذین یعلمون الناس معالم دینھم) (دیکھیں:تفسیر بغوی) شارح مشکاۃ علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی روشنی میں علماء وفقہاء کے کردار کو متعین کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں اس آیت میں مذکرو دیگر دو اطاعتوں کی طرح اس اطاعت کے حکم کے لیے لفظ ’اطاعت‘ کو نہیں دہرایا ہے بلکہ اس حکم کو پچھلی دو اطاعتوں سے جوڑدیا ہے جس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ان علماء وفقہاء کا کردار مذکورہ دو اطاعتوں کے بعد ہے اور ان دونوں اطاعتوں کا پابند ہے۔ اس تیسری اطاعت کے اعتبار کا معیار ہی یہ بنیاد ہے کہ اس کا رشتہ پچھلی دو اطاعتوں سے کس نوعیت کا ہے۔
ان بنیادی انتظامات کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی نظم یہ بھی فرمادیا کہ ہر سو سال میں اس دین کی تجدید ہوگی۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’إن اللہ یبعث لھذہ الأمۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا‘‘ اللہ تعالی اس امت میں ہر سوسال کے آغاز یا اختتام پر ایک ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس امت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ (أبوداود:۴۲۹۱) اس حدیث کے بموجب ہر سو سال میں ایک مجدد اس روایتی دین کو اس کے دوسرے مفہوم سے نکال کر پہلے مفہوم میں لے جائے گا۔ جو ’روایتی‘ دین میں الف کے برابر بھی کمی بیشی ہوئی ہو جس نے اسے ’روایاتی‘ بنا دیا ہو تو اس کو درست کرکے پھر سے اسے حقیقی معنوں میں روایتی بنائے گا۔
ایک اور حدیث سے مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تنقیح وتنقید کے ذریعے تجدید دین کا یہ کام نسل در نسل تسلسل کے ساتھ بھی جاری رہے گا۔ اور یہ کام اللہ تعالی علم کے حاملین علماء کے ذریعے لیتا رہے گا اور دین میں کسی بھی قسم کی خارجی آمیزش سے دین کو پاک کرواتا رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہوا: ’’یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاھلین‘‘ ہر آنے جانے والی نسل سے بعد میں آنے والی نسل میں ایسے لوگ اس علم کے حامل بنیں گے جو اس دین کو غلو کے شکار لوگوں کی تحریفات، منحرف لوگوں کے نت نئے راستوں اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک کریں گے۔ (البیھقي وصححہ الألباني في المشکاۃ)
مذکورہ بالا دونوں حدیثیں جہاں اس حقیقت پر دال ہیں کہ حقیقی روایتی دین کو بے سند موروثی روایات سے پاک کرنے کا نام تجدید دین ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تجدید دراصل دین کی کسی نئی تشریح یا تعبیر کا نام نہیں بلکہ اسی قدیم، اصلی اور روایتی دین میں بعد کے دور کی آمیزش کو پہچان کر اسے الگ کرنے اور پھر سے اس کو اپنی قدیم اصلی صورت میں بحال کرنے کا نام ہے جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے: ’’اتبعوا ولاتبتدعوا فقد کفیتم علیکم بالأمر العتیق‘‘ پہلے سے طے شدہ راستے پر چلو، نئے راستے ایجاد نہ کرو کیونکہ تمھیں اس سے بے نیاز کردیا گیا ہے۔ تم اسی قدیم روش ہی کو لازم پکڑے رہو۔(السنۃ للمروزي:۷۸) اس طرح تجدید دین، جدید دین کا دوسرا نام نہیں ہے اور نہ ہی دین کی جدید تفسیر یا تعبیر کانام ہے، یہاں قدامت میں اصالت کا اصول لاگو ہے۔
اس کے ساتھ مزید اس حقیقت کا بھی پتہ چلا کہ تجدید کا یہ عظیم کارنامہ انجام دینے والے مستند علماء ہی ہوں گے جن کا سلسلہ سند روایت اور درایت (معنی ومفہوم) دونوں میں اپنے سے پہلے والے مستند علماء سے جڑا ہوگا۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے مجددین کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل علم کی ایک جماعت کا ماننا یہ ہے کہ یہ مجدد سو سال میں صرف ایک شخص ہوگا جبکہ اہل علم کی دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ (الحدیث یشمل کل فرد من آحاد العلماء من ھذہ الأعصار ممن یقوم بفرض الکفایۃ في أداء العلم عمن أدرک من السلف إلی من یدرکہ من الخلف )(البدایۃ والنھایۃ :۶:۲۸۷) یعنی مجددین سے مراد ہر دور کے اہل علم ہی ہیں۔
اسی لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی ایک طویل اقتباس میں اس منصب تجدید کا مصداق وقت کے انہی علماء کو قراردیا ہے جو دین کی سمجھ رکھتے ہوں بالخصوص احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری واقفیت رکھتے ہوں۔ وہ فرماتے ہیں:
لقد جری علماء الحدیث – جزاھم اللہ خیرا – علی قواعد علمیۃ ھامۃ جدا فی سبیل المحافظۃ علی تراث نبي الأمۃ سالما من الزیادۃ والنقص فکما لا یجوز أن یقال علیہ صلی اللہ علیہ وسلم ما لم یقل فکذلک لا یجوز أن یھدر ما قال أو یعرض عنہ فالحق بین ھذا وھذا کما قال تعالی:{وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً}۔
ومما لا شک فیہ أن تحقیق الاعتدال والتوسط بین الإفراط والتفریط وتمییز الصحیح من الضعیف لا یکون بالجھل أو بالھوی وإنما بالعلم والاتباع وأن ذلک لا یکون إلا بالفقہ الصحیح عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھذا الفقہ لن یکون إلا بمعرفۃ ما کان علیہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من قول وفعل وتقریر.
وإذ الأمر کذلک فإنہ لا یمکن أن ینھض بہ إلا من کان من الفقھاء عالما أیضا بعلم الحدیث وأصولہ أو علی الأقل یکون من أتباعھم وعلی منھجھم ولقد أبدع من قال:
أھل الحدیث ھم أھل النبی وإن… لم یصحبوا نفسہ أنفاسہ صحبوا
وھم المقصودون بالحدیث المشھور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:”یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاہلین”بل وبالحدیث الصحیح: ”إن اللہ لایقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من الناس ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جھالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا،”(رواہ الشیخان)(تحریم آلات الطرب :۱: ۶۹)
تجدید دین سے متعلق مذکورہ بالا احادیث سے مزید یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ تجدید بھی دراصل اسی روایتی دین کا ایک حصہ اور باب ہے۔ تجدیدی مشن اس روایت سے ہٹ کر یا اس کے مقابل کوئی اضافی عمل یا کارنامہ نہیں ہے۔
تجدید دین کا یہ واضح مفہوم اپنی مذکورہ بالا ان تمام جزئیات کے ساتھ احادیث اور اقوال سلف کی روشنی میں متعین ومبرہن ہے اور ہر دور میں امت کے اساطین اہل علم کے نزدیک مسلّم بھی رہا ہے۔
آپ کے تبصرے