اخلاق حسنہ کے اکتساب کے عملی طرق و اسالیب

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

کتاب وسنت میں اخلاق حسنہ کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت ونبوت کا مقصد قرار دیا ہے۔ایک با اخلاق آدمی ہی وہ حقوق وفرائض صحیح معنوں میں ادا کر سکتا ہے جو بندوں پر بندوں کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔اگر انسانوں میں سیرت و کردار کی رفعت وپاکیزگی اور حسن اخلاق کا وصف نہ ہو تو نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی کا اہتمام کرنے کے باوجود معاشرے میں امن وسکون ناپید اور معاشرتی زندگی فساد وخلفشار سے دو چار ہوگی۔

جس طرح فرائض وواجبات کی ادائیگی اور سنن ونوافل کا اہتمام اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے ، اسی طرح حسن اخلاق سے بھی اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اور اس کی بھی وہ قیامت کے دن بہترین جزا عطا فرمائے گا۔بلکہ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

أثقلُ شيءٍ في الميزانِ ، الخُلُقُ الحسَنُ(صحیح الجامع:۱۳۴)

ترازو میں سب سے بھاری عمل حسن اخلاق ہوگا۔

حسن اخلاق کے ذریعے ہی اس طرح کے پر امن اور خوش گوار معاشرے کی تشکیل کی جا سکتی ہے، جس کا نمونہ اسلامی تعلیمات کے پیکروں نے قرون اولی میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور مورخین نے اس کو اپنی کتابوں میں قلم بند اور محفوظ کیا۔آج کے اس پر آشوب دور میں بھی وہی لوگ بہتر سمجھے جاتے ہیں جو اخلاق وکردار کے فرازوں پر متمکن اور اس کے حسن سے آشنا ہیں۔

حسن اخلاق کی اہمیت وفضیلت اور خوش گوار اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لیے اس کی ضرورت کے پیش نظر ذیل میں حسن اخلاق کےاکتساب کے چند طرق واسالیب کو ضبطِ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

عقیدے کی تصحیح:

عقیدے کے اثرات انسان کے اخلاق وکردار پر مرتب ہوتے ہیں۔صحیح عقیدہ انسان کے اخلاق وکرادر کو سنوارتا ہے اور اسے معاشرتی آلائشوں سے دور رکھتا ہے اور عقیدے کا نقص وخلل انسان کے عادات واطوار میں انحراف وکجی پیدا کرتا ہے۔ایمان وعقیدے کا کمال واستحکام سیرت وکردار کی آراستگی واستواری کا موجب ہے۔ایک مسلمان جس قدر اخلاقی بلندیوں پر فائز ہوگا اسی قدر اس کا ایمان بھی کامل ہوگا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:

أكْمَلُ المؤمنين إيمانًا أَحْسَنُهم خلقًا(صحيح أبي داود:۴۶۸۲)

مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔

دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:

إنَّ أحبَّكم إليَّ و أقربَكم مني في الآخرةِ مجالسَ أحاسنُكم أخلاقًا ، و إنَّ أبغضَكم إليَّ وأبعدَكم مني في الآخرةِ أسوؤكم أخلاقًا(صحيح الجامع:۱۵۳۵)

تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں ہم نشینی میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے۔اور تم میں مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق کے اعتبار سے زیادہ برے ہوں گے۔

حسن خلق پر مرتب ہونے والے اثرات و فوائد پر غور وفکر:

کسی عمل کے ثمرات ونتائج کی معرفت اور اس کے حسن عواقب سے واقفیت انسان کو اس کی ادائیگی پر ابھارتی ہے۔ بلا شبہ حسن خلق بھی اسی طرح نیکی ہے جس طرح نماز پڑھنا،زکات دینا،حج وعمرہ کرنا اور روزے رکھنا اعمالِ بِرّ ہیں۔حسن خلق کے زیور سے آراستہ ہونا دنیاوی واخروی دونوں لحاظ سے بڑی خوش بختی کی علامت ہے۔ اس کی فضیلت واہمیت اور ثمرات پر غور وفکر انسان کی کردار سازی کا بہت بڑا سبب ہے۔اس لیے انسان کو چاہیے کہ حسن اخلاق کے اجر وثواب کو ہمیشہ اپنے ذہن ودماغ میں موجزن رکھے اور لوگوں کے ساتھ نشست وبرخاست اور تعامل میں نیکی سمجھ کر اس کا مظاہرہ کرے۔ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:

البِرُّ حُسْنُ الخُلُقِ(صحيح مسلم:۲۵۵۳)

نیکی حسن اخلاق کا نام ہے۔

ایک خوش اخلاق آدمی اگر صرف فرائض کی ادائیگی کرے اور نوافل کا زیادہ اہتمام نہ کرے، تب بھی اسے محض اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے کثرت سے نفلی روزے رکھنے والے اور شب بیداری کرکے قیام کرنے والے کا سا درجہ اور مقام حاصل ہو جائے گا۔چنانچہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

إنَّ الرجلَ لَيُدرِكُ بحُسنِ خُلُقِه ، درجاتِ قائمِ الليلِ ، صائمِ النَّهارِ(صحيح الجامع:۱۶۲۰)

آدمی اپنے حسن اخلاق سے اس شخص کے درجات حاصل کر لیتا ہے جو رات کو قیام کرتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے:

ما مِن شيءٍ يوضَعُ في الميزانِ أثقلُ من حُسنِ الخلقِ ، وإنَّ صاحبَ حُسنِ الخلقِ ليبلُغُ بِهِ درجةَ صاحبِ الصَّومِ والصَّلاةِ(صحيح الترمذي:۲۰۰۳)

ترازو ميں حسن خلق سے زياده بھاری کوئی چیز نہیں رکھی جائے گی اور حسن خلق سے متصف شخص،حسن اخلاق کی وجہ سے(نفلی)روزے اور(نفلی)نمازیں ادا کرنے والے کے درجے کو پہنچ جائے گا۔

بد خلقی کے برے نتائج پر تدبر وتفکر:

جس طرح حسن خلق کے فوائد کا استحضار انسان کو اخلاقی بلندیوں سے ہمکنار کرتا ہے،اسی طرح سوے خلق کے عواقب سے آگاہی اسے اخلاقی بحران سے دور رکھتی ہے۔ایک شخص جب بدخلقی کے برے نتائج پر غور وفکر کرے گا تو وہ شرعی آدابِ معاشرت کا لحاظ رکھے گا،لوگوں کے ساتھ اس کا برتاو اچھا ہوگا اور ہر معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹانے کی کوشش کرے گا۔لوگوں سے خندہ روئی سے ملے گا اور نرم خوئی کا مظاہرہ کرے گا۔بد گوئی،غیبت،سب وشتم اور الزام تراشی سے دامن کشاں رہے گا۔ظلم وزیاتی اور دجل وفریب کا ارتکاب ہرگز نہیں کرے گا۔

ذرا اس عورت کی عاقبت پرغور کیجیے جوکثرت سے نفلی صوم وصلات اور صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنے کے باوجود پڑوسیوں کے ساتھ بدخلقی سے پیش آنے کی وجہ سے انجامِ بد کا شکار ہوگئی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قيلَ للنَّبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ و سلَّمَ : يا رَسولَ اللهِ ! إنَّ فلانةَ تقومُ اللَّيلَ و تَصومُ النَّهارَ و تفعلُ ، و تصدَّقُ ، و تُؤذي جيرانَها بلِسانِها ؟ فقال رسولُ اللهِ صلَّى الله عليهِ و سلم لا خَيرَ فيها ، هيَ من أهلِ النَّارِ . قالوا : و فُلانةُ تصلِّي المكتوبةَ ، و تصدَّقُ بأثوارٍ ، و لا تُؤذي أحدًا ؟ فقال رسولُ اللهِ : هيَ من أهلِ الجنَّةِ(صحيح الأدب المفرد:۸۸)

نبی ﷺ سے کہا گیا کہ فلاں عورت رات کو قیام کرتی ہے ، دن کو روزہ رکھتی ہے، (اچھے) کام کرتی ہے اور صدقہ دیتی ہے،لیکن وہ اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اس عورت میں کوئی خیر نہیں۔وہ جہنمیوں میں سے ہے۔صحابہ نے عرض کیا:فلاں عورت فرض نماز پڑھتی ہے،پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور کسی کو تکلیف نہیں دیتی ہے۔تو آپ ﷺ نے فرمایا:وہ جنتیوں میں سے ہے۔

ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا:

إنَّ مِن أحبِّكم إليَّ وأقربِكُم منِّي مجلسًا يومَ القيامةِ أحاسنَكُم أخلاقًا ، وإنَّ مِن أبغضِكُم إليَّ وأبعدِكُم منِّي يومَ القيامةِ الثَّرثارونَ والمتشدِّقونَ والمتفَيهِقونَ، قالوا : يا رسولَ اللَّهِ، قد علِمنا الثَّرثارينَ والمتشدِّقينَ فما المتفَيهقونَ ؟ قالَ : المتَكَبِّرونَ(صحيح الترمذي:۲۰۱۸)

میرے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہوں گے جو تم میں اخلاق میں سب سے زیادہ اچھے ہوں گے۔اور تم میں مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو باتونی،بلا احتیاط بولنے والے اور تکبر کرنے والے ہیں۔صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! ہم نے “ثرثارون”(باتونی) اور “متشدقون”(بلا احتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا، لیکن ”متفیھقون” کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:تکبر کرنے والے۔

علو ہمتی:

اخلاق حسنہ کے اکتساب کا ایک اہم ذریعہ علو ہمتی بھی ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فمن علت همته، وخشعت نفسه؛ اتصف بكلِّ خلق جميل، ومن دنت همته، وطغت نفسه؛ اتصف بكلِّ خلق رذيل.(الفوائد:۲۰۳)

جس کے اندر علو ہمتی اور خشوعِ نفس کا وصف ہوگا وہ ہر طرح کے اچھے اور خوبصورت اخلاق سے متصف ہوگا۔اور جو دوں ہمتی اور نفس کی طغیانی وسرکشی میں مبتلا ہوگا وہ ہر طرح کے قبیح اور خسیس عادات واطوار کا حامل ہوگا۔

بلا شبہ بلند ہمتی انسان کو رذائل وقبائح سے دور رکھتی ہے اور فضائل ومحاسن سے آراستہ کرتی ہے۔ایک بلند ہمت انسان نہ صرف خودظلم وزیادتی اور اخلاقی فسادات سے دامن کشاں رہتا ہے، بلکہ وہ اپنے گرد ونواح کے لوگوں کو بھی مخرب اخلاق حرکتوں سے دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتا رہتا ہے۔وہ حالات وظروف کے نشیب و فراز اور ماحول کے خطرات کے سامنے سپر انداز ہوکر اصلاح وتعمیر کے پیغمبرانہ مشن سے روگرداں نہیں ہوتا،بلکہ اس کے اندر ایسا عزم صمیم اور ناشکستنی اعتماد ہوتا ہے جو اسے اخلاقی انارکیوں کی بیخ کنی اور اعلی اقدار حیات کی پاسداری پر ابھارتا رہتا ہے۔پھر وہ اللہ کی پسند کو اپنی پسند اور اس کی ناپسند کو اپنی ناپسند بنا کر بے محابا مکارم اخلاق کی نشرو اشاعت میں مگن ہو جاتاہے۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

إنَّ اللهَ كريمٌ يُحبُّ الكُرَماءَ ، جوادٌ يُحبُّ الجَوَدَةَ ، يُحبُّ معاليَ الأخلاقِ ، و يكرَهُ سَفْسافَها(صحیح الجامع:۱۸۰۰)

اللہ تعالی کریم ہےاور کریم اور عالی ظرف لوگوں کو پسند کرتا ہے۔سخی ہے،سخاوت کو پسند کرتا ہے ۔ بلند اخلاق کو پسند کرتا ہے اور رذیل وخسیس اخلاق و عادات کو ناپسند کرتا ہے۔

صبرکرنا:

صبر ان بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر حسن خلق کا دارومدار ہے۔صبر انسان کے اندر تحمل وبرداشت،حلم وبردباری، خوش مزاجی ونرم خوئی اور عفوودرگزر کے اوصاف حمیدہ کو پروان چڑھاتا ہے اور اسے غیظ و غضب ، طیش واشتعال ا ورعجلت پسندی سے دور رکھتا ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حسن الخلق يقوم على أربعة أركان، لا يتصور قيام ساقه إلا عليها: الصبر، والعفة، والشجاعۃ، والعدل (مدارج السالكين:۲۹۴/۲)

حسن خلق چار ارکان پر قائم ہے۔ان چار ارکان ہی پر ساقِ حسنِ خلق کا قیام متصور ہے:صبروشکیبائی، عفت وپاکدامنی،شجاعت وبہادری اور عدل وانصاف۔

ایک عقل مند آدمی اپنے ہر اچھے عمل وکردار کا اجر اللہ تعالی سے طلب کرتا ہے۔اور اس کا یہ رویہ لوگوں کی ایذا رسانیوں کو برداشت کرنے اور اخلاق فاضلہ کے زیور سے آراستہ ہونے پر اس کی مدد کرتا ہے۔اسے اپنے رب کے اس وعدے پر پختہ یقین ہوتا ہے جو اس نے صبر کرنے والوں کے لیے کر رکھا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ(النحل:۹۶)

اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔

صالح اور بااخلاق لوگوں کی صحبت اختیار کرنا:

اللہ تعالی نے صحبت میں بڑی تاثیر رکھی ہے۔اچھے لوگوں کی صحبت کے اچھے اثرات اور برے لوگوں کی صحبت کے برے اثرات غیر محسوس طریقے سے انسان کے اخلاق وعادات میں منتقل ہوجاتے ہیں۔چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس کو جیسی صحبت میسر ہوتی ہے ،وہ اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ایک شرابی کا ہم جلیس شرابی،چور کا ہم دست چور اور بےحیا کا ہم نشین بے حیا بن جاتا ہے۔بقول مولانا رومی:

صحبت صالح، ترا صالح کند

صحبت طالح، ترا طالح کند

نیک آدمی کی صحبت،تجھے نیک اور برے آدمی کی صحبت برا بنادےگی۔

اور شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

پسرِ نوح با بداں بہ نشست

خاندانِ نبوتش گم شد

سگِ اصحابِ کہف روزے چند

پئےنیکاں گرفت مردم شُد

حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بروں کی صحبت میں بیٹھا تو اپنے خاندان نبوت کے شرف سے محروم ہوگیا اور اصحاب کہف کا کتا چند روز نیک لوگوں کے ساتھ رہا تو اس کا شمار صالح مردوں میں ہو گیا۔

اس لیے مذہب اسلام کے اندر اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے اور برے لوگوں کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے۔کوئی شخص اگر اپنے نفس کو معاشرتی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھنا چاہتا ہو اور ہرطرح کی اخلاقی بیماریوں سے محفوظ رہنا چاہتا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے بیان کردہ آداب معاشرت کو ملحوظ خاطر رکھے۔نبی ﷺ نے نیک اوربدصحبت کی بڑی خوبصورت مثال بڑے حکیمانہ اسلوب میں بیان فرمائی ہے:

مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ والجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صاحِبِ المِسْكِ وكِيرِ الحَدَّادِ؛ لا يَعْدَمُكَ مِن صاحِبِ المِسْكِ إمَّا تَشْتَرِيهِ أوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أوْ ثَوْبَكَ، أوْ تَجِدُ منه رِيحًا خَبِيثَةً ( صحيح البخاري:۱۲۰۱)

نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔مشک بیچنے والے کے پاس تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پالوگے۔یاتو مشک ہی خریدلوگے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکوگے۔لیکن لوہار کی بھٹی یا تمھارے بدن اور کپڑے کو جھلسادےگی ورنہ بدبوتو تم اس سے ضرور پالوگے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے:

وفی الحدیث النھي عن مجالسة من يتأذى بمجالسته في الدين والدنيا، والترغيب في مجالسة من ينتفع بمجالسته فيھما (فتح الباري،الجزء الرابع،ص:۳۲۴)

اس حديث سے ايسے شخص کی مجالست وصحبت اختیار کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے جس سے دین ودنیا میں نقصان واذیت پہنچے،نیز اس میں ایسے شخص کی ہم نشینی اختیار کرنےکی ترغیب بھی ہے جس سے دین ودنیا ہردو میں فائدہ ہو۔

ابوحاتم بستی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

العاقل يلزم صحبة الأخيار، ويفارق صحبة الأشرار؛ لأنَّ مَوَدَّة الأخيار سريع اتصالها، بطيء انقطاعها، ومودة الأشرار سريع انقطاعها، بطيء اتصالها، وصحبة الأشرار تورث سوء الظَّن بالأخيار، ومن خَادَن الأشرار لم يسلم من الدخول في جملتهم (روضة العقلاء لابن حبان البستي :۹۹۔۱۰۰)

عقلمند آدمی اچھے لوگوں کی صحبت کو لازم پکڑتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہتا ہے۔اس لیے کہ اچھے لوگوں کی مودت زودحاصل اوردیر انقطاع ہوتی ہے،جبکہ برے لوگوں کی مودت زود انقطاع اوردیرحاصل۔برے لوگوں کی صحبت اچھے لوگوں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرتی ہے۔اورجواشرارکی مصاحبت ومجالست اختیار کرے وہ ان کے گروہ میں شامل ہونے سے نہیں بچ سکتا۔

دعا کرنا :

انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اخلاق وکردار کی تحسین اور برے اخلاق سے دور رہنے کی اللہ تعالی سے دعا کرے۔نبی کریم ﷺ عمدہ اخلاق پر فائز ہونے کے باجود یہ دعا کیا کرتے تھے:

اللَّهمَّ إنِّي أعوذُ بِكَ من منكراتِ الأَخلاقِ والأعمالِ والأَهْواءِ( صحيح الترمذي:۳۵۹۱)

اے اللہ!میں تجھ سے بری عادتوں،برے کاموں اور بری خواہشوں سے پناہ مانگتا ہوں۔

اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا، وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَن زَكَّاهَا، أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا(صحيح مسلم:۲۷۲۲)

اے اللہ!میرے نفس کو تقوی شعار بنادے،اس کا تزکیہ فرمادے،توہی نفس کا بہترین تزکیہ کار ہے،توہی اس کا سلطان ومتصرف اور اس کے امور ومعاملات کا مالک ہے۔

مذکورہ بالا سطور میں اخلاق حسنہ کے زیور سے آراستہ ہونے کے چند عملی طریقے حیطۂ تحریر میں لائے گئے ہیں۔یہ اور ان کے علاوہ جتنے بھی طریقے اخلاق حسنہ کے اکتساب سے متعلق ہوسکتے ہیں، سب کے سب دراصل آفتابِ رسالت کی ضیاگستریوں سے مستفاد ہیں۔آپ ﷺ کی بلند اخلاقی وشائستہ اطواری کی شہادت خود رب کائنات نے دی ہے۔ سیرت رسول کا گہرائی وگیرائی کے ساتھ مطالعہ اور اس کے فوائد وثمرات اور امتیازات وخصوصیات پر تدبر وتفکرہی کردارسازی اور تحسینِ خلق کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہی وہ اساس اور نیو ہے جس پر اخلاقیات کے کاخ ہاے بلند استوار ہوئے ہیں۔شمعِ رسالت کی ضووتابش اورمشکاتِ نبوت کے انوار وتجلیات سے قلوب واذہان کو منور کرکے ہی ہم اپنے اخلاق وعادات اور سیرت وکردار کو حسن و زیبائی کے سانچوں میں ڈھال سکتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمارے اخلاق وکردار کو سنوار دے اور برے عادات واطوار سےمحفوظ رکھے ۔آمین

آپ کے تبصرے

3000