اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر تین نفوس یا اُن کے نفس کی تین حالتیں و کیفیتیں بنائی ہیں:
(۱)نفس امّارہ(۲)نفس لوامہ(۳)نفس مطمئنہ
۱۔ نفس امّارہ: یعنی وہ نفس جو انسان کو برائی پر ابھارتا ہے، اُس کو شر کی جانب مائل کرتا ہے اور شہوات کی جانب کھینچتا ہے اِس کا تذکرہ سورہ یوسف میں یوں ہے:
“وما أبری نفسی إن النفس لأمارۃ بالسوء إلا ما رحم ربّی” (یوسف: ۳۵)اور میں اپنے نفس کو بے قصور قرار نہیں دیتا۔ بے شک نفس تو بُرائی کا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔
۲۔ نفس لوامہ:یہ نفس انسان کو اندر سے ٹوکنے والا اور ملامت کرنے والا ہے۔ انسان جب کسی بُرے عمل کو انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے یا بُرائی کا ارتکاب کر لیتا ہے تو یہ اُس کو ملامت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نفس کی قسم کھائی اور فرمایا:
لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ ٭ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ (القیامۃ: ۱-۲)میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں اور میں ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔
۳۔ نفسِ مطمئنہ : جو اِنسان کو رب کی اطاعت اور فرمانبرداری اور اُس کی عبادت و بندگی پر مطمئن رکھتا ہے، اللہ کے اسماء و صفات اور ایمان و عقائد کے باب میں بھی اُس کو اطمینان حاصل رہتا ہے، سورہ فجر میں اللہ رب العالمین نے اِس کی قسم کھائی اور اِس سے آراستہ شخص کے لےی عظیم مژدہ سنایا ہے:
یَاأَیَّتُهاا النَّفْسُ الْمُطْمَئنة ٭ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً ٭فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ٭وَادْخُلِی جَنَّتِی٭ (الفجر:۲۷۔۳۰)اے اطمینان والے نفس تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اِس حال میں کہ تو اُس سے راضی ہے اور اُس کے نزدیک پسندیدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو دار الامتحان اور آزمائش گاہ بنایا ہے، اِس لےل انسان کے اندر یہ تینوں کیفیات ودیعت فرمائی ہیں۔ اولًا جب انسان کا نفسِ امارہ اُسے بُرائیوں پر آمادہ کرتا ہے اور اُس سے نا جائز شہوات و نفسانی خواہشات کی تکمیل کا تقاضا کرتا ہے تو نفس لوامہ اُسے اِس پر ملامت کرتا ہے، اُس کے اندر خوفِ الہی پیدا کرتاہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کا احساس دلاتا ہے اور جب بندہ مومن نفس امارہ کے تقاضوں کو کُچل کر برائیوں سے اجتناب کرنے والا اور خود کو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار بندہ بنا لیتا ہے تو اُس کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اُس کے نفس کو طمانینت حاصل ہوتی ہے۔
اِنسان کے نفس میں خیر و شر دونوں مادّے رکھے گئے ہیں اور اُس کی کامیابی اِس بات میں بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر کے خیر کو اُجاگر کرے اور شر کو کُچل دے، اپنے نفس کا تزکیہ کرے، گناہوں کی آلودگی سے اُس کو پاک صاف کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاها ٭فَأَلْهمها فُجُورَها وَتَقْوَاها ٭قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاها ٭وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاها ٭ (الشمس:۷۔۱۰)اور (قسم)نفس اِنسانی کی اور اُس ذات کی جس نے اُسے ٹھیک ٹھاک کیا پھر اُس کی بُرائی اور اُس کی پرہیز گاری کا اُسے الہام کر دیا یقینًا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا اور یقینًا وہ شخص گھاٹے میں پڑ گیا جس نے اُسے گناہوں میں لت پت کر دیا۔
اللہ رب العالمین کے اِس فرمان سے محاسبہ نفس کی اہمیت و ضرورت بھی اُجاگر ہوتی ہے کیوں کہ ہم جب اپنے نفس کا احتساب کریں گے اور اُس کی کیفیت کا جائزہ لیں گے تو اُس کے تزکیہ کی فکر دامن گیر ہوگی تب ہم اپنے نفس کو برائیوں سے پاک صاف کریں گے اوراُس کو خیر کا خوگر و عادی بنائیں گے جس کی بنیاد پر جنت کے حقدار بنیں گے:
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهي النَّفْسَ عَنِ الْهوَی ٭فَإِنَّ الْجَنَّة هي الْمَأْوَی ٭(النازعات:۴۰۔۴۱)اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات کی اتباع سے روکا تو بے شک جنت اُس کا ٹھکانا ہے۔
محاسبہ نفس کی اہمیت کا اندازہ ہم اِس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل ایمان کو خطاب فرما کر اپنے نفس کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے:
یَاأَیُّها الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ٭ وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنْسَاهمْ أَنْفُسَہُمْ أُولَئك همُ الْفَاسِقُونَ٭ (الحشر:۱۸۔۱۹)اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور ہر نفس (شخص) دیکھ لے کہ اُس نے آئندہ کل کے لےس کیا تیاری کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمھارے اعمال سے پوری طرح با خبر ہے اور تم اُن کی طرح نہ ہو جاؤ جنورں نے اللہ کو فراموش کردیا تو اللہ نے انیں اُن کی ذات کی طرف سے غافل کر دیا، وہی لوگ فاسق ہیں۔
محاسبہ نفس کی ضرورت اِس لےک بھی ہے کہ ایک طرف ہمارا نفس برائیوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور دوسری جانب ہمارے دل کی کیفیت بھی بدلتی رہتی ہے اِس لےا اطاعت و فرمانبرداری پر ثبات قلب کے لےس ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اِس تعلق سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
»عَنْ حَنْظَلَۃَ الأُسَیِّدِیِّ قَالَ – وَکَانَ مِنْ کُتَّابِ رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- قَالَ – لَقِیَنِی أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ کَیْفَ أَنْتَ یَا حَنْظَلَۃُ قَالَ قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَۃُ قَالَ سُبْحَانَ اللَّہِ مَا تَقُولُ؟: قَالَ قُلْتُ نَکُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- یُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ حَتَّی کَأَنَّا رَأْیَ عَیْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالأَوْلاَدَ وَالضَّیْعَاتِ فَنَسِینَا کَثِیرًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ فَوَاللَّہِ إِنَّا لَنَلْقَی مِثْلَ ہَذَا. فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- قُلْتُ نَافَقَ حَنْظَلَۃُ یَا رَسُولَ اللَّہِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- وَمَا ذَاکَ. قُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ نَکُونُ عِنْدَکَ تُذَکِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّۃِ حَتَّی کَأَنَّا رَأْیَ عَیْنٍ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِکَ عَافَسْنَا الأَزْوَاجَ وَالأَوْلاَدَ وَالضَّیْعَاتِ نَسِینَا کَثِیرًا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ -صلی اللہ علیہ وسلم- وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِنْ لَوْ تَدُومُونَ عَلَی مَا تَکُونُونَ عِنْدِی وَفِی الذِّکْرِ لَصَافَحَتْکُمُ الْمَلاَئكة عَلَی فُرُشِکُمْ وَفِی طُرُقِکُمْ وَلَکِنْ یَا حَنْظَلَۃُ سَاعَۃً وَسَاعَۃً. ثَلاَثَ مَرَّاتٍ(صحیح مسلم)
”ابو ربعی حنظلہ بن ربیع اُسیدی سے روایت ہے جو کہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں ایک ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو انوصں نے کہا اے حنظلہ تم کیسے ہو میں نے کہا کہ حنظلہ تو منافق ہو گیا۔ انویں نے کہا سبحان اللہ تم کیا کہہ رہے ہو میں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہیں تو ہماری یہ کیفیت ہوتی ہے کہ گویا ہم اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نکل جاتے ہیں اور اپنی بیویوں و اولاد اور زمینوں و غیرہ کے معاملات میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ پیش آتا ہے پس میں اورابو بکر رضی اللہ عنہ چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!حنظلہ تو منافق ہوگیا رسول اللہ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کو یاد دلاتے ہیں تو ہماری یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا ہم اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اور جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور اپنی بیویوں اور اولاد و زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں تو بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم اُسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس کیفیت پر میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر کی حالت میں جس کیفیت پر ہوتے ہو تو فرشتے تمھارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی لیکن اے حنظلہ وقت وقت کی بات ہے آپ نے یہ تین بار فرمایا۔
کاتبِ وحی حنظلہ بن ربیع اسیدی و ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کے اِس واقعہ سے نفس کی حالت اور دل کی بدلتی کیفیت کے متعلق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِحساس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اور اللہ رب العالمین نے اپنے متقی بندوں کے متعلق ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهمْ طَائف مِنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا همْ مُبْصِرُونَ (الأعراف:۱۰۲)بے شک متقی لوگوں کو جب شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔
اِسی طرح کسی کام کو کرنے کے بعد بھی ہم اُس کے متعلق اپنے نفس کا مُحاسبہ کریں کہ ہماے اِس کام میں حقوق اللہ یا حقوق العباد کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی تو واقع نہیں ہوئی ہے، اگر کوتاہی واقع ہوئی ہے تو اُس کی تلافی کے متعلق غور کریں اور عدمِ کوتاہی کی صورت میں آئندہ اُس سے بہتر طور پر عمل کو انجام دینے کے متعلق غور و فکر کریں۔
محاسبہ نفس کے متعلق عمر فاروق رضی اللہ عنہ کاقول ہے:
حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا، فإنه أهون علیکم فی الحساب غدا أن تحاسبوا أنفسکم الیوم، وتزینوا للعرض الأکبر یومئذ تعرضون لا تخفی منکم خافیۃ(حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم:۱/۵۲)
خود کا مُحاسبہ کےع جانے سے پہلے اپنے نفس کا مُحاسبہ کرو اور وزن کےل جانے سے قبل اپنے نفس کا وزن کرو آج تمھارا اپنے نفس کا مُحاسبہ کرنا آئندہ کل حساب و کتاب میں تمھارے لے زیادہ آسان ہے اور بڑی پیشی کے لےا تیاری کرو ،جس دن تم لوگ پیش کےد جاؤگے تو تمھارے اوپر کوئی پوشیدہ رہنے والی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی۔
میمون بن مہران رحمہ اللہ کا قول ہے:
لا یکون العبد تقیاً حتی یحاسب نفسه محاسبة شریکه، وحتی یعلم من أین ملبسه ومطعمه ومشربه أمن حل ذلک أم من حرام؟(الزھد لوکیع بن جراح: ص ۵۰۱)بندہ متقی نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے نفس کا مُحاسبہ اپنے شراکت دار سے مُحاسبہ کرنے کے مثل کرے اور جان لے کہ اُس کا لباس، کھانا و پینا حلال کمائی سے ہے یا حرام۔
محاسبہ نفس اِس لےا بھی ضروری ہے کہ نفس انسان کو گناہوں کی طرف مائل کرتا ہے اور اِس کو قابو میں رکھنا بہت ہی عظیم عمل و جہاد ہے اگر اِنسان نفس کو کنٹرول میں نہ رکھے اور اُس کی خواہشات کا غلام بن جائے تو یہ نفس پرستی اُس کو ہلاک و برباد کردے گی۔ابلیس نفس پرستی میں مبتلا ہو گیا تھا جس کے نتیجہ میں اُس نے حکم الٰہی کی تکمیل نہ کی اور فرمایا:
أنا خیرٌ منه خلقتنی من نار و خلقته من طین (میں اُس سے بہتر ہوں تم نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اُس (آدم) کو مٹی پیدا کیا ہے)
جس کی پاداش میں جنت سے دھتکار دیا گیا اور تا قیامت ملعون قرار دیا گیا۔
محترم قارئین!ہمیں اپنے نفس کا مُحاسبہ کسی عمل کو انجام دینے سے قبل اور انجام دینے کے بعد بھی کرنا چاہیے اور جب ہمارے اندر کسی کام کے کرنے کا ارادہ ہوتو ہم غور کریں کہ اِس عمل کو انجام دینا ہمارے بس میں ہے یا نہیں۔ اگر ہمارے بس میں ہے تو اُس کو کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا بہتر ہے، غور و فکر کے نتیجہ میں جب یہ بات واضح ہو جائے کہ اس عمل کو انجام دینا ہی بہتر ہے تو اُس کے متعلق ہماری نیت کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں اور حُسنِ نیت کے ساتھ مقصود عمل کو انجام دیں۔
محاسبہ نفس کے فوائد:
(۱)بندہ اِس کے ذریعہ اپنے عیوب پر آگاہ ہوتا ہے اور یہ آگاہی اُس کو اپنی خامیوں کے اِزالہ پر آمادہ کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو اپنے نفس کے متعلق خوب باخبر رہنے والا قرار دیا ہے:
بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَی نَفْسِہِ بَصِیرَۃٌ٭ وَلَوْ أَلْقَی مَعَاذِیرَہُ٭(القیامۃ:۱۴۔۱۵)بلکہ اِنسان اپنے سے خوب باخبر ہے اگرچہ وہ معذرتیں پیش کرے۔
اگر اِنسان کا دل گناہوں کے ارتکاب سے زنگ آلود نہ ہوا ہو اور اُس کے دل پر مہر نہ لگ گئی ہو تو گناہ اُس کے دل میں کرنے سے پہلے یا کرنے کے بعد بھی کھٹکتا رہتاہے، جیسا کہ نَواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
»الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِهتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ«(صحیح مسلم:۳۵۵۲)نیکی حسن خلق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹکے اور تمیںت یہ بات نا پسند ہو کہ لوگوں کو اُس کی خبر لگے۔
(۲)دوسروں کے عیوب تلاشنے اور تجسس سے بندہ محفوظ رہتا ہے کیوں کہ محاسبہ نفس کے نتیجہ میں اُس پر اپنے عیوب ہی آشکارا ہو جاتے ہیں اور وہ انیںد زائل کرنے کی فکر میں رہتا ہے یہ بھی اِنسان کے لےو بڑی سعادت مندی ہے کہ اپنی خامیوں و کوتاہیوں کو دور کرنے کی وجہ سے دوسروں کے پیچھے پڑنے سے بچا رہے۔
(۳)محاسبہ نفس کے ذریعہ بندے پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کی معرفت، اُس کے گوناگوں اِحسانات کا اِحساس اور اُس کے اندر حقوق اللہ کی ادائیگی کی فکر، اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری و اِحسان مندی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
(۴)محاسبہ نفس کے نتیجہ میں اِنسان اپنی گناہوں و تقصیرات پر واقف ہوتا ہے اور اللہ کے حضور میں توبہ و استغفار کرتا ہے:
وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَة أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللَّہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهم وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّہُ وَلَمْ یُصِرُّوا عَلَی مَا فَعَلُوا و هم یَعْلَمُونَ(آل عمران:۱۳۵)اور (متقی بندے)وہ لوگ جب کوئی بُرا کام کربیٹھتے ہیں یا اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے پھر اپنی گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو بخشتا ہے؟ اور وہ اپنے کے کاموں پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے۔
(۵)محاسبہ نفس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور گناہوں سے اِجتناب کی فکر دامن ہوتی ہے۔
(۶)دل کی اصلاح بھی محاسبہ نفس سے شروع ہوتی ہے اور اِنسانی اعضاء میں دل کا کیا مقام ہے یہ ہم پر مخفی نہیں۔
اللہ رب العالمین سے دُعا ہے کہ ہمیں اپنے نفس کے مُحاسبہ کی توفیق عنایت فرما اور اُس کے فوائد و برکات سے مستفید ہونیکی توفیق دے۔آمین۔وصلی اللہ علی نبینا محمد و علیٰ آله وصحبه اجمعین
آپ کے تبصرے