حالیہ دنوں کورونا وائرس نے ایک بار پھر نظام زندگی درہم برہم کر دیا، اکثر جگہوں خاص کر ہندوستان میں رات کے کرفیو اور لاک ڈاؤن نے نظام زندگی موقوف ہی نہیں بلکہ بہت حد تک مفلوج کردیا، نہ جانے کتنے لوگ جان کی بازی ہار چکے اور یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا اور تشویشناک ہی ہوتا جا رہا ہے۔ روزانہ لاکھوں نئے افراد اس وبا اور بیماری سے دوچار ہو رہے ہیں، کتنے افراد کو اس صورت حال نے بے یار و مددگار بھوکھا پیاسا روتا بلکتا چھوڑ دیا، کسی حد تک قیامت کی حقیقی تصویر آنکھوں کے سامنے، کسی کو کسی سے واسطہ نہیں، ہر ایک اپنے تئیں فکر مند ہے ۔ ان تمام حقائق کے باوجود اب بھی بعض حلقوں اور افراد کی طرف سے اس وبا کے تعلق سے بے شمار شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔اور مجموعی طور پر درج ذیل نظریے سامنے آرہے ہیں:
اول: کسی نے اسے سرے سے خارج کر کے اس کو بے بنیاد، ناقابل توجہ، جھوٹا پروپیگنڈہ بلکہ ایک سازش قرار دیا اور اس کے بچاؤ کے لیے کی جارہی تدبیروں اور کوششوں کی نہ صرف ان دیکھی کی بلکہ اس کا مذاق بھی اڑانے سے باز نہیں آئے۔
دوم: ایک تعداد اس کو کوئی نئی وبائی اور متعدی مرض ماننے کے بجائے ہر سال کی طرح اس کو ایک موسمی اور وائرل بیماری سمجھنے سے زیادہ پر قطعی آمادہ نہیں۔ اور غیر ضروری طور پر اس سے فکرمندی، پریشانی اور تشویش کو پوری طرح خارج کر رہی ہے۔
سوم: کسی نے اسے انسانی تخلیق بتایا اور اس کو بین الاقوامی سطح پر اپنی برتری وتسلط کی خاطر کی جا رہی مذموم اور گھناؤنی حرکت قرار دیا۔ یہاں تک کہ امریکہ نے اس کا الزام چین پر اور چین نے امریکہ پر لگایا۔
چہارم: بعض لوگوں نے اسے نہ تو بے بنیاد، ناقابل توجہ اور جھوٹا پروپیگنڈہ مانا اور نہ اپنی برتری وتسلط کی خاطر کی جا رہی مذموم اور گھناؤنی انسانی حرکت قرار دیا، اور عام موسمی بیماری کے بجائے اس سے کہیں بڑھ کر اس کو فطرت کی مار اور انسانوں کے ذریعہ فطری الہی نظام سے چھیڑ چھاڑ اور کھلواڑ کی وجہ سے اسے بندوں کو جھنجھوڑنے اور اللہ کی قدرت کا احساس دلانے کے لیے اللہ کا ایک عذاب قرار دیا۔
اس پورے پس منظر میں آخر اسلامی نقطہ نظر سے ہمارا موقف کیا ہونا چاہیے اور قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں کیا ہدایات اور رہنمائی ملتی ہے، کیونکہ ایک مسلمان سے ہر معاملہ میں اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سے اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً(البقرۃ:۲۰۸) اور کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات سےانحراف کی ذرہ برابر گنجائش نہیں دی گئی ۔ لہذا اللہ تعالی نے فرمایا:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ (روم:۳۰) کہ یہ ایسا فطری دین ہے جس میں اس انسانی فطرت (جس کے مطابق اس کی پیدائش ہوئی) کا پورا لحاظ کیا گیا ہے اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی اس نئی وبا اور بیماری کے بارے میں اس اسلام میں کیسے کچھ مل سکتا ہے جو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل مکمل شکل میں آچکا ہے؟ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن میں نماز جیسے اہم رکن و عبادت کی کیفیت، رکعات کی تعداد، اوقات کی تفصیلات، زکوۃ کا نصاب، حج کے بہت سے مسائل اور روزے سے متعلق بھی بہت سے اہم امور نہیں ملتے تو اس وبائی بیماری کے بارے میں اسلام کی روشنی میں کچھ تحقیق بے سود لگتی ہے۔ لیکن اسلامی تعلیمات خاص طور پر قرآن و حدیث پر گہرائی اور دقت سے غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ قرآن اور احادیث میں ہر مسئلہ کی وضاحت و تفصیل نہ سہی لیکن اس کی جانب ایسی رہنمائی ضرور ملتی ہے جس سے حقائق تک رسائی آسان ہوجائے ۔
اس طرح کے مسائل کا حل اور علاج اسلامی تعلیمات پر سنجیدہ علمی غور و خوض اور گہری تحقیق سے کسی قدر واضح ہو سکتا ہے۔ قرآن کی واضح اور دوٹوک ہدایت ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (الحجرات:۶) کہ کسی بھی خبر یا واقعہ کی تحقیق اس نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے کہ ایسا نہ کرنے پر غیر شعوری طور پر ہم کسی کی تکلیف کا سبب نہ بن جائیں کہ بعد میں اس پر شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔
ایک سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں تحقیق کی ضرورت کیوں جب کہ ڈبلو ایچ او (عالمی تنظیم برائے صحت) اور بلا استثناء دنیا کے تقریباً تمام ممالک اس کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور تمام سرگرمیاں موقوف کرکے نہ صرف اس کے تئیں احتیاطی تدابیر اور ضروری علاج اختیار کررہے ہیں بلکہ کئی ملکوں نےاس کے لیے ویکسین بھی تیار کرلی ہے اور اب بھی اس سلسلہ میں مزید قابل قدر کاوشیں اور تحقیقات اعلی پیمانہ پر جاری ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ذہن میں قرآن کریم کی آیت:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (الفرقان:۷۳) آتی ہے کہ اگر کسی بات کی دلیل میں قرآن کی آیتیں بھی پیش کردی جائیں تب بھی اندھے بہرے ہو کر اسے قبول کرنے کے بجائے اس کو دیکھنا اور اس کے جائزہ اور اس کی تحقیق کا حکم دیا گیا کی آیا اس سے استدلال درست بھی ہے یا یہ استدلال غلط اور خارج کرنے کے لائق ہے۔
اسی طرح اسلام میں بلا تحقیق، صرف شکوک و شبہات کی بنا پر کسی بھی چیز کی تردید، اس کا مذاق اڑانا اور اس کا انکار اسلام اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (الحجرات:۱۲)
اسی وجہ سے کسی شخص یا بعض افراد کے ایک آدھ بے بنیاد ویڈیو اور چند الجھی اور شہرت کی خاطر کی گئی باتوں کی بنیاد پر اس وائرس کا انکار ہرگز درست نہیں مانا جا سکتا۔ بلکہ اس کی سنجیدہ علمی تحقیق ضروری ہے اور اس تحقیق کے لیے ضروری اہلیت، صحیح معلومات کی فراہمی، متعلقہ حقائق تک رسائی، اس فن سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے رابطہ اور نکالے گئے نتائج کا باریک بینی سے جائزہ اور صحیح یا غلط سمجھنے کی معقول صلاحیت نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش حقیقت کے بھی خلاف ہے اور اسلام اور اس کی واضح تعلیمات کے بھی۔ لہذا قرآن کریم میں بغیر اہلیت کے بحث وتحقیق کو اللہ نے قابل مذمت قرار دیا اور فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ(الحج:۸)اور دوسری جگہ ایسی حرکت کو شیطان کی پیروی قرار دیا:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ (الحج:۳)
اسلام نے سنجیدہ غوروخوض اور خالص علمی بحث و تحقیق کے بعد حاصل شدہ نتیجہ کو سراہا بھی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ لیکن اگر اس کے لیے لازمی اہلیت اور ضروری مراحل طے کیے بغیر کوئی بات کہی گئی تو اس کی سخت الفاظ میں مذمت بھی کی گئی:
فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ(آل عمران:۶۶) کہ ایسے مسائل میں کیوں الجھتے ہو جس کے بارے میں معلومات ہی نہیں؟
اسلام کی یہی شناخت اور امتیازہے کہ حقائق اور دلائل سے گفتگو کی جائے اور اللہ تعالی نےاسے صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی نہیں بلکہ سابقہ تمام انبیاء کا طریقہ اور سنت قرار دیا اور فرمایا:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي(الأنبياء:۲۴) کہ آپ لوگوں سے دلائل اور ثبوت کا مطالبہ کیجیے یہی میرے ساتھیوں اور مجھ سے پہلے لوگوں کا طریقۂ کار رہا ہے اور اسی لیے مخالفین سے بھی ہمیشہ دلیل کا مطالبہ کیا گیا، لہذا اللہ نے ان سے بھی فرمایا:
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(البقرة:۱۱۱) کہ اگر تمھاری باتوں میں سچائی ہے تو دلیل و ثبوت دو۔
اسی طرح تحقیق و جستجو اور تصدیق و تردید کے تعلق سے درج ذیل آیتوں میں بھی اسلامی نظام اور مزاج کو بیان کیا گیا ہے:
مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (ق:۱۸) کہ اسلام میں ہر بات کا مواخذہ اور محاسبہ ضرور کی جائے گا یہاں تک کہ زبان سے نکلنے والی باتوں کا بھی لیکھا جوکھا اور حساب وکتاب ہوگا۔ اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ لوگوں کو روک کر ان سے ان کی باتوں کا حساب لیا جائے گا:
وَقِفُوْهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُوْلُوْن(الصافات:۲۴) یہی نہیں بلکہ قرآن کریم میں تو تمام اعضاء اور ان کے ذریعے کیے گئے اعمال کے محاسبہ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (الاسراء:۳۶) کہ جن چیزوں کی جانکاری نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنے سے بچو اور یاد رکھو کہ کان آنکھ اور دل و دماغ کوئی بھی عضو جواب دہی سے نہیں بچ سکتے۔
اور غور و خوض، بحث و تحقیق، اس کے لیے لازمی اہلیت، ضروری تقاضوں کو پورا کرنے کے بعد نکالے گئے نتائج ہر طرح کے شکوک و شبہات سے محفوظ خالص علمی اور حقیقی نتائج ہوں گے جس کو پورے ایمان و یقین اور پوری جواب دہی کے ساتھ بیان کرنے اور اپنے نقطہ نظر کے اظہار کے لیے آپ آزاد ہوں گے۔اور کہہ سکیں گے کہ مجھے وہ معلومات ہیں جو تمھیں نہیں۔ لہٰذا میری بات قبول کیجیے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا:
يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا(مريم :۴۳)
تو آئیے موجودہ وبا کورونا کا بھی اسی کی روشنی میں جائزہ لیں اور اس سلسلہ میں پائے جانے والے شکوک و شبہات پر غور کرکے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کریں اور سماج کو بھی اس سے آگاہ کریں۔
ابھی تک کی عام معلومات کے مطابق کورونا ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے اور نہیں معلوم کون متاثر ہے اور کون نہیں، بھیڑ میں کسی متاثر سے بےشمار لوگوں میں اس کے منتقل ہونے کا خطرہ ہے، جو ایک جان لیوا وبائی بیماری ہے۔ اسی وجہ سے بیشتر اسلامی ملکوں میں دینی شعائر میں بھی احتیاط برتی جارہی ہے۔
یہ بھی مد نظر رہے کہ عالمی سطح پر حکومتوں نےبھی اس سلسلہ میں سخت احتیاطی احکام صادر کیے ہیں کہ یہ خطرناک متعدی بیماری ہے، اور ایک ساتھ لوگ جمع نہ ہوں، دیگر اسلامی ملکوں کی بھی نظیریں سامنے ہے، معتبر علمائے کرام کے آراء اور وہ حدیث بھی ہمارے سامنے ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے’جذام‘یعنی کوڑھ کے تعلق سے فرمایا کہ کوڑھ ایک متعدی بیماری ہے اس سے ایسے بھاگو جیسے شیرسے بھاگا جاتا ہے، اسی طرح کورونا بھی متعدی اور خطرناک وبائی بیماری ہے اس سے بچنے کی تمام تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے کبھی بھی دوسروں کو مشقت میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔بےشمار حدیثیں ہیں جس میں اس پہلو کی وضاحت کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر امت کی مشکل اور پریشانی کا خطرہ نہ ہوتا تو ہر وضو میں مسواک کا حکم دیتا۔ ایک اور حدیث میں ہے امت کی مشکل اور پریشانی کا خطرہ نہ ہوتا تو عشاء کی نماز کو مؤخر کرنے کا حکم دیتا یعنی اگر کسی عمل سے دوسروں کو مشقت اور پریشانی ہو تو اسلام اس میں رعایت دیتا ہے۔ ایک اور حدیث ہے اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسا مسئلہ آیا جس میں دو پہلو ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان پہلو پر عمل کیا۔اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ اللہ تعالی کو یہ پسند ہے کہ شریعت میں دی گئی رعایتوں پر عمل کیا جائے۔
کورونا کے قہر نے دنیا کو اور خاص طور پر ان دنوں ہندوستان کو اپنے شکنجہ میں کچھ اس طرح لے لیا ہے کہ ہر طرف لاشوں کی قطاریں ہیں،اسپتالوں میں مریضوں کے لیے آکسیجن کا انتظام نہیں، دواؤں کی قلت اور کمی کابحران ہے۔ اس پس منظر اور ابھی تک حاصل عام معلومات کی روشنی میں کورونا کے ایک سنگین وبائی بیماری ہونے کا انکار مناسب نہیں لہذا اگر کسی کے پاس واقعی کوئی قابل اطمینان تحقیقی معلومات ہوں تو دلیلوں اور ثبوت کی روشنی میں اپنی تحقیق پیش کرسکتا ہے ورنہ وہ اس سلسلے میں احتیاطی پہلو پر عمل پیرا رہے۔ اور کسی شخص یا بعض افراد کے ایک آدھ بے بنیاد ویڈیو اور چند الجھی اور شہرت یا بعض دوسرے مقاصد کی خاطر کی گئی باتوں کی بنیاد پر اس وائرس کا انکار کرکے احتیاطی تدابیر سے ہرگز پہلوتہی نہ کرے۔
اس مضمون میں کچھ ملا نہیں 6393245169