کورونا جب چائنا سے سفر کرکے دوسرے ممالک میں پیر پسار رہا تھا تبھی یہ کہا گیا تھا کہ انڈیا میں کورونا کی سونامی آنے والی ہے، ظاہر سی بات ہے پیش گوئی غلط کیسے ہوسکتی تھی؟ کورونا کی سونامی آئی اور اس سونامی کے نتیجے میں موت کا رقص بسمل ابھی تک جاری ہے، آنکڑوں کو چھپانے کےباوجود سکتہ طاری کردینے والا تخمینہ ہے، حالت بایں جا رسید کہ لاشوں کے لیے شمشان اور قبرستان تنگ پڑگئے، جنازوں کے لیے کاندھے نہ دارد، جلانے کے لیے لکڑیوں کا کال پڑگیا، کورونا سونامی موت کی سونامی میں تبدیل ہوچکی تھی، زمین پر لاشوں کی بھرمار تھی، ندیوں میں لاشیں تیرتی ہوئی نظر آئیں، لاوارث لاشیں جابجا پڑی دکھائی دینے لگیں، کچرے کے ڈبوں میں بھی ڈیڈ باڈی ملی، کورونا سے مرنے والوں میں نمبر 1 ہمارا ملک رہا، ڈبلیو ایچ او کی پیشین گوئی پوری ہوگئی۔
اب ایک نئی پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلی لہر کا نشانہ بچے ہوں گے، ایسا لگتا ہے کہ تیسری لہر کو بچوں کے لیے روک کر رکھا گیا تھا، یعنی جب جوان بوڑھے سب نے کورونا کا مزہ چکھ لیا ہے تو بچے ہی کیوں محروم رہیں؟ طرفہ یہ کہ یہ پیش گوئی آئی اور اس پر پہلے کی طرح یقین کرلیا گیا ہے، یہاں تک کہ دورانیہ بھی بتا دیا گیا ہے جس میں ملک کے بچے کورونا کے جبر سے گذرنے والے ہیں۔ اب بڑی شدت کے ساتھ اگلی لہر کا انتظار کیا جارہا ہے، بعض مقامات پر تو بچوں کے لیے کوویڈ سینٹر بھی تیار کرلیا گیا ہے، بچوں کے سائز کے بیڈ بھی بنالیے گئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ آنے دو تیسری لہر کو ہم تیار ہیں، یعنی یہ لہر آئےگی نہیں بلکہ لائی جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ کورونا کے بارے میں مستقبل کے احوال کی خبر کے ذرائع کیا ہیں؟ مستقبل کے بارے میں کوئی بات اتنے وثوق سے کیسے کہی جاسکتی ہے؟ پھر جیسا کہا جاتا ہے من و عن واقعات اس کے مطابق ہی ظاہر ہوتے ہیں، آخر درپردہ کیا چل رہا ہے؟ کہیں ملک سے کچھ چھپایا تو نہیں جارہا ہے؟ کہیں ہر چیز پری پلان تو نہیں ہورہی ہے؟ کہیں جان بوجھ کر اپنے ملک کے پیاروں کو مارا تو نہیں جارہا ہے؟ آخر ہائی کمان کا ہر شخص پوزیٹیو ہونے کے بعد ٹھیک ہی کیوں ہوجاتا ہے؟بڑے بڑے کھدردھاری بیمار ہوکر وینٹی لیٹر تک کیوں نہیں پہنچتے ہیں؟ ان کے پوزیٹیو ہونے کی خبر آتی ہے پھر ہاسپٹل سے باعزت بری بھی ہوجاتے ہیں؟ ان کا ہر شخص اتنی امونیٹی رکھتا ہے کہ کورونا کو مات دے کر ہی چھوڑتا ہے، بیماری میں موت وہلاکت بڑی مچھلیوں کےحصے میں کیوں نہیں آتی ہے؟ سچ کہوں تو شکوک وشبہات چاروں طرف منڈلا رہے ہیں۔
بیماری سے انکار بالکل نہیں ہے لیکن ظاہری قلابازیاں بتاتی ہیں کہ زیر زمین سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، اگر وبا ہے تو اس کی آڑ میں بعض عناصر اپنے سیاہ مقاصد کی تکمیل بھی کررہے ہیں، عوام تو دانے دانے کو ترس رہے ہیں لیکن اہل اقتدار نے کورونا فنڈ کے نام پر بے پناہ دولت جمع کررکھی ہے، شبہات تو پیدا ہوں گے ہی ناں، آخر پہلی لہر کے آتے ہی سب سے پہلے شاہین باغ کو کیوں ختم کیا گیا؟ پھر کورونا کو بھی ہندو مسلم کے عینک سے دیکھنے کی کوشش کی گئی، نفرت کے ٹکسال سے کورونا جہاد کی اصطلاح بھی تازہ تازہ ڈھل کر آگئی، ادھر کورونا مہاماری کا طوفان عروج پر تھا ادھر دلی فسادات کے بہانے یکطرفہ گرفتاریاں بھی ہورہی تھیں، وبا کے دور میں بھی فرقہ پرست پارٹی ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہے بلکہ اپنے مخصوص ایجنڈے کی طرف رواں دواں ہے، کورونا ختم نہیں ہوا لیکن کسان بل آگیا، ابھی لاشوں کا آنکڑا نہیں تھما ہے لیکن سی اے اے پر عمل درآمد کا آدیش دے دیا گیا۔
باتوں میں تو دَم ہے