عربی درسیات کے اردو ترجمے مفید یا مضر؟

تسلیم حفاظ عالی تعلیم و تربیت

تصنیف و تالیف ایک عظیم الشان، رفیع القدر اور باوقار عمل ہے۔ گنجینۂ علوم و معارف کی صیانت وحفاظت اسی کی مرہون منت ہے۔ ہر شخص کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اندر تحریری ملکہ پیدا ہو، اس کے لیے وہ حتی المقدور جتن بھی کرتا ہے، لیکن یہ ملکہ معدودے چند افراد کے اندر ہی پیدا ہوتا ہے، وہ بھی طویل مشاقی، بھرپور ممارست و مزاولت اور ایک لمبے پر مشقت سفر طے کرنے کے بعد۔ خوش نصیب لوگ جہد مسلسل، عمل پیہم اور عزم مصمم کے ساتھ اس پر خطر راستے کو طے کرلیتے ہیں، اور خامہ کو جامہ کی جیب میں رکھنے کی اہلیت پیدا کرکے ارباب قلم کی فہرست میں اپنے نام کی تسجیل کرالیتے ہیں، جب کہ بدنصیب لوگ محنت چوری اور پست ہمتی کی وجہ سے اس پر خطر راستے کی مشکلات سے گھبرا کر بیٹھ جاتے ہیں اور مصنف بننے کے سنہری خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کر پاتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر مصنف بننے کا شوق رہ رہ کے جوش مارتا رہتا ہے اور وہ اپنے اس شوق کی تکمیل کے لیے علمی سرقہ اور خیانت تک کر بیٹھتے ہیں۔
میں اس چھوٹی سی تحریر میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، ہوسکتا ہے اس سلسلے میں آپ کے افکار و خیالات جداگانہ ہوں، میری فکر سے آپ کو اتفاق نہ ہو، ہر شخص اپنی اپنی دنیائے تصورات و تخیلات میں آزاد ہے، کوئی کسی پر اپنی فکر کو مسلط کرنے کا مجاز نہیں، تاہم جس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا عربی درسیات کے اردو ترجمے طلبہ ومعلمین کے حق میں مفید ہیں یا پھر مضر؟
میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی اور چند سالہ تدریسی دور میں اب تک جو تجربہ حاصل کیا ہے اس کے مطابق اگر بات کروں تو ان اردو ترجموں نے اساتذہ اور طلبہ دونوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں مفردات کی تشریحات اور عربی عبارتوں کے ترجمے موجود رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف عام طور پر اساتذہ تدریسی مواد کے استحضار واستعداد میں شارح کی شرح پر تکیہ کر لیتے ہیں، نہ مختلف کتبِ لغات کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنی صلاحیت کو پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں، نتیجتا علمی انجماد کا شکار ہوکر جہاں کے تہاں رہ جاتے ہیں، ان کی صلاحیت و قابلیت میں وہ استحکام پیدا نہیں ہوپاتا ہے جو تدریسی مشاقی کے بعد ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ان اردو ترجموں نے طلبہ کو بھی سہل پسندی اور عدم اجتہاد کی ایسی عمیق وادی میں ڈھکیل دیا ہے جہاں صرف علمی ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ان کتابوں میں عربی عبارتوں پر اعراب لگا ہوتا ہے، جس کی بنا پر طلبہ ذاتی طور پر حلِ عبارت کی بالکل کوشش نہیں کرتے، طوطے کی طرح رٹ کے استاد کے سامنے عبارت خوانی کردیتے ہیں، استاد بھی دل دل میں اپنی تدریسی کامیابی پر خوش ہوتا نظر آتا ہے کہ اس کی محنت رنگ لائی اور طلبہ کے اندر حل عبارت کی استعداد پیدا ہو گئی۔ سب سے بڑا جو نقصان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ طلبہ انہماک و استغراق کے ساتھ درس نہیں سنتے ہیں صرف اس بنا پر کہ یہ ساری تشریحات تو شرح میں موجود ہیں اسی سے رٹ کے امتحان میں پاس ہوجانا ہے۔
جو لوگ تدریسی میدان سے جڑے ہوئے ہیں انھیں معلوم ہے کہ ہندوستان کے اکثر مدارس میں طلبہ کے اندر عربی انشا پردازی کی قدرت پیدا کرنے کے لیے متوسطہ اولی سے لے کر فضیلت آخر تک اساتذہ کوشش کرتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی اکثریت معمولی معمولی جملے کو اردو سے عربی اور عربی سے اردو قالب میں ڈھال نہیں پاتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس عظیم الشان کام کو انجام دینے کےلیے ہم نے”معلم الانشاء” کو داخل نصاب کر رکھا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی شرح مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ احساس ذمہ داری سے عاری طلبہ اسی سے نقل کرکے استاد کو دکھا دیتے ہیں اور استاد بھی اپنے آپ کو صرف دستخط کرنے کا ذمہ دار سمجھتا ہے، دیگر خارجی تمرینات وتدریبات کے ذریعے ان کے معیار علم و فہم کو پرکھنے کو ضروری نہیں سمجھتا۔ نتیجتا کئی کئی سال گزارنے کے باوجود طلبہ کو فعل، فاعل اور مفعول کی صحیح شناخت نہیں ہو پاتی ہے۔
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اگر اس طرف دھیان نہیں دیا گیا تو مدارس کا تعلیمی معیار دن بدن مزید زوال پذیر ہو جائے گا، اور ہوسکتا ہے وہ دور بھی آئے کہ ان کتابوں کی شرح سمجھنے والے بھی نہ ملیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Ajmal shaikh

بالکل درست فرمایا شیخ
انہی نا اہلیوں کا نتیجہ ہے کہ مدارس میں اب عالم تو درکنار طالب علم بھی نہیں بن رہے