رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا،ایک علمی جائزہ: أدب الخلاف میں ایک اہم اضافہ

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

نام کتاب: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا:ایک علمی جائزہ

مصنف: رفیع احمد بن محمد عاقل (دارالسلام،سڈنی،آسٹریلیا)

ناشر: مرشد پبلی کیشن،شاہین باغ،نئی دہلی2020


’’زیر نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک منفرد علمی دستاویز ہے۔‘‘(ڈاکٹر عبد الرحمان الفریوائی)

’’کتاب کا اسلوب بیان خالص تحقیقی اور علمی ہے،یہ کتاب فقہی لٹریچر میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔‘‘(محمد ابوالقاسم فاروقی)


18 ؍ستمبر2022 کی شام کوعزیزم عبدالقدیر سلمہ نے کتابوں کا ایک پیکٹ تھماتے ہوئے حکم دیاکہ ’’ذرا، اس کتاب(رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا:ایک علمی جائزہ) کو دیکھیے گا‘‘ ،حکم کی تعمیل میں میٹرو ٹرین میں سوار ہوتے ہی، کتاب، فرط شوق سے پیکٹ سے نکالی لیکن سرورق پر نگاہ غلط انداز ڈال کر دیگر کتابوں کی ورق گردانی میں محو اور مصروف ہوگیا۔ گھر پہنچنے کے بعد پیکٹ کو مطالعے کی میز پر رکھ دیا۔ دو تین ہفتے کے بعد پھر اسی کتاب پر نظر پڑی تو سوچا کہ معاصر منظر نامے میں رفع الیدین کا مسئلہ کیا کم تھا کہ ایک اور اختلافی مسئلے پر بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ لیکن کتاب کو نظر انداز کرنا دشوار نہیں دشوار تر تھا،کیونکہ صاحب کتاب کوئی اور نہیں،رفیع احمد بن محمد عاقل (دارالسلام،سڈنی،آسٹریلیا) ہیں جن کی شخصیت واجب الاحترام اور نام سند اعتبار ہے۔ حافظہ اگر وفا کررہا ہے تو ، سب سے پہلے ’اذا ھبت ریح الایمان‘(سید ابوالحسن علی ندوی) کے اردو ترجمے ’جب ایمان کی بہار آئی‘ پر ان کا تبصرہ پڑھا تھا، جو ترجمان(دہلی) میں شائع ہوا تھا۔ چند سال قبل ان کی ایک کتاب(میاں نذیر حسین محدث دہلوی: چند الزامات کا تحقیقی جائزہ،جامعہ سلفیہ۔بنارس،2016) پڑھنے کا موقع ملا۔ مذکورہ بالا دونوں نگارشات جامعہ سلفیہ (بنارس) میں طالب علمی کے عہد کی یادگار ہیں، جن سے مصنف کی علمی اٹھان کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ’بانگ درا‘ (علامہ اقبال) پر مقدمہ؍تبصرہ لکھتے وقت کسی نے(نام نہیں یاد آرہا ہے) کہا تھاکہ جس کی ابتدا ہی ’ہمالہ‘ سے ہو رہی ہو ،اس شاعر کی رفعت و عظمت کا کیا کہنا! شیخ رفیع نے بھی اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں مولانا ندوی مرحوم جیسے well-established مصنف (جن کو لوگ راستے کابھاری پتھر سمجھ کر عقیدت سے چوم کر آگے بڑھ جاتے تھے) کی کتاب پر بے لاگ تبصرہ کر کے اپنی علمی سمت، سفر اور منزل کا اعلان کردیا تھا۔

آمدم بر سر مطلب، زیر تبصرہ کتاب کے ابتدائی چند صفحات کی قرأت ہی نے ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔ پہلے دن جس کتاب کا عنوان دیکھ کر ترش ابرو ہوا تھا، آج اسی کا ورق ورق پرچا رہا تھا اور ’دامن دل می کشد کہ جا اینجاست‘ کی کیفیت تھی۔ اسی لمحے یہ خیال بھی آیا کہ اگر لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون بھانپ لینے کی غلطی کربیٹھتا تو خالص علمی اور تحقیقی اسلوب میں لکھی گئی ایک منفرد کتاب کے مطالعے سے محروم رہ جاتااور یہ محرومی،دین و دانش دونوں لحاظ سے بڑی اذیت ناک ہوتی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اور لوگ بھی صرف عنوان دیکھ کر کتاب کو آگے نہ بڑھا دیں،اسی لیے چند باتیں پیش کرنے کی کوشش کررہاہوں ،جسے آپ تبصرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب کا موضوع یہ ہے کہ نمازی، رکوع کے بعد ہاتھوں کو لٹکا ہوا چھوڑ دے یا انھیں واپس سینے پر باندھ لے۔یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے:

باب اول: رکوع کے بعد ارسال،وضع اور رفع الیدین کی تاریخ

باب دوم: رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ کہاں رکھے؟

باب سوم: ارسال اور اس کے دلائل

اور اس میں تین شخصیات کی تقدیم،تقریظ اور تاثرات بھی شامل ہیں ۔کچھ کم پچاس صفحات پر مشتمل ڈاکٹر عبد الرحمان الفریوائی کا علمی مقدمہ، کتاب کے مباحث اور موضوع کے ابعاد کی تفہیم میں مدد کرتا ہے ۔ مولانا ابوالقاسم فاروقی کی تقریظ کتاب کے مشتملات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ مصنف کی قابل رشک علمی فتوحات کی دلکش اور روح پرور داستان پر مشتمل ہے ۔ابوالمحبوب سید انور شاہ راشدی کے تاثرات اس معنی میں اہم ہیں کہ نفس مسئلہ کے دونوں گوشوں پر ان کے اجداد نے کچھ اس انداز سے ذہنی توانائی صرف کی تھی کہــ’’اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی‘‘۔

مصنف نے’ حرف اول‘(ص:59 تا 67) کے عنوان سے وجہ تالیف بیان کی ہے جس کا مطالعہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کتاب کی تالیف کا پس منظر معلوم نہیں ہوسکے گا اور موجودہ حالات میں اس قسم کی کتاب کی تالیف اور اشاعت سے متعلق ایسے وسوسے پیدا ہوسکتے ہیں جو بعد میں پشیمانی اور پریشانی کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ اس مسئلے(نمازی، رکوع کے بعد ہاتھوں کو ٹکا ہوا چھوڑ دے یا انھیں واپس سینے پر باندھ لے)کے آغاز اور ارتقا کا تعلق برصغیر سے ضرور رہا ہے لیکن زیر تبصرہ کتاب کی تخلیق کا سبب برصغیر سے بہت دور فیجی کی سرزمین سے ہے جہاں پرمصنف کو ایک عرصے تک دعوت و تبلیغ کے میدان میں کام کرنے کا تجربہ رہا ہے اور اب بھی اس خطے سے تعلقات ہیں جن کو’حرف اول‘ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے جس درد مندی کے ساتھ اس مسئلے کے بطن سے پیدا ہونے والے خاندانی انتشار اورسماجی خلفشار کی طرف اشارہ کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سے معاصر قلم کاروں کی طرح انھوں نے اس تصنیف سے جلتی پر تیل نہیں پانی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔

کتاب کے محتویات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اہل حدیث مسلک کے علما کے مابین ہی وجہ نزاع تھا،اس لیے انھوں نے جن علما،کتابوں اور اخبارات کا ذکر کیا ہے سب کا تعلق اہل حدیث مسلک ہی سے رہا ہے۔مصنف کی تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ بیسویں صدی کے شروع میں منظر عام پر آیا اورمعاصر علما کرام نے اس موضوع پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ معاصر اخبارات و جرائد[ اخبار اہل حدیث(امرتسر) شحنۂ ہند (میرٹھ)صحیفہ اہل حدیث(کراچی)اور تنظیم اہل حدیث ]میں اس مسئلے پر کافی مواد موجود ہے جن کامصنف نے دقت نظری سے مطالعہ کیا ہے ،فریقین کے دلائل کا تجزیہ کیا ہے،مسئلے کے مالہ و ماعلیہ کی تاریخ،تحقیق اور تنقیح کی اور ہر گوشے کو سمیٹ لیا ہے اور اس کے بعد خالص علمی اسلوب میں پیش کردیا ہے۔ قارئین با تمکین کے لیے کتاب کے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ وہ خود کتاب اور صاحب کتاب کے اسلوب اور موقف کے بارے میں رائے قائم کرلیں۔

’’اس پوری بحث [سدل کا معنی اور حدیث کا مفہوم]کا خلاصہ یہی ہے کہ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جس ’’سدل‘‘کو نماز میں مکروہ قرار دیا گیا ہے ،وہ یہی ہے کہ نماز میں کپڑوں کو مختلف طرح سے لٹکایا جائے۔اس حدیث میں سے رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے پر استدلال کرنا بالکل نئی اپج ہے۔‘‘(ص :182)

’’عجیب بات ہے کہ صدیوں سے علماے کرام رکوع سے پہلے والے قیام میں ہاتھ باندھنے کے مسئلے پر بحث کرتے رہے ہیں،نہ صرف فقہ کی تقریباً ہر کتاب میں وضع الیدین کے دلائل مذکور ہیں،بلکہ اس موضوع پر بہت ساری مستقل تصانیف بھی مرتب کی گئی ہیں،مگر آج تک کسی محدث یا فقیہ نے اس حدیث کا نہ یہ مفہوم بیان کیا اور نہ ہی اس مسئلے میں اسے بطور دلیل پیش کیا ہے۔لغت کے سہارے احادیث کا من مانا مفہوم نکالنا انتہائی خطرناک کام ہے،جس کی توقع کسی اہل حدیث عالم سے نہیں کی جاتی۔‘‘(ایضاً)’’بہر حال اگر یہ بات مان لی جائے کہ اس حدیث میں ارسال کاتذکرہ نہیں ہے،پھر بھی اس مسئلہ کے ثبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وضع(ہاتھ باندھنے)کے عدم ثبوت اور ارسال کے ثبوت میں جو دوسرے دلائل پیش کیے گئے ہیں، وہ کافی ہیں۔ ارسال (ہاتھ چھوڑنے)پر اجماع نہ ہو تو بھی عمل متوارث ہے،اس پر محدثین اور مذاہب فقہیہ کا اتفاق ہے اور متعدد صحابہ کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔’’نماز میں رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کا عمل یا تو بدعت ہے یا جائز۔ممکن ہے بعض حضرات کے نزدیک اس کی حیثیت جائز سے کچھ زیادہ ہو،پھر بھی زیادہ سے زیادہ مستحب ہوسکتا ہے۔‘‘(ص:63)’’آخر میں عرض ہے کہ یہ مسئلہ استحباب کے دائرے میں آتا ہے،اس کی بنا پر اختلاف اورتفرقہ پیدا کرنا مناسب نہیں۔(ص:331)

مصنف نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے ایک فکر انگیز اور بصیرت افروز استدلال پر کتاب کا خاتمہ کیا ہے۔کتاب میں متن اور ترجمہ دونوں موجود ہے لیکن قارئین کی ضیافت طبع کے لیے ترجمہ پیش خدمت ہے:

’’آدمی کے لیے مستحب ہے[کہ] لوگوں کی تالیف قلب کے لیے ان مستحبات کو (یعنی زور سے بسم اللہ کہنا)چھوڑدے۔دین میں تالیف قلب کا مقام اس طرح کی مستحبات سے کافی بلند ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کا دل رکھنے کے لیے کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر کا ارادہ ترک کردیا ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سفر میں قصر کے بجائے پوری نماز ادا کی تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تنقید کی پھر ان کی اقتدا میں پوری نماز ادا کی اور کہا:اختلاف بری چیز ہے۔‘‘(ص:331)

کتاب ڈھیر ساری خوبیوں کی حامل ہے لیکن علمی دنیا میں کوئی بھی چیز حرف آخر کی حیثیت نہیں رکھتی ہے،یہ کتاب بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں ہے ،اسی لیے کتاب کے چند گوشوں کی طرف اشارہ کررہاہوں:

٭مصنف نے پہلے باب میں زیر بحث مسئلے پر مطبوعہ مضامین ؍کتابوں کا جو لیکھا جوکھا پیش کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو اصول تحقیق کی فرہنگ میںLiterature review کے نام سے جاناجاتا ہے لیکن اس کی عملی شکل خال خال ہی نظر آتی ہے۔مدارس میں مقالہ نگاری کی روایت کو فروغ تو حاصل ہورہا ہے لیکن معیار اطمینا ن بخش نہیں ہے، وجہ جگ ظاہر ہے، اساتذہ کی اکثریت مقالہ نگاری کے جدید علمی اسلوب سے ناواقف ہے اور نیا سیکھنے کا شوق بھی رخصت ہوگیا ہے۔ عصری جامعات میں تحقیق کا بازار گرم ہے لیکن ’اونچی دکان اور پھیکے پکوان‘والی کیفیت ہے۔ہندستان کی ایک معروف یونیورسٹی کے عربی شعبے سے میں نے بھی وہی کیا ہے جس کو انگریزی میں Research کہتے ہیں لیکن اس شعبے میں ایک آدھ استاذ ہی جدید اصول تحقیق سے واقف تھے اور عملی طور پر برتتے بھی تھے۔ایسے ریسرچ اسکالر بھی تھے جو synopsis کا صحیح تلفظ ادا کرنے کا باوجود اس کے صحیح مدلول سے ناواقف تھے۔Thesis and Anti-Thesis سے نابلد تھے اور Litereture Review کے بارے میں نہیں معلوم تھا کہ کس چڑیا کا نام ہے۔آج اس کتاب میں Literature review کی عملی شکل دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا ہے ،شاید اردو کی کسی کتاب میں پہلی بار کسی مسئلے پر اتنے سلیقے سے مواد کا تجزیہ کیا گیا ہے۔اسی لیے میری خواہش ہے کہ اساتذہ خاص طور پراس کتاب کو پڑھیں اور اعلی جماعتوں کے طلبہ کو بھی پڑھنے کی تاکید کریں بلکہ مطالعے میں داخل کردیں، صرف یہ بتانے کے لیے کہ مواد کیسے جمع کیا جاتا ہے،اس کی تحلیل اور تجزیہ کا طریقہ کیا ہوتا ہے ۔

٭کتاب کی زبان سہل اور سادہ ہونے کے ساتھ معیاری بھی ہے،لب و لہجے میں شائستگی اور متانت ہے جو عام طور پر اس قبیل کی کتابوں میں کم ہی نظر آتا ہے۔ اختلافی مسائل کے نام پر اردو میں جو لٹریچر دست یاب ہے ، یہ کم سواد تبصرہ نگار بھی اس سے کچھ حد تک واقف ہے اور اسی واقفیت کی روشنی میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہے کہ مسلک و مذہب کے فرق مراتب کے بغیر زیادہ تر مصنفوں کے اسلوب کو سوقیانہ اسلوب کہا جاسکتا ہے ۔ مسائل کی تنقیح سے زیادہ مصنف کی تجریح مقصود ہوتی ہے اور بعض بد قسمت تو اس حد کو بھی پار کر جاتے ہیں جو اردو ادب کی تاریخ میں ’’ریختی‘‘کے نام سے Famous بلکہ Infamous ہے۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نے(تذکرۃ المناظرین،مولانا محمد مقتدی عمری،مکتبہ نعیمیہ،مئو ناتھ بھنجن) کے مقدمے میں اختلافی مسائل میں لب و لہجہ کی شکایت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:’’موجودہ دور میں ’’آداب البحث والمناظرۃ‘‘اور’’أدب الخلاف‘‘وغیرہ عنوان سے متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، اور اس موضوع کی بعض قدیم کتابوں کو بھی اہل علم نے تصحیح یا تحقیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس نوعیت کی کتابوں میں تبادلۂ خیال کے جو شروط وآداب بیان کیے گئے ہیں،ان سے قدیم عہد کے علماء عموماً آراستہ تھے، البتہ بعض علماء اس دائرہ سے باہر نظر آتے ہیں، لیکن جدید دور میں شروط وآداب کی مخالفت بکثرت ہے، اور اس سے اسلام کے علاوہ کسی اور کا نقصان نہیں، ہم ’’کأنہ ولي حمیم‘‘والی آیت ضرور پڑھتے ہیں، لیکن ہمارا اسلوب ’’شواظ من نار‘‘کی ترجمانی کرتا ہے!‘‘

٭کتابیات جو مراجع و مصادر کے نام سے ہے یا تو اس کی پروف ریڈنگ ڈھنگ سے نہیں ہوئی ہے یا مصنف کو اسے تیار کرنے کا موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے پوری کتاب میں جو علمی اور تحقیقی فضا چھائی ہوئی ہے وہ اس حصے میں آکرقدرے دھندلی ہوجاتی ہے ۔

٭مراجع میں مصنف کی تاریخ وفات کا التزام کیا گیا ہے لیکن کتاب کی سن طباعت کا بالکل اہتما م نہیں کیا گیا ہے جب کہ اصول کتابیات کے مطابق آخر الذکرزیادہ ضروری ہے۔

٭کہیں کہیں اختصار کنفیوژن پیدا کررہا ہے،کم از کم مجھ جیسے طلبہ کے لیے جو علم و تحقیق کی دنیا سے بہت دورجاچکے ہیں لیکن ابھی جڑوں سے کٹے نہیں ہیں۔مثال کے طور پرایک جگہ ’’المصنف عبد الرزاق ھمام بن الصنعانی (211ھ)ت[:]الاعظمی‘‘(ص:342)لکھاہے۔تحقیق حدیث کے میدان میں ’الاعظمی‘ کی نسبت سے مئو ناتھ بھنجن ؍ اعظم گڑھ کی کم از کم تین شخصیات عالمی شہرت کی حامل ہیں: (1)ابوالمآثر حبیب الرحمان الاعظمی (2) ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی ۔ڈاکٹرضیاء الرحمان الاعظمی یہاں پر الاعظمی سے کون مراد ہیں؟

٭کتابوں کی ترتیب میں اردو اور عربی کی کتابوں کو الگ الگ پیش کیا جاتا اور مناسب اور موزوں فونٹ کا استعمال کیا جاتا تو کتاب کا حسن مزید نکھر جاتا اور استفادہ کرنے میں آسانی ہوتی ۔

٭فقہی ادب پر اردو کتابوں میں سب سے بڑی خامی بوجھل اور ثقیل الفاظ کا استعمال عام بات ہے ۔اس کتاب میں ایسا نہیں ہے ،الجھاؤ نہیں ہے ،ہاں، املا میں یکسانیت نہیں ہے جیسے:بہاول پوراور بھاول پور ، اس میں صحیح اور غلط سے زیادہ یکسانیت کا سوال ہے تاکہ نئی نسل کے قارئین کنفیوژ ن کاشکار نہ ہونے پائیں۔ اردو میں’’ خاصہ‘‘ اور’’ خاصا‘‘کا اچھا خاصا استعمال ہوتا ہے لیکن محل استعمال میں فرق ہوتا ہے جس کا لحاظ کم ہی لوگ کرپاتے ہیں ،یہاں بھی ایسا ہی معاملہ ہے ، اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ مفہوم متاثر ہوتا ہے اور باذوق افراد کو گراں معلوم ہوتا ہے ۔اس کتاب میں ایک سے زائد مقامات پر ’خاصا‘ کا املا ’خاصہ‘لکھا گیا ہے جیسے :’’خاصہ چرچا تھا‘‘(ص:89)’’خاصہ اضافہ نہ ہوا‘‘(ص:93) ’’خاصہ رواج میں‘‘(ص:111) جب کہ دونوں الفاظ کے معنی اور مدلول میں فرق ہے ۔(تفصیل کے لیے مطالعہ فرمائیں:لغات روز مرہ،شمس الرحمان فاروقی)

اس علمی کتاب کی اشاعت کا اہتمام مرشد پبلی کیشن،نئی دہلی نے کیا ہے،نشرواشاعت کے میدان میں نووارد ہونے کے باوجودکتابوں کی اشاعت کے انتخاب،تزئین و طباعت،گٹ اپ سے اس کی پیشہ ورانہ مہارت اور تکنیکی واقفیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے ٹائٹل کے پشت پر زیر بحث موضوع پر مطبوعہ کتابوں کی امیج سے جو کولاژ بنایا گیاہے،وہ خوب ہے۔ کتاب خرید کر پڑھیں گے تو مصنف اور ناشر دونوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور مزید علمی کتابوں کی اشاعت کی راہ ہموار ہوگی اور جب ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں گی تو قارئین کا ذہنی افق وسیع ہوگا۔

آپ کے تبصرے

3000