فیفا ورلڈ کپ قطر ۲۰۲۲ جہاں بین الاقوامی سطح پر کئی تنازعات کا شکار ہوا ہے وہیں دنیا کو کئی خوشگوار اسباق بھی دے رہا ہے۔ عموما دنیا بھر اور خصوصا یورپی ممالک کے اندر مختلف امور کو لے کر کافی بحث ہوتی رہی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ دسیوں چیزیں زیر بحث آئیں۔ زیر بحث امور میں ایک اہم مسئلہ “شراب نوشی” کا تھا۔ ورلڈ کپ کے شروع ہونے سے بہت پہلے اس مسئلہ کو بار بار اچھالا گیا کہ قطر ایک اسلامی ملک ہے دنیا بھر سے آنے والے شائقینِ فٹ بال جن کا تخمینہ ایک ملین کے اوپر ہے کیا ان شائقین کو شراب پینے کی اجازت ہوگی؟ مقامی قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے وزیٹرس کو آزادی دی جائے گی؟ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک پھر یورپ اور برطانیہ کے شائقین جن کا میچوں کے دوران شراب کا پینا ایک فیشن ہے، معمول ہے بلکہ ان کے لیے یہ جزء لاينفک ہے۔ ان شائقین کے ذہنوں میں رہ رہ کر یہی سوال اٹھتا تھا کہ ہم اس قدر پیسہ خرچ کرکے اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے دور دراز سفر کرکے قطر جائیں گے تو کیا اسلامی ملک قطر ہمیں شراب پینے کی اجازت دے گا؟ فیفا کی اکزیٹیو کمیٹی بالخصوص اس کے صدر نے کنفرم کیا کہ شراب پینے کی کوئی ممانعت نہیں ہوگی۔ شراب مہیا ہوگی اور پینے کی کھلی اجازت بھی ہوگی۔ وقتی طور پر قوانین کو relax کردیا جائے گا۔ لیکن اعلان کے برخلاف پہلے میچ شروع ہونے سے دو تین دن قبل اچانک قطر گورنمنٹ نے یو ٹرن لیتے ہوئے یہ نوٹیفکیشن جاری کردیا کہ میچ کے دوران (تین گھنٹے) اسٹیڈیم اور اس کے حدود میں شراب فروخت کرنے اور پینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہاں اپنی ہوٹلوں میں، لائسنس ہولڈر ریسٹورنٹ میں اپنی پسند کی شراب دستیاب ہوگی۔
۲ دسمبر ۲۰۲۲ کی ITV News کے دعوے کے مطابق “سعودی رائل فیملی” کی درخواست پر قطر نے آخری لمحہ میں
U-turn لے کر یہ تبدیلی کردی کہ فٹبال اسٹڈیم کے احاطے میں شراب فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی یہاں شراب پی جاسکتی ہے:
The rules were set to be relaxed for the World Cup, but in a last-minute U-turn, said to be at the request of the Saudi royal family, Qatar banned alcohol sales within the perimeters of the stadiums.
( ورلڈ کپ کے لیے قوانین میں نرمی کی گئی تھی، لیکن آخری لمحات میں یو ٹرن میں، سعودی شاہی خاندان کی درخواست پر قطر نے اسٹیڈیم کے احاطے میں شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی)
یوروپی ممالک کے باشندوں کا خلاف عادت و معمول شراب نوشی کے بغیر فٹبال میچ دیکھنے آنا، دوران میچ شراب نہ پینا اور اپنی پسند کی ٹیم کی تائید اور حوصلہ افزائی کرنے کا ایک نیا تجربہ دنیا کے سامنے آگیا ہے۔ یورپ برطانیہ وغیرہ میں میچوں کے دوران اور قبل اور بعد بھی جو ہنگامے ہوتے ہیں ان کو کنٹرول کرنے کے لیے لاکھوں پونڈ خرچ کرکے مختلف ایجنسیاں ہائیر کی جاتی ہیں۔ بسا اوقات فضاؤں میں پولیس کا ہیلی کاپٹر (Football hooliganism) کی نگرانی کرتا ہے۔ اتنے سارے جتن کے باوجود سیکڑوں ناخوشگوار واقعات رونما ہوجاتے ہیں، دسیوں لوگ زخمی ہوجاتے ہیں، سیکڑوں لوگ اریسٹ ہوجاتے ہیں، ان کے جرم کے مطابق ان کے خلاف تادیبی کاروائیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان سبھوں میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہوتی ہے جس کو آئی ٹی وی نیوز نے ہائی لائٹ کرتے ہوئے اپنی نیوز کی سرخی بنائی ہے کہ خواتین کے خلاف ہمارے ہاں جنسی چھڑ چھاڑ کا بازار جو گرم رہتا ہے وہ قطر میں بالکل مفقود ہے۔ یہ نیا تجربہ بتا رہا ہے کہ خواتین کے خلاف چھیڑ خوانی کا نہ میچ سے قبل نہ میچ کے دوران اور نہ ہی میچ کے بعد چھیڑ خوانی کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور اس قسم کی کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔ یوکے کی آئی ٹی وی نیوز نے برطانیہ کے معروف شہر ناٹنگھم فاریسٹ ٹیم کی پرستار ایک اٹھارہ سالہ خاتون Ellie Molloson جو اپنے والد کے ساتھ فٹبال ورلڈ کپ دیکھنے اور انگلینڈ ٹیم کی سپورٹ کے لیے قطر گئی ہوئی ہیں اس سے انٹرویو لیا تو وہ کہتی ہے:
She has felt safe in Qatar as a female football fan. (ITV News
میں قطر میں بہت محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔ اس نے بتایا کہ قطر آنے سے قبل میں بہت متفکر اور پریشان تھی کہ میرے لباس اور جسم کو لے کر میرے ساتھ نہ جانے کیا سلوک کیا جائے گا! کہیں میں گرفتار تو نہیں ہوجاؤں گی! اس گھبراہٹ اور اندیشوں کے سایہ میں جب میں قطر آئی تو میرا تجربہ بالکل الٹ تھا۔ میں نے ناقابل یقین حد تک اپنے کو محفوظ پایا ہے۔ وہ کہتی ہیں:
“I felt incredibly safe.”
ہمارا یہاں بہت اچھا استقبال ہوا۔ یہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ سب کا تجربہ ہے۔ باہر سے آنے والی سب خواتین یہاں اپنے کو محفوظ محسوس کر رہی ہیں اور اس ملک سے خوب محظوظ بھی ہورہی ہیں۔
آئی ٹی وی نیوز رپورٹر کہتی ہیں کہ مس مولوسن اور باہر سے آنے والی دیگر خواتین کا کہنا ہے کہ اس سال کے ورلڈ کپ اسٹڈیم میں ہم اپنے ملکوں سے کہیں زیادہ ویلکم کیے گئے۔
Ms Molloson, travelling from outside Qatar have said they found the stadiums at this year’s World Cup more welcoming than at home.
بالخصوص ہمارے ہاں کا فٹبال گراؤنڈ میں مردوں کا ڈومنیٹنگ ماحول اور ان کا جنسی ہراسمنٹ اور ان کی اوٹ پٹانگ حرکتیں ( catcalling or hassle) کرنا جیسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ برطانیہ کی آئی ٹی وی نیوز کی دیانتدار پروڈیوسر Suzanne Elliott نے اس پوری خبر کی سرخی ہی یہ باندھی ہے:
“ No catcalling or hassle, why female football fans feel safer in Qatar than at matches at home“
( کوئی کیٹ کالنگ یا پریشانی نہیں، کیوں خواتین فٹ بال شائقین گھر پر ہونے والے میچوں کے مقابلے قطر میں زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں)
اس خوشگوار تجربہ نے دنیا بھر کے ممالک کی انتظامیہ، سیکیورٹی اور پولیس فورسز کو سوچنے، غور کرنے اور تجزیہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے مختلف ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ پر کافی ڈسکشن ہورہی ہے۔ مختلف لوگوں سے انٹرویوز لیے جارہے ہیں۔ امن عامہ قائم کرنے والی بعض اتھارٹی نے کھلے الفاظ میں میچ کے دوران شراب پینے کے نقصان کا اعتراف کیا ہے اور اس پؤانٹ کو ہائی لائٹ کرکے اس پر مزید غور کرنے کی بھی ترغیب دلائی ہے۔ سعودیہ کے صائب مشورہ اور قطر کے فوری عمل نے دنیا کو ایک بہترین پیغام دیا ہے۔ دنیا اس پر عمل کرکے جہاں سیکڑوں مسائل، فتنوں اور ہنگاموں سے اپنے باشندوں کو محفوظ رکھ سکتی ہے وہیں بے حساب سرمایہ کی بھی بچت کرسکتی ہے۔
برطانیہ کی فٹ بال پولیسنگ کے سربراہ چیف کانسٹیبل مارک رابرٹس کا خیال ہے کہ “قطر ورلڈ کپ میں پریشانی کی کمی بڑی حد تک شراب کی تقابلی کمی کی وجہ سے تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ گرفتاریوں کی کمی اس بات کی علامت ہے کہ وزراء کو برطانیہ کے فٹ بال گراؤنڈ میں شراب نوشی پر پابندیوں کو کم کرنے کے مطالبات کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔”
Chief Constable Mark Roberts, the UK’s football policing lead, believes the lack of trouble at the Qatar World Cup was in large part due to the comparative scarcity of alcohol.
He said the lack of arrests was a sign that ministers should resist calls to ease restrictions on drinking in UK football grounds.
دین اسلام دین فطرت ہے۔ اسی وجہ سے اس نے شراب کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس سے عقل ماؤف ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے آدمی خیر وشر کے درمیان فرق نہیں کرپاتا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ ایک اسلامی ملک کو ۲۲۰ بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرکے اس کا انعقاد کرنا کیسا ہے اور یہ کہاں تک درست عمل ہے ان جیسے کئی سوالوں کے درمیان عوام وخواص کو اس ٹورنامنٹ سے پھوٹنے والی کرنوں کو بھی اگنور نہیں کرنا چاہیے۔ اس ٹورنامنٹ کے بہانے سیکڑوں لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر آیا ہے اور مخالفین کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو جھوٹا پروپیگنڈہ ہوتا ہے کسی حد تک اس کا ازالہ بھی ضرور ہوگا۔
{ اس خبر کو مزید تفصیل کے ساتھ پڑھنے کے لیے یوکے آئی ٹی وی نیوز کی لنک ملاحظہ کیجیے:
https://www.itv.com/news/2022-12-02/why-female-football-fans-feel-safer-in-qatar-than-at-matches-at-home}
آپ کے تبصرے