شیخ عزیر شمس سے ایک ملاقات

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی تذکرہ

یہ بات ہے کووڈ 19 اور پہلے لاکڈاون کے آغاز سے تقریبا ایک ماہ قبل کی، میں مکہ مکرمہ میں تھا اور اس سفر کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد شیخ عزیر شمس سے خصوصی ملاقات بھی تھا۔
اس وقت تک شیخ عزیر شمس سب کی طرح میرے لیے بھی ایک بڑا نام تھا کیونکہ وہ ایک ایسے میدان کے شہسوار ہی نہیں بلکہ قافلہ سالار تھے جس میدان کے راہرو بھی خال خال ہمارے درمیان نظر آتے ہیں۔
عزیر شمس کے نام کی پہچان ان کے سابقہ و لاحقہ القاب کے بجائے محض ان کے کام سے تھی۔ اس حوالہ سے دل نے اپنا رشتہ تو جوڑ لیا تھا مگر اس وقت تک یہ تعلق اپنا سفر طے کرکے گہرے عقیدتمندانہ مراسم تک نہ پہنچ سکا تھا جس کی ایک بڑی وجہ میری طبیعت کی یہ “خامی” بھی تھی کہ “بڑے لوگوں” سے اور “بڑے ناموں” سے ملنے میں کئی وجوہات کی بنا پر بڑا تأمل رہتا ہے اسی کا نتیجہ تھا کہ شیخ عزیر شمس کو بہت پہلے سے دور اور نزدیک سے دیکھا بھی اور ان کی بابت اور ان سے سنا بھی مگر باقاعدہ تعلقات استوار کرنے کا اور بالمشافہہ خصوصی ملاقات کرنے کا کبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔
شیخ ثناءاللہ صادق تیمی حفظہ اللہ کا یہ علمی احسان ہے کہ انھوں نے فیس بک پر شیخ عزیر شمس کے لائیو ڈسکشن کا آغاز کیا جن کو دیکھنے اور سننے کے بعد میرے اندر دو باتوں کا احساس جاگا، ایک تو یہ کہ شیخ ان “بڑوں” میں سے نہیں ہیں جن سے ملنا “بہت مشکل ہے”۔ اور دوسری بات یہ کہ شیخ سے شخصی طور پر مستفید نہ ہونا بہت بڑی محرومی ہوگی۔
چنانچہ اس سفر کے مقاصد میں شیخ سے ملاقات بھی شامل رہی اور حسب ارادہ شیخ ثنا صادق تیمی حفظہ اللہ کے توسط سے شیخ سے ملاقات کے لیے وقت لے لیا اور نماز عصر کے لیے شیخ کے محلہ کی مسجد جا پہنچا، نماز سے فارغ ہوکر باہر نکلا تو دیکھا کہ شیخ عزیر مسجد کے پچھلے حصہ میں منتظر کھڑے ہیں اور متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں، آگے بڑھ کر ملاقات کی، علیک سلیک کے بعد ہم تینوں شیخ کے گھر کی طرف چل پڑے۔
شیخ کی شخصی خوبیوں کے حوالے سے اپنی اس ایک ملاقات کی روشنی میں زیادہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا کہ میری گواہی بھی اتنی ہی کمزور مانی جائے گی تاہم یہ تو لکھ ہی سکتا ہوں کہ اس ایک ملاقات میں بھی میزبان کی سادگی اور مہمان کی قدرافزائی کا ایک انوکھا تجربہ ہوا۔
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
اس ملاقات کے وقت تین مقاصد میرے پیش نظر تھے۔
1۔ كلية الحديث (جامعة الإمام سيد نذير حسين الدهلوي، بنگلور) کا مفصل تعارف کروانا اور شیخ کو بغرض زیارت وافادہ ادارہ میں تشریف لانے کی دعوت دینا۔
2۔ تراث ابن تیمیہ کے سلسلے میں خود کے بھی اور طلبہ كلية الحديث کے بھی مستفید ہونے کے امکانات اور اس کے عملی راستوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا۔
مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے جب بات ہوئی تو شیخ محترم نے ہر ممکن اور قابلِ عمل تجویز پر اپنی رضامندی اور آمادگی ظاہر کی، افادہ و استفادہ کے باب میں اس قدر سہل اور آسان کہ “واخفض جناحك للمؤمنين” کی منہ بولتی تصویر نظر آئے۔ ذی علم حضرات میں ایسی شخصیات نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہیں۔
3۔ تیسرا مقصد مخطوطات کی قرأت اور تحقیق سے متعلق شیخ کے طویل تجربہ سے ذاتی طور پر کچھ سیکھنا کیونکہ اس باب میں میری کل پونجی محدثین کے نزدیک قلمی نسخوں میں کاٹ چھانٹ کے معروف اور بنیادی اصولوں سے زیادہ نہیں تھی، شیخ عزیر شمس نے اس عرضداشت پر بھی اپنی آمادگی ظاہر فرمائی۔
مرضی مولی کہ پہلے طویل لاکڈاون اور پھر ہماری تھوڑی سی سستی رہی اور یہ اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا اور قبل اس کے کہ ہم اپنے منصوبوں اور ارادوں کو عملی جامہ پہنا پاتے اچانک یہ خبر آئی کہ شیخ عزیر رخصت ہوگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
كل مصيبة بعدك جلل يا رسول الله!
شیخ عزیر تو نیت کا اجر اپنے ساتھ لے گئے اور ہم بس ہاتھ ملتے رہ گئے۔
شیخ عزیر شمس ان اہل علم میں سے تھے جن سے بالمشافہہ کچھ سیکھنے کی بڑی آرزو تھی، اب یہ محض ایک تمنا بن کر رہ جائے گی۔
شیخ عزیر شمس کی پہچان ایک محقق (بالخصوص ابن تیمیہ و ابن قیم رحمہما اللہ کے علمی ورثہ کے محقق و مدقق) کی ہے۔ اللہ جزائے خیر دے شیخ ثنا صادق تیمی حفظہ اللہ کو کہ فیس بک پر لائیو ڈسکشن کی شکل میں 40 سے زیادہ علمی مجلسوں کا انعقاد کرکے تراثِ ابن تیمیہ اور مخطوطات کی دنیا سے ہٹ کر ان کے علم کے دیگر دروازوں کو بھی وا کرنے کی بڑی کامیاب کوشش کی اور ہم جیسوں کی آرزوؤں کی ادھوری تکمیل کا سامان مہیا کردیا۔
شیخ ثنا صادق تیمی ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں کہ آپ نے شیخ عزیر کی شخصیت کی پرتیں کھولنے کی کامیاب کوشش کی اور زیر زمین چٹانوں کے اندر بہتے چشمے کی طرح مخطوطات میں گھری شیخ کی زندگی میں سیندھ لگائی اور ان کے علوم و معارف کا ایک چشمہ جاری کرکے ایک پنگھٹ بنادیا اور ہر خاص و عام کے لیے اس سے سیرابی کا راستہ ہموار کردیا۔ جزاكما الله عنا جميعا خيرا
ان مجلسوں کی تعداد 47 ہے جن میں تاریخ اسلام، تاریخ ہند، تاریخ اہل حدیث کے ساتھ ساتھ تقریبا تمام ہی علوم و فنون کے سلسلے میں بڑی ہی بنیادی اور شاندار گفتگو کی گئی ہے۔
تاہم ان مجالس کی بابت دو اہم باتیں ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے:
1۔ آپ کی یہ مجلسیں مختلف علوم و فنون کے مبتدئین کے لیے بیش قیمت علمی تحفہ ہیں تو متخصصین کے لیے بھی علم و معرفت کا خزینہ ہیں، ایک طرف جہاں مبتدی مختلف علوم کے مبادیات اور ان کے مصادر سے آشنا ہوتا ہے تو دوسری طرف ان میں ایک متخصص کی تسلی کا سامان بھی میسر ہے جو چیدہ چیدہ مقامات پر دعووں اور دلیلوں کی شکل میں ملتا ہے۔
2. شیخ عزیر شمس کثیر المطالعہ تھے، ساتھ ہی اس باب میں ان کا اپنا اصول بے لاگ مطالعہ کا تھا، سب کو پڑھتے تھے اور سب کو پڑھنے کی دعوت بھی دیتے تھے۔ شیخ عزیر جیسی موسوعاتی شخصیات کے پاس بعض تفردات کا پایا جانا خود اپنے آپ میں ایک متوقع امر ہے تو مطالعہ کے باب میں اس بے لاگ اصول کا لازمی نتیجہ بھی، بنا بریں ان مجلسوں کے بعض مشمولات کے سلسلے میں بعض اہل علم کے تحفظات یقینا اپنا علمی وزن رکھتے ہیں، اس سلسلے میں خود شیخ عزیر شمس کے رفیقِ دیرینہ جلیل القدر عالم دین شیخ صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ نے اپنے مفصل مضمون (رفیقِ گرامی شیخ محمدعزیر شمس: نصف صدی کی اخوت و رفاقت) میں بڑا متوازن موقف اپنایا ہے جو سلف صالحین کے ان اصولوں کی یاد تازہ کرتا ہے کہ: (كل يؤخذ من قوله ويرد عليه إلا صاحب هذا القبر)
(الرجال يعرفون بالحق لا الحق يعرف بالرجال)
(لاتعرف الحق بالرجال اعرف الحق تعرف أهله)
(من عرف الحق بالرجال حار في متاهات الضلال)
لہذا شیخ عزیر شمس کے قارئین و سامعین کو بھی یہی منہج پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ خود شیخ عزیر خود بھی اس منہج کے مناد تھے۔
ہم واپس اپنی ملاقات کی طرف لوٹتے ہیں، شیخ عزیر شمس سے میری اس ملاقات کی ایک اور بات قابل ذکر بلکہ اہم ہے، اس سفر سے چند ہفتوں قبل سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے یہ دعوی کیا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور مولانا مودودی دونوں کے کارنامے تجدیدی ہیں اور دونوں کی فکر اور کارناموں میں اس حد تک مناسبت پائی جاتی ہے کہ دونوں نے ایک ہی موضوع پر دو بڑی معرکة الآراء کتابیں لکھی ہیں، چنانچہ مولانا مودودی نے “خلافت و ملوکیت” لکھی تو ابن تیمیہ نے “الخلافة والملك” کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی تھی۔
بر وقت میں نے اس دعوی کی تردید کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ایسی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے بلکہ ایک استفتاء کا جواب ہے جو مجموع الفتاوى کی جلد نمبر 35 کے آغاز میں مطبوع ہے، جس کا عنوان (باب الخلافة والملك وقتال أهل البغي) ہے۔ البتہ کچھ حضرات نے اسی حصہ کو (الخلافة والملك) کے نام سے الگ سے شائع بھی کیا ہے جیسے عام طور پر شیخ الاسلام کے رسائل اور منتخب فتاوی کے سلسلہ میں کیا جاتا ہے۔
اور دوسری گرفت یہ کی تھی کہ اپنے مشمولات کے اعتبار سے بھی ان دونوں کتابوں میں کوئی مطابقت اور موازنہ ہی نہیں ہے بلکہ بعض پہلوؤں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے رسالہ کو مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت کے بعض افکار کا رد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، حالانکہ دونوں میں متقدم و متأخر کا فرق ہے۔
بات آئی گئی پرانی ہوگئی تھی شیخ عزیر سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس موضوع پر گفتگو کی، شیخ نے میری بات سے اتفاق بھی کیا اور ساتھ ہی میرے سامنے تراث ابن تیمیہ کے سلسلہ میں یہ تفصیل بھی رکھی کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف اور مقالات کی تین فہرستیں بن سکتی ہیں اور ہم نے بنائی ہیں اور پھر خود کی تیار کردہ اس سہ رخی فہرست کی ایک کاپی شیخ عزیر شمس نے مجھے دی۔
اس سہ رخی فہرست کے إجمالا تذکرہ کے ساتھ ان کی دی ہوئی اس فہرست کی ایک کاپی پی ڈی ایف کی شکل میں اس مضمون کے ساتھ نتھی کررہا ہوں تاکہ یہ علمی امانت علم دوست حضرات کے حوالے ہوجائے۔
1۔ پہلی فہرست شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ان رسائل کی ہے جو مجموع الفتاوى میں شیخ الاسلام کے دیگر فتاوی کے ساتھ شامل اشاعت کر لیے گئے ہیں کیونکہ ان کی حیثیت بھی دراصل استفتاء کے جوابات کی ہے۔ ان کی تعداد 112 ہے۔
2۔ دوسری فہرست ان رسائل کی ہے جو مجموع الفتاوى میں شامل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مستقل تصانیف ہیں جن کی کل تعداد 37 ہے۔
3۔ تیسری فہرست ابن تیمیہ کے علمی ورثہ میں سے ان کتابوں کی ہے جن کا ترجمہ اردو زبان میں ہوچکا ہے۔ یہ فہرست خود شیخ عزیر شمس کے قلم سے لکھی ہوئی ہے جس میں کتابوں کی تعداد 59 ہے۔
تراث ابن تیمیہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ سہ رخی فہرست خاصے کی چیز ہے۔
شیخ عزیر شمس سے میری آخری بات چیت رمضان ١٤٤٣ھ کے آخری عشرہ کی ہے، مختصر دورانیہ کے اس سفر میں میرے پاس ایک ہی دن کا فارغ وقت تھا جس میں اہل علم سے ملاقات ممکن تھی، مجھے شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ اور شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ دونوں سے ملنا تھا مگر ان میں سے صرف کسی ایک سے ہی ملاقات ممکن تھی، میں نے شیخ عزیر سے فون پر رابطہ کیا، شیخ نے فورا پہچان بھی لیا اور جب میں نے اپنی بات صاف صاف رکھ دی تو بڑی فراخدلی سے کہا کہ آپ شیخ وصی اللہ سے ملاقات کرلیں کہ ادارے(كلية الحديث بنگلور) کے حوالے سے آپ کا ان سے ملنا ضروری ہے، پھر وقت رہے تو مجھ سے مل لیں ورنہ اگلے سفر میں إن شاء الله ملاقات ہوگی۔
اگلا سفر؟؟
اس مسافر کے دوبارہ مہمان بن کر وارد ہونے سے قبل میزبان خود اپنے حقیقی سفر پر روانہ ہوگیا۔ اللهم أجرنا في مصيبتنا و أخلف لنا خيرا منه

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
محمد زید عمری

اس پلیٹ فارم پر اپنی تحریریں ارسال کرنے کا طریقہ کار بتائیں۔ عین نوازش ہوگی ۔ اس پر پیج بنانا ہوگا ؟