میں، میرے لیے، میرے پاس

تسلیم حفاظ عالی عقائد

میں، میرے لیے، میرے پاس، یہ تین باتیں ایسی ہیں کہ اگر ان کا اطلاق اپنی جائز حدود کے اندر ہو تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن جب ان کا استعمال اپنی حدوں سے متجاوز ہو جائے تو یہ انسان کی ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ ان الفاظ میں سے ہیں جن کا متکبرانہ استعمال انسان کو تواضع و خاکساری کے اوصاف انسانی سے روگرداں بناکرتعلی و ترفع اور کبر و نخوت کے اوصاف شیطانی کا حامل بنا دیتا ہے۔ پھر انسان فروتنی و خاکساری کے خوبصورت جامہ کے تانے بانے ادھیڑ کر کبر و غرور کا ابلیسی خول اپنے اوپر چڑھا لیتا ہے۔نتیجتاً وہ اپنے آپ کو انسانی اوصاف سے بالاتر سمجھ کر الہی اوصاف کا مجاز ماننے کی بھیانک غلطی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور شدید عذاب کامستحق بن جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ عز وجل کا فرمان ہے :الكبرياءُ ردائي ، والعظمةُ إزاري ، فمَن نازعَني واحدًا منهُما ، قذفتُهُ في النَّارِ. (أبوداود:۴۰۹۰- صححه الألباني) کبریائی (بڑائی ) میری چادر ہے اور عظمت میرا تہ بند۔ جو شخص ان دونوں چیزوں میں سے کسی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرےگا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا۔

لفظ میں کے متکبرانہ استعمال ہی نے تو شیطان کو راندۂ درگاہ بناکر ہمیشہ ہمیش کے لیے ملعونین کے خانے میں داخل کردیا ۔اسی تکبر انگیز میں نے شیطان کو حکم الہی سے سرتابی کا احمقانہ حوصلہ دیا۔چنانچہ اس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور انکار کی وجہ اپنے پندار کو قرار دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے :

قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ۔ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ (الأعراف:۱۲۔۱۳)حق تعالی نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے،جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے۔حق تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بے شک تو ذلیلوں میں سے ہے۔

چنانچہ شیطان لعین کو اپنی اس سرکشی کی یہ سزا ملی کہ وہ ذلت و خواری کا مستحق قرار پاکر ابدی شقاوت کا شکار ہو گیا ۔

اسی نخوت آگیں انا کی وجہ سے فرعون کو ربوبیت کی دعویداری کی خبیثانہ جرات ہوئی۔دلائل و معجزات کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ تکذیب و عصیان کے راستے پر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل گامزن رہا۔اور جب موسی علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی ربوبیت و الوہیت پر دلالت کرنے والے متعدد دلائل و معجزات پیش کردیے، تو فرعون کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں میری قوم موسی علیہ السلام کے پیش کردہ دلائل و معجزات سے متاثر ہوکر ان کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ چنانچہ اس نے اپنی شکست خوردگی کے داغ کو چھپانے،قوم کو مسلسل دجل و فریب میں مبتلا رکھنے،موسی علیہ السلام کی بے توقیری و کمتری کو نمایاں کرنے اور قوم کو اپنی سطوت و سلطنت سے مرعوب رکھنے کے ناپاک ارادے سے اختیار و اقتدار کی نسبت اپنی طرف کی اور’میرا اورمیرے لیے‘ کا متکبرانہ استعمال کیا۔اللہ تعالی نے فرمایا :

وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِى قَوْمِهِۦ قَالَ يَٰقَوْمِ أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ ٱلْأَنْهَٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ، أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ (الزخرف:۵۱۔۵۲)اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا اے میری قوم!کیا مصر کا ملک میرا نہیں ؟اور میرے( محلوں کے) نیچےیہ نہریں بہ رہی ہیں کیا تم دیکھتے نہیں ؟ بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بے توقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔

آخر کار اللہ تعالی نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے کذابین و متمردین کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔

قارون کو اللہ تعالی نے مال و دولت کے اس قدر خزانے عطا کیے تھے کہ کئی کئی طاقت ور لوگ بمشکل اس کی کنجیاں اٹھا سکتے تھے،لیکن اس نے اللہ کی شکرگزاری کی بجائے دولت کی فراوانی سے مدہوش ہوکر بنی اسرائیل کو مشق ستم بنانا شروع کردیا اورفرط زر پر مست مے پندار ہوکربنی اسرائیل کا استخفاف کرنے لگا۔ایک بار اس کی قوم نے کہا اترا مت۔ اللہ تعالی اترانے والوں سے محبت نہیں رکھتااور اللہ تعالی نے جو تجھے دولت و ثروت دے رکھی ہے اسے ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر جہاں اللہ پسند فرماتا ہے۔اس سے تیری آخرت سنور جائے گی اور تو اجر و ثواب کا مستحق ہوگا۔ لیکن قارون پر نصیحت کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔ اس کا کفر و طغیان حد سے تجاوز کر گیا اور اس نے کبر و غرور کی ساری حدوں کو پھلانگتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہا :

قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي(القصص:۷۸)یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے۔

یعنی مجھے کسب و تجارت کا فن آتا ہے یہ دولت تو اسی کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ اللہ کے فضل و کرم کا اس سے کیا تعلق ؟ یا یہ کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ مال و دولت کی فراوانی اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔بد بختی کی انتہا تو تب ہوئی جب اس نے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر یہ سوچ لیا کہ مال ودولت کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے یہاں معزز و محترم ہوں۔ موسی علیہ السلام کی اطاعت کیوں کروں ؟ چنانچہ اللہ تعالی نے اسے عبرتناک سزا دی،خزانوں اور محلات سمیت اسے زمین میں دھنسادیا۔

آج بھی دنیا کے اندر کتنے ایسے بد نصیب لوگ موجود ہیں جنھیں اللہ تعالی نے انواع و اقسام کی نعمتوں سے سرفراز کر رکھا تھا۔لیکن جب انھوں نے ان نعمتوں کی بے قدری کی۔ اللہ کے انعامات و احسانات پر شکرگزاری کی بجائے ناشکری کا مظاہرہ کیا۔کبر و نخوت میں مبتلا ہوکر انا پرستی کے مرض کا شکار ہوئے۔ دوسروں کے ساتھ حقارت آمیز تعامل کو اپنی عادت بنالی۔ہم چومن دیگرے نیست کا ابلیسی چولا اوڑھ لیا۔میں میں، میرے لیے میرے لیے،میرے پاس میرے پاس کے متکبرانہ احساسات کے زیر بار ہوکر کبریائی و بڑائی کی چادر کو اللہ رب العزت سے چھیننے کی احمقانہ جرات کی۔ تو اللہ تعالی نے انھیں کیفر کردار تک پہنچادیا۔کتنے کامیابی و کامرانی کی بلندیوں تک پہنچتے پہنچتے دھڑام سے منہ کے بل گرے اور گرے ہی رہ گئے۔کتنے مال و دولت کی ریل پیل سے مغرور دادعیش و نشاط دینے والے کاسۂ گدائی لے کر در در دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوئے۔کتنے صحت و قوت پر عجب و غرور کا مظاہرہ کر نے والے خطرناک و لا علاج امراض کے شکنجوں میں اس طرح جکڑ دیے گئے کہ سسکیاں لینے اور آہیں بھرنے کے سوا ان کے نصیبے میں کچھ بھی نہ بچا۔

تکبر کی اخروی سزا اس قدر خطرناک اور ہولناک ہے کہ سن کر بدن کے ریشے ریشے اور قلب و جگر کے گوشے گوشے میں ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔تکبر کرنے والا جس طرح اس دنیا میں اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا سمجھتا ہے،قیامت کے دن اسی طرح اس کے ساتھ نہایت ہی ذلت خیز اور حقارت آمیز برتاؤ کیا جائے گا۔ ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

يُحشَرُ المتَكَبِّرونَ يومَ القيامةِ أمثالَ الذَّرِّ في صُوَرِ الرِّجالِ يغشاهمُ الذُّلُّ من كلِّ مَكانٍ ، يُساقونَ إلى سجنٍ في جَهَنَّمَ يسمَّى بولُسَ تعلوهُم نارُ الأَنْيارِ يُسقونَ من عُصارةِ أَهْلِ النَّارِ طينةَ الخبالِ . (الترمذي:۲۴۹۲- حسنه الألباني) متکبرین کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا۔انھیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی۔پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام ’بولس‘ ہے۔ اس میں انھیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے، جسے ’طینۃ الخبال‘ کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ ۔

اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ انسانی اوصاف کا حامل بن کر رہے۔تواضع و خاکساری،عاجزی و فروتنی کے حسین لباس میں ملبوس ہوکر اپنے انسانی شرف و وقار کو برقرار رکھے۔کبریائی و بڑائی تو خالص الہی اوصاف ہیں جو ضعیف و ناتواں انسان کے بالکل شایان شان نہیں۔

آپ کے تبصرے

3000