شیخ عبید اللہ طیب مکی رحمہ اللہ :صاحب جلال وجمال

طارق اسعد تذکرہ

جامعہ سلفیہ بنارس نے گذشتہ چند سالوں میں اپنے کئی قابل قدر، با صلاحیت اور لائق وفائق اساتذہ کو کھویا ہے، ماضی قریب میں مولانا علی حسین سلفی ،مولانا نعیم الدین مدنی، مولانا محمد بن عبد القیوم مدنی، ماسٹر احمد حسین بستوی رحمہم اللہ یکے بعد دیگرے داغ مفارقت دے گئے، ان سے کچھ پہلے علامہ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ، مولانا محمد حنیف مدنی، مولانا عبد السلام مدنی، حافظ نصر اللہ جونپوری، حافظ عبد الحکیم فیضی علیہم الرحمہ بھی مرحومین کی صف میں پہنچے، اور اب شیخ عبید اللہ طیب مکی صاحب کی وفات حسرت آیات نے ابنائے سلفیہ ووابستگان جامعہ کو غمزدہ ورنجور کردیا، اللہ تعالیٰ تمام اساتذہ کرام کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لے ، ان کی لغزشوں کو در گذر فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔

ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ

میں ابھی آیا ہوں تصویریں پرانی دیکھ کر

شیخ عبید اللہ طیب مکی رحمہ اللہ کی شخصیت بڑی دلچسپ اور قابل توجہ تھی، جب ہم لوگ ابھی عربی کے ابتدائی درجات میں تھے تو اس وقت عالمیت و فضیلت کے اساتذہ کا بڑا رعب اور دبدبہ رہتا تھا، اور ہم ان کی ہیبت ووقار کے سامنے دبے دبے سے رہتے تھے، اور ایسا کیوں نہ ہو، اس وقت جامعہ میں اساطین علم وفضل کی ایک دنیا آباد تھی۔ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، مولانا عبد السلام مدنی، مولانا عبد الوہاب حجازی، مولانا محمد حنیف مدنی وغیرہم جیسے باصلاحیت اور اصحاب علم وفضل مساند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے اور نہ صرف جامعہ میں ان کے علم وفضل کا طوطی بولتا تھا بلکہ اس کی بازگشت جامعہ کی چہار دیواری کے باہر بھی سنائی دیتی، یہ وہ اساتذہ تھے جن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر نے کی خواہش پوری نہ ہو سکی، دوسری طرف مولانا محمد مستقیم سلفی، مولانا عبد الکبیر مدنی، والد گرامی مولانا اسعد اعظمی ،مولانا عزیز الرحمن سلفی، ڈاکٹر محمد ابراہیم مدنی، مولانا عبیداللہ طیب مکی، مولانا محمد بن عبد القیوم مدنی، مولانا نعیم الدین مدنی وغیرہم کے حلقہ تربیت میں شامل ہونے اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا، فللہ الحمد والمنۃ۔

ہمارے ممدوح ومرحوم استاد شیخ عبید اللہ طیب مکی کی شخصیت جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا بڑی دلچسپ اور قابل توجہ تھی، وہ ایک بلند قد وقامت اور چھریرے بدن کے مالک شخص تھے، نفاست وطہارت، پاکی وپاکیزگی، خوش طبعی و خوش “طِیبی” تو جیسے ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ساتھ میں لباس کا حسن انتخاب، رہن سہن اور چال چلن میں ایک مخصوص وقار وہیبت، خوشبوؤں اور عطور کے متعلق تو نہ پوچھیں، اسٹاف روم میں جس نے بھی کبھی ان کی الماری پر ایک نظر ڈالی وہاں عطر کی چھوٹی بڑی ڈبیاں، شیشیاں اور قارورے بڑے قرینے سے سجے ہوئے ملے، ہم لوگ یہ سوچتے کہ جب صرف اسٹاف روم میں خوشبوؤں کی اس قدر بہتات ہے تو گھر پر کیا عالم ہو گا، جہاں تک لباس کا معاملہ تھا تو اکثر وبیشتر نت نئے لباس میں ملبوس نظر آتے۔کل ملا کر صاف ستھرے ذوق، حسن لباس وپوشاک اور نفاست کے اعلی معیار پر شیخ مرحوم براجمان تھے۔

ابتدائی جماعتوں میں شیخ کو جب دیکھتا تو ایسا لگتا کہ بہت ہی محتاط انداز میں رہنے والے، زیادہ رابطہ نہ رکھنےوالے، اپنی دنیا میں رہنے والے قلندر صفت شخص ہیں، کبھی ان کے قریب ہونے یا گفتگو کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، مگر جب پہلی بار ان کے درس میں بیٹھے اور مقررہ نصابی کتاب پڑھنے کا موقع ملا تو شیخ کی شخصیت کا دوسرا روپ دیکھنے میں آیا۔وقار ، ہیبت اور اجنبیت کی جگہ شفقت ،نرمی اور انسیت ہمارے دلوں میں گھر کر چکے تھے ، اور اب ہمارے سامنے ایک مہربان، شفیق، ہنس مکھ، بذلہ سنج اور مرنجان مرنج استاد جلوہ افروز تھے، عالمیت سال اول میں عربی ادب کے مضمون میں مجموعۃ من النظم والنثر اور معلم الانشاء کی تدریس کی، اسلوب تدریس انتہائی شاندار، سلیس اور عمدہ تھا، چوں کہ خود آپ ادبی مذاق کے حامل اور ادبیات عالیہ کے مجموعوں پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے اس لیے اس کا عکس آپ کے ترجمے میں صاف جھلکتا تھا، حافظ ابراہیم بک کا شاہکار قصیدہ جو عربی زبان کی زبوں حالی اور اہل زبان کی ناقدری کا شکوہ کرتا ہے، شیخ نے اپنے مخصوص انداز واسلوب میں جب اس کا ترجمہ وتشریح کی تو ہم نے چاہا کہ اس کی حلاوت وشیرینی کو اپنے اندر جذب کر لیں ۔

اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

رجعت لنفسي فاتهمت حصاتي

وناديت قومي فاحتسبت حياتي

رموني بعقم في الشباب وليتني

عقمت فلم أجزع لقول عداتي

ولدت ولما لم أجد لعرائسي

رجلاً وأكفاء وأدت بناتي

وسعت كتاب الله لفظاً وغاية

وما ضقت عن آي به وعظات

فكيف أضيق اليوم عن وصف آلة

وتنسيق أسماء لمخترعات

أنا البحر في أحشائه الدر كامن

فهل سألوا الغواص عن صدفاتي

فيا ويحكم أبلى وتبلى محاسني

ومنكم وإن عز الدواء أساتي

استاد گرامی کا اصل تخصص حدیث شریف اور اس سے متعلقہ علوم بالخصوص تخریج احادیث تھا،فضیلت سال اول میں مذکورہ سبجیکٹ کی دو کتابیں (تحفۃ الخریج اور ارشاد النبیل )آپ کے حصے میں تھیں، یہ مضمون نہ صرف شیخ کا تخصص تھا بلکہ اس میں آپ کی ذاتی رغبت ودلچسپی بھی تھی، چنانچہ آپ بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کی تدریس کرتے اور حق ادا کر دیتے، تدریس کے ساتھ ہی تخریج احادیث کی عملی مشق کراتے ، طلبہ کو مکلف کرتے کہ فلاں فلاں احادیث کو ان کے اصل مصادر اور امہات الکتب سے تلاش کر کے لاؤ،آپ کے ایک شاگرد رشید ڈاکٹر امیر الاسلام (پی ایچ ڈی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے جامعہ اسلامیہ میں وہ کاپی نکالی جو تخریج احادیث کے لیے شیخ کے مضمون کے لیے تیار کی تھی، مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ شیخ نے جن قواعد وضوابط کی روشنی میں تخریج احادیث کی علمی وعملی مشق کرائی تھی وہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے نہج پر تھے، گویا اس سبجیکٹ کو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تدریس فن تخریج احادیث کے جدید قواعد وضوابط کی روشنی میں مرحوم جامعہ سلفیہ بنارس میں پڑھا رہے تھے:

عرب کے طرز فکر سے عجم کا رابطہ ہے یہ

فضیلت سال دوم میں صحیح مسلم جلد اول کی تدریس آپ کے ذمہ تھی، حدیث پڑھانے کا انداز بھی بڑا دلچسپ تھا، پہلے ایک طالب علم متن حدیث کی قرأت کرتا ، پھر شیخ متن کی مختصر شرح کرتے اور اس سے مستنبط مسائل بیان کرتے، وہ ابواب/احادیث جن کا تعلق اخلاق، رقائق اور زہد سے ہوتا ان پر بڑی مفصل گفتگو کرتے اور گاہے بگاہے اس بات کی طرف اشارہ کرتے کہ کس طرح سے آج کے مسلمان اخلاقی اعتبار سے کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں، بہت رقیق القلب واقع ہوئے تھے، بسا اوقات بعض احادیث کی شرح فرماتے ہوئے آنسو چھلک جاتے، خود بھی رو دیتے اور طلبہ کو بھی رلا دیتے، جس دن صحیح مسلم کا مقررہ نصاب ختم کیا اچھے خاصے آبدیدہ ہو گئے:

لمثل هذا يذوبُ القلبُ من كمدٍ

شیخ مرحوم سے آخری دو مضامین مناہج البحث اور طرق التدریس فضیلت سال سوم (سال فراغت) میں پڑھے، طرق التدریس کے لیے آپ نے بڑا منفرد طریقہ اپنایا، بجائے اس کے کہ اس مضمون کی علمی تدریس کریں آپ نے طلبہ کو مکلف کیا کہ خود طلبہ ہی درس گاہ میں آپ کی موجودگی میں وہ سبجیکٹ طلبہ کے سامنے پڑھائیں، اس کے لیے آپ نے “مع المعلمین”نامی ایک کتاب مقرر کی تھی اور تمام طلبہ کی باری لگا دی تھی کہ وہ اپنی باری آنے پر کتاب کا ایک ایک مبحث بالترتیب پڑھائیں گے، چنانچہ طالب علم بحیثیت استاد درس گاہ میں پڑھاتا اور طلبہ اور شیخ محترم اسے بغور سنتے، اگر کسی طالب علم کو سوال کرنا ہوتا تو وہ پوچھتا اور مدرس طالب علم اس کا جواب دیتا ، علاوہ ازیں درس ختم ہونے پر استاد محترم طالب علم کے اسلوب تدریس کے متعلق گفتگو کرتے، اس کی غلطیوں کی اصلاح کرتے اور اس کی حوصلہ افزائی فرماتے، مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی باری پر ایک عربی شعر کی تشریح کی مناسبت سے ایک اردو شعر پڑھا تھا جس کے الفاظ آگے پیچھے ہو گئے تھے، شیخ نے اس کی اصلاح کی اور شعر کو درست کرایا۔

کل ملا کر شیخ مرحوم کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ آپ ایک بہترین استاد، کامیاب معلم ومربی، اپنے فن کے ماہر اور متخصص ، طلبہ کے حق میں انتہائی متعاون اور صاحب جلال وجمال شخص تھے، جو طلبہ آپ سے قریب ہوئے اور درس گاہ سے باہر بھی آپ سے استفادہ کرتے رہے آپ نے ان کی بھرپور رہنمائی کی اور اپنے علم کو خوب خوب لٹایا، طلبہ کے سالانہ وحائطیہ میگزین المنار کے نگراں بھی تھے، چنانچہ المنار میں موضوعات کی جدت، مضامین کی عمدگی اور زبان وبیان کی جو لطافت نظر آتی ہے اس میں شیخ مرحوم کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہی سبب ہے کہ جامعہ سلفیہ بنارس کے طلبہ کا آرگن”المنار” پورے آب و تاب کے ساتھ دینی صحافت کے افق پر چمک رہا ہے۔اللہ تعالیٰ استاد محترم کی بال بال مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اعلی علیین میں جگہ عطا کرے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Atiqur Rahman

MashAllah!! very well written
May Allah grant Jannah to our beloved teacher Shaikh Obaidullah Tayyab Makki

Abdul Quadir

بارک اللہ فیک شیخ محترم۔۔ بس پڑھتا چلا گیا۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ ہمیں تو شرف تلمذ حاصل نہ ہوا ،لیکن ہیئت وہیبت کے بارے میں معاینہ آپ کی باتوں کا صد فیصد اتفاق رکھتا ہے۔

Hamidullah salafi

بھت خوب

Md Azad Ali

ماشاءاللہ بہت خوب