سلیم بھائی کی شادی ہوئے دس سال بیت چکے تھے گود اولاد سے خالی تھی۔ رشتہ دار، دوست احباب اور گلی محلہ کے کئی لوگوں نے مشورہ بھی دیا وہاں چلے جاؤ بہت پہنچے ہوئے بابا ہیں ان شاء اللہ آپ لوگوں کی ہر مراد پوری ہوگی، فلاں کو دکھا لو فلاں چیز کھالو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سلیم بھائی اللہ کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہوئے کیونکہ قرآن کی آیات ان کے دل و دماغ پر نقش تھیں۔ ’’جو رب مریم علیہا السلام کو بے موسم پھل دے سکتا ہے اور زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اولاد دے سکتا ہے‘‘ تو مجھے کیوں نہیں دے سکتا، آخر میں بھی تو اسی رب کا بندہ ہوں؟
الحمد للہ سلیم بھائی کا یہ عزم اور اللہ پر اس قدر توکل اور رو رو کر مانگی گئی دعائیں رنگ لائیں اور اللہ نے انھیں ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا۔
اخلاق کو اس کے والدین نے بچپن ہی سے اخلاق مند بنانے کی مکمل کوشش کی، بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت ہر کسی کا ادب و احترام سکھلایا۔ آیت’’و انک لعلی خلق عظیم‘‘(سورہ قلم:۴)اور حدیث’’البر حسن الخلق‘‘(صحیح مسلم :۲۵۵۳)گویا کہ اس کے کانوں میں گھول کر انڈیل دی گئی ہو اور اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اخلاق ہر کسی کا ادب و احترام کرتا اور لوگ بھی اس کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کرتے تھے۔
اخلاق نے دسویں کلاس میں اسکول ٹاپ کیا ، گھر اور پاس پڑوس میں خوشی کا ماحول تھا، ہر کوئی اخلاق کو مبارکباد اور ڈھیر ساری دعائیں دے رہا تھا۔
اخلاق کے والد نے بڑی محنت و مشقت اور کوشش کے بعد بغیر کسی چیز کی پرواہ کیے اخلاق کو ایک اچھے سے کالج میں داخل کرا دیا۔اخلاق اٹھارہ سال کا ہوچکا تھا، اس نے کالج جانا شروع کردیا جہاں اسے نیا ماحول، نئے دوست ملے جن کے ساتھ وہ اپنی زندگی کا اچھا خاصہ وقت گزارنے لگا۔
کچھ مہینوں تک ہر چیز معمول کے مطابق تھی لیکن دھیرے دھیرے اخلاق آنے میں متعینہ وقت سے کچھ تاخیر کرنے لگا اور بعض دفعہ جلدی بھی چلا جاتا۔ والدین سمجھ رہے تھے کہ امتحان قریب ہے شاید اس کی تیاری میں مصروف رہتا ہے لیکن کچھ دنوں بعد والدہ نے محسوس کیا کہ اخلاق جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو کسی چیز کی بو آتی ہے۔ حد تو تب ہوئی جب انھوں نے اس کی جیب میں سگریٹ اور ایک سفید پڑیا دیکھی اور اس کے والد کو اطلاع دی۔
والد نے سوال کیا: بیٹا یہ سب کیا ہے؟ جس پر اس نے یہ کہہ کر بات کاٹ دی کہ ابو یہ میرے دوستوں کا ہے، انھوں نے شاید غلطی سے میری جیب میں رکھ دیا ہو۔ والد نے ناصحانہ کلمات کے ذریعہ اخلاق کو سمجھایا کہ بیٹا ایسے لوگوں سے دور رہا کرو جو خود تباہ و برباد ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ و برباد کرتے ہیں۔
ایک دن اخلاق کی والدہ نے اپنے شوہر سے کہا میں کچھ مہینوں سے اخلاق میں تبدیلی محسوس کر رہی ہوں، وہ جب بھی گھر میں داخل ہوتا ہے تو عجیب قسم کی بو آتی ہے نہ میرا اور آپ کا حال چال پوچھتا ہے نہ صحیح سے کچھ کھاتا پیتا ہے اور نہ ہی کچھ باتیں کرتا ہے، پتہ نہیں کیوں مجھے ڈر سا لگا رہتا ہے کہ میرے بچے کو کوئی غلط عادت نہ لگ جائے۔
گھر میں پکڑے جانے کے بعد اخلاق کچھ دنوں تک محتاط رہا لیکن جسے بری عادتوں کا چسکا لگ چکا ہو اس کے لیے ان چیزوں کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔
اخلاق اب دیر رات گھر آتا اور کبھی کبھی تو آتا ہی نہیں، والدین کے پوچھنے پر کہہ دیتا کہ دوستوں کے ساتھ کہیں گھومنے گیا تھا، اس عمر میں کہیں نہیں جاؤں گا تو کب جاؤں گا؟
بعض دفعہ اس کی آنکھیں بالکل سرخ ہوتیں اور ایسا لگتا تھا کہ کچھ کہنا چاہ رہا ہے لیکن کہہ نہیں پا رہا۔
سلیم بھائی کو فکر لاحق ہوئی کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ بیٹا کالج میں موجود برے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔
میڈیکل رپورٹ نکلوائی گئی تو پتہ چلا کہ یہ بھاری ماترا میں ڈرگس لیتا ہے اور وقتا فوقتا شراب نوشی بھی کرلیتا ہے۔
یہی وہ والدین ہیں جنھوں نے اسے پانے کے لیے کئی سالوں تک رو رو کر رب سے دعائیں مانگیں، اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا خیال رکھا۔ خود کم کھاتے لیکن اسے بہتر سے بہتر کھلانے کی کوشش کرتے، اپنے لیے سادہ لباس بنوالیتے لیکن اسے اچھے سے اچھا لباس پہناتے۔اب دوبارہ رب کے حضور آنسو بہا رہے ہیں کہ اے اللہ!ہمارے بیٹے کو اس سے نجات دے۔
اخلاق کو اس کے والد نے ’’نشہ مکت کیندر‘‘ میں ڈال دیا کہ شاید وہاں جاکر کچھ سدھر جائے اور ان بری عادتوں سے باز آجائے لیکن چند ہی مہینوں میں وہ ان چیزوں کا اس قدر رسیا ہوچکا تھا کہ جب بھی اسے اس کی طلب لگتی تو وہ اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا یہاں تک کہ کئی دفعہ وہاں کے کام کرنے والوں کو مارتا اور وہاں سے نکل کر بھاگ بھی جاتا تھا۔
اب اخلاق کی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ ان بری عادتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے گھر والوں کے پیسے نہ دینے پر محلے والوں کو ستاتا، مارتاپیٹتا، کئی گھروں میں چوری بھی کرچکا تھا تاکہ ان پیسوں سے وہ مطلوبہ چیز خرید سکے۔ پورا محلہ اس سے پریشان تھا ہر کوئی اس کے بدلتے ہوئے اخلاق سے پریشان تھا۔ وہی لوگ جو اسے دعائیں دیا کرتے تھے اب اس کی حرکتوں سے تنگ آکر بدعا دے رہے تھے۔وہ والدین جنھوں نے رب کریم سے رو رو کر اس کے لیے دعائیں مانگی تھی وہ بھی اس کی حرکتوں کو دیکھ کر خوب آنسو بہاتے تھے۔
آخر کار اخلاق اپنی نوجوانی ہی میں ایک خطرناک قسم کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔
اخلاق کے دنیا سے جانے کے بعد گلی محلہ کے لوگوں نے چین کی سانس لی اور کہنے لگے کہ کم از کم اس مصیبت سے چھٹکارہ تو ملا۔ اس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ساتھ پورے محلے اور بستی کو تنگ کر رکھا تھا اچھا ہوا اللہ نے اسے جلدی اپنے پاس بلا لیا!
یہ وہی اخلاق تھا جسے پانے کے لیے اس کے والدین نے خوب دعائیں کی تھیں، جس کے اخلاق کی ہر کوئی تعریف کیا کرتا تھا، جس کے اسکول ٹاپ کرنے پر پورے محلہ میں خوشی کی لہر دوڑ اٹھی تھی، لیکن پھر اسے برے دوستوں کی صحبت نے اس قدر اندھا کردیا کہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنا بھول گیا۔
اس کے دوست ہر برائی سے پہلے یہ کہتے رہے یار ایک بار چکھ کے دیکھ مزا نہ آئے تو دوبارہ مت کھانا، ایک بار پی کے دیکھ اگر اچھا نہ لگے تو دوبارہ مت پینا، ایک بار پارٹی میں چل کر دیکھ اگر دل نہ لگے تو دوبارہ مت جانا اور پھر اخلاق ان کی باتوں میں آکر ان کے ساتھ اس قدر گھل مل گیا کہ اسے اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ دین اسلام نے کچھ حدود مقرر کی ہیں اگر میں ان کو پار کرتا ہوں تو یہی میرے لیے وبال جان بن جائیں گی اور پھر وہی ہوا برے دوستوں کی صحبت میں آکر اخلاق برائی کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔
ہمیشہ دوستی کے وقت اچھے اور نیک لوگوں کا انتخاب کریں کیونکہ ایک اچھا انسان اپنے بھائی کا خیر خواہ ہوتا ہے وہ اسے ہمیشہ برائی سے روکتا ہے اور نیک راہ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔جبکہ برا دوست اسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیتا ہے۔
آپ کے تبصرے