مولانا کا بیان ہے: (میں نے کہا۔۔۔اوم کون ہے ۔۔۔؟ بہت سے لوگوں نے کہا ۔۔۔کہ وہ ایک ہوا ہے، جن کا کوئی روپ نہیں ہے، کوئی رنگ نہیں ہے۔۔۔وہ دنیا میں ہر جگہ ہے۔ ہوا ہر جگہ ہے، انھوں نے دنیا کو بنایا، آسمان کو بنایا، انھوں نے زمین کو بنایا، میں نے کہا کہ بابا۔۔۔انہی کو ہم (اللّٰه) کہتے ہیں)۔
مولانا کا یہ بیان بہت سارے باطل اعتقادات پر مشتمل ہے، اور یہ ڈر ہے کہ صفات باری تعالی کے تعلق سے عوام الناس ان باطل اعتقادات کے شکار نہ ہو جائیں اس لیے بطور نصیحت وخیر خواہی مولانا کے اس بیان میں موجود ان باطل امور کی نشان دہی کی جا رہی ہے:نسأل اللہ التوفیق والسداد۔
(۱)کیا اوم اور اللہ ایک ہے؟ اوم کا جو فلسفہ ہندؤں کے یہاں زیادہ مشہور ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ برہما، وشنو اور شیو کے مجموعے کا نام اوم ہے، ہندو خدا کی ذات کو تین حصوں میں منقسم کرتے ہیں:اول برہما یعنی کائنات کو پیدا کرنے والا، دوسرا:وشنو یعنی پرورش کرنے والا، تیسرا شیو یعنی موت دینے والا۔ گویا اوم کا تصور اپنے اندر تثلیث اور تعدد الہ کا عقیدہ رکھتا ہے، الغرض یہ ایک خالص مشرکانہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔
در اصل بنو آدم کے دین فطرت سے منحرف ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب اللہ کی ذات میں اور اس کی صفات میں تشبیہ اور تمثیل کا عقیدہ ہے، تشبیہ یہ ہے کہ خالق کو مخلوق کے خصائص واوصاف میں تشبیہ دی جائے یا مخلوق کو خالق کی ذات یا اس کے اوصاف وخصائص میں تشبیہ دی جائے۔ چنانچہ سارے مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کو خالق عزوجل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور ان کے لیے ان خصائص کو ثابت کرتے ہیں جو اللہ عزوجل کے لیے خاص ہیں، پھر دعا، خوف ، رجا، توکل، استعانہ، استغاثہ، نذر ونیاز، چڑھاوا اور ہر طرح کی عبادات انہی کے لیے روا رکھتے ہیں، چنانچہ ہندؤں کے نزدیک جو الہ کا تصور ہے اس میں اس کی تین عظیم صفات ہیں:پہلی صفت:تخلیق، دوسری صفت:پروش، تیسری صفت:موت اور ہلاکت، چنانچہ انھوں نے ان تینوں صفات کے لیے الگ الگ خود ساختہ معبود تراش لیے، اور انھیں ان صفات سے متصف کر دیا جو اللہ عزوجل کے لیے خاص ہیں، جیسا کہ مشرکین اپنے خود ساختہ معبودوں کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ الہ کی صفات اس کی ذات سے منفصل ہیں، چنانچہ انھوں نے رب کی مصنوعات اور اس کے مختلف مظاہر کے ذریعے اس کی صفات کا اندازہ کیا، اورہر صفت کو ایک مستقل ذات قرار دے دیا، اس کے مجسمے اور مورتیاں بنائیں، اور اسے ایک خاص خدا کی علامت قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں معبودانِ باطلہ کی کثرت ہے۔
چونکہ یہ مذہب خالص مشرکانہ، بت پرستانہ اور دیومالائی قصے کہانیوں کا مجموعہ ہے اور انسانی فطرت اور عقل دونوں کے خلاف ہے، جبکہ دین اسلام فطرت اور عقل دونوں کے موافق ہے، اس لیے انھیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے لے مناسب طریقہ یہ ہے کہ انھیں فطرت سلیمہ اور عقل سلیم کی طرف لوٹنے کی دعوت دی جائے، چونکہ ایک انسان اپنی فطرت سے ایک الہ کی وحدانیت کا ادراک کر سکتا ہے جس طرح وہ اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ عدل وانصاف اچھی چیز ہے اور ظلم ایک قبیح چیز ہے، علم قابل فخر شئی ہے اور جہالت باعث عار ہے، اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:{فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ القَيِّمُ}[الروم: 30] ”اللہ تعالی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالی کے بنائے کو بدلنا نہیں ، یہی سیدھا دین ہے۔“
اور نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:(ما من مولود إلاّ يولد على الفطرة، فأبواه يهوّدانه أو ينصِّرانه أو يمجِّسانه) [بخاری:رقم:(135، 9) ومسلم:رقم:(2658)”یعنی ایک بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“
اسی طرح ایک انسان اپنی عقل سلیم کے ذریعے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ توحید برحق ہے اور شرک وبت پرستی غلط ہے، اس لیے اسلام نے جب اپنی ابدی دعوت توحید کی طرف لوگوں کو بلایا تو اس معاملے کا فیصلہ پوری صراحت کے ساتھ انسانی عقل پر رکھ دیا ہے، اسے پورے اطمینان کے ساتھ غور وفکر کرنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس عقیدۂ توحید تک پہنچ جائے جس کی شہادت مخلوقات کے آثار،نشانیاں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر دے رہے ہیں، اور جس کو قرآن نے بڑے بلیغ اور دلچسپ اسلوب میں رکھ دیا ہے کہ اس کائنات میں ایک سے زیادہ معبود نا ممکن ہے کیونکہ ایک سے زیادہ معبود ہوں تو وہ آپس میں لڑتے رہیں گے اور جس کی وجہ سے پوری کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے گا بلکہ یہ دنیا تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:{لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ}(الأنبياء: 22) اور ارشاد ربانی ہے:{قُلْ لَوْ كَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ كَمَا يَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلَى ذِي الْعَرْشِ سَبِيلًا * سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يَقُولُونَ علوًّا كبيرًا}(الإسراء: 42، 43) اور ارشاد ہے:{مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} (المؤمنون:91، 92)
ان آیات کریمہ میں اللہ عزوجل نے مشرکوں کی عقلوں سے خطاب کیا ہے، اور ان کے اعتقاد کے بطلان کو نہایت بلیغ اسلوب میں واضح کیا ہے، لہذا ہندوں کو دعوت دینے کے لیے اسی اسلوب کی ضرورت ہے نہ کہ اہل کتاب جیسا قرآنی اسلوب، کیوں کہ ہندو مذہب کے بارے میں ہمارے پاس کوئی دلیل وبرہان نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں اور انبیاء کی بعثت سے -اگر بالفرض ہوئی ہے- یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان پر آسمانی کتاب بھی نازل ہوئی۔ یہیں سے ان خطباء حضرات کی غلطی کو سمجھا جا سکتا ہے جو ہندؤں کی مقدس کتابوں کے منتر اورشلوک وغیرہ پڑھ کر کھینچ تان کر توحید اور اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ اس کے مفاسد اور نقصانات بہت سارے ہیں، بطور مثال:
۱۔اس سے ان کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی طرح ہندو جیسا خالص شرکیہ اور کفریہ مذہب بھی برحق ہے، بس انھیں اپنے اندر اصلاح کی ضرورت ہے۔
۲۔انھیں یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ان کی مقدس کتابیں -جو کہ شرک وبت پرستی، کفر وباطل اور جہالت وضلالت سے بھری پڑی ہیں- وہ بھی وہی تعلیمات دیتی ہیں جو کہ قرآن دیتا ہے پھر انھیں قرآن پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کا اپنی کتابوں کی قدامت پر ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے۔
۳۔ایسے خطباء جس طرح ان کی کتابوں سے توحید اور اسلام کی حقانیت پر استدلال کرتے ہوئے سنے جاتے ہیں وہ یہ نہیں بیان کرتے ہیں کہ ان کی مقدس کتابیں تحریف اور تبدیلی کی شکار ہو چکی ہیں اس لیے وہ قابل اعتبار نہیں ہیں اور انھیں لازما قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے۔
۴۔اس اسلوب سے توحید و شرک، حق وباطل، علم وجہالت، رب کی وحدانیت اور غیر اللہ کی عبادت وغیرہ کا بیان گڈ مڈ ہو کر رہ جاتا ہے۔
۵۔ایسے خطباء اسلام اور ہندو مذہب میں مماثلت دکھانے کے فراق میں اپنی جہالت ونادانی کی بنیاد پر ایسے منتر اورشلوک سے بھی استدلال کرتے ہیں جو خالص کفر وشرک پر مبنی ہوتے ہیں، اور پھر شعوری و لاشعوری طور پر خود مسلمانوں میں کفریہ عقائد کی ترویج واشاعت کا سبب بنتے ہیں۔
۶۔یہ اسلوب قرآنی اسلوب کے بھی خلاف ہے ، قرآن نے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ :تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ(آل عمران:64) لیکن یہ خطاب اس نے مشرکوں کے ساتھ نہیں اختیار کیا ہے بلکہ انھیں فطرت اور عقل کی طرف لوٹنے کی دعوت دی ہے جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر گزری۔
خلاصہ یہ ہے کہ اوم کو اللہ مان لینے کی صورت میں مندرجہ ذیل باطل عقائد لازم آتے ہیں:
۱۔اللہ واحد، أحد، لا شریک، صمد اور فرد ہے، جبکہ اوم میں تعدد الہ اور تثلیث کا عقیدہ مضمر ہے، کیوں کہ اوم تین مختلف ذاتوں برہما، وشنو، اور شیو کے مجموعے کا نام ہے جن کا اعتقاد رکھنا عظیم ترین کفر میں سے ہے۔
۲۔اللہ معبود برحق ہے جبکہ اوم ہندؤں کا خود ساختہ معبود ہے۔
۳۔اللہ عزوجل حقیقی خالق، رازق، پالنہار اور زندگی وموت کا مالک ہے جبکہ اوم کے تعلق سے یہ الہی اوصاف جھوٹ اور افتراء پر مبنی ہیں جنھیں مشرکوں نے اس کی طرف منسوب کیا ہے جیسا کہ اہل شرک کی عادت ہے، کیوں کہ خالق اور اس کے خصائص میں مخلوق کو تشبیہ دینا اقوام عالم میں شرک کی اصل جڑ ہے۔
(۲)مولانا نے مزید فرمایا ((وہ ایک ہوا ہے))۔ اس قول میں اللہ عزوجل کی مثال اس کی ایک مخلوق ہوا سے دی گئی، اور اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ عزوجل کو اس کے کسی مخلوق کے مثل اس کی ذات یا صفات یا افعال میں قراردینا کفر ہے، (نقض الإمام أبي سعيد عثمان بن سعيد على المريسي الجهمي :1/ 219)، کیوں کہ اس میں اللہ عزوجل نے جو اپنے بارے میں خبر دیا ہے اس کی تکذیب ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: {ليس كمثله شيء وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِير }[الشورى:11]،”اس کے مثل کوئی چیز نہیں، و ہ بہت زیادہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے“۔ چنانچہ نہ کوئی اس کی ذات میں اس کے ہم مثل ہے نہ اس کی صفات میں، بلکہ وہ بے نظیر ہے۔{ ولم يكن له كفوًا أحد }[الإخلاص: 4]”اس کا ہمسر کوئی نہیں“۔ {هل تعلم له سميًا } [مَرْيَمَ: 65] ”کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام کوئی اور بھی ہے؟ یعنی اس کے مثل کوئی نہیں۔ {فَلا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الأمْثَالَ }[النحل: 74]، ”پس اللہ تعالی کے لیے مثالیں مت بناؤ۔“
امام بخاری کے شیخ نعیم بن حماد خزاعی فرماتے ہیں:
“من شبّه الله بخلقه فقد كفر، ومن جحد ما وصف الله به نفسه فقد كفر، وليس ما وصف الله نفسه تشبيهًا”. العلو للعلي الغفار (ص: 172)، ”جو اللہ عزوجل کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دے اس نے کفر کیا، اور اللہ عزوجل نے جن اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کیا جو ان کا انکار کرتا ہے تو اس نے کفر کیا، اور اللہ عزوجل نے جن اوصاف سے اپنے آپ کو متصف کیا وہ تشبیہ کو مستلزم نہیں ہے۔“
(۳) (جن کا کوئی روپ نہیں ہے) یہ جہمیہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا عقیدہ ہے جو صفات باری تعالی کے منکر ہیں جبکہ اہل سنت وجماعت اللہ عزوجل کے لیے صورت کو ثابت مانتے ہیں جو اس کی عظمت شان اور جلالت قدر کےشایان شان ہو، جس طرح وہ دیگر صفات کو جن کا ذکر کتاب اور سنت صحیحہ میں آیا ہے بغیر کسی تمثیل، یا تکییف یا تعطیل کے ثابت مانتے ہیں، اور رب کی صورت کے بارے میں الصادق والمصدوق ﷺ نے متعدد احادیث میں خبر دی ہے، جیسا کہ صحیحین میں ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:(فيأتيهم الرب في صورته التي يعرفون) [بخاری:6573، مسلم:182]، اور ارشاد فرمایا: (إنً الله خلق آدم على صورته) [البخاري:6227،مسلم:2612] اور ارشاد فرمایا:(رأيت ربي في أحسن صورة)[سنن الترمذی:3233۔ وغیرہ وصححه الألبانی فی تحقیق السنة لابن أبي عاصم:1/204]
یہاں پر یہ سوال آسکتا ہے کہ ان صفات کو ماننے کی صورت میں تشبیہ لازم آتی ہے کیونکہ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان مشترکہ صفات ہیں اور تشبیہ کفر ہے، تو اس کے جوابات یہ ہیں کہ:
۱۔ظواہر نصوص کفر پر مشتمل ہوں یہ محال ہے، کیوں اللہ عزوجل نے قرآن کریم کو کتاب ہدایت، نور اور فرقان کہا ہے۔
۲۔اسی طرح اللہ کے نبی ﷺ نے امت کی نصح وخیر خواہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی، آپ نے ہر خیر کی طرف امت کی رہنمائی کی اور ہرشر سے اسے ڈرایا، اس کے باجود آپ نے پوری زندگی کبھی بھی اس چیز کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ ان ظواہر نصوص پر ایمان لانا کفر ہے لہذا ان نصوص کی یہ تاویلات ہیں۔
۳۔اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جو ہر خیر کے کام میں پیش پیش رہتے تھے اور ہر طرح کی بدعت وضلالت سے بعد والوں کو ڈراتے تھے ان سے بھی اس موضوع پر ایک لفظ وارد نہیں ہے کہ صفات باری کے تعلق سے ظواہر نصوص پر ایمان لانا درست نہیں ہے، اور یہ کفر ہے اس لیے ان کی یہ تاویلات ہیں۔
۴۔اس اشتباہ کا سبب مندرجہ ذیل دو قواعد میں تفریق نہ کرنا ہے:
پہلا:قدرے مشترک، یعنی خالق اور مخلوق کی صفات میں جو چیز قدرے مشترک ہے وہ ان صفات کا عمومی معنی ہے جس کے اثبات سے تشبیہ لازم نہیں آتی ہے، مثلا حیات کے معنی زندگی، سمیع کا معنی سننا ، مجئی کا معنی آنا، استواء کا معنی اعتدال کے ساتھ بلند ہونا وغیرہ۔ یعنی سمیع کا معنی بصیر نہیں ہوسکتا، اور علم کا معنی نزول نہیں ہوسکتا وغیرہ، کیوں کہ قرآن فصیح عربی زبان میں نازل ہوا اور آپ ﷺ دنیا کے سب سے فصیح انسان تھے، لہذا ان الفاظ کے وہی معانی ہوں گے جن کو عرب اپنی زبان میں سمجھتے تھے، اب اگر ان الفاظ کے ظاہری معانی کو ہم ثابت نہیں کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ کتاب وسنت کی زبان فصیح عربی نہیں ہے جو عرب کے لیے قابل فہم ہو، بلکہ ان کی زبان سب سے اہم ترین موضوع صفاتِ باری کے تعلق سے الغاز اور طلاسم کا مجموعہ ہے جن کی عقدہ کشائی کے لیے وہ جہم بن صفوان اور جعد بن درہم جیسے اہل ضلالت اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا محتاج ہے، اور ایسا اعتقاد رکھنا یقینا کفر وگمراہی ہے۔
۲۔قدر ممیز وفارق، یعنی جو چیز خالق اور مخلوق کی صفات کو ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا کر تی ہے وہ اضافت ہے، یعنی ان صفات کی اضافت جب خالق کی طرف کی جاتی ہے تو ان کی حقیقت، ماہیت اور خصائص الگ ہوجاتے ہیں جو اس کی ذات کے شایان شان ہوتے ہیں اور جب ان کی نسبت بندے کی طرف کی جاتی ہے تو ان کی حقیقت اور خصائص جدا ہو جاتے ہیں جو ا س کے لائق ہوتے ہیں، مثلا صفت”حیات“ اللہ کے لیے بھی ہے اور بندے کے لیے بھی، اس میں اشتراک صرف عمومی معنی میں ہے، یعنی اس لفظ کا معنی زندگی کے ہے کوئی اور اس کا معنی نہیں ہے، لیکن جب اس کی اضافت اللہ کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے جو اس کے لیے مختص ہے یعنی وہ زندگی جو ابدی اور سرمدی ہے ، واجب الوجود ہے، جو نہ کبھی معدوم تھی اور نہ کبھی فنا ہو سکتی ہے، اور جب اس کی اضافت بندے کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا مطلب جو اس کے لیے مختص ہے، یعنی ایسی زندگی جو وقتی ہے، پہلے معدوم تھی پھر بعد میں فنا لاحق ہوتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات نہایت صاف ہو جاتی ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان مشترک صفات کے اثبات سے تشبیہ لازم نہیں آتی ہے، کیوں کہ جب ان کی اضافت اللہ عزوجل کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو اس کی عظیم ذات اورجاہ وجلال کے شایان شان ہوں اور جب ان کی اضافت بندے کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو اس کےلائق ہوں۔ چنانچہ ان صفات میں جو چیز قدر مشترک ہے اور جو قدر ممیز اور فارق ہے دونوں پر اہل سنت وجماعت ایمان رکھتے ہیں۔ جبکہ مشبہ فرقے قدرے مشترک پر ایمان رکھتے ہیں، قدر ممیز اور فارق کا انکار کرتے ہیں اور معطلہ (جہمیہ ومعتزلہ ومن حذا وحذوهم) قدرے مشترک اور قدر ممیز دونوں کا انکار کرتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت {ليس كمثله شيء وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِير }پوری آیت پر ایمان رکھتے ہیں جبکہ مشبہ (وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِير)پر ایمان رکھتے ہیں آیت کے پہلے جزو کا انکار کرتے ہیں، ا ور معطلہ (ليس كمثله شيء) پر ایمان رکھتے ہیں اور آیت کے دوسرے جزو کا انکار کرتے ہیں۔
چنانچہ مشبہ کہتے ہیں کہ اللہ کا سننا ہمارے سننے کی طرح، اس کا دیکھنا ہمارے دیکھنے کی طرح، اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح اور اس کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح وغیرہ-تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا۔ یہ صریح کفر ہے کیونکہ یہ{ليس كمثله شيء)اور دیگر آیتوں کی تکذیب ہے۔
اور معطلہ ان صفات کا انکار کرتے ہیں جن سے اللہ نے اپنی کتاب میں اپنے آپ کو اور اس کے رسول نے اسے متصف کیا ، اور یہ بھی کفر ہے کیوں کہ یہ (وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِير)اور دیگر صفات کی آیات کا انکار ہے۔
جہمیہ اللہ عزوجل کے تمام اسماء وصفات کا انکار کرتے ہیں ، معتزلہ اسماء کو ثابت کرتے ہیں لیکن صفات کا انکار کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اللہ سمیع ہے لیکن سنتا نہیں ہے، بصیر ہے لیکن دیکھتا نہیں ہے۔ تعالی اللہ عن ذلک علوا کبیرا، یہ جہاں نصوص کی تحریف ہے وہیں اللہ رب العالمین کی شان میں حد درجہ بے ادبی اور گستاخی بھی ہے، اس لیے معتزلہ کو صفات باری کے متعلق سب سے گستاخ فرقہ سمجھا گیا ہے۔
اور اشاعرہ اور ماتریدیہ -جس فرقے سے مولانا تعلق رکھتے ہیں- ان کا تعلق بھی معطلہ سے ہے، البتہ وہ بالترتیب سات اور آٹھ صفات (قدرت، ارادہ، علم، حیات، کلام، سمع ، بصر، تکوین)کو ثابت کرتے ہیں (وہ بھی علی غیر طریقہ اہل السنہ والجماعہ)اور بقیہ صفات کی تحریف کرتے ہیں، سات یا آٹھ کو ثابت کرنے کی وجہ سے جہمیہ اور معتزلہ انھیں مشبہ کہتے ہیں۔ اور یہ (اشاعرہ وماتریدیہ) اہل سنت وجماعت کو تمام صفات باری کو ثابت کرنے کی وجہ سے مشبہ اور حشویہ کہتے ہیں۔ اہل سنت ان کے اس الزام کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اگر اللہ عزوجل کی تمام صفات کو اس کے شایان شان ثابت کرنے سے تشبیہ لازم آتی ہے تو ان سات صفات (قدرت، ارادہ، علم، حیات، کلام، سمع ، بصر)جن کو آپ ثابت کرتے ہیں ان سے بھی تشبیہ لازم آتی ہے کیوں کہ یہ صفات بھی خالق اور مخلوق کے درمیان مشترک ہیں، اور اسی وجہ سے معتزلہ آپ کو مشبہ کہتے ہیں، اور اگر ان سات یا آٹھ صفات کو ثابت کرنے سے تشبیہ لازم نہیں آتی ہے تو بقیہ صفات سے بھی لازم نہیں آتی ہے کیوں کہ اضافت کی صورت میں دونوں کے خصائص اور امتیازات جدا جدا ہو جاتے ہیں، اور مطلقات یعنی بغیر اضافت کے کسی چیز کا وجود خیال میں تو ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں، یہ در اصل اشاعرہ وماتریدیہ کا تناقض ہے جس کے وہ شکار ہیں۔
(۴)(وہ دنیا میں ہر جگہ ہے۔ ہوا ہر جگہ ہے)یہ عقیدہ جہمیہ حلولیہ اور اکثر صوفیہ کا ہے کہ اللہ عزوجل ہر جگہ ہے، یہ صریح کفر اور ضلالت ہے، کیوں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ عزوجل قضائے حاجت اور گندی جگہوں، اور کتوں اور خنزیر کی آنتوں میں بھی ہے (تعالى الله عما يقولون علواً كبيراً)، بلکہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور وہ اپنی ذات کے اعتبار سے آسمانوں کے اوپر عرش پر مستوی ہے، وہ سب سے بڑا ہے، سب سے بلند وبرتر ہے، مخلوقات سے مباین ہے، اور یہ بلندی وعلو اس کے لیے مطلقا اور ہر اعتبار سے ثابت ہے اور یہی اس کی ذات کے شایان شان بھی ہے، چنانچہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوقات پر بلند ہے، اپنی قدر ومنزلت، عظمت وکبریائی اور ہر طرح کے اوصاف کمال ونعوت جمال وجلال کے اعتبار سے بلند ہے، ا ور اپنے قہر وغلبہ کے اعتبار سے بھی بلند ہے چنانچہ ساری بادشاہت اسی کے لیے ہے اور ہر چیز پر اسی کی حکمرانی ہے، منکرین صفات اللہ عزوجل کے لیے علو قدر اور علو قہر کو تو ثابت کرتے ہیں لیکن علو ذات کا انکار کرتے ہیں، جبکہ اللہ عزوجل کے مطلقا علو ثابت ہے جو تینوں انواع کو شامل ہے، اس کے دلائل اتنے زیادہ ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے،عقل، نقل، فطرت اور اجماع سب اس کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں، تفصیل کے لیے العلو للعلي الغفارللذھبی، (إثبات صفۃ العلولابن قدامہ مقدسی، درء تعارض العقل والنقل لابن تیمیہ کی چھٹی اور ساتویں جلد کا کچھ حصہ، اور “بيان تلبيس الجهمية” کی پہلی جلد کا کچھ حصہ اور دوسری جلد وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
خود انسان دیگر دلائل سے قطع نظر اپنی فطرت پر غور کر لے تو صفت علو کا انکار نہیں کر سکتا، کیونکہ جب وہ اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے فریاد کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس کا دل کسی بلند وبالا ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کا ہاتھ بلندی کی طرف اٹھتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا کی یہ تقریر بہت سارے عقدی انحرافات اور کفر وضلالت پر مشتمل ہے، ان میں سے کچھ انحرافات مولانا کی ماتریدیت اور صوفیت کا نتیجہ ہیں اور بعض انحرافات کا تعلق صورت مسئلہ کو نہ سمجھنے سے ہے۔ بہر حال مولانا کی اس تقریر کو میڈیا کی وجہ سے بڑی شہرت ملی اور لاکھوں مسلمانوں نے اس کو سنا، مولانا نے اس تقریر کے ذریعے غیروں کو اپنے اعتبار سے توحید کی دعوت دینے کی کوشش کی، مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوت کا اثر ان پر کتنا پڑے گا، لیکن اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اس تقریر کی وجہ سے بہت سارے مسلمان رب العالمین کے تعلق سے غلط عقیدے کے شکار نہ ہو جائیں، اس اندیشہ میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب مولانا کی تقریر کے بعد کئی اور مولویوں کو اوم کے تعلق سے ایسے کفریہ عقائد کو بیان کرتے ہوئے سنا جن کے بعد توحید وشرک، ایمان وکفر اور حق وباطل کے درمیان امتیاز باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ والی اللہ المشتکی وعلیہ التکلان۔
اخیر میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کوئی اس موضوع کو پڑھ کر یہ حکم کشید نہ کرے کہ میں نے مولانا پر کوئی حکم لگا یا ہے کیوں کہ ہمارا منہج ہے کہ کسی معین امر پر حکم لگانے سے اس امر کے انجام دینے والے پر حکم کا انطباق لازم نہیں آتا ہے۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کے عقیدے کی اصلاح فرمائے اور ہمیں کتاب وسنت کو سمجھنے، توحید کے تقاضے کو پورا کرنے ، سنت کی تعظیم وتوقیر کرنے اور دین کے تمام امور میں سلف صالحین صحابہ ، تابعین اور احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے منہج پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مولانا صاحب نے اپنی سمجھ کے مطابق توحید کی دعوت دینے کی کوشش کی، اس میں بہت سی خامیاں اور عقدی خرابیاں ہیں. لیکن ایک سوال ہے کہ جب ہمارا منہج اور عقیدہ ماشاءاللہ دنیا میں موجود تمام فرقوں سے بہتر اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے، پھر ہم دعوتی میدان میں پیچھے کیوں ہیں؟ کیا ہمارا کام صرف یہی رہ گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک دو مضامین لکھ کر نشر کر دینا ہے کہ فلاں صاحب کی دعوت میں فلاں خرابی ہے اور کچھ عقدی خامی ہے اسے دور رہا جائے. ہم… Read more »
ممکن ہے آپ کا شکوہ کسی حد تک درست ہو، لیکن اس طرح کے شکوے ایسے ہی وقت کیوں کئے جاتے ہیں جب کسی پر رد لکھا جاتا یے، غلط مفاہیم اور عقائد کی تصحیح کی جاتی ہے, کیا اس طرح کے ردود کی اہمیت اور ضرورت کو کم کرنا مقصود ہے یا کوئی اور مقصد ہے؟
ماشاء الله تبارك الرحمن
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
شكرا جزيلا فضيلة الدكتور
آمين يا رب العالمين
شكرا دكتور عطاء