علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی –رحمہ اللہ–ایک نامور مصنف، محقق اور مفسر قرآن تھے، آپ کی علمی ودینی خدمات متنوع ہیں، آپ نے عقیدہ، تفسیر، حدیث، سیرت، ادب وغیرہ مختلف فنون میں اہم اور قیمتی کتابیں تالیف فرمائیں، فقہ اسلامی پر آپ کی ایک عظیم اور شاہکار تصنیف”السعي الحثيث إلى فقه أهل الحديث” ہے۔ یہ کتاب اپنے حسن تبویب وترتیب، اختصار و جامعیت، اسلوب بیان کی سادگی اور سلاست، اور مسائل کی تنقیح اور احاطہ، قوت استدلال اور دقت استنباط کے اعتبار سے انتہائی شاندار ہے، اس کتاب سے آپ رحمہ اللہ کی عربی زبان وبیان پر قدرت، فقہ اسلامی میں گہرائی، علل حدیث اور علم رجال سے واقفیت، فقہی اصول وقواعد کی معرفت اور علمی مناقشہ اور ترجیح کی اعلی استعداد کا پتہ چلتا ہے۔
فقہی مسائل پر آپ نے تفسیر وحدیث کی اپنی مختلف تصنیفات میں حسب موقع خوب دادِ تحقیق دی ہے، لیکن چونکہ “السعی الحثیث “فقہ میں مستقل تصنیف ہے، اس لیے اس کتاب میں آپ کی فقہی بصیرت کے خدو خال واثرات سب سے نمایاں اور واضح ہیں لہذا ذیل میں اس کتاب کے تناظر میں آپ کے فقہی مقام ومرتبہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کتاب کا منہج:
(۱)آپ نے سب سے پہلے اس کتاب کو ایک شاندار، مفصل اور قیمتی مقدمہ سے شروع کیا ہے، جو کہ چونتیس (۳۴)صفحات پر مشتمل ہے، اس میں آپ نے کتاب وسنت کی اہمیت، زمانہ نبوی سے لے کر عصر حاضر تک مختلف ادوار میں فقہ کی تدوین اور اس کے خصائص، فقہائے اہل حدیث کے فقہ کے اصول اور بنیادی خصوصیات، اہل الرائے کے فقہ کے مقابلے اہل حدیث کے فقہ کی امتیازی خوبیاں، امام بخاری کا تعارف بحیثیت امام فقہائے اہل حدیث اور مجتہد مطلق، تقلید شخصی یا مخصوص مذہب کی ابتدا اور اس کی خرابیاں، تقلید کے خلاف ائمہ اربعہ کے اقوال، طائفہ منصورہ سے مراد، امام ذہبی اور دیگر مورخین کی کتابوں میں ہزاروں فقہاء و ائمہ اہل حدیث کا تذکرہ، بر صغیر ہندو پاک، بنگلہ دیش، نیپال اور برما میں علمائے اہل حدیث کی مختصر تاریخ، سید نذیر حسین محدث دہلوی اور دیگر اعلام اہل حدیث کا تذکرہ،عصر حاضر میں بلاد حرمین کے بعض علمائے اہل حدیث وغیرہ کا ذکر بڑے دلکش اور حسین انداز میں کیا ہے اور اخیر میں کتاب کا سبب تالیف بیان کیا ہے۔
(۲)آپ نے فقہی کتابوں کے طرز پر کتاب کی ابتدا کتاب الطہارۃ سے کی ہے ، اور سب سے اخیر میں کتاب الاشربۃ والاطعمۃ کو ذکر کیا ہے، کل بارہ کتب ہیں۔اور ہر کتاب کے تحت ابواب کا ذکر ہے لیکن اکثر عنوان میں لفظ “باب “ذکر نہیں کرتے ہیں۔
(۳)کسی بھی مسئلہ کو پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسئلہ کی نوعیت کے اعتبار سے ابتدا میں صورت مسئلہ کو بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بہترین انداز سے واضح کرتے ہیں، یا مسئلہ کی اہمیت کو کتاب وسنت کی روشنی میں اجاگر کرتے ہیں، اور اگر کسی لفظ کا لغوی اور شرعی معنی بیان کرنے کی ضرورت ہو تو اس کو بیان کرتےہیں، پھر مسئلہ کو دلائل کے ساتھ بالتفصیل بیان کرتے ہیں، اور اگر مسئلہ مختلف فیہ ہو تو اس کو اقوال مع ادلہ ومناقشہ، ترجیح وسبب ترجیح ذکر کرتے ہیں۔
(۴)اگر کسی مسئلہ کی بنیاد ضعیف حدیث پر ہو تو اس کے ضعف کو متن کے اندر ہی واضح کرتے ہیں ، ورنہ حاشیہ میں اس حدیث کے تعلق سے نقاد حدیث کے قول کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، اور بسا اوقات حاشیہ میں بھی اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ دیکھیں صفحہ:۴۲،۶۸۔
(۵)کتاب کی علمی قدر وقیمت اور آپ کی فقہی قدر ومنزلت:
۱۔یہ کتاب آپ رحمہ اللہ کے آخری زمانہ کی تالیف ہے، اس لیے اس میں آپ کے طویل تصنیفی اور علمی تجربات کے اثرات نمایاں ہیں۔
۲۔یہ کتاب فقہِ اہل حدیث پر عربی زبان میں ایک جامع اور منفرد کتاب ہے، جو تمام فقہی ابواب پر مشتمل ہے۔
۳۔زبان انتہائی سلیس اور فصیح ہے جس کی وجہ سے فقہ کے انتہائی پیچیدہ مسائل بھی بہت آسانی سے سمجھے جا سکتے ہیں۔
۴۔آپ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن قیم، شوکانی، نواب صدیق حسن خاں، البانی، ابن باز اور ابن عثیمین جیسے محقق ائمہ و فقہائے اہل حدیث کے فقہی آراء اور اختیارات سے اس کتاب میں خوب استفادہ کیا ہے۔ چنانچہ”تیمم مبیح ہے یا رافع للحدث”اس سے متعلق اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ويبطل بمبطلات الوضوء، ولا يبطل بخروج الوقت، لأنه رافع للحدثين الأكبر والاصغر، وهو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية فيقول: إنه لا ينقض التيمم إلا ما ينقض الوضوء والقدرة على استعمال الماء…وهذا هو اختيار العلامة ابن القيم وشيخنا العلامة ابن باز والشيخ العلامة محمد بن عثيمين رحمهما الله(1/122)
۵۔کتاب میں وارد جملہ احادیث کی مختصر تخریج آپ نے کی ہے، اور گاہے بگاہے حدیث کی صحت وضعف پر محدثانہ طرز پر گفتگو کی ہے، مثال کے طور پر آپ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث “صوموا يوم عاشوراء، وخالفوا اليهود والنصارى ، صوموا قبله يوما وبعده يوما” ذکر کرنے کے بعد بارے فرماتے ہیں:
لايستحب صيام الحادي عشر …لأنه (حديث ابن عباس رضي الله عنهما)حديث ضعيف منكر لسوء حفظ ابن أبي ليلى محمد بن عبد الرحمن، ولأن داود بن علي الهاشمي عم المنصور لم يوثقه إلا ابن حبان، وقد خطأه الذهبي وقال: ليس بحجة، وقد خالف ابن أبي ليلى من هو أوثق منه كعطاء وغيره، فرووا هذا الحديث موقوفا على ابن عباس بسند صحيح، لكن بلفظ: صوموا يوم التاسع والعاشر وخالفوا اليهود، ولم يذكر فيه الحادي عشر: ص:۹۰۴
۶۔ضعیف احادیث سے استدلال کو آپ درست نہیں سمجھتے ہیں اس لیے اگر مسئلہ کی بنیاد ضعیف حدیث پر ہوتی ہے تو اس کو مرجوح قرار دیتے ہیں، بطور مثال آپ عقیقہ میں بکرے کے علاوہ دیگر جانور ذببح کرنے کے تعلق سے اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
والراجح هو القول الثاني (عدم الإجزاء)لأن الراوي مسعدة بن اليسع في رواية الطبراني وأبي الشيخ كذاب كما ذكر الهيثمي في مجمع الزوائد (4/58)، وحديث سلمان الضبي:”فأهريقوا دمًا” قيّده الحديث المروي عن عائشة وأم كرز وغيرهما، ولا يصح قياس العقيقة على الأضحية في كل شي، وبالله التوفيق (ص:۱۰۵۲)
(۱)آپ کسی قول کو راجح قرار دیتے ہیں تو اس کی علت بھی بیان فرماتے ہیں، مثلا ثوب مغصوب میں نماز درست ہے؟ اس تعلق سے اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
والذي يظهر والله أعلم أن الراجح هو القول الأول؛ وهو (عدم صحة الصلاة) لأن من شروط صحة الصلاة حسب الظاهر أن يكون المصلي لابسا لباسًا حلالا طاهرا ، ولم يرد نص من الشارع الحكيم أن الصلاة تصح في اللباس الحرام أو الأرض المغصوبة. (ص:۲۲۰)
(۲)اہل حدیث اور احناف کے درمیان جو امتیازی مسائل مانے جاتے ہیں ان پر بھی آپ کو کمال حاصل تھا چنانچہ ان مسائل پر بھی آپ نے اپنی تحقیق اور تدقیق کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔بطور مثال :قراءۃ خلف الامام، (ص: 259-262) طلاق ثلاثہ (ص: 1223-1232)، تراویح کی مسنون رکعات (ص: 443-449) وغیرہ مسائل کو دیکھ سکتے ہیں۔
(۳)اہل حدیثوں کے مابین جو مختلف فیہ مسائل ہیں جیسے فطرہ میں اناج یا قیمت (دیکھیں ص: 795-796)، اتحاد رویت (820-824)، کیا مدرک الرکوع مدرکہ الرکعہ ہے وغیرہ، ان پر بھی آپ نے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔
(۴)فقہ نوازل اور معاصر مسائل پر بھی آپ کی نگاہ وسیع تھی اور ان کے تعلق سے شرعی احکام اور اختلاف آراء سے خوب واقف تھے، اس لیے مختلف ابواب کے تحت بکثرت عصری مسائل پر تحقیقی مباحث موجود ہیں ۔بطور مثال کتاب الصیام میں:
الإبر المغذّية، بخاخ الربو لا يفسد الصوم، غاز الاكسيجن لا يفطر، تفطير الغسول المهبلي في فرج المرأة، كذلك إدخال التحاميل فيه لا يفطر على الراجح، حكم إدخال الحقنة السرجية. وغیرہ، کتاب النکاح میں: الحمل بالتلقيح الصناعي، البصمة الوراثية، التلقيح الصناعي وأطفال الأنابيب، نقل بعض الأعضاء التناسلية من رجل إلى آخر، أو من امرأة إلى أخرى، استعمال اللولب الطبي، الأحوال المرضية التي يباح فيها إسقاط الجنين وغیرہ
کتاب البیوع میں:بعض البطاقات التجارية البنكية والحکم الشرعی فيها، بطاقة التوفير، البطاقات الائتمانية، البطاقة المغطاة، قبض الشيك قبض للنقود، بيع أسهم الشركات بعد الاكتتاب فيها، بيع أسهم البنوك التي أكثر رأس مالها نقد بنقد مماثل لرأس مالها بسعر أكثر أو أقل، بيع البعض أسهما أو بضائع لم يقبضها بعد، بيع وشراء أسهم الشركات التي تتعامل بالربا أو تنتج الأشياء المحرمة، شراء أسهم الشركات التي تودع أموالها في البنوك الربوية لأخذ الربا. وغیرہ مسائل دیکھیں:ص: 840-842، 2/1263، 3/1387-91- اور 3/1335-40
(۵)قدیم وجدید فقہی مصادر کے علاوہ جدید فقہی تحقیقات اور مباحث سے بھی واقفیت تھی اور ان سے استفادہ کے گرسے بھی واقف تھے۔ مثال کے طور پر آپ نے کتاب النکاح میں متداول فقہی کتابوں کے علاوہ درج ذیل معاصر کتابوں اور بحوث سے استفادہ کیا ہے:
احكام الزواج العرفي لهلال يوسف إبراهيم، والزواج العرفي لممدوح عزمي، ومستجدات في قضايا الزواج والطلاق لأسامة الأشقر، والزواج العرفي للدكتور عبد الملك بن يوسف المطلق، ومسائل فقهية معاصرة للدكتور عبد الرحمن السند، ،مجمع فقہ اسلامی مکہ مکرمہ، جمعیہ العلوم الاسلامیہ اردن، لجنہ دائمہ للبحوث العلمیہ ریاض، اور موسوعہ فقہیہ وغیرہ ۔
مصادر ومراجع:
کسی کتاب کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس کے مصادر کی علمی قیمت، کثرت اور تنوع سے بھی لگایا جاتا ہے، مولف نے بھی اس کتاب کو تیار کرنے میں سو سے زائد مصادر ومراجع سے استفادہ کیا ہے جن میں کتب احادیث ، شروحات حدیث، کتب فقہ، تفسیر، عقیدہ، فتاوی، بحوث علمیہ عامہ ، بحوث مجامع فقھیہ، قرارات وتوصیات للمجامع، موسوعات فقھیہ، مجلات اسلامیہ وغیرہ شامل ہیں، لیکن بالخصوص آپ نے مذکورہ کتابوں سے فائدہ اٹھایا ہے:
الإجماع والأوسط لابن المنذر، والمحلی لابن حزم، وفتاوی ابن تيمية، والاختیارات الفقهية له، وزاد المعاد لابن القيم، والمغني لابن قدامة، وفتح الباري لابن حجر، والمجموع للنووی، وبداية المجتهد لابن رشد، ونيل الأوطار للشوكاني، وسبل السلام للصنعاني، والروضة الندية لنواب صدیق حسن خاں، وفتاوی ابن باز، وتمام المنة للألباني، والسلسلة الصحيحة والضعيفة، وإرواء الغليل له، والشرح الممتع لابن عثیمین، والجامع لأحكام فقه السنة له
کتاب کے تعلق سے اہل علم کی آراء:
مولف اپنے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
“میں نے اپنے اس متواضع کوشش کو چند اہل علم پر پیش کیا جن کو فقہ اسلامی سے دلچسپی ہے، تو وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور مسائل کو پیش کرنے کے اسلوب، دلائل کے صیاغہ اور مناقشہ کے انداز پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیے جس نعمت پر میں نے اپنے رب کا شکریہ ادا کیا ۔”(السعی:۳۳)
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شعبہ حدیث کے مشہور استاد احمد بن علی القرنی اپنے ایک محاضرہ میں اس کتاب کو فقہ کی ایک بہترین کتاب قرار دیتے ہو ئے جامعہ کے بچوں سے اسے خریدنے اور اس کو پڑھنے کی وصیت کی تھی۔
خلاصہ:
یہ کتاب فقہ اہل حدیث پر ایک منفرد اور شاہکار کتاب ہے جس میں تمام فقہی ابواب شامل ہیں، اس کی زبان انتہائی سلیس اور رواں ہے، مسائل کو نہایت منظم اور معروضی انداز سے پیش کیا گیا ہے، فقہائے اہل حدیث کی آراء اور اجتہادات سے خوب استفادہ کیاگیا ہے، سو سے زائد مختلف مصادر ومراجع کو سامنے رکھا گیا ہے، مختلف فیہ مسائل میں خوب داد تحقیق دی گئی ہے۔ اور جدید مسائل کی گتھیاں بھی شرعی اصول وضوابط کی روشنی میں سلجھائی گئی ہیں۔
الغرض یہ کتاب علامہ -رحمہ اللہ- کی فقہی بصیرت اور فقہ اسلامی میں درک وکمال پر شاہد ہے، چنانچہ اس کتاب کو ہر اہل حدیث طالب علم کو خریدنا اور پڑھنا چاہیے، یہ کتاب ان شاء اللہ اس کے فقہی شعور، مسائل کی تفہیم اور راجح قول کی معرفت میں بہت بڑی معاون ثابت ہوگی۔
اردو ترجمہ کرنا،چاہیئے