فہم حدیث کے بنیادی اصول: اردو داں طبقہ کے لیے انمول علمی تحفہ

آصف تنویر تیمی تعارف و تبصرہ

علم حدیث کی تعلیم وتعلم کے لیے علماء اہل حدیث ہند ہمیشہ سے مشہور رہے ہیں۔ بالخصوص میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے دور میں دور دراز ملکوں سے طلبا ان کے مدرسہ میں آتے اور مختلف علوم وفنون کے ساتھ حدیث کا علم حاصل کرتے تھے۔ میاں صاحب کے شاگردان بلاد ہند کے علاوہ عربستان، افغانستان اور ایشیا کے بہت سارے ممالک میں موجود تھے۔ تدریس، تحقیق، تصنیف، ترجمہ اور خطابت وتقریر کے ذریعہ ان شاگردوں نے دنیا میں کتاب وسنت پر عمل کا رجحان عام کیا۔ کفر وشرک اور بدعت وتصوف کی دیواریں منہدم کیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز دہلوی، شاہ اسماعیل دہلوی اور شاہ اسحاق دہلوی کے بعد ایک بار پھر ہندوستان کے طول وعرض میں سنت کی تعلیم وترویج کی مضبوط بنیاد پڑی۔ اور یہ بنیاد ایسی مستحکم تھی کہ بعد میں چلنے والی مسموم ہواؤں اور ناسازگار ملکی اور سیاسی حالات کے باوجود کتاب وسنت کی خدمات کا علمی اور عملی مزاج سلفیان ہند میں باقی رہا۔ بلکہ اس مزاج سے دوسرے مسالک کے علماء وعوام بھی متاثر ہوئے۔ ان کے یہاں بھی ”علم حدیث“ پر کام کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ جس کے شواہد کتب احادیث کی وہ شرحیں اور ترجمے ہیں جو ان علماء نے علماء اہل حدیث سے متاثر ہوکر تصنیف کیے ہیں۔
میاں صاحب کے ہونہار شاگردوں سے ایک جہاں نے استفادہ کیا۔ ان کے وسیع علم ومعرفت اور قلم سیال سے ایسی ایسی معرکۃ الآراء کتابیں منظر عام پر آئیں کہ علماء وقت حیرت واستعجاب میں پڑ گئے۔ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبد المنان وزیر آبادی، مولانا عبد اللہ غازی پوری، مولانا عبد الحی حسنی اور مولانا ابو القاسم سیف بنارسی وغیرہ جیسے سیکڑوں تلامذہ تھے جنھوں نے تصنیف وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ دین اسلام، عقیدہ توحید اور خدمت سنت کے فریضہ کو انجام دیا۔
ہندوپاک کی تقسیم کے بعد شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ کی شخصیت علم حدیث کے باب میں مرجع ومصدر تصور کی جاتی تھی۔ ”مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح“ فن حدیث میں ان کی مہارت اور اختصاص کی واضح دلیل ہے۔ ان کی وفات کے بعد پھر اس ہندوستان میں ان جیسا حدیث کا متخصص اور متبحر عالم پیدا نہ ہوسکا۔ مدارس وجامعات میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دینے والے اساتذہ ومشائخ ضرور موجود تھے اور ان کی مساعی اپنے لحاظ واعتبار سے قابل ستائش بھی ہیں۔ مگر جس اختصاص کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی اس سے ہمارے دینی ادارے خالی تھے۔ اس ضرورت اور خلا کی تکمیل ہمارے ان علماء کرام سے ہوئی جنھوں نے بلاد حرمین شریفین کی یونیورسٹیوں سے علم حدیث کے مختلف موضوعات میں تخصص حاصل کیا۔ اسی ضمن میں ہمارے وہ فاضل علماء کرام بھی ہیں جنھوں نے اپنے بے انتہا شوق وذوق اور انتھک کوشش سے ہندوستان میں رہتے ہوئے علوم حدیث میں درک کامل حاصل کیا۔ ان سب کے اسماء وجہود کا ذکر کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ ؎
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
”علم حدیث“ میں گہری نظر رکھنے والے ہمارے نوجوان معاصر علماء کرام میں ڈاکٹر عبیدالرحمن حنیف مدنی، ڈاکٹر محمد یوسف حافظ ابو طلحہ تیمی مدنی، ڈاکٹر عبدالصبور ابو بکر سلفی مدنی، ڈاکٹر فاروق عبداللہ فیضی مدنی اور شیخ کفایت اللہ سنابلی وغیرہ کے اسماء اور ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اللہ تعالی نے ان علماء کرام کو علم حدیث کا خاصہ ذوق عطا کیا ہے۔ ان میں کا ہر کوئی اپنے علمی وعملی مشن میں پورے انہماک کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اگر ان علماء کرام کی زندگی نے ان کے ساتھ وفا کیا تو سلفیان ہند ان کے فیوض وبرکات ویسے ہی محسوس کریں گے جیسا کہ ماضی میں میاں صاحب کے شاگردان کے فیوض وبرکات سے ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ پہنچا ہے۔ ان فضلاء کے علمی کاوشوں کو جاننا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے علمی استفادہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اسی مقصد کی خاطر ذیل میں ڈاکٹر عبدالصبور ابو بکر سلفی مدنی حفظہ اللہ (استاذ حدیث جامعہ سلفیہ بنارس) کے علم حدیث پر تصنیف کردہ کتاب ”فہم حدیث کے بنیادی اصول“(اردو) کا متخصر تعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ اس فن سے شغف رکھنے والے علماء وطلبہ اس کتاب سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔ اردو زبان میں اپنے موضوع پر لکھی گئی منفرد کتاب ہے۔ شاید ہی ”فہم نصوص کے بنیادی اصول“ جیسی عربی یا اردو میں اتنی شاندار کتاب آسانی سے مل سکے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ مصنف موصوف نے کتاب کی تالیف میں دوسو(200) سے زائد عربی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف عربی واردو دونوں زبانوں پر پوری دسترس رکھتے ہیں۔ کتاب کی زبان بالکل رواں اور سلیس ہے، پڑھنے والا اپنے اوپر ادنی بوجھ محسوس نہیں کرتا ہے۔ کتاب میں ہر موضوع سے متعلق مواد اور معلومات تو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مولف نے معلومات کا خزانہ اکٹھا کردیا ہے۔یہ مولف کی وسعت معلومات اور موضوع کے حوالے سے ان کی گہری واقفیت کی دلیل ہے۔
کتاب ہندوستان کے شہر بنارس میں واقع جماعت اہل حدیث کے مرکزی دار العلوم ”جامعہ سلفیہ“ کے شعبہ تالیف ”ادارہ بحوث اسلامیہ“سے بہترین اوراق اور دیدہ زیب غلاف اور جلد کے ساتھ تین سو چوالیس(344) صفحات پر شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے آغاز میں ادارہ اور جامعہ کے سرپرست وناظم مولانا عبداللہ سعود سلفی حفظہ اللہ کا مختصر مگر جامع تبصرہ بھی ہے۔ محترم ناظم صاحب اپنے ادارہ سے طبع ہونے والی اس کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں ”فہم حدیث کے بنیادی اصول یہ نام ہے اس کتاب کا جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، اسے جامعہ سلفیہ بنارس کے نائب شیخ الجامعہ فضیلۃ الشیخ الدکتور عبدالصبور ابو بکر وفقہ اللہ نے ترتیب دی ہے۔ اپنے فن کی مکمل اور جامع کتاب ہے۔ صرف حدیث نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کے اصل مصادر کتاب وسنت کو سمجھنے کے لیے اس میں اصول وضوابط جمع کیے گئے ہیں۔ متقدمین علماء اور سلف صالحین کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ اصل کتاب کے حوالے بھی موجود ہیں۔ فہم حدیث کے لیے ایک مستند ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حدیث کے ہر طالب علم کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس سے علم حدیث کی اہمیت اجاگر ہوگی اور کتب حدیث پر اعتماد وبھروسہ مضبوط ہوگا“۔ (عرض ناشر: 9)
کتاب کا ”پیش لفظ“ جامعہ سلفیہ کے مشہور استاد، مصنف، صحافی اور کالم نگار مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب حفظہ اللہ کا ہے۔ جو زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر عبدالصبور کے جامعہ سلفیہ کے استاد بھی ہیں۔ مولانا ابوالقاسم فاروقی نے اپنے اس ہونہار شاگرد اور ان کی کتاب کے بارے میں کیا کچھ لکھا ہے اس کا اندازہ ذیل کے دو اقتباس سے ہوتا ہے:
(1) ”عزیزی ڈاکٹر عبدالصبور ابو بکر حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے ممتاز طالب علموں میں رہے ہیں۔ جامعہ سلفیہ میں ان کا عہد طالب علمی مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ سنجیدہ، محنتی اور کتابوں کی دنیا میں گم رہنے والے طالب علم کو استاد کبھی نہیں بھول سکتا، یہ جامعہ سلفیہ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے مدینہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ کو اپنی علمی، تصننیفی اور تدریسی تگ وتاز کا جولان گاہ بنایا“۔ (پیش لفظ: ص10)
(2) ”یہ کتاب ڈاکٹر عبدالصبور حفظہ اللہ کی کثرت مطالعہ کا عکاس ہے، نیز یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ حدیث کے بارے میں قدیم اور جدید منحرف فرقوں کے عقائد اور احادیث کے سلسلے میں ان کی گمراہیوں اور من مانی تاویلات سب پر آپ کی نظر ہے۔
اسلوب، لب ولہجہ اور زبان کے سلسلے میں میں ذرا حساس واقع ہوا ہوں، تیز وتند لہجہ مجھے کبھی پسند نہیں آیا، میں تو اس کا قائل ہوں کہ دشمن پر بھی وار کرو تو زہر آلود تیر کے بجائے شہد میں ڈوبی ہوئی زبان استعمال کرو، مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نے اتنا نرم لہجہ رکھا ہے کہ کہیں بھی ناگواری کا احساس نہیں ہوتا“۔ (پیش لفظ: 14)
کتاب کا مقدمہ چھ(6) صفحات پر محیط ہے۔ ان صفحات میں فاضل مؤلف کتاب نے مختصرا اسلامی تعلیمات کے اصل مآخذ کتاب وسنت اور ان دونوں کی تشریعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ تشریعی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مؤلف موصوف نے اس موضوع پر سابقہ کتابوں کے تعلق سے ذکر کیا ہے کہ تلاش بسیار کے باوجود اردو زبان میں کوئی مستقل کتاب نہیں ملی سوائے عربی زبان میں چند مقالات کے۔ پھر ان میں سے تین اہم مقالات کے ناموں کو ذکر کیا ہے۔
کتاب کے مقدمہ میں طریقہ تالیف، کتاب کا خاکہ اور تشکر وامتنان کے کلمات تحریر کیے ہیں۔ مؤلف کتاب نے ڈاکٹر عبیدالرحمن مدنی، شیخ اسرار احمد ندوی، شیخ محمد اسلم مبارک پوری اور اپنے استاد محترم مولانا محمد ابوالقاسم فاروقی کا خصوصیت سے شکریہ ادا کیا ہے۔
کتاب دو فصل، ایک خاتمہ اور بیس قواعد پر مشتمل ہے۔ فصل اول ”فہم کے معانی اور اس کی اہمیت وضرورت“ کے بنیادی موضوع سے متعلق ہے۔ اس فصل میں مؤلف نے ”فہم کا لغوی معنی، فہم کا اصطلاحی معنی، فقہ اور فہم کے درمیان فرق، فقہ اور علم کے درمیان فرق، فہم مراد میں لوگوں کے درمیان فرق مراتب، فہم میں فرق مراتب کی اہم وجہ، فہم حدیث کی کوشش پر اجر وثواب، حدیث میں غلط فہمی کے اسباب، ہواپرستی، ہوا پرستی کی مذمت، عربی زبان سے ناواقفیت، تقلید جامد، غلو، تعصب، مقاصد شریعت سے روگردانی، منہج سلف سے اعراض، نقل پر عقل کو مقدم کرنا، علمائے حق سے دوری، ظاہریت، حدیث فہمی کے اصول وضوابط سے اعراض، فقہ حدیث کی اہمیت اور غلط فہمی کی سنگینی“۔
فصل ثانی ”فہم حدیث کے اصول وقواعد“ کے بنیادی موضوع سے متعلق بیس (20) قواعد ہیں۔ فہم حدیث کے لحاظ سے ان اصول وقواعد کا جاننا کتنا اہم ہے اس کا اندازہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے جب کتاب کا متانت وسنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔ تاہم سرسری طور پر ان قواعد کا یہاں پر تذکرہ کردینا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے تاکہ ان موضوعات کی باریکی اور دقت سے کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے:
(1) نص حدیث کا ثابت ہونا(2) حدیث کے مختلف الفاظ کو جمع کرنا(3) موضوع سے متعلق تمام صحیح احادیث کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے معنی ومفہوم متعین کرنا(4) عربی زبان کا جاننا اور اس کے مدلولات اور اسالیب کلام کا خیال رکھنا(5) شرعی، اصطلاحی اور لغوی مفاہیم میں فرق کرنا(6) حدیث کے معانی کی تعیین میں راوی حدیث، محدثین اور فقہائے اسلام کے فہم کو اہل لغت کے فہم پر مقدم کرنا(7) ورود حدیث کے پس منظر اور اسباب وظروف کی رعایت کرنا(8) حدیث کے سیاق وسباق کی رعایت کرنا(9) احادیث نبویہ کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھنا(10) مقاصد شریعت کا پاس ولحاظ رکھنا(11) مختلف اسلوب میں وارد شدہ شرعی الفاظ کی دلالتوں کو جاننا(12) ناسخ، منسوخ، محکم اور متعارض احادیث کا علم رکھنا(13) روایت اور رائے میں فرق کرتے ہوئے روایت کو قبول کرنا اور اس کے معارض رائے کو ترک کردینا(14) شرعی نصوص میں ظاہری معنی مراد لینا ہی اصل ہے۔ خاص طور سے صفات باری تعالی کے باب میں۔ جب تک کہ خلاف ظاہر معنی مراد لیے جانے کی کوئی دلیل نہ آجائے(15) ضعیف حدیث کو مقبول حدیث کا معارض نہ ٹھہرانا(16) اخذ واستنباط میں کتاب وسنت کے درمیان تفریق نہ کرنا(17) احادیث نبویہ کو قرآنی آیات کی روشنی میں سمجھنا(18) احادیث نبویہ کو سیرت طیبہ کی روشنی میں سمجھنا(19) معتمد اہل علم اور شروحات حدیث کی طرف رجوع کرنا(20) کسی حدیث پر عمل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ اس پر صحابہ یا کسی کا عمل ثابت ہو۔
فہم حدیث کے لیے ان قواعد کا جاننا علماء، طلبہ، مفتیان دین اور قضاۃ اسلام کے لیے کتنا ضروری ہے اندازہ لگانا بہت مشکل نہیں ہے۔ دینی مسائل میں بیشتر اختلاف انھی قواعد کے نہ جاننے کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان قواعد کو ٹھیک سے سمجھ لیا جائے اور ان کے مطابق فقہ اور فتاوے کے عمل کو انجام دیا جائے تو امت مسلمہ اختلاف وانتشار سے محفوظ ہوجائے گی۔
ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ کی اس گراں قدر تصنیف کا مدارس وجامعات کے ہر طالب علم اور استاد کو مطالعہ کرنا چاہیے۔ بلکہ نصاب تعلیم اور دروس ودورات علمیہ کے طور پر پڑھایا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ لائق مصنف نے کڑی محنت کے بعد عربی کتابوں میں منتشر ان قواعد کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ اس اہم علمی کام کے لیے ان کا جس قدر شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ ہمارے بزرگ اور صاحب علم وفضل دوست ڈاکٹر عبدالصبور سلفی مدنی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہم جونیئروں کے لیے بہترین علمی وعملی نمونہ تھے۔ ان کی خالص علمی شخصیت ان کے قد کو کافی دراز کرتی ہے۔ اللہ تعالی نے وسعت علم کے ساتھ اعلی اخلاق وکردار سے بھی نوازا ہے۔ان کی خاکساری اور تواضع ہم لوگوں میں مسلم ہے۔ یقینا دکتور حفظہ اللہ سے جامعہ سلفیہ کا علمی معیار بلند ہوگا اور وہ ”سلفیان عالم“ کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
تبصرہ کا اختتام نمونہ کے طور پر فہم حدیث کے مذکورہ قواعد میں سے ایک قاعدہ کے خلاصہ پر کیا جائے تو شاید مناسب ہوگا۔ کتاب کا چودہواں قاعدہ ”شرعی نصوص میں ظاہری معنی مراد لینا ہی اصل ہے۔ خاص طورسے صفات باری تعالی کے باب میں۔ جب تک کہ خلاف ظاہر معنی مراد لیے جانے کی کوئی دلیل نہ آجائے“ اس قاعدے کی تشریح کرتے ہوئے فاضل مصنف رقمطراز ہیں ”یہاں ظاہری مفہوم سے مراد عرب کے وضع کردہ حروف اور کلمات کے وہ معانی ہیں جو عربی زبان پر قدرت رکھنے والے شخص کے ذہن میں نص پڑھتے ہی آجائے۔ اس قاعدے کی توثیق کے لیے مصنف نے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے جو قدرے طویل ہے ”القرآن عربی، والأحکام فیہ علی ظاہرہا وعمومہا، ولیس لأحد أن یحیل منہاظاہر الی باطن، ولا عاما الی خاص الا بدلالۃ من کتاب اللہ، فان لم تکن فسنۃرسول اللہ تدل علی أنہ خاص دون عام، أو باطن دون ظاہر أو اجماع من عامۃ العلماء الذین لا یجہلون کلہم کتابا ولاسنۃ……“ (فہم نصوص کے بنیادی اصول،ص263/264) قرآن عربی زبان میں ہے اس کے احکام اور عموم کا اعتبار ہے۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ قرآن کی دلیل کے بغیر ظاہر کو باطل یا عام کو خاص کی طرف پھیردے۔ اگر اسے قرآن میں کوئی آیت نہ ملے تو ذخیرہ احادیث میں اس عام کو خاص یا ظاہر کو باطن پر محمول کرنے والی کسی حدث کو ڈھونڈے یا کتاب وسنت کا علم رکھنے والے جمہور علما کے اجماع میں دیکھے“۔
اس کے علاوہ توثیق کی خاطر امام احمد، ولید بن مسلم، مفسر قرآن امام طبری، خطیب بغدادی، امام رازی، علامہ ابن القیم اور علامہ شنقیطی رحمہم اللہ جیسے اکابرین اہل علم کے اقوال پیش کیے ہیں۔ قاعدے کی اہمیت کے بیان کے لیے قرآن وحدیث کے نصوص ذکر کیے ہیں۔ قاعدے کی بعض مثالیں بھی دی ہیں۔ ساتھ ہی تاویل صحیح اور ظاہری معنی مراد لینے میں غلو کی ایک مثال بھی پیش کی گئی ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: 262-274)

آپ کے تبصرے

3000