مدارس کے فارغین اور ان کی ذمہ داریاں

تعلیم و تربیت ڈاکٹر حماد عبدالغفار

لوگوں کا حیرت و استعجاب جلد ہی ختم ہو گیا تھا کہ یہ چیز ان کے لیے نئی نہیں تھی ہاں میرے ’’شفاف‘‘چہرے پر پسینے کے قطرات لمحہ بہ لمحہ بڑھتے جا رہے تھے، بات ہی ایسی تھی امام صاحب قنوت وتر پڑھنا بھول گئے تھے، مقتدیوں کی بڑھتی شرگوشیاں امام صاحب پر ہتھوڑے کی مانند پڑرہی تھیں، ان کی نگاہیں کسی عالم دین کو تلاش کر رہی تھیں، اچانک ایک واقف کار نے آواز بلند کی ’’بتائیے مولانا صاحب سجدۂ سہو کریں کہ نہیں‘‘ آواز کا تعاقب کرتے کرتے لوگوں کی نگاہیں جب ’’مولانا‘‘ تک پہنچیں تو وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑنے لگے، مولانا کسی فلمی ہیرو کی طرح لگ رہے تھے، داڑھی تو نہیں تھی سو چہرے کی گھبراہٹ واضح تھی، اتنا چست پینٹ کہ بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا، مستزاد یہ کہ کمر کے کچھ حصے لباس سے محروم تھے، واقف کار نے پھر ٹہوکا دیا تو ’’مولانا‘‘ نے دل ہی دل میں اس کے آباء و اجداد کو کوستے ہوئے بڑی پھرتی سے مسئلہ بیان کر دیا، لیکن لوگوں کو تشویش ہوئی ’’مولانا‘‘ کے فتوی پر عمل کریں یا نہ کریں، دیکھنے میں تو خود ہی غلط لگ رہے ہیں مسئلہ کیا صحیح بتا یا ہوگا۔
قارئین! یہ کوئی کہانی نہیں لرزہ خیز حقیقت ہے۔ واقعتا آپ کو ایسے علماء کثرت سے مل جائیں گے جن کا سرٹیفیکٹ دیکھ کر بھی شک باقی رہتا ہے کہ کہیں اس نے ڈگری خریدی تو نہیں، بڑی سنجیدگی سے میں نے خود سے سوال کیا کہ آخر کیا اسباب ہیں جو تو نے اس ڈھٹائی سے چولا بدلا ہے؟ اے نفس! کیاتجھے شرعی وقار کے ساتھ دنیا وی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا خوف ہے؟ کیا تو احساس کمتری کا شکار ہے؟
نفس نے جواب دیا! ہاں ہم احساس کمتری کا شکار ہیں، یہ داڑھی مجھ سے گناہوں پر باز پرس کرتی ہے میں نے اسے راستے سے ہٹا دیا، کرتا یہ میری رنگینیوں کی دشمن تھی میں نے اسے اتار پھینکا، اب میں آزاد ہوں، میری اپنی کوئی شناخت نہیں ہے، میں کروڑوں کی بھیڑ میں آسانی سے گم ہو سکتاہوں، میں کچھ بھی کروں مجھ پر نظروں کا خصوصی کرم نہیں ہوتا کہ ’’یہ داڑھی والے صاحب بھی ایساکرتے ہیں‘‘۔
ایک ہی نہیں سیکڑوں ایسے ملیں گے جنھوں نے سال سے بھی کم عرصہ ہوا کسی نہ کسی مدرسے سے فراغت حاصل کی ہے اور بڑی بے حیائی سے انداز بدل کے گھوم رہے ہیں، بعض تو مجھ سے بھی چار قدم آگے ہیں تراش خراش دیکھ کے تو ایسا لگتا ہے وہ اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب بالی وڈ والے آئیں اور پالکی میں سوار کر کے انھیں لے جائیں!
چار مہینے کی عصری تعلیم ان کی اس دس سالہ روحانی زندگی کا ستیاناس کر دیتی ہے، شاید میں غلط کہہ رہا ہوں عصری تعلیم کا کوئی قصور نہیں ساری غلطی تو اپنی ہے، کوئی بھی تعلیم ہم سے داڑھیوں کی خراج نہیں مانگتی ہم شوق سے خود ہی اس کی قربانی دیتے ہیں اور بدنام یونیورسٹیوں، کالجوں کو کرتے ہیں، انھیں یونیورسٹیوں میں بہت سے ایسے ملیں گے جن کے دیدار سے صاحب ایمان کو ٹھنڈک ملتی ہے، جو نہ صرف اپنا ایمان بچائے ہوئے ہیں بلکہ دوسروںکو بھی راہ راست پر لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جن کی مصروفیتیں ان کی نمازوں کو بے وقت نہیں کرتیں جن کے حوصلوں کو ہوش ربا رنگینیاں روک نہیں پاتیں وہ فتنوں کے درمیان اپنے آپ کو تروتازہ رکھے ہوئے ہیں انھیں دیکھ کر شیطان کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے، وہیں کچھ ایسے ڈگری والے بھی ہوں گے جنھیں مغربیت نے اپنا غلام بنا لیا ہے، وہ تہذیب و تمدن کے ہر میدان میں شکست خوردہ ہو کر اپنی اصلیت فراموش کر چکے ہیں، شجر سے کٹ کے جس طرح شاخ ایندھن بننے کے انتظار میں سڑتی ہے اسی طرح سے ہم ’’جدید تراش کے علماء‘‘ بھی ہیں، ہمارا حشر کیا ہوگا غور کرکے خود ہی معلوم کرلیں!
چونکہ یہ نفس سِجین سے گہرے ربط میں ہے، لہٰذا ایسوں کی حالت، طرزِ زندگی،سوچ و فکر بلا کسی خاص محنت و سراغ رسانی کے آسانی سے سپرد قلم ہوسکتی ہے، سچ لکھ رہا ہوں! ہم جیسوں کی نظر کسی روحِ ایمان سے سر شار کسی نوجوان (فارغ التحصیل من مدارس) پر پڑتی ہے تو تھر تھر کانپنے لگتے ہیں، جب کچھ نہیں بن پڑتا تو کہتے ہیں’’تھوڑا سا پڑھ کیا لیا علامہ بن گیا ہے، الٹا سیدھا فتوی دے کر دوسروں کو بگاڑ رہا ہے‘‘ اور وہ بیچارہ شرمندہ ہو کر چلا جاتاہے ’’یتخذونھا ھزوا‘‘ کی مکمل تفسیر ہوتے ہیں ہم!
آنکھوں کا پانی اتنا مر گیا ہے کہ مدرسوں میں رہ کر کھایا پیا، حدیث و تفسیر، فقہ واصول کی موٹی موٹی کتابیں پڑھیں، کچھ عہد و پیمان کر کے مدرسوں سے نکلے تو بے لگام گھوڑے کی طرح بھاگ رہے ہیں، اب اگر کوئی اپنا حق ادا کر نا چاہے تو اس پراس طرح حملہ کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ !
ماڈرن علماء کرام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، ذرا اپنی حالتِ زار پر غور کریں، کچھ نہیں تو انجمنوں میں اپنی کی گئی تقاریرکو ہی یاد کر کے اپنا محاسبہ کر لیں، کہاں تو ایسا لگتا تھا کہ اکیلے یہی ہیں جن کو امت کی فکر ہے، ہر تقریر میں امت کی بد حالی پر زبانی روتے، علاج ڈھونڈھتے مگر اب خود ہی بیمار امت کا لاغر حصہ بن گئے ہیں۔ تھوڑا رخ تبدیل کر کے دیکھتے ہیں!
جدید فارغین میں ایسے بھی ہیں جو الحمدللہ مکمل با شرع ہیں ٹخنوں سے اوپر پائجامہ، سیاہ گھنی داڑھی، نظر کا چشمہ کہ شعور و آگہی کی علامت ہوتی ہے، لیکن حالت یہ ہے کہ دھاڑنے کے لیے تیا ر رہتے ہیں، چار حرف پڑھ کیا لیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے اپنا موازنہ کرنے لگتے ہیں، ’’مسند اور اسناد‘‘ کا فرق معلوم نہیں مناظرہ کر نے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں، یہ علمی پہلوانی کے زعم میں صرف غوں غاں ہی کرتے ہیں اور کچھ نہیں، کسی نے مسئلہ پوچھ لیا تو سائل کو ایسا الجھا دیتے ہیں کہ وہ بیچارہ اپنا سوال ہی بھول جاتا ہے۔ حدیث کے بارے میں سوال ہو تو کہیں گے ’’ادب‘‘ سے دلچسپی تھی اگر ’’حطیئہ‘‘ اور ’’ابو تمام‘‘ کا ذکر چھڑ جائے تو تاریخ سے لو لگاکر پلو جھاڑ لیا، اگر مولانا اسماعلی سلفیؔ و مولانا اسماعیل گوجرانوالا کا نام آئے تو جامعہ سلفیہ کے رجسٹر کھنگالنے پر غور کریں گے!
سینکڑوں کی تعداد میں مدارس سے طلبہ فارغ ہوتے ہیں ان میں حقیقی علماء کی گنتی اگر انگلیوں پر بھی کریں تو کچھ پور یقیناخالی رہیں گے!
اگر یہی حالت رہی تو کیا ہوگا غور کر لیں! صورتِ حال بڑی نازک ہے، لوگ دین کی بنیادی باتوں تک سے نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کی دلچسپی دین سے ختم ہو گئی ہے ان کی صحیح راہنمائی کرنے والے نہیں مل رہے ہیں، وہ بیع و شراء میں حرام کاری کرتے ہیں تو ہمیں ان کو سکھانا چاہیے، وہ زکوٰۃ میں دھاندھلی کر تے ہیں تو ہمیں سمجھانا چاہیے، اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو ہماری تعلیم بیکار ہے۔
یہ سنہرا موقع ہے میدان میں آنے کا، دشمن ہماری بے حسی سے حوصلہ پا کر ہمیں بالکل ختم کرنا چاہتا ہے، ہمیں ان کے حوصلوں کو توڑنا ہے، دینی جذبہ پیدا کر نا ہے، ہر میدا ن میں ہمارے پاس سنہرے مواقع ہیں، ہم اعلیٰ تعلیم کے خوہش مند ہیں تو اچھی بات ہے، دین کے ساتھ ساتھ عصری علم کے زیور سے آراستہ ہو کر ہم ہم وطنوں سے قدم ملا کر چل سکتے ہیں، اپنی تہذیب و تمدن اور عمدہ اخلاق کا اثر ان پر چھوڑ سکتے ہیں، اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا ان شاء اللہ!
مصیبت تو یہ ہے کہ بہت سے طلباء شعوری یا لاشعوری طور پر احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں، دوسروں سے سن سن کے وہ اپنا مستقبل تاریک سمجھنے لگتے ہیں، ایسا نہیں ہے ہمارے پاس علم و عمل دونوں کے راستے کھلے ہوئے ہیں، ترقی اصحابِ مدارس کا بھی راستہ دیکھتی ہے، ہاں صحیح راستے کا تعین ہونا چاہیے!
فارغین میں سے کچھ مدارس و مساجد کا رخ کریں، اس سے گزرانِ زندگی کا معقول بندوبست بھی ہو جائے گا اور آس پاس کے علاقوں میں گھوم پھر کر کے دین صحیح تعلیم بھی دے سکیں گے، اس سے لوگوں میں دینی بیداری بھی آئے گی۔ الحمد للہ اس سے کچھ لوگ جڑے تو ہیں لیکن ان کی تعدا د بہت کم ہے، یہاں عوام کو بھی تھوڑی دلچسپی لینی ہوگی عموما دیکھا جاتا ہے جتنا چاہا دے دیا، بات بے بات جھڑک دیا، اس سے حوصلہ شکنی ہوتی ہے، عالم بھی ایک انسان ہے، اس کی بھی ضرورتیں ہیں، انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے، عوام و خواص کی مشترکہ ومخلصانہ کوششیں ہوں تو ہر علاقے میں چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنائی جا سکتی ہیں،لوگوں کی ضرورتوں کے بلحاظ ان کی مدد کی جا سکتی ہے، اس سے دائرہ عمل میں وسعت پیدا ہوگی اور جملہ افعال میں دینی رنگ چڑھے گا، اس سے علماء اپنے علم کا صحیح تصرف کرکے چھوٹی چیز سے بڑا کام کر سکتے ہیں۔
دوسرے وہ فارغین ہیں جو عصری درس گاہوں کا رخ کرتے ہیں ان کے لیے بھی مواقع ہیں، ملک کی چند مرکزی و صوبائی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فارغین مدارس کو براہ راست داخلہ ملتا ہے، طلبا ء دوسرے چکروں میں نہ پڑ کے اگر ’’اسلامک اسٹڈیز‘‘ اور ’’عربی لغت‘‘ وغیرہ کا انتخاب کریں تو زیادہ اچھا رہے گا، کیونکہ ان کورسیز میں ’’وضع الشیٔ فی غیر محلہ‘‘ کی طرح ایسے لوگ داخل ہوجاتے ہیں جو ان کی بنیادی معلومات سے کورے رہتے ہیں، دو چار سال پڑھ کے ان پر دانشوری کا بھوت سوار ہو جاتا ہے اور نئے نئے فتنے سر ابھارنے لگتے ہیں۔
فارغین مدارس کے لیے یہ کورسیز نسبتاً آسان بھی رہتے ہیں اور نفع بخش بھی، گریجویشن کے بعد صحافت کا بھی دروازہ کھلا رہتا ہے، جہاں فی زماننا صداقت کا قحط اور مخلصین کی ضرورت ہے، ان عصری درس گاہوں میں فارغین مدارس اپنے علم وتربیت کوبروئے کار لائیں، پہلے ان میں موجود دوسرے مسلم طلبہ کو سمجھائیں، جتنا آپ کا ساتھ دیں انھیں شامل کرکے وسیع پیمانے پر عمل کے میدان میں اتریں، چونکہ ان درس گاہوں کے طلبہ زیادہ دنیا شناس ہوتے ہیں اس لیے وہ وقت کے طلب کے مطابق اپنا تصرف کرسکتے ہیں، ان طلباء کو مساجد ومدارس میں مقیم علماء سے ربط رکھنا چاہیے تاکہ دوسرے کے حالات سے آگاہ ہوں اور وہ راہ میں حائل پیچیدگیوں کو دور کر سکیں۔
چونکہ ان درس گاہوں میں بڑے بڑے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے ان سے مالی تعاون بھی لے سکتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ محدود پیمانے پہ سہی ایک تنظیم فروغ پاسکے گی، اس سے لوگوں کی صحیح دینی تربیت کے ساتھ رفاہ عام اور خدمت خلق بھی ہوگا، بے روزگارنوجوانوں کو روزگاری کا صحیح طریقہ بتائیں، جلد سازی بھی ایک شخص کے یومیہ خرچ کا بوجھ بآسانی آ سکتی ہے، اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں لوگوں کو بتائیں تاکہ وہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں، یہ سنت بھی ہے نبی ﷺ نے صحابی کو اپنے دست مبارک سے کلہاڑی بناکے دی اور کہا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کے بیچو یعنی روزگار پہ لگایا تو جانشین رسول بھی اس کا خیال رکھیں۔
کنواں سے پانی مل جائے تو دریا کی ضرورت نہیں، بڑی تنظیموں اور قد آور شخصیات سے کسی مدد کی توقع نہ رکھیں، اگر ہم چھوٹے پیمانے پر بھی ایسا کر لے گئے تو یقینا مثبت نتائج نکلیں گے اور علم و عمل ہر دو کا ساتھ بھی نہ چھوٹے گا، پھر قدآور شخصیات کو روکنے کے لیے کوئی اور موضوع تلاشنا پڑے کہ ’’کیا کریں جو مدارس سے فارغ ہوتے ہیں وہ عصری تعلیم سے دور جو عصری تعلیم کے حامل ہیں وہ دین سے دور دونوں مل کے ہی کچھ کر سکتے ہیں‘‘ یہ سب باتیںبڑے لوگوں کی ہیں۔
حالات بڑے نازک ہوتے جا رہے ہیں ہر سال کو ئی نہ کوئی بڑا عالم ہم سے دور ہورہا ہے، اس کا خلا پر نہیں ہوتاہے، اگر ہم یوں ہی بے کار رہے تو چند برسوں بعد ہم نئی نسل کے علماء عوام کی تو دور مدارس کے طلباء کی بھی صحیح رہنمائی نہ کر پائیں گے، اب بھی وقت ہے اپنا وطیرہ بدلنے کی کوشش کرلیں، فراغت کے بعد بھی شوق کے ساتھ مطالعہ جاری رکھیں تاکہ جہاں بھی ضرورت پڑے ہم اسے پر کر سکیں، اللہ ہمارا حامی و ناصر ہے۔
سب سے ضروری چیز کہ ہم جہاں بھی ہوں حرام کے رسیا نہ بنیں، لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ حلال روزی ہی کامیابی کا راستہ ہے، اس کے بغیر ہماری عبادتیں و ریاضتیں سب بے کار ہیں، ہم کامیابیوں کے لیے دعا کر تے ہیں لیکن ہماری دعائیں اَن سنی ہو جاتی ہیں، ہمیں اس صورت میں کامیابی مل سکتی ہے جب صاحبِ ایمان ہوں، صاحبِ ایمان تبھی ہو سکتے ہیں جب عبادتوں میں خلوص ہو، ہم احکام شرعیہ پر کاربند ہوں، ہماری عبادتیں ودعائیں اسی وقت قبول ہوں گی جب رزق حلال ہوگا ورنہ ’’این یستجاب‘‘۔
میدان میں آئیں اور بڑھتے قرض کا بوجھ اتاریں، مسلم عوام کے سب سے قریب علماء ہی رہتے ہیں اس قربت کا فائدہ اٹھانے کی سخت ضرورت ہے، اللہ تعالی ہم تمام کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

آپ کے تبصرے

3000