آیت “وَمن لم يحكم بِمَا أنزل الله فَأُولَئِك هم الْكَافِرُونَ” کا صحیح معنی ومفہوم اور غور وفکر کے چند زاویے

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

اہل سنت والجماعت کے متعدد اصولوں میں سے ایک اہم اصول یہ ہے کہ کتاب وسنت کے نصوص کو سلف صالحین کے فہم کے مطابق سمجھا جائے، فہم سلف کو پس پشت ڈال کر ان کی من مانی تفسیر نہ کی جائے۔ کتاب وسنت کے بہت سارے نصوص ایسے ہیں جن کا مفہوم سلف صالحین نے کچھ بیان کیا ہے، اور اہل بدعت نے کچھ۔ اہل بدعت انھیں دوسرے معنی ومفہوم پر محمول کرتے ہیں، اور ان پر اپنے باطل عقائد ونظریات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک نص قرآن کریم کی یہ آیت ہے: ”وَمن لم يحكم بِمَا أنزل الله فَأُولَئِك هم الْكَافِرُونَ“۔[سورۃ المائدہ:44]

اس کی تفسیر سلف صالحین کے یہاں معروف ہے کہ یہ آیت قانون الہی چھوڑ کر بشری قانون نافذ کرنے والے کی تکفیر کے بارے میں عام نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے (جس کا بیان آگے آ رہا ہے)۔

استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت قانون الہی چھوڑ کر بشری قانون نافذ کرنے والے کی تکفیر کے بارے میں مطلق نہیں ہے، اہل سنت والجماعت کا اس بارے میں اجماع ہےکہ یہاں اس آیت کا ظاہری معنی مراد نہیں اور یہاں کفر سے مراد وہ کفر نہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دے، صرف خوارج نے اس مفہوم سے اختلاف کیا ہے۔ [الاصول السنیہ البہیہ فی کشف شبہ اہل الفتن الغویہ (ص223)، والافادۃ والاعلام بفوائد رسالۃ نواقض الاسلام (ص70) کلاھما لسلیمان الرحیلی]

بلکہ اس آیت اور اس معنی کی دوسری آیتوں کوبنیاد بنا کر ہی اس باطل فرقے کا وجود ہوا ہے، امام لالکائی اس فرقے کے ظہور کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

“قالوا:﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ﴾، ﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾، فأنت لم تحكم بما أنزل الله، ولم تحتكم إلى ما أنزل الله، وإنما احتكمت إلى الرجال، فخرجوا على علي بن أبي طالب وانشقوا عنه بعد أن كانوا معه، فسموا حينئذ بالخوارج. [شرح اصول اعتقاد اہل السنہ والجماعہ:3/4]

(خوارج نے کہا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”فیصلہ صرف اور صرف اللہ کا ہوگا“اور ”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں“، اور آپ نے اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کیا، اور نہ اللہ کے نازل کردہ قانون کو اپنا فیصل قرار دیا، بلکہ لوگوں کو اپنا فیصل چنا، اس طرح انھوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر خروج کیا، اور ان سے علیحدہ ہو گئے حالانکہ پہلے ان کے ساتھ ہی تھے، اس طرح اس وقت ان کا نام خوارج پڑ گیا)

مرتکب کبیرہ کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کا منہج معروف ومشہور ہے کہ وہ اسے دائرہ اسلام سے خارج گردانتے ہیں۔ انھوں نے مذکورہ آیت اور دیگر نصوص ِ وعید سے استدلال کرتے ہوئے اپنا یہ عقیدہ ومنہج اختیار کیا ہے۔

علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قد ضلت جماعة من أهل البدع من الخوارج والمعتزلة في هذا الباب فاحتجوا بهذه الآثار ومثلها في تكفير المذنبين واحتجوا من كتاب الله بآيات ليست على ظاهرها، مثل قوله عز وجل: ﴿ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون﴾. [التمہید لابن عبد البر:17/16]

(اہل بدعت میں سے خوارج ومعتزلہ کی جماعت اس باب میں گمراہ ہو گئی، انھوں نے گنہگار لوگوں کی تکفیر کے لیے انہی جیسے آثار سے دلیل پکڑی، اورقرآن کریم کی ایسی آیتوں کو بطور دلیل گردانا ، جن کا ظاہری معنی مراد نہیں، مثلا اللہ تعالی کا یہ قول:”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں“)

یہ آیت خوارج ومعتزلہ کی بہت بڑی دلیل ہے کہ قانون الہی چھوڑ کر بشری قانون نافذ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ خوارج اسے صراحتا کافر کہتے ہیں، جب کہ معتزلہ کافر تو نہیں کہتے، لیکن دائرہ اسلام سے اسے خارج ضرور مانتے ہیں، اور اس کا مقام اسلام وکفر کے مابین قرار دیتے ہیں، جسے وہ ”منزلۃ بین المنزلتین“سے تعبیر کرتے ہیں۔

صرف زمانہ قدیم ہی میں نہیں بلکہ آج بھی مسلم حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کرنے کے لیے خوارج کی یہ ایک بہت بڑی دلیل رہی ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اس زمانے میں، بلکہ کئی زمانے سے فتنہ تکفیر کی بنیاد یہی آیت رہی ہے، جس کے ارد گرد وہ گھومتے ہیں، اور بلا فہم و معرفت اس سے استدلال کرتے ہیں“۔ [فتنۃ التکفیر:ص21]

چنانچہ قانون الہی کی جگہ بشری قانون کی تنفیذ کو وہ کفر اکبر ہی سمجھتے ہیں، اور اس قانون کے نافذ کرنے والوں بلکہ قبول کرنے والوں کو بھی کافر تسلیم کرتے ہیں۔

خوارجِ عصر ”اخوانیوں“ کی فکر بھی یہی ہے، بلکہ ان کے بعض بڑے لیڈران اس معاملے میں قدیم خوارج سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں، وہ ”حکم بغیر ما انزل اللہ“ کی وجہ سے صرف حکمرانوں کوہی کافر نہیں کہتے بلکہ پوری سوسائٹی کومرتد، کافر اور جاہلی قرار دیتے ہیں۔ آپ اخوانیوں کے بہت بڑے پیشوا سید قطب کی کتابیں اٹھائیں یہ چیز جا بہ جا نظر آئے گی۔ چنانچہ ”فی ظلال القرآن“(2/1057) میں فرماتے ہیں: “البشرية بجملتها، بما فيها أولئك الذين يرددون على المآذن في مشارق الأرض ومغاربها كلمات: لا إله إلا الله، بلا مدلول ولا واقع … وهؤلاء أثقل إثمًا، وأشد عذابًا يوم القيامة؛ لأنهم ارتدوا إلى عبادة العباد من بعد ما تبين لهم الهدى، ومن بعد أن كانوا في دين الله”.

(پوری انسانیت جس میں وہ بھی شامل ہیں جو مشرق ومغرب کی میناروں سے بلا فہم وبصیرت لا الہ الا اللہ کى صدا بلند کرتے ہیں… ایسے لوگوں کا گناہ زیادہ سنگین ہے ، اور یہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب سے بھی دو چار ہونے والے ہیں، کیونکہ یہ حق واضح ہونے کے بعد مرتد ہو کر بندوں کی عبادت کی طرف پلٹ آئے، حالانکہ یہ پہلے دین الہی کے پیروکار تھے)

اور (4/2122) میں فرماتے ہیں:”إنه ليس على وجه الأرض اليوم دولة مسلمة ولا مجتمع مسلم قاعدة التعامل فيه هي شريعة الله والفقه الإسلامي“۔ (آج روئے زمین پر کوئی ایسامسلم ملک یا معاشرہ نہیں جہاں کا سماجى نظم ونسق اللہ کی شریعت اور فقہ اسلامى کے مطابق ہو)

سید قطب کی ان دونوں عبارتوں سے واضح ہے کہ وہ محض حکمرانوں کو ہی کافر نہیں سمجھتے بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو مرتد اور زمانہ جاہلیت کا پیروکار سمجھتے ہیں۔ واللہ المستعان۔

خود ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنے مرشد سید قطب کے بارے لکھتے ہیں کہ:”الحقيقة في نظر سيد قطب أن كل المجتمعات القائمة في الأرض أصبحت مجتمعات جاهلية، تكوَّن هذا الفكر الثوري الرافض لكل من حوله وما حوله، والذي ينضح بتكفير المجتمع، وتكفير الناس عامة؛ لأنهم “أسقطوا حاكمية الله تعالى” ورضوا بغيره حكمًا، واحتكموا إلى أنظمة بشرية، وقوانين وضعية… تكوَّن هذا الفكر الثوري الرافض، داخل السجن… الخ”. [فی وَداع الاعلام لیوسف القرضاوی:ص97]

(در حقیقت سید قطب کی نظر میں دنیا میں موجود تمام معاشرے جاہلی بن چکے ہیں۔ ان کی یہ انقلابی فکر جو ہر ایک سے الگ تھلگ اورکٹ کر رہنے پر ابھارتی ہے،جس کے نتیجے میں معاشرے کی تکفیر بلکہ تمام لوگوں کی عمومی تکفیر سامنے آتی ہے، کیونکہ انھوں نے ”اللہ تعالی کی حاکمیت“ کو ساقط کیا ، غیر اللہ کو اپنا حَکَم بنانے پر راضى ہوے، اور وضعی قانون کو اپنا فیصل تسلیم کیا۔۔۔ ان کی یہ انقلابی اور برطرف رہنے کى فکر جیل میں رہنے کے دوران پروان چڑھی)

سید قطب کی کتاب ”معالم فی الطریق“اور ”فی ظلال القرآن“میں پوری انسانیت کی ایسی عمومی تکفیر کئی جگہوں پر موجود ہے، بلکہ حکمران اور مسلم ممالک سمیت پوری امت کی تکفیر انھوں نے کی ہے، کیونکہ انھوں نے قانون الہی کے بجاے وضعى قانون کا نفاذ کیا ، اور عوام بھی اپنے مسائل کے حل کے لیےانھی قوانین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے بعض کے ہاں امت کے کبار سلفی علما مثلا شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد السلام السحیمی، شیخ سلیمان الرحیلی وغیرہم مرتد بلکہ حقیقی کفار ہیں۔

اخوانی فکر کی خباثت سے عدمِ واقفیت اور منہجِ سلف سے دوری کی بنا پر بہت سارے سادہ لوح انسان ان کے دامِ فریب میں پھنس جاتے ہیں، اور ان کے آلہ کار بن کر فتنہ وفساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے افکار سے متاثر ایک شخص نے مجھے اور شیخ عبد السلام السحیمی حفظہ اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ مرتد نہیں بلکہ حقیقى کافر ہیں، کیونکہ آپ نے اللہ تعالی کو پہچانا ہی نہیں کہ آپ کے مرتد ہونے کی نوبت آئے۔ [الاصول السنیہ البہیہ فی کشف شبہ اہل الفتن الغویہ لسلیمان الرحیلی: ص40-41]

انا للہ وانا الیہ راجعون، فہم سلف کو چھوڑ کر کوئی نصوص شریعت کی من مانی تفسیر کرے تو اس کا نتیجہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے اس سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

زمانہ قدیم سے خوارج نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مسلم حکمرانوں کی تکفیر کی، اور ان کے خلاف خروج وبغاوت کو جائز ٹھہرایا۔ حالانکہ سلف صالحین کے یہاں اس آیت کے فہم میں کوئی اختلاف ہی نہیں کہ یہاں آیت اپنے ظاہری پیراے میں نہیں، لہذا یہ حکمرانوں کی مطلق تکفیر پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ اس میں تفصیل ہے۔

علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ شرح العقیدۃ الطحاویہ (ص324) میں اس ”تفصیل“ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

“أَنَّ الْحُكْمَ بِغَيْرِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَدْ يَكُونُ كُفْرًا يَنْقُلُ عَنِ الْمِلَّةِ، وَقَدْ يَكُونُ مَعْصِيَةً: كَبِيرَةً أَوْ صَغِيرَةً، وَيَكُونُ كُفْرًا: إِمَّا مَجَازِيًّا، وَإِمَّا كُفْرًا أَصْغَرَ، عَلَى الْقَوْلَيْنِ الْمَذْكُورَيْنِ، وَذَلِكَ بِحَسَبِ حَالِ الْحَاكِمِ: فَإِنَّهُ إِنِ اعْتَقَدَ أَنَّ الْحُكْمَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ غَيْرُ وَاجِبٍ، وَأَنَّهُ مُخَيَّرٌ فِيهِ، أَوِ اسْتَهَانَ بِهِ مَعَ تيقنه أنه حُكْمُ اللَّهِ: فَهَذَا كَفْرٌ أَكْبَر, وَإِنِ اعْتَقَدَ وُجُوبَ الْحُكْمِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ، وَعَلِمَهُ فِي هَذِهِ الْوَاقِعَةِ، وَعَدَلَ عَنْهُ مَعَ اعْتِرَافِهِ بِأَنَّهُ مُسْتَحِقٌّ لِلْعُقُوبَةِ، فَهَذَا عَاصٍ، وَيُسَمَّى كَافِرًا كُفْرًا مَجَازِيًّا، أَوْ كُفْرًا أَصْغَرَ, وَإِنْ جَهِلَ حُكْمَ اللَّهِ فِيهَا، مَعَ بَذْلِ جُهْدِهِ وَاسْتِفْرَاغِ وُسْعِهِ في معرفة الحكم وأخطأه، فهذا مخطىء، لَهُ أَجْرٌ عَلَى اجْتِهَادِهِ، وَخَطَؤُهُ مَغْفُورٌ”.

(اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا بسا اوقات ایسا کفر ہوتا ہے جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے، جب کہ بسا اوقات وہ کبیرہ یا صغیرہ گناہوں کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ اس پر بسا اوقات کفر کا اطلاق مجازًا ہوتا ہے، یا اس سے مراد کفر اصغر ہوتا ہے۔ حکمراں کے حالات کے حساب سے اس کا حکم بدلتا رہتا ہے۔ اگر وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا واجب نہیں، یا یہ سمجھتا ہے کہ چاہے اس قانون کے مطابق فیصلہ کرے، چاہے نہ کرے اسے اختیار ہے، یا اس کی ناقدری اور استخفاف کرتا ہے، گرچہ اسے یقین ہو کہ یہ اللہ کا قانون ہے تو یہ کفر اکبر ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے، نیز اس خاص واقعہ میں اسے اس قانون الہی کا علم بھی ہو، لیکن اس کے باوجود اس سے رو گردانی کرے، اور اعتراف بھی ہو کہ وہ سزا کا مستحق ہے، تو وہ گنہگار ہے، اسے کفر مجازی یا کفر اصغر کا مرتکب سمجھا جائےگا۔ لیکن اگر اسے قانون الہی کا علم ہی نہ ہو، جانکارى حاصل کرنے کى حتی الامکان کوشش کے باوجود اس سے غلطی ہو جائے، تو اسے غلط فیصلہ کرنے کا مرتکب سمجھا جائےگا۔ اور اپنے اجتہاد ى غلطی پر وہ نیکی کا مستحق ٹھہر ے گا ، اور –ان شاءا للہ- یہ غلطی بخش دی جائےگی)

علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ نے یہاں اس مسئلہ میں سلف صالحین کے تمام اقوال کا خلاصہ پیش کر دیا ہے۔ اگر اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ان کے بعد آنے والے اسلاف کرام کے اقوال جمع کیے جائیں تو یہی تفصیل سامنے آتی ہے۔

امام المفسرین، ترجمان القرآن، حبر الامت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: “إنه ليس بالكفر الذي تذهبون إليه، إنه ليس كفرًا ينقل عن ملة, ﴿ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون﴾ كفر دون كفر”۔

(اس سے وہ کفر مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ اس سے مراد وہ کفر نہیں جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے۔ اس آیت میں کفر سے مراد وہ کفر ہے جو کفر –اکبر- سے چھوٹا ہے۔ یعنی اس سے مراد کفر اصغر ہے)

[تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی (2/521)، السنہ لابی بکر الخلال (4/160)، تفسیر ابن ابی حاتم (4/1143)، الابانۃ الکبری لابن بطہ (2/376، ح1010)، المستدرک للحاکم (2/342، ح3219)، السنن الکبری للبیہقی (8/38، ح15854) واللفظ لہ، والاحادیث المختارہ للمقدسی (11/67) وغیرہ۔

امام حاکم نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے:”هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه“، حافظ ذہبی نے مستدرک کی تلخیص میں اس حکم کی موافقت کی ہے، علامہ البانی نے الایمان لابن تیمیہ (ص255) کی تحقیق میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے، اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ”فتنۃ التکفیر للالبانی (ص24) کی تعلیق میں اس ”تصحیح“ کی تائید کی ہے، اور اس پر کلام کرنے والوں پر رد کیا ہے]

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں اس کے علاوہ بھی متعدد الفاظ وارد ہیں، جو بیان کردہ معنی کے موافق ہے۔

استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ اثر ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:”لم يعلم له مخالف من الصحابة، فيكون هذا إجماعًا في زمن صحابة رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كفر دون كفر، وقد أطبق كلام السلف على هذا, ولا يعلم للسلف ولا لأئمة الإسلام الكبار كمالك وأحمد وغيرهما كلمة واحدة تخالف هذا”۔ [الافادۃ والاعلام بفوائد رسالۃ نواقض الاسلام لسلیمان الرحیلی :ص72]

(صحابہ میں سے –اس تفسیر میں–کوئی بھی ان کا مخالف ہو اس کا علم نہیں۔ اس ناحیے سے صحابہ کرام کے زمانے میں اس پر اجماع ہوا کہ یہ کفرٌ دونَ کفرٍ (یعنی کفر اصغر)ہے، سلف کا کلام بھی اس بارے میں متفق ہے، اور سلف میں سے یا اسلام کے کبار ائمہ مثلا امام مالک واحمد وغیرہما میں سے کسی سے کوئی ایک کلمہ بھی ایسا نہیں جو اس کے مخالف ہو)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر غور کریں، وہ مخاطب پر نکیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اس آیت میں وہ کفر مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو“۔ یعنی اسی زمانے میں کچھ لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے تکفیری فتوے دے رہے تھے جن پر انھوں نے نکیر کی۔ غالبا ان کے مخاطب وہ خوارج ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ظاہر ہوئے،ان کی تکفیر کی، ان کے خلاف برسر پیکار ہوئے اور مسلمانوں کی خونریزی کی دلخراش داستان لکھی، جن کی نسل آج تک قتل وغارت گری کا یہ گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔

علم وفراست سے مزین علامہ البانی رحمہ اللہ کی یہ عبارت پڑھیں، فرماتے ہیں:

“كأنه طرق سمعه يومئذ ما نسمعه اليوم تمامًا من أن هناك أناسًا يفهمون هذه الآية فهمًا سطحيًا من غير تفصيل، فقال رضي الله عنه: “ليس الكفر الذي تذهبون إليه، وإنه ليس كفرًا ينقل عن الملة، وهو كفر دون كفر”، ولعله يعني بذلك الخوارج الذين خرجوا على أمير المؤمنين علي رضي الله عنه، ثم كان من عواقب ذلك أنهم سفكوا دماء المؤمنين، وفعلوا فيهم ما لم يفعلوا بالمشركين، فقال: ليس الأمر كما قالوا أو كما ظنوا، وإنما هو كفر دون كفر، هذا الجواب المختصر الواضح من ترجمان القرآن في تفسير هذه الآية هو الحكم الذي لا يمكن أن يفهم سواه”۔ [فتنۃ التکفیر للالبانی :ص6]

(گویا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پردۂِ سماعت سے بالکل یہی بات اسی وقت ٹکرا چکی تھی جو آج ہم بعض لوگوں سے سن رہے ہیں، جو سطحی انداز میں بغیر کسی تفصیل کے اس آیت کو سمجھتے ہیں، جن پر رد کرتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا:”اس سے وہ کفر مراد نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ وہ کفر نہیں جو دائرہ اسلام سے خارج کر دے۔ یہ وہ کفر ہے جو کفر –اکبر–سے چھوٹا ہے“۔

غالبا اس سے انھوں نے ان خوارج کو مراد لیا ہے جنھوں نے علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تھا، پھر اس کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ انھوں نے مؤمنوں کی خونریزی کی، اور ان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا جو مشرکوں کے ساتھ بھی روا نہ رکھا، تب آپ نے فرمایا کہ یہ جو کہہ رہے یا سوچ رہے ہیں معاملہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد محض کفرٌ دونَ کفرٍ (یعنی کفر اصغر)ہے۔

ترجمان القرآن سے اس آیت کی تفسیر میں یہ مختصر اور واضح جواب ایسا قول فیصل ہے جس کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں اسے سمجھنا ممکن نہیں۔

یہ در اصل خوارج کی فکر ہے،جس کا عصر حاضر میں سید قطب جیسے اخوانیوں نے خوب پرچار کیا ہے، اور امت کے ایک بڑے گروہ کو تکفیری بنا دیا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشہور شاگرد اور مفسر قرآن عطا بن ابی رباح اور طاوس بن کیسان بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں کہ اس سے وہ کفر مراد نہیں جس کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے ہی خارج ہو جائے، بلکہ اس سے ”کفر دون کفر“(یعنی کفر اصغر)مراد ہے۔

[عطاء بن ابی رباح کے اثر کے لیے دیکھیں:مسائل الامام احمد بروایۃ الامام ابی داود (1357)، وتعظیم قدر الصلاۃ للمروزی (575)، علامہ البانی نے السلسلہ الصحیحہ (6/114) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

طاوس بن کیسان کے اثر کے لیے دیکھیں: تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی (574)، وتفسیر طبری (8/465)۔ علامہ البانی نے السلسلہ الصحیحہ (6/114) میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے]

علقمہ اور اسود سے روایت ہے، ان دونوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سےرشوت کے بارے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:یہ حرام ہے۔ دونوں نے پوچھا:(اپنے حق میں)فیصلہ کے لیے اسے دینے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا:یہ تو کفر ہے، اور پھر اس آیت کی تلاوت کی:”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں“۔ [تفسیر طبری (8/432)، والسنہ لابی بکر الخلال (4/157، ح1412)، واسنادہ صحیح]

یہاں واضح ہے کہ انھوں نے اس ”کفر“سے ”کفر اکبر“جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دے مراد نہیں لیا ہے، ورنہ لازم آئےگا کہ رشوت دینے اور لینے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائےگا، اور اہل سنت میں اس کا کوئی قائل نہیں۔

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ جَاحِدًا بِهِ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ أَقَرَّ بِهِ وَلَمْ يَحْكُمْ بِهِ فَهُوَ ظَالِمٌ فَاسِقٌ”۔ [تفسیر بغوی:2/55]

(اگر کوئی انکار کرتے ہوئے اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو کافر ہے، اور اگر کوئی اقرار کرے لیکن اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ظالم اور فاسق ہے)

آیت کا یہی تفصیلی معنی سلف صالحین کی ایک جماعت مثلًا امام ابو عبید القاسم بن سلام ، محمد بن نصر المروزی ، امام احمد بن حنبل، علامہ ابن عبد البر، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم الجوزیہ، ابن ابی العز الحنفی، حافظ ابن رجب الحنبلی، حافظ ابن حجر، ودیگر علما نے بیان کیا ہے۔ [دیکھیں:الایمان لابی عبید القاسم بن سلام (ص93)، تعظیم قدر الصلاۃ للمروزی (2/517-529)، التمہید لابن عبد البر (4/236)، الایمان لابن تیمیہ (ص244-256)، مجموع الفتاوی لابن تیمیہ (7/254)، مدارج السالکین لابن القیم (1/336)، فتح الباری لابن رجب (1/137-138)، شرح العقیدۃ الطحاویہ لابن ابی العز الحنفی (ص324)، وفتح الباری لابن حجر (1/87)]

شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے پچاس سے زائد ائمہ اور علما نے آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے، کسی نے اسے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے مطلقا تکفیر کی بات نہیں کی۔ [الاصول السنیہ البہیہ:ص224-225]

شیخ سعید بن علی بن وہف القحطانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے براہ راست سنا، آپ فرما رہے تھے:

“من حكم بغير ما أنزل الله فلا يخرج عن أربعة أنواع:

۱۔من قال أنا أحكم بهذا لأنه أفضل من الشريعة الإسلامية فهو كافر كفراً أكبر

۲۔ومن قال أنا أحكم بهذا لأنه مثل الشريعة الإسلامية، فالحكم بهذا جائز وبالشريعة جائز، فهو كافر كفراً أكبر

۳۔ومن قال أنا أحكم بهذا، والحكم بالشريعة الإسلامية أفضل لكن الحكم بغير ما أنزل الله جائز. فهو كافر كفراً أكبر

۴۔ومن قال أنا أحكم بهذا وهو يعتقد أن الحكم بغير ما أنزل الله لا يجوز ويقول الحكم بالشريعة الإسلامية أفضل ولا يجوز الحكم بغيرها ولكنه متساهل أو يفعل هذا لأمرٍ صادر من حُكَّامه فهو كافر كفراً أصغر لا يخرج من الملة ويعتبر من أكبر الكبائر”. [العروة الوثقى فی ضوء الكتاب والسنہ لسعيد بن علي بن وہف القحطاني ،ص:100]

(جو اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے علاوہ دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ چار اقسام سے خارج نہیں:

پہلی قسم:جو کہے کہ میں اس قانون کے مطابق اس لیے فیصلہ کر رہا ہوں کیونکہ وہ اسلامی شریعت سے افضل ہے تو وہ کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے۔

دوسری قسم:جو کہے کہ میں اس قانون کے مطابق اس لیے فیصلہ کر رہا ہوں کیونکہ وہ اسلامی شریعت کی طرح ہی ہے، لہذا اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنا بھی جائز ہے اور اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا بھی جائز ہے، تو وہ بھی کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے۔

تیسری قسم:جو کہے کہ میں اس قانون کے مطابق فیصلہ کررہا ہوں لیکن مانتا ہوں کہ اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا افضل ہے،البتہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے علاوہ دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا بھی جائز ہے، تو وہ بھی کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے۔

چوتھی قسم:جو کہے کہ میں اس قانون کے مطابق فیصلہ کررہا ہوں، لیکن وہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جائز نہیں، اور کہے کہ اسلامی شریعت ہی افضل ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جائز نہیں، لیکن (عملی طور پر) متساہل ہو، یا اس لیے ایسا کر رہا ہو کیونکہ اس کے ماتحت حکمرانوں کے ذریعہ یہ قانون صادر ہوا ہے، تو کفر اصغر کا مرتکب کافر ہے۔ اس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، لیکن بہت بڑے اور سنگین گناہ کا مرتکب ہوگا)

اب کچھ باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں:

پہلی تنبیہ:یہ جو اقسام ذکر کی گئیں ان پر غور کریں!آپ پائیں گے کہ ہر ایک قسم کا تعلق ”قلبی اعتقاد“ سے ہے۔ یعنی جو کوئی بھی قانون الہی چھوڑ کر وضعی قانون نافذ کرتا ہے اس کے قلبی اعتقاد کے حساب سے اس کے اس عمل کا حکم بدلتا رہتا ہے، اور اس نے ایسے قوانین کو نافذ کرتے وقت دل میں کیا سوچا ہے اسے صرف وہ اور اس کا رب جانتا ہے۔ کسی انسان کو اللہ نے یہ پاور دیا ہی نہیں کہ کسی کے دل میں جھانک کر پتہ کر لے کہ اس نے کیا سوچ کر ایسا قانون نافذ کیا ہے، لہذا الہی قانون چھوڑ کر وضعی قانون نافذ کرنے والے پر کوئی حکم لگانا آسان کام نہیں۔ یہ انتہائی خطرناک کام ہے، ایسے باریک مسائل میں اپنی زبان بے قابو چھوڑنے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔

دوسری تنبیہ:یہ چاروں اقسام اس صورت میں ہیں جب بشری قانون اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے مخالف ہو۔مثلًا کوئی کہے کہ زنا، چوری، شراب نوشی کی کوئی سزا نہیں، یا کہے کہ رجم اور قصاص خلاف انسانیت ہے، اس کے بدلے قید وجرمانہ افضل ہے۔ یا یہ کہ دونوں برابر ہیں، اور دونوں سے انصاف قائم ہوجاتا ہے۔ اس لیے چاہے جس پر اکتفا کیا جائےکوئی حرج نہیں، دونوں برابر ہی ہیں۔ یا اسے ناجائز اور حرام ہی سمجھے لیکن بشری تقاضے کی بنا پر تنفیذ میں تساہل سے کام لے تو ان تمام صورتوں میں یہ حرام بلکہ کفر ہے، بسا اوقات کفر اکبر، اور بسا اوقات کفر اصغر۔

لیکن اگر بشری قانون اللہ کے نازل کردہ قانون کے مخالف ہی نہ ہوتو یہ جائز ہے، بلکہ بسا اوقات یہ مطلوب بھی ہے، مثلًا ٹریفک کے بے شمار قوانین۔ یہ گرچہ بشری قوانین ہیں، لیکن الہی قوانین کے مخالف نہ ہونے کی وجہ سے جائز ہیں، اور رعایاکے لیے ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔

تیسری تنبیہ:یہاں پر غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس آیت میں حکمرانوں کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ عموم کے ساتھ ”ومن لم یحکم“ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس میں تمام مسلمان شامل ہیں، حکمراں بھی اور عوام بھی۔ اگر کوئی عام شخص اپنے اوپر اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کو صد فیصد نافذ نہیں کرتا، مثلًا جھوٹ بولتا ہے، غیبت کرتا ہے، داڑھی منڈواتا ہے، وغیرہ، تو وہ بھی اس میں شامل ہے۔ اس لیے دوسروں کی تکفیر کرنے والوں کو خود اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ خود اپنے غلط فتوےکی رو سے کفر اکبر کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔

علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ایک بار ایک مسجد سے گزر رہا تھا، تو وہیں میں نے جمعہ کی نماز ادا کی، خطیب بہت جوشیلے تھے، وضع قطع یہ تھا کہ پینٹ پہنے ہوئے تھے، اور داڑھی منڈی ہوئی تھی، خطبے کا عنوان یہی ”اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا حکم“تھا، جس میں انھوں نے مطلقًا (بغیر کسی تفصیل کے جن کا اوپر تذکرہ ہوا)تکفیر ثابت کی۔ اپنی گھن گرج آواز سے انھوں نے منبر ہلا کر رکھ دیا۔ نماز سے فراغت کے بعد میں نے انھیں سلام کیا، دینی غیرت وحمیت پر ان کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ آپ نے ”اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرنے کا حکم“بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کفر ہے، حالانکہ دیکھ رہا ہوں آپ خود اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق نہیں چل رہے۔ یہ ٹائٹ پینٹ پہننا اور داڑھی منڈا نا تو اللہ کا نازل کردہ قانون نہیں۔ [استاد محترم شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ نے ”الاصول السنیہ البہیہ فی کشف شبہ اہل الفتن الغویہ( ص222) میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے]

علامہ البانی رحمہ اللہ نے خود ان کے عمل سے ان کے استدلال کی بطلان واضح کر دی، اور ان کو لاجواب کر دیا۔

اس آیت سے حکمرانوں کی تکفیر کرنے والوں میں سے اکثر کی حالت یہی ہے، خود اپنے اقوال واعمال سے شریعت کی دھجیاں اڑاتے رہتے ہیں، اور حکمرانوں کی تکفیر کرکے فتنہ وفساد کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔

چوتھی تنبیہ: اگر اس آیت کو کفر اکبر پر بھی محمول کیا جائے (جو کہ سلف کا منہج نہیں)پھر بھی یہ حکمِ عام ہی ہے، اس سے کسی معین حکمراں کی تکفیر جائز نہیں، اور نہ اس کے خلاف خروج وبغاوت جائز ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک کسی معین شخص کی تکفیر کے بہت سارے شرائط وضوابط ہیں،جب تک کسی معین شخص کے یہاں ان تمام شرائط وضوابط کا انطباق نہ ہو، ان پر حجت قائم نہ کر دی گئی ہو، ان کی بالتعیین تکفیر جائز نہیں۔ یہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔

نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ اتمام حجت کے بعد بھی بالتعیین تکفیر کا حق صرف کبار اور راسخ علما کرام کو حاصل ہے، طلبہ علم یا عوام کے لیے سرے سے جائز ہی نہیں کہ بالتعیین کسی کی تکفیر کرے۔ ان جیسے عظیم اور حساس مسائل میں انھیں صرف اپنے کبار علما کے پیچھے چلنا ہے، اپنی طرف سے اجتہاد کرتے ہوئے تکفیر کا حکم صادر کرنا ان کے لئے جائز نہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں کتاب وسنت کو فہم سلف کے مطابق سمجھنے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے۔

آپ کے تبصرے

3000