نسب نامہ:
محمد بن عبدالقیوم بن عبدالرزاق بن محمد یوسف بن یار محمد بن شیر محمد بن پیر محمد عرف فرنگی
کنیت:
ابو حنظلہ
ولادت:
ہندوستان کے مشہور شہر بنارس کے مشہور علاقہ مدنپورہ (باگڑ بلی) میں ا؍اکتوبر۱۹۵۵م کو ہوئی۔
شیخ کی تربیت اور نشو نما والدین کے ہاتھوں ہوئی۔ آپ کے والد عبد القیوم صاحب (بزرگوں کے یہاں عبد القوم لائبریرین کے نام سے مشہور تھے) سعیدیہ لائبریری مدنپورہ کے بہت ہی محترم منتظم تھے اسی وجہ سے اسی کی طرف نسبت کر کے پرانے لوگ آپ کو لائبریرین کہا کرتے تھے۔
آپ رحمہ اللہ نہایت ذہین تھے اور گھر کے دینی ماحول کی وجہ سے اس کا اثر بھی آپ کی شخصیت پر نظر آتا تھا۔
آپ رحمہ اللہ چار بھائی اور آپ ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی عبد القدوس صاحب کو چھوڑ کر باقی سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، اللہ موجودین کی حفاظت کرے اور مرحومین کی مغفرت فرمائے۔
زمن طفولت میں آپ رحمہ اللہ کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسی مدرسہ میں داخل کر دیا گیا جہاں عموما شہر بنارس میں بچے ابتدائی تعلیم کے لیے داخل ہوتے تھے یعنی جامعہ رحمانیہ مدن پورہ بنارس۔جہاں سے آپ نے ثانویہ تک کی تعلیم مکمل کر لی اس کے بعد عالمیت اور فضیلت کے لیے آپ کو جامعہ سلفیہ (مرکزی دار العلوم سلفیان ہند کے دلوں کی دھڑکن) میں داخل کر دیا گیا اور وہاں سے ۱۹۷۶ میں عالمیت اور ۱۹۷۸فضیلت کی تعلیم مکمل کر کے اگلے ہی سال جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اعلی تعلیم کے لیے عازم سفر ہوئے، اور وہاں آپ نے کلیۃ الشریعۃ کا انتخاب کیا۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کا سال ۱۴۰۲۔۱۴۰۳ھ یعنی ۱۹۸۳۔ ۱۹۸۴۔آپ کا جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تخرج کا مقالہ تھا ’’التقلید والاتباع في الإسلام‘‘ اور اس مقالہ پر آپ کے مشرف دکتور علی أحمد بابکر تھے اور یہ مقالہ فن اصول الفقہ میں تھا جو ۸۹ صفحات پر مشتمل تھا۔
چار سالوں بعد کلیہ پورا کر کے واپس آگئے اور شمال ہند کے مشہور شہر مئو کے ایک مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو میں تدریسی خدمات انجام دینے پر مامور ہوئے اور نو سال تک اپنی خدمات انجام دینے کے بعد سنہ ۱۹۹۲م میں جامعہ سلفیہ میں پڑھانے کے لیے آپ کو بنارس طلب کر لیا گیا، اور تا دم حیات اس خدمت کو انجام دیتے رہے۔
معاصرین:
جامعہ سلفیہ میں آپ کے فضیلت کے ساتھیوں میں استاد محترم شیخ محمد یونس مدنی اور استاد محترم شیخ سعید میسور مدنی اور ابو القاسم عبد العظیم وغیرہ ہیں۔ بنارس کے ساتھیوں میں والدی شیخ أحسن جمیل اور دیگر مشائخ بھی ہیں۔اور دوستوں میں ساتھیوں کے علاوہ شیخ عبید اللہ طیب مکی، شیخ محمد صالح محمد یونس بنارسی، شیخ عبد الکبیر مدنی مبارکپوری، شیخ ابو القاسم فاروقی وغیرہ بھی شامل ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں آپ کے ساتھیوں میں سے شیخ عبد الخالق سلفی وغیرہ شامل ہیں۔
اساتذہ:
آپ کے جامعہ رحمانیہ کے مشہور اساتذہ میں سے قاری عبد الوہاب، قاری احمد سعید، ماسٹر عبد الحمید، ماسٹر عبد المنان، مولانا عزیز احمد وغیرہ ہیں۔
جامعہ سلفیہ کے مشہور اساتذہ مولانا عابد حسن رحمانی، مولانا عبد الوحید رحمانی، مولانا عبد المعید بنارسی، مولانا آزاد رحمانی، مولانا شمس الحق، مولانا عبد السلام مدنی وغیرہ ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں آپ کے مشہور اساتذہ میں سے شیخ ربیع بن ہادی عمیر المدخلی، شیخ ابو بکر جابر الجزائری، شیخ محمد حمود الوائلی وغیرہ ہیں۔
تلامذہ:
آپ کے تلامذہ کی تعداد تو اتنی بڑی ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں البتہ چند مشہور نام ذکر کرنے پر یہاں اکتفا کرتا ہوں۔
دکتور عبد الغنی القوفی،دکتور امان اللہ محمد اسماعیل المدنی،دکتور عبد الحلیم بسم اللہ المدنی،دکتور عبد الغفار سلفی،عبد الأحد أحسن جمیل (راقم)،شیخ طفر نعمان عبد اللہ المکی، راشد حسن مبارکپوری وغیرہم۔
جامعہ سلفیہ میں تدریسی وانتظامی ذمہ داریاں:
شیخ رحمہ اللہ نے جامعہ سلفیہ بنارس میں تیس سال سے زائد کا عرصہ بحیثیت مدرس گزارا اور مختلف کتابیں آپ کے زیر تدریس رہیں۔مثلا: سنن الترمذی، مشکاۃ المصابیح جلد اول، تحفۃ أھل الفکر، شرح العقیدۃ الواسطیہ، الروضۃ الندیۃ، تسہیل الاصول، القواعد العربیۃ المیسرۃ، البلاغۃ، بدایۃ المجتھد، اصول الفقہ عبد الوھاب خلاف وغیرہ۔
اس کے علاوہ شیخ رحمہ اللہ کے پاس ایک مدت تک جامعہ سلفیہ کے شعبہ امتحانات کی ذمہ داری بھی رہی ’’مدیر الامتحانات‘‘ کے عہدے پر فائز رہے، لیکن بعد میں کسی وجہ سے استعفی دے دیا، البتہ اس کمیٹی کے ممبر بنے رہے۔
جامعہ کے باہر مختلف خدمات:
شیخ رحمہ اللہ مسجد باگڑ بلی کے امام بھی تھے اور موقع بہ موقع خطبہ بھی دیتے تھے اور مسجد نیمیا کے مدرس تھے اور ایک مدت تک حدیث اور فقہ کا درس دیتے رہے۔ شیخ رحمہ اللہ کے بعد کچھ سالوں تک درس دینے کی یہ ذمہ داری راقم نے بھی ادا کی۔ اس کے بعد راقم کو مسجد باگڑ بلی میں درس کی ذمہ داری پر مامور کر دیا گیا اور مسجد نیمیا میں فی الحال والدی شیخ احسن جمیل حفظہ اللہ درس دیتے ہیں۔
شیخ یوں تو باگڑ بلی مسجد میں نماز عصر اور مغرب کے امام تھے لیکن عموما دوسرے اماموں کی ذمہ داری بھی ادا کیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ شیخ باگڑ بلی مسجد کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔
شیخ کو جامعہ سلفیہ میں کئی عہدے پیش کیے گئے لیکن شیخ نے ایک بھی عہدہ قبول نہیں کیا، آج کے اس دور میں آپ فرید شخصیت کے مالک تھے کہ جب لوگ عہدوں کے حصول کے لیے ہر جائز وناجائز حربے استعمال کر لیتے ہیں۔ شیخ نے جو عہدہ تھا اس سے بھی استعفی دے دیا تھا اور دوسرے عہدوں کو کبھی قبول نہیں کیا۔
وفات:
شیخ رحمہ اللہ اپنے اسی آبائی گھر میں جس میں آپ کی پیدائش ہوئی تھی ۲۳؍رمضان بروز سنیچر۱۴۴۴ھ مطابق ۱۵؍اپریل۲۰۲۳ کو سحری اور نماز فجر سے فارغ ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول تھے کہ کچھ درد محسوس ہوا تو دوا لیا اور بستر پر لیٹ گئے۔ دس بجتے بجتے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
شیخ اپنے پیچھے اہلیہ کے علاوہ دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کو چھوڑ کر ۶۷ سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔
آپ کی نماز جنازہ آپ کے بھتیجے حافظ عبد الرحیم بن عزیز الرحمن استاذ شعبہ تحفیظ جامعہ سلفیہ بنارس نے ادا کرائی اور آپ کے آبائی قبرستان میں آپ کی تدفین شام ساڑھے سات بجے عمل میں آئی۔آپ کی نماز جنازہ میں اہل حدیثوں کے علاوہ غیر مسلک کے لوگوں نے کثرت سے شرکت کیا۔
اللہ تعالی شیخ رحمہ اللہ کی لغزشوں کو در گزر کرے اور اہل وعیال کو صبر جمیل عطا کرے، اور ہم طالبان علوم نبوت کے لیے آپ کا جو درد تھا اور جو کاوش تھی اللہ قبول کرے اور آپ کے درجات کو بلند کرے۔
آمین
شیخ ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ نے ہمیں بتلایا کی عموماً لوگ یہ جانتے ہیں کی آپ نے درس و تدریس مؤو سے شروع کیا لیکن صحیح یہ ہے کی آپ نے اوّلا جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ سے تقرری کے بعد تدریسی کام انجام دینا شروع کیا۔
آمین
شیخ ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ نے ہمیں بتلایا کی عموماً لوگ یہ جانتے ہیں کی آپ نے درس و تدریس مؤو سے شروع کیا لیکن صحیح یہ ہے کی آپ نے اوّلا جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ سے تقرری کے بعد تدریسی کام انجام دینا شروع کیا۔
آمین
شیخ ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ نے ہمیں بتلایا کی عموماً لوگ یہ جانتے ہیں کی آپ نے درس و تدریس مؤو سے شروع کیا لیکن صحیح یہ ہے کی آپ نے اوّلا جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ سے تقرری کے بعد تدریسی کام انجام دینا شروع کیا۔
آمین
شیخ ابو القاسم فاروقی حفظہ اللہ نے ہمیں بتلایا کی عموماً لوگ یہ جانتے ہیں کی آپ نے درس و تدریس مؤو سے شروع کیا لیکن صحیح یہ ہے کی آپ نے اوّلا جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد جامعہ رحمانیہ سے تقرری کے بعد تدریسی کام انجام دینا شروع کیا۔