مولانا عبد الوکیل بن عظیم اللہ رحمہمااللہ: کچھ یادیں

فخرالدین عبدالستار ندوی سوانح

سال ۲۰۲۰ءمیں ہم نے بہت سے علما ومشائخ اوراعزہ واقارب کو کھویا،بڑی بڑی ہستیوں نے داعی اجل کو لیبک کہا۔انھی میں جامعہ اسلامیہ خیر العلوم کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبد الباری خان رحمہ اللہ اور ان کے معتمد خاص ،ہم لوگوں کے ہردلعزیز بزرگ مولانا عبد الوکیل انواری رحمہ اللہ ہیں۔ اللھم اغفرلھم۔اس مضمون میں مولانا عبدالوکیل رحمہ اللہ کے تعلق سے کچھ بکھری معلومات قلم وقرطاس کے حوالے کرنا چاہتا ہوں،اللہ رب العالمین صحیح اورسچی بات لکھنے کی توفیق دے۔
نام ونسب اور تاریخ پیدائش:
نام عبد الوکیل بن عظیم اللہ بن دوست محمدتھا ۔ سرکاری کاغذات اور اسنادی دستاویز کے مطابق یکم جنوری ۱۹۴۹ء میں موضع مہدیوا، پوسٹ سکری بکھریا، ضلع سدھارتھ نگر میں پیدائش ہوئی۔ مولانا اپنے تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
نشوونما:
مولانا رحمہ اللہ ابھی چند برس کے ہی ہوئے تھے کہ یکے بعد دیگرے والدین کے سایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے ۔ چونکہ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اورددھیال میں ان کی پرورش و پرداخت اور صحیح تعلیم وتربیت کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے پرورش ننیہال موضع اٹیہا، مہراج گنج میں ہوئی۔جب کچھ بڑے ہوئے تو اپنے ددھیال موضع مہدیوا میں اپنے بڑے بھائیوں کے پاس چلے آئے۔
تعلیم وتربیت:
مولانا رحمہ اللہ نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو گاؤں میں مولانا امان اللہ آزاد صاحب رحمہ اللہ کے قائم کردہ مکتب’مدرسہ شمس الہدی‘ میں داخل کردیے گئے،جہاں پر انھوں نے مکتب کی تعلیم مکمل کی۔ مکتب سے فراغت کے بعد عصری علوم کی طرف مائل ہوئے، چنانچہ درجہ آٹھ تک کی تعلیم بنیا ڈیہہ کے اسکول میں حاصل کی پھر مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے تتری بازار، سدھارتھ نگر کے مشہور و معروف اسکول سنگھیشوری انٹر کالج میں داخلہ لیا،مگر ایک فاسد خیال ودہریہ صفت ٹیچر کے خالق کائنات کے بارے میں غیر مناسب تبصرہ کی وجہ سے عصری علوم سے بدظن ہوکر کالج چھوڑ دیا اور پھر دینی علوم کی طرف مائل ہوئے۔ چنانچہ مولانا نے آنند نگر، مہراج گنج کے ایک مدرسہ میں داخلہ لے کرعربی فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر محمد آباد گہنہ کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا۔ مدرسہ تو بریلوی مکتب فکر کا تھا لیکن اس مدرسہ کے شیخ الحدیث انتہائی سلجھے ذہن ودماغ کے اور بہت ہی شریف النفس تھے، انھوں نے یہ جان کر بھی کہ یہ طالب علم ان کے مکتب فکر کا نہیں ہے، مولانا کی کافی مدد کی بلکہ ان کے عقید ہ وفکر کی مضبوطی کے اسباب بھی فراہم کیے، فجزاہ اللہ خیرا۔
پھروہاں سے ملک نیپال کے مشہور و معروف دینی ادارہ جامعہ سراج العلوم، جھنڈا نگر تشریف لے گئے اور وہاں کے اساطین علم وفضل سے فیض حاصل کیا ۔مولانا کی شرافت وسنجیدگی اور شرائع اسلام کی پابندی نیز تحصیل علم میں ان کی لگن اور دلچسپی دیکھ کر جامعہ کے شیخ الحدیث اورمفتی محترم جناب مولانا عبد الحنان فیضیؔ رحمہ اللہ نے خصوصی توجہ دی اورنہ صرف ہر طرح ان کی معاونت کی،بلکہ اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح مولانا کا خیال رکھا ۔جامعہ سراج العلوم (جھنڈانگر)میں مولانا کے کرم فرماؤں میں محترم جناب حکیم عبید الرحمن صاحب کا اسم گرامی بھی شامل ہے ،جنھوں نے مولانا رحمہ اللہ کاخاص خیال رکھا اور اپنی شفقتوں وعنایتوں سے نوازا۔ تاہم مولانا نے سراج العلوم میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کی، بلکہ ان دنوں علاقہ اور قرب و جوار میں مدرسہ انوار العلوم پرسا عماد،سدھارتھ نگر کی شہرت ومقبولیت کی وجہ سے مدرسہ سراج العلوم سے مدرسہ انوار العلوم چلے گئے۔ مدرسہ انوار العلوم (پرساعماد)ان دنوں علاقے کامشہورومعروف ادارہ تھا،جس کی شہرت دور دور تک تھی، جس میں مفتی ٔ جماعت مولانا عبد العزیز عمریؔ صاحب رحمہ اللہ جیسی علمی شخصیت مسند درس پر جلوہ افروز ہوکر طالبان علوم نبوت کو فیض یاب فرمارہی تھی۔ چنانچہ مولانا رحمہ اللہ نے ۱۹۶۸ء میں اس میں داخلہ لیا اور تقریبا دو برس تک وہاں کے ماہرین علوم وفنون اور اصحاب فضل و کمال سے خوشہ چینی کرکے ۱۹۷۰ء میں سند فراغت حاصل کی۔
اساتذہ ٔکرام :
یوں تو مولانا رحمہ اللہ نے کئی اداروں میں تعلیم حاصل کی جن میں بعض اپنے وقت کے بڑے مشہور اور انتہائی مقبول ادارے تھے، لیکن ان کے تمام اساتذۂ کرام کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل نہ ہوسکی، صرف چند اساتذۂ کرام کے اسمائے گرامی ہی معلوم ہوسکے ہیں، جو درج ذیل ہیں:
۱۔شیخ الحدیث ومفتی مولانا عبد العزیز عمریؔ رحمہ اللہ
۲۔ مولانا محمد زماں رحمانیؔ رحمہ اللہ
۳۔شیخ الحدیث ومفتی مولانا عبدالحنان فیضی ؔ رحمہ اللہ
۴۔ مولانا عبد العلیم ماہرؔ قاسمی رحمہ اللہ
۵۔ مولانا رحمت اللہ اثریؔ رحمہ اللہ
۶۔مولانا جلال الدین فیضیؔ رحمہ اللہ
شادی:
علاقہ میں مختلف مسالک کے لوگ آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور شادی بیاہ بھی ایک دوسرے کے یہاں کرتے تھے، چنانچہ مولانا کی شادی بھی بریلوی مکتب فکرکی ایک لڑکی سے ہوئی جو بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں اور اللہ کے فضل سے صحیح منہج بھی قبول کرلیا ۔مولانا کی شادی میں مولانا عبید اللہ کشمیری رحمہ اللہ بھی شریک تھے اور انھوں نے ہی نکاح پڑھایاتھا۔ اس رشتہ کا فائدہ یہ ہوا کہ بریلوی حضرات مولانا سے کافی قریب ہوئے اور صحیح عقیدہ وفکر کی رہنمائی حاصل کی ۔
تدریسی خدمات:
فراغت کے بعد بحر العلوم انتری بازار، مکتب اسلامیہ پپرہواا ورمکتب دینیہ موہن کو لاوغیرہ میں تقریبا ۹ سال تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر جب ۱۹۷۹ء میں مادرعلمی انوار العلوم پرسا عماد سے تدریس کے لیے بلاوا آیا تووہاں تشریف لے گئے اور تقریبا ۷؍برسوں تک یعنی ۱۹۸۵ء تک بحسن وخوبی یہ فریضہ انجام دیا اور ساتھ ہی شعبہ ٔ مالیات کی ذمہ داری بھی امانت داری سے ادا کرتے رہے۔ پھر ۱۹۸۶ء میں جامعہ اسلامیہ خیر العلوم کے ناظم اعلیٰ جناب ڈاکٹر عبد الباری صاحب رحمہ اللہ کے حسب خواہش جامعہ میں چلے آئے ،جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ۱۹۸۶ء میں ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبد الباری رحمہ اللہ نے مولانا عبد المبین سلفی حفظہ اللہ سے ایک ایسے استاذ کی ضرورت کا ذکر کیا جو ساتھ میں حساب کتاب بھی کرسکیں۔ مولاناعبدالمبین صاحب اس وقت جامعہ خیر العلوم میں استاذ اور ذمہ دارکی حیثیت سے تدریسی فریضہ انجام دے رہے تھے، وہ مولانا عبدالوکیل رحمہ اللہ کے ساتھ پرسا عمادمیں تدریسی خدمات انجام دے چکے تھے اور ان کی خوبیوں سے بخوبی واقف تھے، چنانچہ وہ مولانا رحمہ اللہ کو لے کر آئے اور جامعہ میں ان کا تقرر ہوگیا ۔
مولانا رحمہ اللہ نے دو برسوں تک جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ جب آپ کلیۃ الطیبات نسواں کالج میں منتقل کردیے گئے تو وہاں بھی حسب ضرورت جزوی طورپرکئی برسوں تک تدریسی خدمات انجام دیں۔تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ خطبات جمعہ کا اہتمام اور دعوتی پروگراموں میں بھی شرکت فرماتے تھے۔
دفتری واداری ذمہ داریاں:
مولانا رحمہ اللہ میں تدریسی ودعوتی لیاقت وصلاحیت کے ساتھ ساتھ دفتری واداری صلاحیت بدرجۂ اتم موجود تھی ۔یہی وجہ ہے کہ آپ جہاں بھی رہے، تدریسی ودعوتی ذمہ داریوں کے ساتھ شعبۂ مالیات کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے ۔ حساب کتاب میں نظم اور شفافیت اور مفوضہ ذمہ داریوں کے تئیں مولانا کی امانت و دیانت کودیکھ کر خیر العلوم کی تدریسی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرکے کلیۃ الطیبات نسواں کالج میں منتقل کردیاگیا،چونکہ خیر العلوم میں بچے کم تھے اورنسواں کالج میں بچیوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے وہاں مولانا کو زیادہ مناسب سمجھا گیا اور کام کی صلاحیت اور احساس ذمہ داری کی وجہ سے مالیات سے متعلق ساری ذمہ داری انھیں سونپ دی گئی ،جیسے:بچیوں سے فیس کی وصولی، مطبخ کے لیے سامان کی خریداری، جامعہ کے اوقاف کے کرایہ کی وصولی ، تعمیرات کا حساب وغیرہ ۔یہ سب مولانا کے ذمہ تھا اور وہ بڑے نظم سے ساری ذمہ داری ادا کرتے تھے۔ مولانا سائیکل چلانا نہیں جانتے تھے ، پیدل ہی چلتے اور ہر شعبہ میں اپنے وقت پر پہنچ جاتے ،عموماً دیکھنے میں آتا کہ ایک چھوٹا سا جھولالیے ہوتے ،اس میں رجسٹرہوتا ، کبھی کرایہ کی وصولی کرتے، کبھی بازار سے سامان خریدتے، کبھی تمام اداروں کا حساب اکٹھا کرتے ،اللہ نے بڑی ہمت دے رکھی تھی ۔جب ادارے کا کام بہت زیادہ بڑھ گیا اور مختلف شعبوں میں الگ سے حساب کتاب کے ذمہ داران کا تعین ہوا تو بھی ہر ماہ کے آخریاہفتہ میں سارے حسابوں کو جمع کرنے کی ذمہ داری مولانا ہی پر تھی اور سالانہ گوشوارہ تو ہمیشہ سے وہی تیار کرتے تھے۔ اس میں بڑے ماہر تھے جب جس وقت کوئی چاہتا پورا حساب دیکھ لیتا اور کچھ فرق نہیں ہوتاتھا۔ مولانا پر ڈاکٹر صاحب کا اعتماد روز بروز بڑھتا ہی گیااوراس طرح وہ شعبۂ مالیات کی ایک اہم ضرورت ہوگئے، اب حساب کتاب کے سارے معاملے انھی کی طرف لوٹائے جانے لگے۔ مولانا رحمہ اللہ کو بھی جامعہ سے بے انتہا محبت تھی ،وہ ہمیشہ اس کے لیے خیرہی سوچتے تھے اور کبھی کسی بھی صورت میں ادنی نقصان بھی برداشت نہیں کرتے تھے، اسی لیے سامان کی خریداری عموما ًخود کرتے تھے اس اندیشہ سے کہ کہیں کوئی شخص زیادہ دام نہ لے لے۔اللہ انھیں بہترین بدلہ دے۔
دینی تعلیم کی ترغیب وتشویق :
علاقہ اور خود خاندان میں علم کی بڑی کمی تھی ،مولانا خاندان کے پہلے شخص تھے جنھوں نے علم دین حاصل کیا،اس لیے ان کی بڑی عزت تھی، علاقہ کے لوگ مولانا سے بڑی محبت اورتکریم کا معاملہ کرتے۔ الحمد للہ انھوں نے اس میدان میں اپنا بہترین کردار ادا کیا اور علاقہ کے لوگوں کو منتخب کرکے اچھے مدارس میں داخلہ دلوایا تاکہ وہ دینی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں۔ اس طرح علاقہ میں کئی اچھے علما ہوئے اور انھوں نے مختلف اداروں میں اچھے مناصب پرذمہ داری نبھائی۔ اپنے تمام بھتیجوں کو اسی لائن میں لگایا اور الحمد للہ سب عالم دین بنے۔ مولانا کے اکلوتے فرزند مولانا عطاء الرحمن حفظہ اللہ جو شریف النفس اور اپنے والد گرامی کی تربیت کا بہترین نمونہ ہیں ،ان کی فراغت بھی جامعہ سلفیہ سے ہوئی ہے ۔بعد میں علم طب اور کچھ عصری علوم سیکھ کر انھوں نے اپنا ایک مطب اور ایک کمپیوٹر سینٹر کھول رکھا ہے جس سے معاشی مسئلہ کو نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ جامعہ اسلامیہ خیر العلوم میں اپنی خدمات دے کر اپنے والد کی جگہ پر کرتے ،لیکن شاید دوری کی وجہ سے جامعہ میں آنے کی ہمت نہیں کرپارہے ہیں۔بہر حال وہ جہاں بھی رہیں اللہ انھیں خیریت سے رکھے اوربرکت عطا فرمائے۔ آمین
اخلاق وعادات :
مولانا عبد الوکیل صاحب جس طرح اپنے علاقہ میں ہر دل عزیز تھے، ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا، ویسے ہی یہاں بھی اپنوں اور غیروں میں کافی محبوب تھے۔ بہت ہی متواضع اور کم گو تھے ،ہمیشہ سلجھے اور نرم انداز میں گفتگو کرتے، ہر شخص سے بڑی اپنائت سے ملتے تھے ۔ مولانا سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ ان کی تواضع، سادگی اور شرافت نفسی نے ہمارے دلوں میں بڑی محبت پیدا کردی تھی۔ میں مولانا کا بہت احترام کرتا تھا اورایسے ہی وہ بھی پیش آتے تھے۔ مولانا کا یہ اخلاق ہر ایک کے ساتھ تھا۔کبھی ان کے ساتھ اگر چلنا ہوتا تو راستہ میں جو بھی ملتا اس سے ایسے ملتے جیسے کوئی بہت ہی عزیز ہو اور اس وقت تک اس سے الگ نہ ہوتے جب تک وہ خود نہ اجازت طلب کرتا، بسا اوقات ہم لوگ کہتے تھے کہ آپ کے ساتھ کے لیے بہت وقت چاہیے۔
مولانا سے گفتگو اور ملاقات سے اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی تھی کہ وہی سادگی ،وہی نرم خوئی ،وہی اخلاق، وہی عاجزی وانکساری اور لوگوں سے ہنس کے ملنا اور انتہائی سادگی سے زندگی گزارنا ،کسی طرح کی کوئی بناوٹ اور نہ کوئی تکلف۔ تقریبا۳۴ سال کا ساتھ رہا لیکن کبھی بھی ان کے تعلق سے دل میں کوئی ملال نہ ہوا اور نہ کبھی کوئی رنجش ہوئی ۔وللہ الحمد
بیماری اور وفات :
جامعہ میں قیام کے دوران الحمد للہ مولانا بہت کم بیمار ہوتے اور بیمارہونے پریونانی اور گھریلو نسخوں کا استعمال کرکے بفضل اللہ شفایاب ہوجاتے ۔لیکن ۲۰۱۲ء میں اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد کچھ نہ کچھ بیمار رہنے لگے تھے ،مگرمعمولات زندگی میں فرق نہیں آیا تھا۔ ادھرکچھ دنوں سے طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی توعلاج کے لیے ایک بار لکھنؤ بھی گئے ۔چونکہ ایلو پیتھ دوا کے قائل نہیں تھے اس لیے پھر دوبارہ نہ گئے اورعلاقہ کے کسی معالج سے یونانی علاج کرنے لگے۔آخری سال طبیعت جب کبھی بہت زیادہ خراب ہوجاتی تو کچھ دن گھر رہتے اور کچھ دن اسکول پر رہتے، آنے جانے کا بھی کبھی کبھی حسب ضرورت انتظام کردیا جاتا ۔ لاک ڈاؤن میں بھی آتے تھے ۔ قضا وقدر میں جتنی عمر لکھی تھی اس کو پوری کرکے ۱۲؍جولائی ۲۰۲۰ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ وأکرم نزلہ۔
صرف دو دن قبل ڈاکٹر عبد الباری صاحب رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تھی لیکن اس خوف سے کہ مولانا بہت زیادہ پریشان ہوجائیں گے، ان کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اللہ رب العالمین دونوں بزرگوں کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں ساتھ ساتھ اعلیٰ مقام عطا کرے ۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000