امام بخاری رحمہ اللہ: مختصر سوانحی خاکہ

عبداللہ محمد یوسف سوانح

نام ونسب:
مکمل نام محمد بن إسماعیل بن إبراہیم بن مغیرہ بن بَردِزْبَہ ہے۔ کنیت ابو عبداللہ اور نسبت بخاری اور جُعفی ہے۔
ولادت:
ولادت ۱۳ شوال ۱۹۴ھ کو بعد نماز جمعہ خراسان کے ایک معروف اور قدیم ووسیع شہر بخارا میں ہوئی۔
تعلیم وتربیت:
امام بخاری رحمہ اللہ کے بچپن میں ہی ان کے والد اسماعیل کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی تربیت ماں کے آغوش میں ہوئی۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب میں داخل ہوئے اور یہیں سے ان کے دل میں حفظ حدیث کا شوق پیدا ہوا۔ اس وقت ان کی عمر دس سال یا اس سے بھی کم تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کم عمری میں طلب حدیث کے شوق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں شہر مرو میں فقہاء کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اس وقت میری عمر اتنی کم تھی کہ مجھے سلام کرنے میں شرم دامن گیر ہوتی۔ ایک روز وہاں کے استاذ نے مجھ سے سوال کیا کہ آج تم نے کتنی حدیث لکھی ہے۔ میں نے کہا: دس۔ یہ سن کر حاضرین مجلس ہنس پڑے۔ ان میں سے ایک شیخ نے کہا ہنسو نہیں، کیونکہ لگتا ہے کہ وہ کسی دن تم پر ہنسے گا۔‘‘
علوم حدیث کے لیے اسفار:
سولہ سال کی عمر میں وطن کے محدثین سے مکمل استفادہ کرنے کے بعد علوم حدیث کی طلب میں دور دراز کے مقامات کا سفر کیا۔ اس کا آغاز پہلی بار ۲۱۰ھ میں کیا۔ اپنے بھائی اور والدۂ محترمہ کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے نکلے۔ فریضۂ حج کی تکمیل کے بعد ان کی والدہ اور بھائی بخارا لوٹ آئے۔ اور امام بخاری وہیں رک کر علمی سر چشموں سے سیرابی حاصل کرنے لگے۔
اس کے بعد انھوں نے بصرہ، کوفہ، بغداد، عراق، شام، مصر وغیرہ کا سفر بھی کئی بار کیا۔ اور ان تمام جگہوں کے مشائخ حدیث سے استفادہ کیا۔ جہاں تک بھی سفر کرنا ممکن تھا، کیا۔ جب کبھی دوران سفر خرچ ہوجاتا، تو گھاس اور پتیاں کھا کھاکر کئی دن گزار دیتے تھے۔
شیوخ واساتذہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کا بیان ہے:
کتبت عن ألف وثمانین لیس فیہم إلا صاحب حدیث(میں نے ایک ہزار اسی شیوخ سے حدیثیں لکھی، سب کے سب محدث ہی تھے)
ان لامحدود اساتذہ میں سے:
امام احمد بن حنبل، محمد بن عبداللہ انصاری، مکی بن ابراھیم، اسحاق بن راہویہ (ابراھیم)، ابو عاصم النبیل، قتیبہ بن سعد، سلیمان بن حرب اللہ رحمھم بہت مشہور ہیں۔
تلامذہ:
امام بخاری کا حلقۂ درس بہت وسیع تھا۔ دنیائے اسلام کے گوشے گوشے سے امنڈتا ہوا قافلہ ان کی مجلس درس میں حاضر ہوکر علوم حدیث کے نادر گوہروں کا اضافہ کرتا اور امام بخاری کی شاگردی پر فخر کرتا۔
امام بخاری کے تلامذہ کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ جس کا احاطہ ممکن نہیں۔ ان کے تلامذہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے براہ راست صحیح بخاری کا سماع نوّے ہزار لوگوں نے کیا۔
بہر حال ان لامحدود تلامذہ میں بلند پایہ علماء اور با کمال اصحاب حدیث کی ایک بڑی تعداد ہے۔ جیسے امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی، ابن خزیمہ، ابو زرعہ، ابو حاتم، محمد بن یوسف الفرہری رحمھم اللہ وغیرھم۔
تصنیفی وتدریسی خدمات اور افتاء:
امام بخاری رحمہ اللہ کی بے مثال ذہانت وعبقریت، حفظ واتقان کی غیر معمولی قوت، اسمائے رجال میں بے پناہ بصیرت اور علل حدیث تبحر جیسے اوصاف وکمالات نے ان کو جوانی ہی میں تصنیف وتدریس اور افتاء جیسے عظیم منصبوں پر فائز کردیا۔ چنانچہ آپ نے بہت ساری کتابیں تالیف کیں۔ جن میں سے کچھ مشہور کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
(۱)التاریخ الکبیر(۲)التاریخ الصغیر(۳) التاریخ الأوسط (۴) الأدب المفرد(۵) قضایا الصحابۃ والتابعین (۶)کتاب المبسوط(۷)کتاب الکنی(۸)کتاب العلل(۹)کتاب الضعفاء۔ ان سب کے علاوہ ایک کتاب ہے، جسے صرف مقبولیت ہی نہیں ملی بلکہ أصح الکتب بعد کتاب اللہ ہونے کا درجہ بھی ملا۔ اس کتاب کا مکمل نام الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وأیامہ ہے۔ جس کو مختصراً صحیح البخاری کہا جاتا ہے۔
امام بخاری تدریس وافتاء کے منصب جلیلہ پر بھی فائز ہوئے تھے۔ چنانچہ ابھی ان کے چہرے پر بال بھی نمودار نہیں ہوئے تھے کہ لوگ ان سے حدیثیں لکھتے تھے۔
اور یہ نیّر تاباں غروب ہوگیا:
انبیاء وصلحاء اور ان کے وارثین علمائے عظام اور محدثین کرام کا خاصہ ہے کہ وہ سخت آزمائشوں سے دو چار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ امام بخاری بھی چند حاسدین کا نشانہ بنے۔ ان پر بھی بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ جس کی وجہ سے انھیں شہر (بخارا ) بدر کردیا گیا۔ فتنۂ خلق قرآن کھڑا کرکے امام بخاری کے موقف کے خلاف اس بات کو مشہور کیا گیا کہ وہ قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہیں۔ اس فتنے نے ایسی بھیانک شکل اختیار کی کہ شیخ وقت محمد بن یحیی الذھلی نے شدت سے امام صاحب کی مخالفت کی۔ نتیجتاً اس فتنے سے بچنے کے لیے جہاں جاتے یہ فتنہ بھی ان کے ساتھ آپہنچتا۔
خلق قرآن کے فتنے کے سبب امام بخاری بخارا سے بیکند، نیشاپور، سمرقند، خرتنک وغیرہ کی در بدری سے تنگ آگئے۔ اور آخر میں حدیث رسول ’وإذا أرادت بقوم فتنۃ فتوفنا إلیک غیر مفتونین‘ پر عمل کرتے ہوئے اللہ سے یہ دعا مانگی:
اللہم إنہ قد ضاقت علی الأرض بما رحبت فاقبضنی إلیک( اے اللہ! تیری زمین کشادہ ہونے کے باوجود مجھ پر تنگ ہوگئی ہے۔ سو، تو مجھے اپنے پاس بلالے)
چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول فرمائی اور دعا کرنے کے بعد ایک مہینہ بھی نہ ہوا تھا کہ امام بخاری اس جہان فانی سے کو چ کر گئے۔ آخری وقت میں ہاتھ اٹھاکر دعا کی اور لیٹ گئے، داعیٔ اجل آپہنچا۔ جس نے زندگی دی تھی اس نے واپس لے لیا۔ عید کی چاند رات کی عشاء تھی، ہجرت نبوی کا ۶۵۲ واں سال تھا۔ سن شریف باسٹھ سال تھا۔ تب حدیث رسول کا یہ نیر تاباں چراغ بجھ گیا۔ إنا للہ وإناإلیہ راجعون۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
امام بخاری نے وصیت کی تھی کہ انھیں مسنون کفن میں کفنایا جائے۔ لوگوں نے وصیت کے مطابق امام بخاری کو تین کفن میں مکفون کردیا۔ عید الفطر کے روز بعد نماز ظہر نماز جنازہ ادا کرکے سمرقند کے ایک قصبے خرتنک میں دفنایا گیا۔
دفن کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر سے بہت عمدہ قسم کی خوشبو پھیلی جو مشک وعنبر سے بھی زیادہ عمدہ تھی، اس کی شہرت سن کر لوگ دور دور سے آتے اور قبر کی مٹی لے جاتے۔ لوگوں نے مجبور ہو کر قبر کے ارد گرد لکڑیوں کا حصار بنا دیا تاکہ قبر کی مٹی محفوظ رہ سکے۔ خوشبو کی مہک ایک عرصہ تک جاری رہی۔

آپ کے تبصرے

3000