نام و نسب:
شہاب الدین بن عظیم اللہ بن عبداللہ بن امان اللہ
والدہ ماجدہ:
والدہ محترمہ کا نام عرب النساء تھا۔
نسبت:
چوں کہ مولانا نے جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو سے فراغت حاصل کی تھی، اس لیےان کی ایک نسبت فیضی بھی ہے اور دوسری نسبت مکی ہے کیوں کہ انھوں نے مہبط وحی مکہ مکرمہ میں واقع معروف یونیورسٹی جامعہ ام القری کے شعبہ معہد اللغۃ میں تعلیم حاصل کی تھی، زیادہ عمر ہونے کے باعث آگے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے وطن مالوف واپس آگئے تھے، اسی مناسبت سے وہ خود کو مکی کہتے اور لکھتے تھے۔
تنبیہ:
مولانا کے انتقال کے بعد خبر وفات کے اعلان میں ان کے بعض معتقدین و احباب نے نام کے ساتھ ’مدنی‘ کا لاحقہ لگایا تھا جس سے بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ شاید مولانا نے جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں بھی تعلیم حاصل کی ہے جب کہ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے، لہذا مولانا کے نام کے ساتھ مدنی کا لاحقہ خلاف واقع ہے۔
لقب:
مولانا اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب ’مجاہد‘ سے عوام و خواص میں معروف تھے، ممدوح محترم کے بڑے بھائی جناب عبدالرحمن کے بقول اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اتباع سنت اور اسلامی میراث کے نفاذ اور اسے زبان و قلم کے ذریعے عام کرنے میں شبانہ روز کد و کاوش کررہے تھے۔ اسی مجاہدانہ کردار، دعوتی جوش و ولولہ اور دینی تڑپ کی وجہ سے علامہ عبدالجليل سامرودی نے مولانا کو مجاہد کا لقب دیا تھا، جو ان کی ذات و تعارف کا جزءلاینفک بن گیا۔ غفرالله وارحمہ
مولد و مسکن:
مولانا ضلع سدھارتھ نگر، یوپی کے معروف گاؤں ’بکنیہاں خالصہ‘ میں ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئے، یہی ان کا آبائی وطن ہے، جہاں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی اور پروان چڑھے۔
تعلیمی مراحل:
ابتدائی اور شعبئہ مکتب کی تعلیم جامعہ اسلامیہ کونڈرا گرانٹ (سدھارتھ نگر) میں، شعبہ عربی متوسطہ اور ثانیہ کی تعلیم مدرسہ (جامعہ) دارالہدی، یوسف پور، سدھارتھ نگر، یوپی میں حاصل کی۔ اس کے بعد صوبہ گجرات کے مشہور شہر سامرود تشریف لے گئے اور وہاں محدث ہند علامہ عبدالجليل سامرودی رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور شیخ موصوف کے علمی فیوض و برکات سے اپنے دل و دماغ کو منور کیا، پھر گجرات کے اطراف و اکناف میں دعوت و ارشاد اور تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی اثنا میں شامی نزاد اور سعودی عرب کی راج دھانی ریاض میں مقیم ایک غیور سلفی عالم دین، مشہور داعی اور کئی مفید و علمی کتابوں کے مصنف شیخ عدنان بن محمد العرعور حفظہ اللہ تشریف لائے اور مولانا ان کے توسط و معاونت سے سعودی عرب چلے گئے اور مملکت توحید سعودی عرب کے مفتی اعظم علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے دروس میں برابر شرکت کرتے رہے اور ان کے علم بے کراں سے استفادہ کرتے رہے۔ ایک خصوصی ملاقات میں مولانا نے جامعہ ام القری میں داخلہ کی بابت ان سے سفارشی توصیہ قید تحریر میں لانے کی درخواست کی لیکن شیخ محترم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس کوئی سند نہیں ہے، اگر آپ ہندوستان کے کسی معروف ادارہ سے سند حاصل کرلیں تو پھر میں جامعہ میں آپ کے داخلہ کی پوری کوشش کرتا ہوں، چناں چہ مولانا نے وہاں سے سرزمین ہند کا رخت سفر باندھا اور جامعہ اسلامیہ فیض عام، مئو میں داخلہ لیا۔۱۳۹۹ھ میں علم و ادب کا گہوارہ سر زمین مئو ناتھ بھنجن میں واقع جماعت کی معروف ترین دانش گاہ جامعہ اسلامیہ فیض عام سے سند فراغت حاصل کی۔
جامعہ ام القری میں داخلہ:
جامعہ فیض عام مئو سے فراغت کے بعد مولانا نے مزید علمی تشنگی بجھانے اور زیادتی علم کی خاطر جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ میں داخلہ کی سنجیدہ کوشش کی، اللہ کے فضل خاص، والدین کی پرسوز و مخلصانہ دعاؤں اور علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمن آل ابن باز کے سفارشی خط کی وجہ سے جامعہ ام القری کے شعبہ معهد اللغۃ العربيۃ میں ان کا داخلہ ہوگیا ،اس طرح ان کی دیرینہ آرزو اور حسین خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ یقیناً مولانا ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں، جنھیں اللہ نے جامعہ ام القری کے اساطین علم و فن اور مختلف علوم و فنون پر کامل دست گاہ رکھنے والے شیوخ اور دکاترہ سے کسب فیض کا سنہری موقع عطا کیا اور چند سال وہاں قیام کرکے ان کے علم و عرفان سے فیض یاب ہوئے اور بغیر تعلیم مکمل کیے ہوئے وہاں سے اپنے وطن مالوف واپس آگئے۔
چند ایام ملک اردن میں:
تاجدار اقلیم حدیث محدث عصر امام محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (۱۹۹۹ء) سے شرف ملاقات اور ان سے علمی استفادہ کی خاطر مولانا چند ماہ ملک اردن (جارڈن) تشریف لے گئے تھے اور دوران قیام امام کے بیش قیمت علمی دروس و محاضرات سے خوب استفادہ کیا۔
تدریسی فرائض:
مولانا مجاہد رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات کے تعلق سے تفصیل مجھے معلوم نہ ہوسکی، بعض احباب کے بقول تعلیم و تدریس سے زیادہ ان کی توجہ دعوت و ارشاد پر تھی اسی لیے بعض مدارس و معاہد سے منسلک ہوکر چند سال ہی تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ مختلف مقامات اور بستیوں میں مدارس و مساجد قائم کرنے میں کامیاب رہے جس سے نونہالان ملت استفادہ کررہے ہیں، بعض مدارس جہاں مولانا نے تعلیم دی ہے یہ ہیں :
مدرسہ اسلامیہ ،سامرود
دارالعلوم محمدیہ، سورت
مشاہیر اساتذہ کرام:
مولانا نے جن کبار شیوخ اور اساتذہ عظام سے اکتساب فیض یا ان کے دروس و محاضرات سے استفادہ کیا ہے، ان سب کے اسماء گرامی کا ذکر باعث طوالت ہوگا اس لیے چند مشاہیر شیوخ کے ذکر پر اکتفا کیا جارہا ہے:
(۱)محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (۱۹۹۹ء)
(۲)علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن عبدالرحمن آل بازرحمہ اللہ (۱۹۹۹ء) سابق مفتی عام سعودی عرب
(۳)فقیہ امت علامہ محمد بن صالح العثیمیبن رحمہ (۲۰۰۱ء) قصیم، سعودی عرب
(۴)شیر گجرات محدث ہند، علامہ ابو عبد الکبیر محمد عبدالجليل بن ابو السعادات علی احمد، سامرودی، رحمہ اللہ (۱۹۷۲ء)
(۵)جناب مولانا و مفتی حبیب الرحمن فیضی(۱۹۹۶ء)
(۶)جناب مولانا و مفتی عبدالعزیز عمری (۲۰۰۵ء)
(۷)جناب مولانا عبدالسبحان عمری (۱۹۹۰ء)
(۸)جناب مولانا محفوظ الرحمن فیضی
(۹)جناب مولانا ڈاکٹر جلال الدین رحمانی(۲۰۱۹ء)
(۱۰)مولانا محمد ابراہیم رحمانی
(۱۱)مولانا محمد ادریس قاسمی (۲۰۱۹ء)
ارشد تلامذہ:
(۱)عبدالوہاب بن محمد سورتی گجراتی
(۲)ابوالکلام سلفی
(۳)عبدالوکیل اثری
(۴)یامین محمدی
(۵)حافظ شبلی
(۶)فضل الرحمن بن عبدالسلام
(۷)عبدالسلام بن محمد یونس
فریضہ حج وزیارت حرمین شریفین:
جامعہ ام القری مکہ مکرمہ کے زمانہ طالب علمی ہی میں اللہ تعالیٰ نے مولانا کو زیارت حرمین شریفین اور فریضہ حج و عمرہ ادا کرنے کی توفیق بخشی اور بفضلہ تعالی اس نعمت عظمی سے سرفراز ہوئے، حج کی سعادت انھیں دوبار ملی، پہلا حج ۱۹۸۷ء اور دوسرا حج ۱۹۹۰ء میں کیا۔۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۹۷ء تک ہر سال مولانا کو عمرہ کرنے کا شرف حاصل رہا۔
اوصاف و خصائل:
مولانا عمدہ سیرت و کردار، خلیق و ملنسار، تقوی شعار اور انسانیت نوازی کے علمبردار تھے، ہم سب کے بزرگ تھے اور اپنے خوردوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر شفقت فرماتے تھے، نہایت ہی خوش گفتار، خوش اخلاق، نرم خو، غیور اور علم الفرائض کے ماہر تھے، بقول شخصے مولانا کا بیان ہے کہ علم میراث کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے جو درک اور مہارت دی ہے یہ شیخ صالح بن فوزان بن عبداللہ الفوزان کی کتاب ’التحقيقات المرضية في المباحث الفرضية‘ اور کیرلا کے شیخ عبدالصمد بن محمد الکاتب کی کتاب’ كتاب الفرائض‘کی مرہون منت ہے، خشوع وخضوع کے ساتھ اقامت صلوة کی پابندی، خشیت الہی، خودداری، سادگی، قناعت پسندی، دنیا سے بے رغبتی اور شگفتہ مزاجی مولانا کی نمایاں پہچان تھی۔ قناعت واستغنا کا عالم یہ تھا کہ مولانا کے آبائی گاؤں میں ان کے پاس رہنے کے لیے ذاتی مکان نہیں تھا صرف ایک کمرہ چھت کے ساتھ ہے اور برآمدہ آج بھی سیمنٹ پترا کا ہے، جو اہل خانہ کے لیے ناکافی ہے، اس کسمپرسی کے عالم میں بھی مولانا ہمیشہ اللہ کے فیصلے پر صابر و شاکر رہے کسی سے کبھی کوئی گلہ و شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی صاحب ثروت کے سامنے زبان کھولی، ایسے پاک طینت مرد مجاہد پر اللہ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔
تجارت:
شروع ہی سے مولانا کا ذہن تاجرانہ تھا، سرزمین حجاز مکہ مکرمہ میں جب داخلہ ہوگیا تو وہاں بھی بعض احباب کے تعاون سے ہندوستانی مصنوعات کی تجارت کرتے تھے، وہاں سے واپس آنے کے بعد ممبئی میں بھی اپنی بساط بھر پیشہ تجارت سے جڑے رہے اور اپنی یومیہ واہل خانہ کے اخراجات کی تکمیل کرتے تھے۔
دعوت و ارشاد:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنے جیب خاص سے بہت سارے علماء کی کفالت کرتے تھے، غالب گمان یہی ہے کہ مولانا بھی انھی کی کفالت میں ایک داعیہ متفرغ کی حیثیت سے دعوتی کام سر انجام دے رہے تھے۔غفرالله لهما
زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے لگے تھے، سب سے پہلے ضلع بلرام پور(گونڈہ) میں واقع معروف بستی تلشی پور اور گینسڑی کے علاقوں میں اس مقدس فریضے کو سر انجام دیا، سلفی مسلک ومنہج کے ازلی دشمن رضاخانیوں نے مولانا پر جان لیوا حملہ کرنے کی ناپاک سازش رچی لیکن اللہ نے مولانا کی نصرت و حفاظت فرمائی اور ان کے شرور و فتن سے بالکل محفوظ و مامون رہے۔ مولانا کے محسن استاد گرامی علامہ عبدالجليل سامرودی رحمہ اللہ کو جب اس جاں گسل حادثہ کی خبر ملی تو انھوں نے فوراً اپنے شاگرد رشید کو بذریعہ خط تسلی دی اور ایک دعا بتائی کہ اسے برابر پڑھتے رہو دشمن کے شر اور اس کی ریشہ دوانیوں سے سدا محفوظ رہو گے۔
اللهم نجعلك في نحورهم ونعوذبك من شرورهم
مولانا نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ سلف صالحین کے مسلک و منہج کو فروغ دینے میں گزارا ، مولانا مصلحت پسند اور پیشہ ور خطیب نہیں تھے، پوری زندگی ایک مثالی، حساس اور باوقار داعی و مبلغ کا کردار نبھایا، ان کے اندر دینی و مسلکی اور جماعتی غیرت و حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، فعال و سرگرم، متحمس، بے باک اور حق گو عالم تھے، بلا خوف لومۃ لائم کتاب وسنت کی سنہری و آفاقی پیغام سناتے، اپنے اصول و منہج میں کسی سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، حالات و ظروف کی رعایت کرتے ہوئے مولانا اپنے دروس و خطابات اور وعظ و نصیحت کی مجلسوں میں حساس موضوعات پر موثر و پرسوز آواز میں خطاب کرتے تھے۔ البتہ اکثر و بیشتر بلکہ ہمہ وقت آپ اسلام کے قانون وراثت کو اپنے یہاں نافذ کرنے کی پرزور تلقین کرتے تھے، جہاں موقع ملتا اسی کو موضوع سخن بناتے تھے، آخری دم تک تحریک نفاذ میراث کے لیے کوشاں رہے۔ اس تحریک و مشن کی آبیاری ہم سب کی ملی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، اللہ کے فضل و کرم اور مولانا ہی جیسے چند مخلص علماء کی محنتوں کا ثمرہ ہے کہ آج بہت سارے لوگ میراث کے احکام و مسائل سمجھنے اور اپنی اولاد کو میراث میں حصہ دینے لگے ہیں۔
ہمدردی اور غرباء پروری:
مولانا عالم باعمل ہونے کے ساتھ ہمدردی، غم خواری اور خیرخواہی کے پیکر تھے، پوری حیات مستعار حدیث نبوی:’الدين النصيحۃ‘ پر عمل پیرا رہے۔ مولانا کے قریبی عزیز رفقاء واحباب اور ہم عصر علماء کرام ان کی بے مثال خوبیوں کے ضمن میں ایک نمایاں وصف یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ غرباء وفقراء کی حسب استطاعت مالی اعانت کے ساتھ ملت و جماعت کے بے روزگار نوجوانوں کو کسب معاش کی خاطر تجارت کرنے کی ترغیب دیتے تھے اور ایسے لوگوں کے لیے روپیہ فراہم کرتے تھے تاکہ مالی اعتبار سے مستحکم ہوجائیں، خوش حال زندگی گزاریں اور دربدر نہ بھٹکیں۔مولانا کے اس مستحسن کام کی ہر سو پذیرائی ہوئی، لوگوں کو اس کی افادیت کا علم ہوا اور عملی طور پر خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا لیکن افسوس کہ مولانا جن لوگوں کے روشن مستقبل کی خواب دیکھ رہے تھے، انھیں مفید مشورے دے رہے تھے اور شانہ بشانہ ان کے ساتھ چل رہے تھے ،چند دنوں کے بعد انھی لوگوں نے بے وفائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا کو کنارے لگادیا، اس بدسلوکی سے مولانا کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا البتہ’ چاہ کن را چاہ درپیش‘کے مصداق وہ خود توڑ پھوڑ کے شکار ہوگئے اور وہ وہیں واپس چلے گئے جہاں سے آئے تھے۔ان الله على كل شيء قدير
ازدواجی زندگی:
مولانا نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی خاتون محترمہ زینب خاتون کا تعلق پڑوسی ملک نیپال سے تھا، ان کے والد گرامی کانام رحمت اللہ (رحمہ اللہ) تھا جو ضلع روپندیہی کے موضع بھگوان پور کے باشندہ تھے، ان کی وفات کے بعد مولانا نے عقد ثانی محترمہ ساجدہ خاتون بنت محمد ادریس (حفظہا اللہ) سے کی تھی، جو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سدھارتھ کے موضع شیوکوٹ مہاپال کی رہنے والی تھیں، دونوں کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا تھا ۔
اولاد و احفاد:
پہلی زوجہ محترمہ زینب بنت رحمت اللہ کے بطن سے دو بیٹیاں اور ایک نرینہ لڑکا پیدا ہوا:
(۱)ناظمہ خاتون
(۲)ساجدہ خاتون
(۳)عبداللہ
پہلی بیٹی ناظمہ خاتون کی شادی برگدوا، نیپال میں جناب ماسٹر الطاف حسین سے ہوئی ہے جو نیپال ہی میں کسی سرکاری اسکول کے پرنسپل ہیں۔ دوسری بیٹی ساجدہ خاتون کی شادی جناب مولانا و حافظ محمد عمران صاحب کے ہمراہ ہوئی ہے جو موضع رسول پور، سدھارتھ نگر، یوپی کے رہنے والے ہیں اور جامعہ دارالہدی، یوسف پور سدھارتھ نگر میں شعبہ تحفیظ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
دوسری زوجہ ساجدہ خاتون حفظها الله کے بطن سے چار بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں:
(۱)عبیداللہ(۲)محمد(۳)احمد(۴)سیف اللہ
لڑکیوں کے نام ہیں:
(۱)اسماء خاتون(۲)عائشہ خاتون(۳)فاطمہ خاتون(۴)آمنہ خاتون(۵)حفصہ خاتون(۶)صفیہ خاتون
عزیزہ اسماء سلمہا کی شادی جناب منیر عالم سے ہوئی ہے، جن کا آبائی وطن موضع، پورینہ، سدھارتھ نگر ہے اور فی الحال ایکتا نگر، کاندیولی ویسٹ ممبئی میں ایک کامیاب تاجر ہیں۔ عزیزہ عائشہ سلمہا کا عقد برادر عزیز مولانا مسعود احمد فیضی سے ہوا ہے، وہ میرے ننھیال گنجہڑا کے رہنے والے ہیں اور اپنے گاؤں کے مدرسہ انوار العلوم، گنجہڑا ،سدھارتھ نگر سے منسلک ہوکر دعوتی و تدریسی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
لڑکوں میں بعض اعلی تعلیم کے حصول میں کوشاں ہیں اور بعض خوش حال زندگی گزارنے کی خاطر تجارت سے جڑے ہوئے ہیں، برادرم عبداللہ الہ آباد میں IPS/PES کی تیاری کررہے ہیں۔ برادران عبیداللہ اور محمد تجارت کررہے ہیں، احمد گیارہویں اور سیف اللہ نوویں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، اللہ ہمارے ان عزیزوں کی آرزوں اور تمناوں کو شرمندہ تعبیر فرمائے اور عزت وقار کی زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔ آمين
جامعہ دارالہدی یوسف پور کی نظامت:
سرزمین حجاز سے واپسی کے بعد مولانا نے نوگڈھ (سدھارتھ نگر) کو اپنا دعوتی و تبلیغی مرکز بنایا، نوگڈھ میں کرایے کا ایک مکان لیا اور وہیں سے قرب و جوار میں دعوت وارشاد کا فریضہ انجام دیتے تھے، علاقہ میں مولانا کی دعوت کا اچھا اثر نظر آیا چناں چہ جماعت کے حساس اور بصیرت مند لوگوں نے ۱۹۹۴ء میں مولانا کے دوش ناتواں پر جامعہ دارالہدی، یوسف پور کی بار نظامت ڈال دی جسے انھوں نے (جب تک اللہ نے چاہا)۱۹۹۸ء تک بحسن و خوبی انجام دیا اور جب نامساعد حالات سامنے آئے تو اس عہدہ سے ازخود دستبردار ہوگئے۔
وصیت برائے تدفین:
مولانا نے اپنی وفات سے پہلے اہل خانہ کو یہ وصیت فرمائی کہ جہاں میرا انتقال ہوجائے وہیں مجھے دفن کردیا جائے، میرے جنازے کو کسی دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے، میری نعش کو ہوائی جہاز یا کسی اور سواری کے ذریعہ نہ لے جایا جائے، سنت کے مطابق جلد از جلد مجھے سپرد خاک کردیا جائے۔
علالت اور وفات:
جناب مولانا محمود الحسن فیضی حفظہ اللہ (استاد جامعہ رحمانیہ کاندیولی ،ممبئی ) کے بقول کم و بیش دس سال سے مولانا عارضہ قلب کے شکار تھے، کچھ دنوں کے بعد سانس لینے میں بھی پریشانی لاحق ہوگئی اسی طرح سے چار پانچ بار فالج کا اٹیک ہوا تھا، مرض کی شدت کے باعث نقاہت و کمزوری میں اضافہ ہوتا رہا۔ حسب استطاعت علاج و معالجہ کے باوجود بیماری میں خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوا بالآخر وقت موعود آپہنچا اور مورخہ۱۵/دسمبر۲۰۲۰ بوقت ساڑھے دس بجے دن بمقام الہ آباد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔تغمده الله بواسع رحمتہ
جنازہ اور تدفین:
مولانا کی وصیت کے مطابق تجہیز وتدفین عمل میں لائی گئی، نماز جنازہ بعد نماز عشاء جناب مولانا تمیم احمد مدنی حفظہ اللہ وتولاہ کی اقتدا میں ادا کی گئی اور کالا ڈانڈا کریلی الہ آباد کے قبرستان میں ہزاروں سوگواروں نے باچشم نم مولانا کے جسد خاکی کو سپرد خاک کر دیا۔
پسماندگان:
مولانا کے لواحقین و پسماندگان میں ان کی بیوہ، پانچ لڑکے، آٹھ لڑکیاں اور نواسیاں ہیں۔ اللہ مولانا موصوف کی بشری لغزشوں و فروگذاشتوں کو معاف کرے، ان کی نیکیوں اور جملہ دینی و دعوتی خدمات جلیلہ کو قبول فرماکر انھیں ان کی مغفرت و نجات اور رفع درجات کا ذریعہ بنائے اور تمام وارثین، لواحقین و پسماندگان، اہل خانہ و جماعت و جمعیت کو بارائے صبر وشکیب دے اور انھیں جنت الفردوس کا مکین بنائے۔آمين
اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته والهم أهله وذويه الصبر والسلوان
نوٹ: زیر نظر مضمون مولانا کے ایک قریبی عزیز، علم دوست اور علماء نواز جناب سیٹھ شکیل احمد مرزا، ممبئی اہل خانہ اور ان کے دیگر محبین و معتقدین سے معلومات حاصل کرکے مرتب کیا ہے۔
آپ کے تبصرے