۱۔ ابتدائی زندگی:
والد محترم کا نام محمد اسحاق بن عبد القادر بن محمد تھا، خاندانی نام مومن ہے ۔ پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۷ ء کو ہنچال ،تعلقہ سندگی ضلع بیجاپور کرناٹک میں ہوئی۔ ابتدائی ناظرہ قرآن کی تعلیم اپنے والد سے ہی حاصل کی، اس وقت پورے ضلع بیجاپور میں کوئی مستند عالم نہ تھا ایسے میں ہنچال اور آس پاس کے قریوں میں قادیانی مفت میں امامت اور بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے بہانے قدم جمارہے تھے،یہاں ان کا مقابلہ کرنے کے لیے علماء کی ضرورت تھی لہذا بیجاپور کے ایک بزرگ جناب مولیٰ بخش صاحب (پوسٹ مین ) نے والد محترم اور آپ کے دو ساتھی ابوبکر صغیر اور ابوبکر کبیر تینوں کو مدرسہ کاشف العلوم اورنگ آباد میں ۱۹۶۴ء داخل کرایا ،والد محترم نے وہاں دوسال ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
جامعہ دارالسلام عمرآباد میں داخلہ:
ہمارے تایا محمد اسماعیل مومن ؒ کو خیال ہواکہ اپنے بھائی کو جامعہ دارالسلام میں داخل کرائیں تو زیادہ بہتر ہوگااس کے لیے دادا سے اجازت طلب کی تو عمرآباد دور ہونے کی وجہ سے انھوں نے منع کیا لیکن تایا نے والد محترم کو تیار کیا اور ۱۹۶۶ء میں عمرآباد لے گئے،والد محترم جماعت سوم کے اہل قرار پائے ،والد محترم نے یہاں بڑے شوق اور لگن سے تعلیم حاصل کی، اپنے بزرگ اساتذہ سے بڑا گہرا لگاو تھا، بالخصوص مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی رحمہ اللہ کی خدمت کرتے اور شیخ التفسیر مولانا عبد الکبیر عمری رحمہ اللہ سے روزانہ ایک پارہ قرآن کریم سناکرتے۔
والد محترم کے ہم سبق مولانا محی الدین عمری حفظہ اللہ کے بقول وہ تعلیمی دور ہی سے بڑے متدین تھے اور اس اعتبار سے ساتھیوں میں امتیازی شناخت رکھتے تھے۔
والد محترم خوش الحان تھے۔ بڑی اچھی تلاوت کرتے کہ سننے والے اس سے متاثر ہوجاتے ،ساتھ ہی نظم خوانی کا بھی شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ کے جشن طلائی میں جن فارغین کو نظمیں پڑھنے کا موقعہ ملا اس میں ان کا بھی نام تھا۔
چھ سال جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد۱۹۷۱ ء میں سند فراغت (فضیلت) حاصل کی، جامعہ کی تعلیم کے ساتھ ہی مدارس یونیورسٹی سے منشی فاضل کا کورس بھی مکمل کرلیا تھا۔
(۲) امامت وخطابت:
والد محترم نے فراغت کے بعد۱۹۷۱تا۱۹۷۹ء جامع مسجد اہل حدیث شوراپور میں امامت وخطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔۲۵ سال کی عمر میں(۱۹۷۱ء میں) نکاح ہوا، دادا محترم کا خیال تھا کہ ان کی شادی ایسے خاندان میں کرائی جائے جہاں اس رشتہ کی بنا پر دعوتی واصلاحی سرگرمی جاری رکھنے کی راہ نکل آئے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جالہلی ضلع رائچور میں آپ کا رشتہ ہوا۔ ننیہالی خاندان کے اہم ذمہ دار ہمارے ماموں قاضی عظمت حسین صاحب رحمہ اللہ جو اس وقت تک عاشوراء محرم کے رسم ورواج کے لیے اہم شخصیت مانے جاتے تھے عین عاشوراء سے دو تین روز قبل بنا کسی کو بتلائے اس رسم ورواج کی انجام دہی سے توبہ کی نیت سے راہ فرار اختیار کرلی اور کہیں جاکر چھپ گئے ،ادھر پنجے اٹھانے والے سارے لوگ پریشان کہ بڑے ملاں صاحب کہاں بھاگ گئے ؟! پھر جب اس کی اہم تاریخیں گزرگئیں تو گھر واپس ہوئے ،خود پختہ اہل حدیث ہوگئے اور اپنے خاندان اور گاؤں کے دیگر لوگوں کو سدھارنے کی بھر پور کوشش کی، مسجد کی تعمیر کے لیے ایک زمین وقف کردی ،آگے چل کر اس زمین پر جامعہ دارالسلام عمرآباد کے تعاون سے ۲۰۰۶ء میں بھائی عبد الرب کی نگرانی میں مسجد عمر فاروق کی تعمیر مکمل ہوئی ،اب یہاں پنجوقتہ نمازیں ہوتی ہیں، خطبہ جمعہ کا اہتمام بھی ہے اور صباحی مسائی مکتب بھی چل رہا ہے۔
ماموں نے اپنی اولاد میں ایک کو حافظ اور دو کو عالم بنایا ۔تینوں نے عمرآباد ہی سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ مختصر یہ کہ یہ رشتہ دینی اعتبار سے بڑا نفع بخش ثابت ہوا، شوراپور میں کافی بڑی جماعت تھی لوگ والد محترم کے خطبات و دروس بڑے شوق سے سنا کرتے تھے ۔ایک لمبی مدت یہاں گزاری ،پھر جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ میں چند ماہ تدریسی خدمات انجام دینے کا موقعہ ملا۔۱۹۸۰ سے۱۹۸۲ تک بھیونڈی کے مضافات میں ایک گاؤں تلولی ہے یہاں انھوں نے امامت وخطابت کی ،یہاں بھی لوگوں نے ان کی بڑی قدر کی،بڑے احترام و محبت سے پیش آئے ۔ تلولی کے بعد(۱۹۸۲ سے ۱۹۸۳) معہد علوم الحدیث حیدرآباد میں دو سال تدریسی خدمت انجام دی، ساتھ ہی مسجد محبوببیہ چنچل گوڑہ میں خطبہ کی ذمہ داری بھی سنبھالی ، پھر یہاں سے کرنول کا رخ کیا۔۱۹۸۳ سے ۱۹۸۵ تک مدرسہ شمسیہ عربیہ کرنول میں استاذ رہے اور یہاں مسجد قبا میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ کرنول میں کافی بڑی جماعت تھی اور یہاں خواتین کے لیے بھی مسجدوں میں پردہ کا نظم ہوتا اور بڑی تعداد میں خواتین بھی والد محترم کے دورس اور خطبات میں شریک رہتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے منتقل ہونے کے بعد بھی ان کو رمضان میں دروس کے لیے یا کم از کم آخری عشرہ میں خطاب کے لیے بارہا مدعو کیا جاتا رہا، یہاں کہنے کو ایک مختصر مدت یعنی تین سال کے لگ بھگ رہے لیکن یہاں کی جماعت سے والد محترم کے بڑے گہرے روابط تھے بالخصوص مولانا عبد الغفار ندوی رحمہ اللہ اور مولانا یوسف جمیل جامعی رحمہ اللہ وغیرہ سے برابر ملاقاتیں بھی ہواکرتی تھیں ۔جب کبھی کرنول کا ذکر آتا تو کافی دیر تک اس پر گفتگو جاری رہتی ۔
(۳)تدریسی خدمات:
پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ سرکاری ملازمت کے لیے کھیڑ گی (تعلقہ انڈی، ضلع بیجاپور) کے انجمن عربک اسکول میں والد محترم کی تقرری ہوئی۔۲۰؍ فروری۱۹۸۵سے ۳۱؍ دسمبر۲۰۰۴ تک قریب ۱۹ سال یہاں استاذ رہے لیکن یہاں انھیں اپنے ہم فکر لوگوں کا حلقہ یا وہ احباب جماعت نہیں ملے جو اور جگہوں پر میسر تھے۔ یہاں تو بس ان کے لیے ہفتہ واری جریدہ ترجمان دہلی (جو بعد میں ماہنامہ ہوگیا)،ماہنامہ مجلہ اہل حديث اور نوائے اسلام ہى جماعت وجمعيت كى خير خبر جاننے كااہم ذريعہ تهے۔ اس كےعلاوه بعض تعليمى اداروں كےترجمان جيسے راه اعتدال عمرآباد، صوت الحق ماليگاؤں اور صوت الاسلام ممبئى ہر ماه پابندى سےبذريعہ پوسٹ پہنچتے اور والد محترم بڑے اہتمام سے ان كا مطالعہ كرتے اور جماعت كےاہم جلسوں ميں شركت كرتے، خطاب كے لیے دعوت دى جاتى تو نہ ٹالتے اور دينى ذمہ دارى سمجھ كر ضرور نبهاتے۔ كهيڑگى ميں ملازمت كے دوران جنورى۱۹۹۵ء ميں ہمارى والده ماجده اس دار فانى سےكوچ كرگئيں – انا لله وانا اليہ راجعون
اس وقت ہم اپنى والده سےچھ (۶) بهائى اور تين (۳) بہنيں كل نو (۹) افراد تهے۔ اس واقعہ نےوالد محترم سميت سارے افراد خانہ كو ہلا كر ركھ ديا، لہلہاتے گلستاں ميں جيسے خزاں كا موسم چها گيا، چند چھوٹوں كےعلاوه اكثر بهائى دينى تعليم كے حصول كے لیے گهر سے دور تهے، ہوش وحواس كى عمر ميں ماں كى خدمت كا شرف حاصل نہ كرسكے بقول علامہ اقبال؎
عمر بهر تيرى محبت ميرى خدمت گر رہى
ميں ترى خدمت كےقابل جب ہوا تو چل بسى
حالات كےپيش نظر والد محترم نے۵؍ماه بعد جون۱۹۹۵ ميں تماپور (نزد شوراپور) میں دوسرا نكاح كيا، دوسرى والده سےبهى اولاد ہوئى اور والد محترم كى زندگى دهيرے دهيرے معمول پر آگئى، بالآخر دسمبر۲۰۰۴ ميں كهيڑگى كى سركارى ملازمت سےوظيفہ يا ب ہوئے۔
(۴)مدرسہ عمرة للبنات ہنچال كا قيام:
جب سے والد محترم عمرآباد سےفارغ ہوئے اس وقت سےجس بات كى طرف آپ كى خاص توجہ رہى وه يہ كہ اپنے گهر، خاندان اور علاقہ كےطلبہ كو دينى مدارس ميں داخل كروانا ہے۔ ان كى اس تڑپ كا نتيجہ يہ نكلا كہ فراغت كےبيس پچيس سال بعد گاؤں اور علاقہ ميں حفاظ اور علماء كى ايك جماعت تيار ہوگئى۔
ان علماء وفارغين نےديكھا كہ لڑكوں كے لیے دينى مدارس دور نزديك موجود ہيں اور ان كى تعليم كا سلسلہ جارى ہے ليكن لڑكيوں كے لیے ماليگاؤں يا بنگلور جانا آسان نہ تها۔ اس لیے يہ ضرورت محسوس كى گئى كہ ہنچال ميں ہى لڑكيوں كےلیے دينى مدرسہ شروع كيا جائے، چنانچہ ۱۹۹۸ ميں’مدرسہ عمرة بنت عبد الرحمن الأنصاريہ‘ كےنام سے مدرسہ شروع كيا گيا اور روز اول سےوالد محترم اس كےصدر بنائےگئے، پهر جب كهيڑگى سے وظيفہ يا ب ہوكر ہنچال سےچار كيلوميٹر كےفاصلہ پر كلكيره منتقل ہوگئے تو بعض تدريسى ذمہ دارياں بهى ان كے سپرد كى گئيں ، جس ميں مشكوٰة كے علاوه بعض ابتدائى جماعتوں كى كتابيں ان كے تدريسى مواد ميں شامل رہيں، اس طرح سن۲۰۰۵ء سےسن ۲۰۱۶ء تك مسلسل گياره سال مدرسہ عمره ميں تدريسى سلسلہ جارى رہا ، پهر جب عمر ستر سال كےقريب ہوگئى تو روزانہ كلكيره سے ہنچال بس سےآنا جانا آسان نہ رہا، لہذا آپ نےكلكيره ہى كى بعض مساجد ميں امامت وخطابت تك خود كو محدود كرليا، پهر بهى كبهى كبهار خطبات جمعہ كے لیے انڈى، تاليكوٹ، تانبہ وغيره كا سفر كيا كرتے تهے۔
(۵)وفات:
والد محترم كى صحت الحمد لله بہتر تهى ، كبهى كسى خاص مرض سے آپ كو كوئى مستقل پريشانى بهى نہ تهى البتہ ۲۰۰۶ ميں پہلى مرتبہ عارضہ قلب كا ہلكا اثر ہوا تها اور علاج معالجہ سےطبيعت سنبهل گئى تهى اور آپ اپنى ذمہ دارياں برابر انجام دےرہے تهے۔ وفات سے ايك روز قبل خواتين كا ايك خاص پروگرام تانبہ ميں تها جو كلكليره سے پچاس كيلوميٹر پر واقع ہے آپ وہاں گئے اور خطاب كیا، واپس ہوئے اتوار كا دن تها عصر كے قريب آپ پروگرام سے واپس گهر پہنچےتهے، عصر بعد كلكيره ہى ميں مصليوں ميں سے ايك نوجوان كى وفات ہوئى آپ اس كے گهر گئے عورتوں كو مختصر خطاب كركےتسلى دى اس كے چهوٹوں بچوں كو دلاسہ ديا ، مغرب كى نماز خود پڑهائى اور عشاء كى اذان بهى خود دی، عشاء پڑھ كر گهر لوٹے، ہمارےبڑے بهائى مولوى عبد الرب عمرى سے فون پر گفتگو ہوئى، كهانے سےفارغ ہوكر كچھ دير آرام كيا، رات باره كے قريب اٹهے تو آپ كو پسينہ آرہا تها دريچہ كهول دیا، كهانسى آنے لگى تو كهانسى كى دوا پى لى، ضرورت سے فارغ ہوكر واپس ہوئے ہى تهے كہ وقت موعود آ پہنچا اور آپ نےجان جان آفريں كےحوالے كردى – انا لله وانا اليہ راجعون- ۲؍ رجب۱۴۴۲ھ بمطابق ۱۴اور۱۵ فرورى ۲۰۲۱ء اتوار وپير كى درميانى شب رات ساڑهے باره بجے وفات ہوئى اور اگلے دن بعد نماز عصر آبائى وطن ہنچال ميں ايك جم غفير نے نماز جنازه ادا كى۔ نماز جنازه چهوٹے فرزند عبد المصور عمرى مدنى نےپڑهائى اور ہنچال كےقبرستان ميں تدفين ہوئى،وفات کے وقت ان کی عمر ۷۴ سال تھی۔
(۶)عائلى زندگى:
۱۵؍اولاد ميں آٹھ (۸) لڑكے اور سات (۷) لڑكياں ہيں، سب كى تعليم كے لیے جى جان سےمحنت كى، الحمد لله چھ فرزند عالم جن ميں پانچ مكمل حافظ ہيں ، ان ميں پانچ جامعہ دار السلام عمرآبا د سےفارغ ہيں اور ايك جامعہ سلفيہ بنارس سے۔ ان ميں دو جامعہ اسلاميہ مدينہ منوره سے بهى تعليم يافتہ ہيں، ايك فرزند ڈپلومہ انجينيئر ہيں اور ايك جامعہ دار السلام عمرآباد ميں آخرى جماعتوں ميں زير تعليم ہيں۔ ۵؍بيٹياں عالمات ہيں ايك مدرسہ عائشہ صديقہ ماليگاؤں سے بقيہ مدرسہ عمره ہنچال سےتعليم يافتہ ہيں اور۲؍ بيٹياں زير تعليم ہيں۔والد محترم بچوں پر ہميشہ مشفق ومہربان رہے نہ كبهى مارتے اور نہ سزا ديتے۔ شفقت پدرى كا ايك واقعہ مجهے ہميشہ ياد رہے گا، ايك مرتبہ مدرسہ عمره كےسالانہ اجلاس كےبعد ضيافت كا موقعہ تها ہم تمام دستر خوان پر بيٹهے كهانا كهارہے تهے والد محترم مجھ سے كچھ فاصلہ پر بيٹهے تهے دور سےہى آپ نے ميرى پليٹ كو جهانك كر ديكها كہ ميرى پليٹ ميں گوشت نہيں ہے خدمت كرنےوالے ہمارے ايك ساتهى كو بلايا اور اپنى پليٹ اس كےہاتھ ميں پكڑاکر كہا اس ميں موجود گوشت راشد كى پليٹ ميں ڈال كر آؤ، اس نے کہا آپ اسےكهاليں ميں ان كے لیے لاديتا ہوں ليكن انھوں نے اس كى ايك نہ سنى اور اپنى پليٹ كو اس كےہاتھ سے بهجواديا۔ ميں نے اپنےساتهى سےسوال كيا يہ كيا كررہے ہو، اس نے كہا آپ كے والد كو ميں نےمنع كيا پهر بهى وه نہيں مان رہے تهے تو مجهے مجبورًا ان كى پليٹ يہاں لانى پڑى۔ كہنےكو تو يہ ايك معمولى سى بات معلوم ہوتى ہے ليكن غور كرنےپر پتہ چلتا ہےكہ ماں باپ بچوں كو اپنے منہ كا نوالہ كهلاديتے ہيں يہ صرف بچپن ہى ميں نہيں بلكہ بچےجوان بهى ہوجائيں تو ان كےدلوں ميں وہى جذبہ ہوتا ہے، ايك باپ اپنےبچوں كو ہميشہ ہنستا مسكراتا اور خوشحال ہى ديكهنا چاہتا ہے۔والد محترم بچوں كى كاميابيوں پر بہت خوش ہوتے، ہميں كوئى انعام ملتا يا ہمارى كسى كاميابى كى انھيں خبر دى جاتى تو اپنےملنےجلنے والے تمام افراد سےاس كا تذكره كرتے۔
(۷)اوصاف حميده:
والد صاحب كم گو انسان تھے، ضرورت پر ہى بولتے اور جب بولتے تو بہت تول كر بولتے، كبهى كسى كى دل آزارى نہ كرتے، زندگى ميں سادگى غالب تهى، وضع قطع غذا لباس ہر چيز ميں سادگى ان كى نماياں صفت تهى، عہده ومنصب كى تمنا نہ كى ليكن كرم فرماؤں نے بعض ذمہ دارياں ان كےسپردكى تهيں جيسے ضلعى جمعيت اہل حديث بيجاپور كےامير مقرر كیے گئے تهے، آخرى وقت تك مدرسہ عمره ہنچال كےصدر تهے، شادى ہو يا ميت پند ونصائح كےمعاملے ميں انھى كو پيش پيش ركها جاتا تها ، صوم وصلوة كے بہت پابند تهے، فرض نمازيں ہميشہ با جماعت ہى ادا كرتےتهے، آخرى عمر ميں بهى كبهى سوارى ميسر آجاتى تو سوارى پر بيٹھ جاتے ورنہ اكثر مسجد آمد ورفت پيدل ہى ہوا كرتى تهى، كبهى كبهى مسافت لمبى ہوتى تو درميان ميں ايك آدھ جگہ ٹہر كر مسجد پہنچتے ليكن فرض نماز گهر ميں پڑهنا گوارا نہ كرتے، تہجد كى ہميشہ پابندى كرتے ، سفر ہو كہ حضر تہجد چهوٹنےنہ پاتى تهى، اپنى وفات سےدو سال قبل بهى الله نے دوسرى مرتبہ اہلیہ كےہمراه حج كى سعادت نصيب كى، گلبرگہ سے بنگلور كے لیے ٹرين ميں سوار تهےرات ۲ بجے اٹهے اور چھ سيٹوں كى درميانى جگہ سےچپل ہٹائے اور تہجد كےلیے كهڑے ہوگئے۔
الله رب العزت سے دعا گو ہوں كہ الله ان كى بشرى لغزشوں كو در گزر فرمائے اور جنت الفردوس ميں جگہ نصيب فرمائے۔ آمين
آپ کے تبصرے