پھٹلاسی

ابوالمیزان منظرنما

راستے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، ٹیڑھے میڑھے بھی۔ منزل متعین ہو یا نہ ہو چلنا پڑے تو راستے ہی لے جاتے ہیں۔ راستے چلنے والوں کے لیے بنے ہیں، پاؤں سے چلیں یا سواری سے راستوں کی طرح چلنے والے بھی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، ٹیڑھے میڑھے بھی۔

چلنا اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے، جو نہیں چل پاتے انھیں اس نعمت کا عرفان زیادہ ہوتا ہے۔ جو پیدائشی محروم ہوتے ہیں انھیں کم، جو کسی وجہ سے زندگی کے کسی موڑ پر حادثے کا شکار ہوکر یا کسی انجانی بیماری میں مبتلا ہوکر اپنے پاؤں کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں، معذور ہوجاتے ہیں اور نہیں چل پاتے انھیں اس محرومی کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔

چال ہو یا دوسری نعمتیں، اچھے کام میں استعمال ہوں گی تو بندے کو چلنے پھرنے وغیرہ کی توفیق دینے والا خوش ہوگا۔ اللہ کی رضا پانے کے لیے ہر لمحے بندے کو شکرگزار ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی زمین میں چلنے کا جو طریقہ ہے اس کا لحاظ ضروری ہے۔ اللہ کی رضا کا خیال نہ ہو تو بندہ پاؤں ہی نہیں ہر نعمت کا غلط استعمال کرتا ہے۔ غلط استعمال سے چیزیں خراب ہوجاتی ہیں۔ انسان کے جسم کا کوئی بھی عضو ہو اس کا غلط استعمال ہوگا تو وہ اپنی متعینہ مدت سے پہلے ہی ناکارہ ہوجائے گا۔

دنیا میں انسان کی کامیابی یہ ہے کہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ اخروی کامیابی کے حصول میں گزار دے۔ ذالک الفوز العظیم۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر بندہ چلتا رہے تو دنیا میں اس کا سفر بھی جاری رہتا ہے اور اسے منزل بھی ملتی ہے۔ اس دوران اسے ٹھوکر بھی لگے تو سنبھل جاتا ہے، بنا آزمائش کے دنیا نہیں ہے نہ کوئی راستہ۔ امتحان کے بنا پتہ بھی نہیں چلتا کہ کس کی کیا اہلیت ہے۔

سیدھا راستہ بہت سادہ ہے۔ سچ بولنا ہے اور صحیح کام کرنا ہے۔ اگر مگر ادھر ادھر سب شیطانی ڈگر ہے۔ سچ بولنے میں وقت بھی کم لگتا ہے اس لیے الفاظ بھی کم ہی خرچ ہوتے ہیں۔ صحیح کام کرنے میں ایک ہی بات ذہن میں رکھنی ہوتی ہے، اللہ کی رضا۔ صرف ایک انسان کو فالو کیا جاسکتا ہے، اللہ کے آخری نبیﷺ۔ دنیا میں اور کسی انسان کو خوش رکھنے اور اس کے جیسا کرنے کا پابند اللہ نے کسی کو نہیں بنایا ہے۔

اگر کوئی سیدھی سی بات کہنے میں بہت الفاظ خرچ کرتا ہے تو وہ شیطان کے حصار میں ہے، صحیح کام کرنے میں دیر کرتا ہے یا چھوڑ دیتا ہے تو وہ سیدھے راستے پر نہیں بلکہ ٹیڑھی میڑھی کسی پگڈنڈی پر چل رہا ہے۔ یہ پگڈنڈی اسے کسی بھی کھڈے، کسی بھی گڈھے، کسی بھی کھائی، کسی بھی دلدل میں اتار دے گی۔

پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ چلنے سے پہلے ہی چال کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ پہلی چال سے ہی سفر کا آغاز ہوتا ہے، راستہ شروع ہوجاتا ہے۔ تعلیم وتربیت صرف علوم ومعارف انجیکٹ کرنے کو نہیں کہتے، دودھ کا ہر قطرہ، پانی کی ہر بوند اور کھانے کا ہر لقمہ تعلیم وتربیت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ انسان کے ہر بچے کی تعمیر میں دودھ، پانی اور کھانا کی شکل میں جو بھی پانی، سیمنٹ اور اینٹ لگتی ہے سب اچھی کوالٹی کی ہونی چاہیے۔ جیسا پانی دانہ ملے گا ویسا ہی چرتر ہوگا۔

کچے آم کو ممبئی میں کیری کہتے ہیں اور ہمارے یہاں ٹکورا۔ ٹکورا شاخ میں ہو اور اسے کوئی پتھر، اینٹ، ڈنڈا یا ڈھیلا لگ جائے، پھٹ جائے تو جیسے انسان کے جسم میں کہیں کٹتا پھٹتا ہے تو پہلے پیلا پھر کالا پڑجاتا ہے۔ یہی حال ٹکورے کا بھی ہوتا ہے۔ ٹکورا یوں تو کھٹا ہوتا ہے مگر جب پھٹنے کے بعد پیلا پڑتا ہے تو کچھ میٹھا ہوجاتا ہے۔ ایسے ٹکورے کو ہمارے یہاں پھٹلاسی کہتے ہیں۔ چونچ مار کر کھانے والے کچھ پرندے بھی ٹکورے کو پھٹلاسی بنادیتے ہیں۔

پھٹلاسی آم کی بچوں میں بڑی ڈیمانڈ ہوتی تھی۔ کسی شاخ پر نظر آجائے تو اسے پانے میں ڈھیلے نہیں گنتے تھے۔ وہ آم کا درخت اب مرحوم ہوچکا ہے، ایک شاخ پر وہ پھٹلاسی نظر آئی تو اتفاق سے پہلی ہی کوشش میں زمین پر آگری۔ میں اسی ترنگ میں تھا کہ اس نے جھپٹ کر اٹھایا اور دوڑنے لگا۔ میں نے بھی دوڑایا اور پچاس قدم کے بعد اس کے گھر سے دس قدم پہلے ہی پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ ہاتھ پکڑ کر پھٹلاسی چھینتا اس نے گپ سے اپنے منہ میں ڈال لیا۔

دبلا پتلا سا بہت تیز دوڑنے والا وہ لڑکا اب چل نہیں پاتا، تقریباً پینتیس سال کا ہوگا۔ اس کی وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے ایک تصویر دیکھی میں نے تو وہ پھٹلاسی یاد آگئی۔ پچیس سال سے زیادہ پرانی پھٹلاسی۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Siraj Ahmad

الله آپ کے قلم میں روانی اور بندے کے ساتھ رحم و عافیت والا معاملہ عطا فرمائے آمین۔

Masihuddin

MASHA ALLAH BAHUT HI UMDA