کتاب: گہے خنداں (مزاحیہ مضامین اور کہانیاں)
مصنف: ایم اے فاروقی
ناشر: مرشد پبلیکیشن،جامعہ نگر،نئی دہلی
سن اشاعت: 2022
صفحات:208
قیمت:250 روپے
’گہے خنداں‘ بائیس (22) مزاحیہ مضامین اور اٹھائیس (28) کہانیوں پر مشتمل ہے۔ فاروقی صاحب نے ’پیش لفظ‘ میں اپنے ادبی اور تخلیقی سفر کے بارے میں کئی اہم باتوں خصوصاً اردو فکشن سے دل چسپی اور کہانی لکھنے کی ابتدائی کاوشوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اس ضمن میں ڈھیر سارے فکشن نگاروں کا نام بھی لیا ہے جن میں سے اکثر کو میں پڑھ لیا تھا۔ مجھے حیرت ہے کہ اتنا کچھ پڑھنے کے بعد اور باوجود بھی انھوں نے زیر تبصرہ کتاب کے بارے میں کسی قسم کا دعوی نہیں کیا ہے، بلکہ لکھا ہے کہ ــ’’یہ مضامین کس صنف کے ذیل میں آتے ہیں، اس کا فیصلہ کرنے سے میں قاصر ہوں، یہ کہہ سکتا ہوں کہ تلاش کرنے پر ان میں انشائیہ کے کچھ نہ کچھ اجزا اور عناصر ضرور مل جائیں گے‘‘۔ (پیش لفظ، ص:11) ’’یہ کہانیاں محض تفنن طبع کے لیے لکھی گئی ہیں، بعض کہانیوں میں افسانہ پن نمایاں ہے، میں نے انھیں دانستہ محض پیش بندی کے طور پر افسانہ کہنے سے گریز کیا ہے‘‘۔ (پیش لفظ، ص:14) اور فیصلہ قاری کے ہاتھ میں دے دیا ہے جو ان کے عالمانہ انکسار کے ساتھ عرفان ذات کی بھی دلیل ہے، ورنہ یہاں پر تو ’’میں نے تو لکھ دیا ہے‘‘ کا دعوی کرنے والے قدم قدم پر ملتے ہیں۔
’گہے خنداں‘ میں شامل نگارشات میں یکسانیت نہیں، رنگا رنگی ہے۔ غم جاناں کے قصے ہیں اور غم دوراں کی کہانیاں بھی، سماجی حالات کی بے اعتدالی اور معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز ہیں، کچھ مضامین میں تاریخی شعور جھلک رہا ہے۔ کہانیوں کے موضوعات میں تنوع ہے اور حجم میں بھی، طویل، مختصر اور چند سطری کہانیاں بھی موجود ہیں۔ علامت نگاری ان کا نمایاں وصف ہے، کسی فن پارے میں علامت کے استعمال سے معنٰی کی مختلف جہتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ایک آدھ قرأت سے گرفت میں نہیں آتی ہیں اور مکرر مطالعے کا تقاضا کرتی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ: ’’اس میں ایک طرف زمزمۂ نشاط رنگ و بو ہے، بزم طرب کی شوخیاں اور رعنائیاں ہیں تو دوسری طرف حسرت و حرماں کی کچھ تصویریں ہیں، نغمۂ جاں گداز ہے، اسے آپ ان جذبات اور قلبی واردات کا عکس بھی کہہ سکتے ہیں جو آئینۂ دل میں کبھی کبھار نظر آتا ہے۔‘‘ (پیش لفظ، ص: 13)
فاروقی صاحب کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ عمیق اور فکر بلند ہے، انھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے جو کردار تراشے ہیں وہ ہندستانی معاشرے کے Multiculturalism کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ کردار جامد، مافوق الفطرت اور خوابوں کی دنیا کے شہزادے نہیں بلکہ معاشرے کے چلتے پھرتے افراد ہیں اور اپنے بھرپور تضادات اور تنوع کے ساتھ موجود ہیں اور اسی تنوع نے کہانیوں میں مسجد سے میخانے تک کا عصری منظر نامہ پیش کردیا ہے جن میں مولوی، مفتی، ناظم، حکیم، ڈاکٹر، سیٹھ، صحافی، راہب، دل پھینک عاشق، بدمزاج شوہر اور سادہ لوح بیوی سب موجود ہیں اور معاشرے کے الگ الگ مسائل کو پیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہانی کی بنت، موضوع اور کردار کے انتخاب میں معاشرتی امتیازات اور فکری انسلاکات کو نظرانداز نہیں کیا ہے جو ان کی ذہانت، عصری آگہی اور معاشرتی بوقلمونی اور تہذیبی رنگارنگی سے گہری واقفیت کی دلیل ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی کتاب ’’اردو ادب میں طنز ومزاح‘‘ میں مزاح نگاری کے جن عناصر کی طرف نشان دہی کی ہے ان میں سے موازنہ، مشابہت اور تضاد سے پیدا ہونے والی ناہمواریاں اور زبان و بیان کی کاریگری کو ہنسی کو بیدار کرنے میں معاون بتایا ہے۔ مزاح میں زود حسی اور ظریفانہ مزاج کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے اور خود پر ہنسنے کو سب سے مشکل کام قرار دیا ہے اور اس کو ایک اچھے مزاح نگار کی خوبی میں شمار کیا جو فاروقی صاحب کے اندر موجود ہے۔ اس کتاب میں شامل کم از کم دو نگارشات ’میں اور فن خطابت‘(ص:37) اور ’بکرا گزیدہ‘ (ص:54) میں خود پر ہنسنے کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مولانا حالی نے ’یادگار غالب‘ میں مرزا کو حیوان ظریف لکھا ہے، اس کتاب کے مصنف کی ظرافت، بذلہ سنجی اور شگفتگی بھی خوب ہے بلکہ ہنسنا ہنسانا ان کے معمولات زندگی میں شامل ہے۔ اسی لیے انھوں نے زندگی کے بہت سے مسائل کو مزاح نگاری کے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ان کی کہانی میں قہقہہ نہیں، تبسم زیر لب ہے’ رومی‘، ’ نسخۂ کیمیا‘ اور’ میں اور فن خطابت‘ (خاص طور پر امامت کے دوران رکوع سے اٹھتے ہوئے ان کی زبان سے’’ سمع اللہ اکبر‘‘ نکل جاتا ہے) پڑھتے وقت قاری اس تجربے سے گزر سکتا ہے۔
فاروقی صاحب کا تعلیمی پس منظر مدرسے کی دنیا تک محدود نہیں ہے، انھوں نے عصری جامعات سے بھی استفادہ کیا ہے، لیکن ان کی تدریسی زندگی اصحاب جبۂ ودستار کے درمیان گزری ہے، اسی لیے اس طبقے کے مسائل اور نفسیات کی پیش کش میں کمال نظر آتا ہے۔ ’ایثار‘، ’حلالہ خور‘ اور قصۂ درد‘ میں انھوں نے جس مہارت سے دینی میدان میں سرگرم عمل کرداروں کو پیش کیا ہے، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بطون میں جو پیغام پوشیدہ ہے، وہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں مدد کرتا ہے۔ نکتہ چین کہہ سکتا ہے کہ علما کی امیج کو زیادہ تاریک اسلوب میں پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح ’زود پشیماں‘، ’تولہ ماشہ‘، ’توکل‘، ایثار‘ میں معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز، زن و شوئی کے تعلقات اور خوش گوار نوک جھونک کو اچھے انداز سے پیش کیا ہے۔ مردوعورت کی نفسیات کا بہترین تجزیہ ہے۔ مجموعی طور پر ان کے کرداروں میں مرد کے اعمال کے تاریک گوشے سامنے آرہے ہیں۔ خواتین کے کرداروں کی پیش کش میں ان کے انداز کو تانیثیت کی تحریک سے متاثر قرار دیا جاسکتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس قسم کے ازم، نعرے اور پروپیگنڈے سے بہت دور ہیں اور ان کی منہجی وابستگی اور فکری انسلاک صیغۂ راز یا زاویہ خمول میں نہیں ہے کہ قاری کو فیصلہ کرنے میں دقت پیش آئے۔
’قصۂ درد‘ میں صدقات و عطیات کے وصول کرنے کے نظام پر ایک تبصرہ ہے جس میں مزاح سے زیادہ طنز ہے، جیسے سیٹھ جی کی دعوت اور جن کے باپ مدرسہ کھول کر مرے وغیرہ۔ انھوں نے اس مضمون میں چندہ کے نظام اور اس کے متنوع کرداروں کے بارے میں جتنی صراحت اور صداقت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زمینی حقائق سے کتنی اچھی طرح واقف ہیں۔ چندے کا نظام ہماری ضرورت ہے لیکن اس میں در آئی بے اعتدالی اور بدعنوانی سے پورا نظام ہی شک کے دائرے میں آگیا ہے۔ ان کا چندہ سے غالبا عملی تعلق بھی رہا ہے، لیکن اگر نہیں بھی رہا ہے تو اس کے کرداروں کے ساتھ ایک طویل تعلق رہا ہے جس کی وجہ سے اس راہ کے پیچ وخم سے خوب واقف ہیں۔ انھوں نے مدارس میں رائج چندے کے نظام کو جس انداز سے کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے، وہ تخلیقی ادب کا حصہ کم ہی بن پاتا ہے۔ اس کی پیش کش میں تجربات و مشاہدات نے مل کر کمال کردیا ہے، سفرا کے مزاج، نفسیات، حرکات و سکنات کا اتنا بھرپور اور ہمدرادانہ تجزیہ کم از کم ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا ہے۔ اس کے ساتھ اس نظام کے دو اہم کرداروں جیسے ناظم اور سیٹھ کے رویے، برتاؤ اور سلوک کی جیسی تصویر کشی کی ہے، ہوسکتا ہے بعض لوگوں کی نظر میں قابل اعتراض ہو اور اس میں ملکی اور بین الاقوامی سازش کی بو بھی سونگھ لیں، لیکن سچائی وہی ہے جواس کتاب کے صفحات پر بکھری ہوئی ہے۔
بنارس، ان کی جنم بھومی نہ سہی، کرم بھومی ضرور ہے، ایشیا کے اس قدیم ترین شہر میں انھوں نے اتنے ماہ وسال گزارے ہیں کہ ان کو ’بنارسی‘ کہا جاسکتا ہے، لیکن بنارسیت کا لیبل نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی تعلیم اسی شہر میں ہوئی ہے، ان کے کئی رشتے داروں کا تعلق اسی زمین سے رہا ہے، خود انھوں نے اسی کی فضا میں افتاد سیکھی ہے اور پرواز بھی، اسی لیے ان کی نگارشات میں اس شہر کا عکس جھلکتا ہے۔ وہ بنارس کی تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ سے بخوبی واقف ہیں، کئی دہائیوں سے یہاں کے معاشرتی اور ادبی نشاطات کا حصہ بلکہ ایک ناقابل فراموش کردار رہے ہیں، اسی لیے ان کی نگارشات میں بنارس چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ بنارس کے بازار، دانش گاہیں، گلی کوچے، بازار حسن اور گنگا ندی کے مناظر سب موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کی نگارشات سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے علی گڑھ کی تاریخ، تہذیب اور جغرافیہ سے بھرپور واقفیت ضروری ہے۔ فاروقی صاحب کی نگارشات کے بارے میں بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں بھی ’کاشی کے سانڈ‘، ’بنارسی دبنگ‘ اور ’ ٹائم پاس‘ میں بنارس جلوہ گر ہے۔ چند سال پہلے منظر عام پر آنے والی ان کی کتاب ’دام ہر موج‘ میں بھی بنارس کی تاریخ، تہذیب اور معاشرت پر کئی ایک مضامین تھے اور اچھوتے انداز میں شہر کی الگ الگ خصوصیات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو کام یاب تھی اور مستحسن بھی۔
اس کتاب کے مضامین اور کہانیوں میں آپ بیتی کا عنصر بھی موجود ہے۔ ’بڑ بھس‘(ص:) ’میں اور فن خطابت‘(ص:37) اور ’چوتھا مکان‘ (ص:135) کی قرأت سے ان کی ذاتی زندگی کے کچھ گوشے سامنے آتے ہیں، جو ان کے جہد مسلسل اور زندگی کے نشیب وفراز کی داستان کو بیان کرتے ہیں جن میں مزاح ہے، زندگی کے تلخ اور سفاک حقائق ہیں، ایک متوسط طبقے کے جہد مسلسل کی داستان ہے، یہ آپ بیتی ضرور ہے لیکن جگ بیتی بھی ہے۔ قاری، اس مضمون کی قرأت سے لطف اندوز ہوگا اور متاثر بھی لیکن یہ جملہ لکھتے ہوئے ان پر کیا بیتی ہوگی، اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
’’شب غم دراز ہوتی گئی اور اندھیرے بڑھتے گئے پھر ایک قیامت ہم پر ٹوٹ پڑی، زندگی کی بے ثباتی کفن اوڑھے سامنے کھڑی الم خیز نوحے سنانے لگی، ایسی برق گری کہ آشیانہ ہی جل گیا، ہم تو قفس کی تیلیاں بھی نہ توڑ سکے اور ہماری دم ساز رفیق سفر نے پنجرے کا دروازہ توڑ کر رہائی حاصل کر لی، میں نے تو زندگی کے اس سفر کو مستقل پڑاؤ سمجھ لیا تھا اور آشیانہ پر آشیانہ بناتا رہا، مگر تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ، بھلا کوئی اپنی ملکیت کو آسانی سے چھوڑتا ہے، مگر وہ ایسے دستبردار ہوئیں جیسے کسی اور کی چیز تھی، ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد یہ مکان خرابے میں تبدیل ہوگیا۔ ‘‘(ص:145-44)
مخدوم نے کہا تھا کہ
ہم نے ہنس ہنس کے تری بزم میں اے پیکر ناز
کتنی آہوں کو چھپایا ہے تجھے کیا معلوم
فارقی صاحب نے اپنی کہانیوں؍مضامین کے بارے میں بلند بانگ تو چھوڑیے، سرے سے کوئی دعوی ہی نہیں کیا ہے۔ ’’میری کہانیوں کے بین السطور میں نہ زیریں لہریں ہیں، نہ یہ پرت در پرت ہیں، نہ ان میں معنویت کی دنیا آباد ہے، نہ ان میں معاشرت کے سنگین مسائل ہیں، نہ ان میں حسن و عشق کی رنگینیاں ہیں، نہ جنس کے چٹخارے ہیں، نہ مکالمے کٹیلے ہیں، بس یہ سادہ سی کہانیاں ہیں‘‘۔ (پیش لفظ، ص: 14-15)
اور میری نظر میں یہی سادگی ان کا حسن ہے، کیونکہ ’سادگی میں بھی قیامت کی ادا ہوتی ہے‘۔ فاروقی صاحب کے ذاتی خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ان کی کہانیوں میں، معنویت اور مقصدیت کی ایک دنیا آباد ہے لیکن اس کی پیش کش میں جو ادبی اسلوب اختیار کیا ہے، اس نے اس کو پروپیگنڈہ ادب سے بالکل الگ کردیا ہے۔ یہ کہانیاں موجودہ معاشرے کے انسان کی بے چہرگی اور بے ضمیری کو درشاتی ہیں، خاص طور پر مذہبی طبقے کے گفتار وکردار میں جو تضاد ہے، وہ کئی ایک کہانیوں میں موجود ہے اور میری نظر میں یہی کہانیوں کی مقصدیت ہے، ہاں، انھوں نے بعض ادیبوں کی طرح مقصدیت کو اوڑھ نہیں رکھا ہے۔ ’حلالہ خور‘ کے مفتی رجب علی، ’ایثار‘ کے مولانا تقی قادری، ’سارا جھگڑا پیٹ کا‘ کے مولوی تبارک علی اور حضرت جی اور’ قصۂ درد‘ کے چچا جان اور سیٹھ جی سماج کے کھوکھلے پن، بے اعتدالی اور مذہبی طبقے کی مادیت پسندی اور ارباب دانش کی عیاری کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس سے بڑی Irony اور کیا ہوسکتی ہے کہ قدم قدم پر مذہبی احکامات کا راگ الاپنے والے معاشرے میں مذہب، خود اجنبی بن گیا ہے جس کو فاروقی صاحب نے تخلیقی ہنرمندی اور فنی تقاضے کی مکمل رعایت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس وقت مجھے فضا ابن فیضی کی ایک طویل نظم (’یہ شب گزیدہ سحر‘، شعلۂ نیم سوز، فیضی پبلیکیشنز،مئوناتھ بھنجن، 1978) یاد آرہی ہے،ہاس کے صرف تین بند ملاحظہ فرمائیں:
اب بھی ہے مدرسوں میں اہل بصیرت کا ہجوم
خود انھیں پر مگر اسرار جنوں فاش نہیں
کھوچکے اپنی چمک، ان کی نگاہوں کے نگیں
اب وہ جلوے ہیں، نہ وہ تابش ایمان وعلوم
اب بھی مسجد کے مناروں پر مچلتی ہیں اذاں
مگر اس نغمے کی گیرائی کہیں سوتی ہے
وہ لپک گم ہے وہ برنائی کہیں سوتی ہے
جس کی لو دیتی تھی خاموش چراغوں کو زباں
آج بھی ہونٹوں پہ کھلتے ہیں وظائف کے کنول
ناتواں روح کی کھیتی نہیں شاداب مگر
نفس کی دھند میں لپٹی ہے ضمیروں کی سحر
دونوں بے کار ہیں مضراب یقیں، ساز عمل
فضا ابن فیضی نے اس نظم میں معاشرے کے جن اہم مسائل کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا تھا، وہ اس کتاب کی کئی ایک کہانیوں میں علامت کے لباس میں موجود ہیں اور قاری کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ دعوت فکر بھی دیتی ہیں۔
فاروقی صاحب اردو کے الفاظ، تراکیب اور اسالیب کے مزاج شناس ہیں، زبان کے تخلیقی استعمال پر بے پناہ قدرت رکھتے ہیں، ان کی تحریر بالیدہ حس مزاح کی غمازی کرتی ہے، وہ بیک وقت اپنے تخیل کی ندرت اور اسلوب کی دل نشینی دونوں سے کام لیتے ہیں۔ وہ بامحاورہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ طول طویل نہیں مختصر جملے لکھتے ہیں اور کم الفاظ میں زیادہ باتیں کہہ جاتے ہیں۔ کہانی کے عنوان بھی یک لفظی ہیں، ہاں اکادکا سعید مرزا کی فلموں کے ٹائٹل کی طرح طویل بھی ہیں۔ ان کے یہاں لفظی اسراف نہیں ہے جو بڑی محنت اور جتن سے پیدا ہوتا ہے۔ یہاں پر چند جملے پیش کیے جارہے ہیں جن سے ان کی تخلیقی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’لیکن منہ کو لگی ہوئی کافر جلدی چھٹتی نہیں ہے‘‘۔ (ص:41) ’’ہم خرما نہ سہی ہم ثواب کے حق دار تو ہوگئے ہیں‘‘۔ (ص:58) ’’ایک قامت تھی جو میرے لیے قیامت بن گئی‘‘۔ (ص:61) ’’افسوس کے مارے ہنسی کے فوارے چھوٹ پڑتے ہیں‘‘۔(ص:65) ’’خوش قسمت ہیں وہ لڑکے جن کے باپ مدرسہ کھول کر مرتے ہیں اور آنے والی تین نسلوں کے لیے معاش کا انتظام کرجاتے ہیں‘‘۔(ص:89) ’’شب بیداری کی وجہ سے آنکھیں خون کبوتر بن گئی تھیں‘‘۔(ص:162) ’’بس چھلنی میں پانی بھروانا چاہتا ہے‘‘۔(ص:199) ’’پہلے ان آفت کے پرکالوں سے میرا پیچھا چھڑاؤ‘‘۔ (ص:203)
فاروقی صاحب کے جملے مختصر ہوتے ہیں لیکن معنی سے بھرپور، جب وہ اپنے کرداروں کا تعارف کراتے ہیں تو ان کی شخصیت نگاری کا فن بھی سامنے آجاتا ہے۔ ’طریقہ علاج‘ میں ایک کردار کا تعارف اس انداز میں پیش کرتے ہیں۔
’’پروفیسر صاحب کی شکل و صورت ہوچی منھ سے بہت ملتی جلتی تھی، آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور چمک دار تھیں، داڑھی مخروطی اور گاجری تھی یعنی گاؤدم کی شکل میں پتلی ہوتی چلی گئی تھی، مونچھیں چھدری تھیں،ہسر کے بال سادھووں کی طرح لمبے اور ایک دوسرے میں پیوست تھے، جیسے مدتوں سے آپ نے غسل نہ کیا ہو، میں ان کو دیکھ کر کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کرسکا۔‘‘(ص:103)
’گہے خنداں‘ کی قرأت کے دوران میں ہماری ملاقات ایک ایسے انشائیہ نگار؍کہانی کار سے ہوتی ہے جو ایک بیدار اور ذمے دار شہری ہے، وہ اپنے سماج کے چھوٹے بڑے مسائل سے واقف ہے، معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز سے آگاہ ہے، تعلیمی نظام کی خوبیوں اور خامیوں سے بے خبر نہیں ہے، سیاسی حرکیات اور ناہمواریوں کے ساتھ اقتصادی بے اعتدالی کے مظاہر پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اسی لیے جب وہ سماج کے کسی ایک پہلو پر اظہار خیال کرتا ہے تو اس کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد جارگن نہیں ہے لیکن ایک واضح فکر ہے اور اس کو پیش کرنے کے لیے مناسب اور موزوں الفاظ بھی۔ ان کہانیوں سے ان کی سماجی زندگی کے سروکار کا پتہ چلتا ہے، انھوں نے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو ’جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے‘ کا روپ دے کر تخلیقات کو آفاقی رنگ عطا کردیا ہے۔ ان کا دعوی تو اصلاح پسندی کا نہیں ہے محض تفنن طبع ہے لیکن اصلاحی جذبات کی زیریں لہر موجود ہے، پر اسلوب میں مفتیانہ انجماد اور واعظانہ خشکی اور یبوست کا گزر تک نہیں ہے۔ ادبیات اور دینیات تو خیر ان کا میدان ہے اور موضوع بھی لیکن دیگر علوم جیسے سماجیات، سیاسیات، نفسیات حتی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی معلومات و مسائل کو جس انداز سے تخلیقی انداز میں پیش کیا ہے، وہ خوب ہے۔
اردو زبان کی ترقی و توسیع اور ایک حد تک اردو ادب کے فروغ میں مدارس کے کردار سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن مدارس کی موجودہ نسل کا زیادہ زور دینیات اور فقہی ادب پر ہے، اسی وجہ سے مدارس کے مجلات اور طلبہ میگزین میں شائع ہونے والے مضامین اپنے معیاری ہونے کے باوجود تخلیقی ادب سے تقریباً خالی ہوتے ہیں۔ ادبیات پر اچھے مضامین کی مسلسل اشاعت کے باوجود طلبہ میگزین میں شاید ہی کبھی کوئی کہانی؍انشائیہ شائع ہوا ہو۔ میں مدارس کے نئے فضلا میں کئی سے واقف ہوں جو زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں اور تخلیقی ہنر سے بھی مالا مال ہیں، لیکن اس کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ فاروقی صاحب کے خاص شاگردوں میں ایسے نام نظر آرہے ہیں جو افسانوی اور غیر افسانوی ادب کی طرف توجہ دے رہے ہیں، یہ لکھتے وقت میرے ذہن میں طارق اسعد، یاسر اسعد اور عاصم افضال وغیرہ کے نام ذہن میں ہیں، اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن مجھے ان کی نگارشات کو پڑھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام مرشد پبلیکیشن نے کیا ہے، اس کے بارے میں ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں اور’ مرشد نامہ‘ میں ابوالمیزان نے اس اشاعتی ادارے کے مختصر مگر رنگارنگ سفر کے بارے میں پہلے پیرا گراف میں جو کچھ لکھ دیا ہے، اب اس پر کسی اضافے کی گنجائش نہیں ہے۔ مجھے امید ہے یہ کتاب شوق اور دل چسپی سے پڑھی جائے گی اور نئی نسل کے قلم کاروں سے امید ہے کہ اس سے سیکھ کر فاروقی صاحب کی اس وراثت کو آگے بڑھائیں گے۔
آپ کے تبصرے