’’آبشار خیال‘‘ کی پاکیزہ پھوار سے روح سرشار ہوجاتی ہے

ڈاکٹر شمس کمال انجم تعارف و تبصرہ

اگر کوئی مذہبی عالم شاعر بھی ہو ادیب بھی ہوتو ظاہر ہے وہ بہت حساس بھی ہوگااور اس کی حساسیت کاچشمہ اس کے مذہبی اخلاق واقدار کی تہوں سے ہوکر جاری ہوتا ہوگا۔ لہٰذا ایسے کسی شخص کی فکر میں’’ آب زمزم‘‘ کی پاکیزگی، خیالات میں ’’ماء طہور‘‘ کی چاشنی، زبان وقلم میں’’ آب حیات‘‘ کی تازگی محسوس کرنا محال است وجنوں والی بات نہیں۔در اصل شعبان بیدار کی تقریروتحریر اور زبان وقلم سے جب ہم روبرو ہوتے ہیں تو اسی طرح کے افکار تازہ کے گل بوٹوں کی بھینی بھینی خوشبو سے ہماری روح سرشار ہوجاتی ہے۔ منصورہ(مالیگاؤں) کے دریا کا خرام ان کی تحریروں میں اس طرح سمٹ آتا ہے کہ وہ جب بہتا ہے تو بس بہتا جاتا ہے۔ اس کے سامنے آنے والے سنگ گراں کبھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ شعبان بیدار کی تحریروں کو پڑھ کرقاری ایسے ہی احساس سے دوچار ہوتا ہے اوروہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ شعبان بیدار جب لکھنے بیٹھتے ہیں تواپنے طائر تخیل کو ’’ ون ٹو تھری گو‘‘ کہہ کر جب آزاد کرتے ہیں تو وہ یک جست میں منزل آشنا ہوجاتا ہے۔ ان کی تحریر فرفر کرکے بغیر کسی آورد وتکلف کے کمال کی منزل سے ہم آغوش ہوجاتی ہے۔

شعبان بیدار کی تازہ کتاب ’’آبشار خیال‘‘ پڑھ کر میں اسی طرح کے احساسات سے دوچار ہوا۔ان کے خیالات کے آبشاروں کے نیچے جب آپ نہائیں گے تو ان کی زمستانی سردی سے نہ تو آپ کے دانت کڑکڑائیں گے نہ ہی ان کی گرمی سے آپ تکلیف کا حساس کریں گے۔ ایسا محسوس ہوگا جیسے کہ یہ آبشار آپ کے احساسات ومزاج اور جسمانی وروحانی تراوٹ سے مکمل ہم آہنگ ہوکر آپ پر برس رہا ہے۔ایسے ایسے خیالات کی پھوار آپ پر پڑے گی کہ آپ کی روح سرشار ہوجائے گی۔ایسے ایسے موضوعات کے موتی آپ کی جھولی میں گریں گے کہ آپ کی زنبیل فکر مالا مال ہوجائے گی۔ ساتھ ساتھ آپ یہ بھی محسوس کریں گے کہ کاش ان موتیوں سے ساری دنیابھی مالامالا ہوجائے۔ ان قطرات میں سارا عالم نہاکر اپنی روح کو پاکیزہ خیالات سے سرشار کر بیٹھے۔

ایسے موضوعات جو بہت حساس ہیں۔ جن پر بات کرنا از بس ضروری ہے۔ جن پر قلم اٹھانا جگر گردے کا کام ہے۔ جن پر سوچنا صالح اقدارکے بغیر نا ممکن ہے۔ جن پر روشنی ڈالنے کے لیے فکر کی بالیدگی ضروری ہے۔ یہ بھی ہے کہ اگر ان موضوعات پر سنجیدگی سے غور نہیں کیاگیا تو یوں سمجھیے بہت نقصان ہوجائے گا۔ ایک ایسی نسل کی آپ کاشت کریں گے جو فکر وفہم اور روح وجسم دونوں اعتبار سے ضعیف الخلقت ہوگی۔ نہ اس میں حس ہوگی نہ حرکت۔ نہ دماغ ہوگا نہ عقل۔ نہ ذہن ہوگا نہ فکر۔ بھیڑ چال کی حامل اس آنے والی نسل کو عقابوں اور شاہینوں کے پنکھ عطا کرنے کی تگ ودوسے سرشار نظر آتا ہے شعبان بیدار کا’’آبشار خیال‘‘۔

’’آبشار خیال’’ میں خیالات کی پاکیزگی بھی ہے اورروحانیت بھی۔فکر کی رفعت بھی ہے اور بلندی بھی۔زبان وقلم کی چاشنی بھی ہے اور ادبیت بھی۔ یہ کتاب شعبان بیدار کو صالح اقدار کی حامل ایسی مفکرانہ شان سے آراستہ کرتی ہے جو مذہبی علماء کے قبیلے میں کم کم نظر آتی ہے۔صالح اقدار کے حامل بہت سارے دماغ مل جائیں گے لیکن ان میں شعبان بیدار کی گہری سوچ، بحری وسعت اور فکری رفعت کم ملے گی۔ اسی لیے شعبان بیدار نے ایسے موضوعات کو ٹچ کیا ہے جن پر ایک مفکر ہی سوچ سکتا ہے۔ جن پر وہی قلم اٹھاسکتا ہے جس کا ذہن کسی خول میں بند نہ ہو۔جو ’’فقہ الواقع‘‘ کی گتھیوں سے کما حقہ واقف ہو، اس کے الجھے کاکلوں کو وہ سلجھا سکتا ہو۔ ورنہ ’’انفارمیشن ٹکنالوجی، سوشل میڈیا، واٹس اپ کا فتنہ، جنسی اشتعال، ایڈلٹ موویز، جنسی تعلیم،سنگل پیرنٹ(بدکاری کی نئی پیکنگ) سرعت انزال، بدفعلی کی بیماری،سگریٹ نوشی اور خواتین، لیو ان رلیشن شپ، سائبر فتنہ، مشت زنی اورننگی آوازیں‘‘ جیسے ہمعصر حساس مسائل پر شاید سب کی نظریں ہوں لیکن ان پر دین ودنیا کے امتزاج کے ساتھ رہنما اصول مہیا کرنا، ان کی گہرائیوں، گیرائیوں ان کے مالہ و ماعلیہ پر نظر رکھ کر قلم اٹھانا، اپنے اشہب قلم کو شاہراہ خیال کے ’’لفٹ رائٹ‘‘ موجود بڑی بڑی کھائیوں میں گرنے سے بچاکر اسے دوڑانا سب کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے صالح فکر کے ساتھ ان موضوعات پر وسعت وگہرائی کے ساتھ سوچنے کا ملکہ بھی حاصل ہونا چاہیے۔ شعبان بیدار نے ان موضوعات پر لکھ کر خود کو صالح اقدار کے حامل سماجی مفکرین کی صف میں شامل کرلیا ہے۔ یہ کتاب انھیں ایک عالم دین اور صالح فکر کے حامل ادیب کے ساتھ ساتھ انھیں ایک مفکر کی شان عطا کرتی ہے۔ ایسا مفکر نہیں جو صر ف اپنی صحیح غلط فکرقاری پر مسلط کرنا چاہتا ہو بلکہ ایسا مفکر جس کی فکر میں قوم کے لیے ہمدردی نظر آتی ہے۔ جو نسل نو کو سیدھے راستے کے دائیں بائیں موجود کانٹوں سے دامن بچا کر چلنے کی خو عطا کرتی ہے۔

اس کتاب کو پڑھ کرمجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں سوچنے لگا کہ کیا کسی دینی مدرسے کے خول میں بند کوئی مذہبی عالم ایسا بھی سوچ سکتا ہے؟ کوئی مذہبی فکر اس طرح بھی نسل نو کو گائیڈ کرسکتی ہے۔ شعبان بیدار اس معاملے میں انفرادی شان رکھتے ہیں۔ میں نے یہ کتاب ایک نشست میں پڑھ ڈالی۔ مساجد ومدارس سے وابستہ افراد کو اس کتاب کو پڑھ کر اپنے فکری دھاروں میں تنوع کے ساتھ وسعت بھی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس انداز میں سوچ کر آگے بڑھنے کے راستے کا تعین کرنا چاہیے۔ تاکہ نسل نو کو ان روحانی وجسمانی بیماریوں سے بچایا جاسکے جن کا کوئی صحیح معالج تو دور ان کی تشخیص کرنے والا، ان کا’’ ایم آر آئی اور اکسرے‘‘ کرنے والا بھی مشکل سے ملے گا۔

وہ موضوعات جنھیں میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس کتاب کا اہم حصہ ہیں۔ ایسا حصہ جو اس کتاب کو منفرد کتابوں کی صف میں لے جاتا ہے لیکن ان کے علاوہ موضوعات بھی کتاب کے علمی ادبی وقار کو زیب وزینت بخشتے ہیں۔’’قرآن کریم میں مجاز اور مترادفات قرآن کریم‘‘ ان علمی موضوعات میں بہت اہم ہیں۔اس کتاب میں ’’قرآن کریم میں مجاز‘‘ کی بحث دیکھ کر مجھے مدینہ یونیورسٹی کے وہ دن یاد آگئے جب بلاغت پڑھانے والے ہمارے استاد محترم پروفیسر کامل جان نے اس مسئلے پر بڑی زور دار بحث کی۔ پروفیسر کامل جان کو عربی بلاغت کا امام تصور کیا جانا چاہیے۔ وہ اس فن کے ایسے عالم تھے جو امام عبد القاہر جرجانی کا نام لیتے وقت کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ یوں سمجھیے وہ باوضو ہوکر، دوزانو بیٹھ کر اعوذ باللہ بسم اللہ پڑھ کر پوری عقیدت واحترام کے ساتھ ان کا ذکر کرتے تھے۔ اپنے ’’نادیدہ اور معنوی‘‘ استاد کا ایسا محترم تذکرہ کہ کوئی طالب علم اگر اس لہجے کو دیکھ لے تو اسے اساتذہ کے احترام کا سلیقہ آجائے۔ بہر حال اس وقت قرآن کریم میں مجاز کے وجود پر بحث چھڑی ہوئی تھی۔ علماء کا دو گروہ تھا۔ ایک وہ مذہبی علماء جو قرآن کریم میں مجاز کے وجود کا سرے سے انکار کررہے تھے۔ دوسرے وہ مذہبی عالم و ادیب جو قرآن کریم میں مجاز کے وجود کی وکالت کررہے تھے۔اس موضوع پر سب کے اپنے اپنے زبردست دلائل۔ لیکن علماء کا ایک گروہ وہ بھی تھا جو درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ قرآن کریم میں مجاز موجود ہے لیکن اس کا تعلق باری تعالی کی صفات کے علاوہ باب سے ہے۔ صفات باری تعالی کی تاویل کسی طرح ممکن نہیں۔ نہ اس میں مجا ز کا کوئی دخل ہوسکتا ہے۔ اس کی صفات کوحقیقت پر محمول کیا جائے گا۔ ان میں مجاز کی بات کہہ کر تاویل کا دروازہ کھولنے کی گنجائش موجود نہیں۔’’مترادفات قرآن مجید‘‘ بھی ایک ایسا حساس موضوع ہے جس پر بہت لکھا گیا ہے۔ شعبان بیدار نے ان دونوں موضوعات پر اپنی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

شعبان بیدار چونکہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب و شاعر بھی ہیں اس لیے ان کی یہ خو اس کتاب میں جابجا محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کی تحریر کے ہر جملے میں ان کی ادبیت جھلکتی ہے۔ کچھ جملے تو بہت بامحاورہ صادر ہوگئے ہیں۔’’صدراء‘‘ کا ایک لفظ بھی ایجاد کرکے انھوں نے اپنی ’’لسانی فقاہت‘‘ کا اعلی ثبوت دیا ہے۔ ایسے ایسے شاندار ادبی جملے شعبان بیدا ر کی ٹکسال سے ڈھلے ہیں جن کو بطور مثال یہاں ذکر کرکے اس مضمون کو میں بوجھل نہیں کرنا چاہتا حالانکہ میں نے انھیں نشان زد کیا ہوا ہے۔سنن ترمذی کی حدیث ہے۔ صحابی کہتے ہیں کہ میں اور رسول گرامی عام الفیل میں پیدا ہوئے لیکن وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں ان سے پیدائش میں قدیم۔ اس حدیث کی تشریح وتوضیح شعبان بیدار کی ادیبانہ مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ ایسی احادیث کے بین السطور میں شامل ادیبانہ اسرار ورموزسے وہی محظوظ ہوسکتے ہیں جو خود ادبیانہ مزاج کے حامل ہوں۔ ایسی باتیں لکھتے وقت مجھے میرے بڑے بھائی، میرے استاد حماد انجم ایڈوکیٹ یاد آجاتے ہیں جو اکثر جمعہ کے روز خطبۂ جمعہ سن کر مجھ سے پوچھتے تھے بھئی شمس یہ بتاؤ کہ یہ کیسی تعبیر ہے؟ یہ کیسا جملہ ہے؟ یہ تم مولوی لوگ کس طرح کی زبان استعمال کرتے ہو۔ کبھی کبھی وہ اپنی تحریروں میں لکھتے تھے کہ ایسی زبان ’’ہمارے یہاں کے مولوی لوگ بولتے ہوئے سنے گئے ہیں‘‘۔نعوذ باللہ میں اس مقدس مذہبی گروہ پر تنقید نہیں کررہا لیکن شعبان بیدار جیسے مذہبی عالم وادیب پر جب بات ہوگی تو یہ بات ضرور آئے گی کہ ادب کا ذوق اگر کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو اس کی شخصیت دو آتشہ ہوجاتی ہے۔ ورنہ مولانا کوثر نیازی کہتے تھے کہ ’’جس میں ادبی ذوق نہ ہو وہ روئے زمین پر بوجھ ہوتا ہے‘‘۔ ادبی ذوق سے عاری کسی شخص سے ادبی لہجے میں بات کرنا بھی ’’خطرے دارد‘‘ والی بات ہوتی ہے۔

اس کتاب میں شعبان بیدار ایک ایسے مربی کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں جس کی مربیانہ طریقت کسی تھیوری سے حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ ان کے تدریسی تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے۔ طلبہ کیسے ادبی مزاج پیدا کریں۔ وہ کیسے ادیب بنیں۔ ان میں قلم کی طاقت کیسے حاصل ہو؟ یہ موضوع بھی اس کتاب کا بہت اہم موڑ ہے جو طالبان ادب کی تشنگی کو فرو کرکے انھیں ادب کے سمندر کا تیراک بناسکتا ہے۔’’ادب میں ارتداد کی لہریں اور نعت گوئی میں مبالغہ آرائی‘‘ جیسے مضامین یہ بتاتے ہیں کہ ادب بھی کوئی شتر بے مہار نہیں جسے جہاں تہاں جانے کی اجازت تامہ حاصل ہو بلکہ اسے کبھی بے لگام نہیں ہونا چاہیے۔

اس کتاب میں استاذ الاساتذہ، ادیب زماں مولانا ابو القاسم فاروقی کا پیش لفظ بھی خوب تر ہے لیکن سرفراز فیضی صاحب کے مضمون نے مجھے واقعی چونکا دیا۔ در اصل وہ بھی اسی مذہبی علماء کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جو ادب کے’’ اچار مربوں‘‘ سے چٹخارے لیا کرتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے بڑے عالمانہ وادبیانہ انداز میں ’’آبشار خیال‘‘ اور شعبان بیدار کے فکر وفن کا جائزہ لیا ہے۔

اس کتا ب کے مرتب ابو المیزان صاحب بھی ہمارے شکر وسپاس کے مستحق ہیں جنھوں نے اس کتاب کو مرتب کرکے قارئین تک پہنچایا۔ میں سمجھتا ہوں ابوالمیزان بھی مولانا فاروقی، شعبان بیدار اور سرفراز فیضی جیسے عالم ادیبوں کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ صرف ادب کا ذوق رکھتے ہیں بلکہ وہ فکر کی دولت سے بھی مالامال ہیں۔ قوموں کے عروج وزوال کے اسباب وعلل اور حلول سے آشنا ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اس کتاب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ شکریہ اس کتاب کے پبلشر عبدالقدیر مرشد کا جو کسی کو بھی اپنی کتابیں بغیر قیمت نہیں بھیجتے۔ ظاہر ہے اگر’’ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا‘‘؟۔ چنانچہ وہ مجھے بھی مفت میں کتاب نہیں دیتے۔ میں ان کی بھیجی ہوئی کتابوں پر تبصرے کرکے، سوشل میڈیا پر اسے پوسٹ کرکے، اسے آٹھ دس ہزار لوگوں تک پہنچاکر کتاب کی وہ قیمت ادا کرتا ہوں جسے زیادہ تر لوگ ادا نہیں کرپاتے۔

میں سمجھتا ہوں یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر صغیر وکبیر، عالم وعامی، اپنے اور غیر سب کو پڑھنا چاہیے۔ کتاب بہت شاندار گٹ اپ میں شائع ہوئی ہے۔ اشاعت وطباعت کی خامیاں تو ہماری کتابو ں کا حصہ بن گئی ہیں کیوں کہ بیچارہ مولف ومصنف آج کتاب خود لکھتا ہے۔ خود پرنٹ نکالتا ہے۔ خود پروف پڑھتا ہے اور خود بھاری قیمت دے کر اسے شائع کراتا ہے۔ اسی لیے ان کتابوں میں پروف کی خامیاں رہ جاتی ہیں۔ میں خود ان مسائل سے دو چار ہوتا ہوں۔ پروف پڑھنے والے ملتے نہیں۔ اور خود پروف پڑھتے ہیں تو غلط لفظ کو بھی صحیح پڑھ کر گزر جاتے ہیں اور پروف کی تصحیح واصلاح نہیں ہوپاتی۔

خلاصہ یہ کہ’’ آبشار خیال‘‘پاکیزہ افکاروخیالات کی روانی سے آراستہ وہ کتاب ہے جو عصر حاضر کی چند فکری کتابوں میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ لوگوں میں اسے پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی درخواست گزاری جاسکتی ہے۔ شعبان بیدار کے بیداز مغز ذہن کو اس کتاب کے لیے بہت بڑا سا ایوارڈ بھی دے دیا جائے تو کوئی بعید بات نہیں ہوگی۔
نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں:9990674503

آپ کے تبصرے

3000