بدعت دین میں نئے کام کا نام ہے تو معصیت احکام الہی کی خلاف ورزی کو کہا جاتا ہے، دونوں کے دونوں اللہ کی نافرمانی کی شکلیں اور اس کی ناراضگی کو دعوت دینے والے کام ہیں۔ تاہم اگر ان دونوں کا آپس میں موازنہ کیا جائے اور دین میں ان کی درجہ بندی دیکھی جائے تو بدعت ، معصیت اور گناہ کی دیگر شکلوں کے مقابلے زیادہ بری اور بڑی نافرمانی ہے۔
حضرت سفيان ثورى رحمہ الله کا فرمان ہے:
إن البدعة أحب إلى إبليس من المعصية(ذم الكلام وأهله:٥/١٢١)ابلیس کے نزدیک بدعت گناہ اور معصیت سے زیادہ محبوب ہے۔
یعنی ایک قاتل، ایک شرابی، ایک زانی، ایک سود خور اور ایک چور سے زیادہ ایک بدعتی – چاہے وہ کسی بدعت کا موجد ہو یا رائج بدعت پر عمل پیرا ایک عام انسان – شریعت مطہرہ کے مطابق اللہ کی نظر میں زیادہ مبغوض اور شیطان کا زیادہ محبوب ہے ۔
بدعت کے گناہ سے زیادہ بڑے ہونے اور بدعتی کے ایک گنہگار سے زیادہ برے ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔
(۱)سفیان ثوری رحمہ اللہ اس کی ایک وجہ یہ بیان فرماتے ہیں:
لأن البدعة لا يُتاب منها والمعصية يُتاب منها۔(ذم الكلام وأهله:٥/١٢١)کیونکہ بدعتی اپنے عمل کو گناہ نہیں مانتا لہذا اس کے دل میں اپنے عمل سے توبہ کا خیال ہی نہیں پیدا ہوتا جبکہ ایک گناہگار گناہ کرتے ہوئے بھی احساس جرم کا شکار ہوتا ہے ۔
(۲)بدعتی گنہگار کے مقابلے اپنے عمل کو کار ثواب سمجھتا ہے لہذا ہمیشہ اس راہ میں آگے بڑھنے ہی کی فکر میں رہتا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کی بات اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتی ۔
یہی وجہ ہے کہ نبى صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن الله حجب التوبة عن صاحب كل بدعة(اللہ تعالیٰ نے بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے)
اسی مفہوم کو بعض اہل علم نے یوں تعبیر کیا ہےکہ: بدعتی کی توبہ نہیں ہے یا بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔
(الطبراني.وقال الهيثمي :رجاله رجال الصحيح غير هارون بن موسى الفروي، وهو:ثقة.وقد حسنه المنذري وصححه الألباني الصحيحة ١٦٦٠)
(۳) بدعت کے زیادہ بڑا جرم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گناہ کا نقصان فرد تک یا زیادہ سے زیادہ سماج کے دیگر افراد تک ہوتا ہے جبکہ بدعت کا اثر اس سے آگے شریعت مطہرہ تک پہنچتا ہے ، بدعت کے نتیجہ میں شریعت اسلامیہ تبدیلی و تحریف کا شکار ہوجاتی ہے، بدعت سیدھے سیدھے دین کو بدل دینا ہے ۔ پھر ایک ایک بدعت ایک ایک سنت کی جگہ لینے لگتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ سارا دین بدل جاتا ہے۔(لا يبقى من الإسلام إلا اسمه ولا يبقى من القرآن إلا رسمه)
(۴)کبائر کے مرتکبین آپس میں گناہ میں شریک ہوکر بھی ایک فرقہ یا گروہ نہیں بنتے جبکہ بدعت گروہ بندی کو جنم دیتی ہے، امت میں تفرقہ بازی کا سبب بنتی ہے، اس طرح بدعات امت کے اندر افتراق و گروہ بندی کی اصل وجہ اور اتحاد امت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اور امت کو بحیثیت امت کمزور کرنے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے: البدعةمقرونةبالفرقة كماأن السنةمقرونةبالجماعة
فيقال:أهل السنةوالجماعة
كمايقال:أهل البدعةوالفرقة۔
بدعت کا تفرقہ بازی و فرقہ بندی سے بڑا گہرا رشتہ ہے جس طرح سنت کا رشتہ جماعت اور اجتماعیت سے ہے ۔ اسی لیے یوں کہا جاتا اہل سنت و جماعت اور اہل بدعت و فرقت ۔(الاستقامة:١/٤٢)
ایسے دسیوں فرق ہیں جو کبائر کے مقابلے میں بدعت کی زیادہ قباحت و شناعت کو اجاگر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے وہ علماء و فقہاء جو علم و بصیرت کے پیکر تھے زیادہ توجہ بدعات کی تردید اور ان کے خاتمہ کی کوشش میں صرف کیا کرتے تھے ۔
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے:
قبور الفساق من أهل السنة روضة من رياض الجنة، وقبور العباد من أهل البدعة حفرة من حفر النار(اللطائف من دقائق المعارف للأصبهاني:٢١٨)اہل سنت کے فاسقوں اور فاجروں کی قبریں جنت کا ایک باغیچہ ہیں تو اہل بدعت کے عبادت گزاروں کی قبریں دوزخ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا۔
أرطأة بن المنذر السكوني کہا کرتے تھے :
لأن يكون ابني فاسقا من الفساق أحب إلي من أن يكون صاحب هوى(ذم الكلام وأهله:٥/١٢٣)یہ بات کہ میرا ایک گنہگار اور فاسق بیٹا ہو میری نظر میں بہتر ہے اس بات سے کہ وہ بدعتی ہو ۔
عوام بن حوشب کا قول ہے جو انھوں نے اپنے بیٹے عیسی کے بارے میں کہا ہے:
لأن أرى عيسى يجالس أصحاب البرابط والأشربة والباطل أحب إلي من أن أراه يجالس أصحاب الخصومات، يعني:أهل البدع(البدع:ج۲ص۹۹)یہ بات کہ میں اپنے بیٹے کو شرابی اور ناچ گانے والے اہل باطل کے ساتھ دیکھوں میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے اس بات کے مقابلے کہ میں اسے اہل بدعت کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے دیکھوں۔
سلف صالحین کے مذکورہ بالا اقوال شراب نوشی، بدکاری اور سود خوری جیسے گناہوں کو ہلکا کرکے دکھانے والے یا ان گناہوں میں مبتلا لوگوں کے سامنے ان کے گناہوں کی قباحت کو گھٹا کر بتانے والے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد یہ دکھانا ہےکہ ہمارے ذہن و دماغ میں ان گناہوں کے لیے جو نفرت ہے اور ان کے مرتکب گنہگاروں کے لیے جو ناپسندیدگی ہے دین میں بدعت اور اہل بدعت کی قباحت و شناعت اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہی دین کی صحیح سمجھ ہے جس سے عامۃ الناس اکثر غافل ہوتے ہیں ۔
سلف صالحین نے اس قدر شدید لب و لہجہ اسی لیے اپنایا ہے کہ معصیت دین کے راستے پر چلتے ہوئے لڑکھڑا جانا ہے، وقتی طور پر کبھی دائیں کبھی بائیں مائل ہوجانا ہے تو بدعت دراصل صراط مستقیم پر الٹے قدم چلنا ہے جس میں سفر تو طے ہوتا ہے مگر آگے کی طرف نہیں بلکہ پیچھے کی طرف ،جس پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچنے کے بجائے ہر قدم منزل سے دور ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود فرمایا کرتے تھے:
الاقتصاد في السنة خير من الاجتهاد في البدعة(السنة للمروزي:٣٠)بدعت کی راہ پر چل کر خوب محنت کرنے سے تو اچھا یہ ہے کہ بندہ سنت کی راہ پر درمیانی چال چلے۔
موجودہ مسلم سماج میں بدعت اور معصیت کا یہ پیمانہ الٹا ہے جس کے مظاہر قدم بقدم دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بطور نمونہ یہ چند مظاہر دیکھیں :
(۱)لوگ گناہ اور گنہگاروں سے بدعت اور اہل بدعت سے زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ بلکہ بدعات سے بسا اوقات نفرت ہی نہیں ہوتی اور اہل بدعت سے دوستی اور تعلق کی دعوت کچھ اس طرح دی جاتی ہے جیسے اسلام کی اصل تعلیم ہی یہ ہے کہ اہل بدعت اور اہل سنت میں فرق ہی نہ کیا جائے اور سب کے لیے ایک ہی پیمانہ رکھا جائے ۔
(۲)بدعات سے بھرے ہمارے معاشرہ میں دعاة و مبلغین ہوں کہ دینی موضوعات پر لکھنے والے قلمکار ان کے عناوین کا اختیار و انتخاب شاذ و نادر اس طرف رخ کرپاتا ہے ۔ بالخصوص خطبات جمعہ جہاں ان بدعات کی تردید بخوبی ہوسکتی ہے اور پیغام ان بدعات سے وابستہ افراد تک بآسانی پہنچ سکتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سوچ شعوری یا غیر شعوری طور پر عام ہے کہ بدعات کے موضوع پر گفتگو کرکے اپنے سامعین و قارئین کو “ناراض” کیوں کیا جائے؟ یا لوگ اس موضوع سے بدکتے ہیں یا ہمارے بارے میں غلط رائے(؟)قائم کرسکتے ہیں تو کیوں ہم اس موضوع کو چھیڑیں؟
ایسے خطباء، واعظین، مبلغین اور قلمکاروں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ (يجاهدون في سبيل الله ولايخافون لومة لائم) کا مقام اللہ کے چنندہ بندوں کو نصیب ہوتا ہے اور اس سعادت سے بہرہ ور ہونا بڑے نصیب کی بات ہے ۔
(۳)اصلاح معاشرہ کے نام ہونے والے چھوٹے پروگرام ہوں یا بڑی سے بڑی کانفرنسیں اکثر موضوعات سود،شراب،نشہ، زنا، بے حجابی جیسے کبائر سے متعلق ہوتے ہیں یا شادی بیاہ وغیرہ سے جڑے رسوم و رواج سے متعلق ، یوں لگتا ہے جیسے ہماری نظر میں بدعات کا وجود معاشرہ کا بگاڑ یا فتنہ و فساد کا سبب نہ ہو۔ یا بدعت ان سب کے مقابلے چھوٹا معاملہ ہو ۔
(۴)عصر حاضر کا ایک ظاہرہ یہ بھی ہے کہ علماء کرام کی اس عنوان سے مسلسل غفلت کے نتیجہ میں فقہی مسائل کے اختلاف اور سنت اور بدعت کے اختلاف کو باہم خلط ملط کردیا گیا ہے اور اتحاد امت کے نام پر ایک طرف رد بدعات کو شجر ممنوعہ قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف امت کی ملی و سیاسی صورت حال کی نزاکت کا حوالہ دے کر اللہ کا واسطہ دیا جارہا ہے کہ “مسلکی دکانیں بند کی جائیں” “لوگ مسلک کے بجائے امت کی فکر کریں ” گویا بدعت کی بات کرنے والے دین کے خادم نہیں ھادم ہوں ۔
حالانکہ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ اللہ کے بعد ہماری قوت کا اصل سر چشمہ ہمارا دین ہے اور بدعات کے طفیل دین ہی دین نہ رہے تو قوت کہاں سے حاصل ہوگی؟ چشمہ صافی سے پینے کے بجائے گدلا پانی پی کر امت کی دینی صحت کیسے بحال رہے گی یا بحال ہوگی ۔ مارکیٹ میں نقلی دواؤں یا نقلی غذاؤں پر قابو پانے والے ادارے تو سرگرم عمل ہیں مگر روح کی غذا و دوا بننے والے دین میں ملاوٹ پر گرفت کا معاملہ سرد خانہ میں ہے بلکہ اکثر بدعات اسی روحانیت کی غذا کے نام پر عام ہیں ۔ یہ دین اور سنت کی (غربت)اجنبیت کا ایک نمونہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
مذکورہ بالا حقائق ہمیں بدعت اور اہل بدعت کے تئیں اپنی سوچ پر نظر ثانی کی دعوت دیتے ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس طرح حسنات کی درجہ بندی کو ذہن میں رکھ ہم فرائض سے آگے سنن کی اور اس سے آگے نوافل کی تعلیم و ترغیب میں لگے ہیں حتی کہ بعض حلقے اس باب میں ضعیف و موضوع روایات کا سہارا لینے کے قائل ہیں بالکل اسی طرح سیئات و منکرات کی درجہ بندی کو بھی ذہن میں رکھیں اور رد بدعات کو دیگر منکرات کی تردید سے زیادہ اہمیت دیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے علماء کے طبقہ کو خوداحتسابی سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر عامۃ الناس کی دینی ذہن سازی اور دینی مزاج کی تشکیل انہی کی تقریر و تحریر کی مرہون منت ہوتی ہے۔
ماشاء الله بارك الله فى علمك و حفظك وعمرك و قلمك
اللهم زد فزد
English me translate ho to har koi padh sakta Jaan aakta