اللہ تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل اور اشرف بنایا ہے۔اس کے بدن کی ساخت تمام مخلوقات میں سب سے خوبصورت ہے۔ اسے اللہ تعالی نے دراز قامت اور سیدھا بنایا ہے۔ اس کے اعضا وجوارح کو نہایت ہی تناسب کے ساتھ مرکب کیا ہے۔اسے دو ہاتھ، دو پیر، دو آنکھیں اور دو کان دیے اور ان میں نہایت ہی مناسب فاصلہ رکھا۔ دیگر مخلوقات سے ممتاز کرنے والے خوبصورت اعضاے جسمانی کے ساتھ اللہ تعالی نے اسے عقل وتدبر، فہم وحکمت اور سمع وبصر کی قوتیں عطا کیں۔بلا شبہ انسان اللہ تعالی کی عظیم قدرت کا مظہر اور اس کا پرتو ہے۔
انسان کو اللہ تعالی نے ہر اہم عضو دو دو دیے لیکن چہرہ صرف ایک ہی دیا۔اس لیے کہ دیگر اعضا کے مقابلے میں چہرہ ہی اس کی تقویم کی احسنیت وافضلیت کا مرکز اور اس کے حسن وجمال کا حقیقی مظہر ہے۔ دو چہروں کا بے ڈھنگا پن اس کی بناوٹ کے حسن کو ختم کردیتا۔ فرض کر لیجیے کہ اگر اللہ تعالی نے کسی کے دو چہرے بنادیے تو اس کی شکل کس قدر خوفناک اور نفرت انگیز بن جائے گی۔لوگ اسے دیکھ کر کس قدر حیرت واستعجاب کا اظہار کریں گے۔بچے تو اسے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں گے کہ یہ کون سی مخلوق ہے اور یہ عجیب وغریب مخلوق انسانوں کی نگری میں کیا کر رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بظاہر دو چہرے والا انسان آپ کو نہیں ملے گا۔ اللہ تعالی اپنا کرشمہ دکھائے تو الگ بات ہے۔ لیکن باطنی طور پر دو چہرے والے انسان آپ کو انسانی معاشرے میں بے شمار ملیں گے۔ان کے باطن کو اگر اللہ تعالی ظاہر کا روپ دے دے تو انسانی معاشرے میں برق رفتاری کے ساتھ خوف وہراس اور عدم انس کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ لوگ ایک دوسرے سے متنفر ہو جائیں گے۔کوئی کسی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔پورا معاشرہ عدم اعتماد اور بے سکونی کی دلدل میں پھنستا جائے گا۔ذرا غور کیجیے کہ آپ جسے اپنا ہم دم اور ہم درد سمجھ کر اپنے احساسات وجذبات سے آگاہ کرتے ہیں۔ زندگی کے نشیب وفرازکا اس کے سامنے بلا جھجھک تذکرہ کرتے ہیں۔اس سے دکھ درد شیئر کرتے ہیں۔اگر کسی دن آپ کو معلوم ہو جائے کہ آپ جسے خیر خواہ سمجھ کر راز ہاے زندگی پر مطلع کر رہے تھے وہ آپ کا شدید بدخواہ ہے۔آپ کو اس کے انسانی خول میں چھپا درندہ نظر آجائے اور آپ اس کی آستین میں پنہاں دشنہ وخنجر سے آگاہ ہوجائیں۔آپ کو معلوم ہو جائے کہ یہ دو رخا شخص اپنے شیریں اور شاطرانہ لب ولہجے کے ذریعے آپ کو بے وقوف بنا رہا تھا۔آپ کو نقصان پہنچانے کی پلاننگ کر رہا تھا۔ تو یقینا آپ کو اس کے ناپاک وجود ہی سے نفرت ہو جائے گی۔اس کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات اس کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔اور اگر کبھی اس سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو شاعر کی زبان میں ڈانٹ پلائیں گے۔
دو رنگی چھوڑدے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہوجا
دو رخا انسان معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کا تعفن پورے معاشرے کوبدبو دار کرکے رکھتا ہے۔اسے بدامنی، عدم اعتماد اور خلفشار کی آماجگاہ بنادیتا ہے۔عزتیں پامال ہونے لگتی ہیں۔انسانی وقار مجروح ہونے لگتا ہے۔اتحاد واتفاق اور خیر سگالی کے جذبات معدوم ہو جاتے ہیں۔بغض وعداوت اور حقد وحسد کے اژدہے ہر سو منہ کھولے کھڑےنظر آنے لگتے ہیں۔شریفوں کا جینا مشکل ہو جاتا ہے اور طرز عمل میں دوغلا پن اور فکر ونظر میں دوئی کو عقل مندی اور زیرکی قرار دیا جانے لگتا ہے۔شرافت وتدین کو ضعف وبزدلی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ معاملات میں دیانت وشفافیت کو موجب نقصان اور خیانت وخدع کو نفع بخش تصور کیا جاتا ہے۔ صدق وصفا کو معتوب اور مستوجب تعزیر ٹھہرایا جاتا ہے اور کذب ودغا کو لائق ستائش۔پھر پورا معاشرہ اخلاقی بحران کا شکار ہوکر زوال وانحطاط کے دہانے پرجا کھڑا ہوتا ہے۔
دو رنگی اور منافقت میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے۔نفاق بزدلانہ اور فریب کارانہ فطرت کا آئینہ دار ہے اور دو رنگی مریضانہ اور مفسدانہ ذہنیت کی عکاس۔ایک مکر ودغا کی تصویر تو دوسری فریب وسازش کا مجسمہ۔منافقین وہ لوگ تھے جن کے طرز عمل اور ایمانیات میں دوغلا پن نمایاں تھا۔ ان کی مڈ بھیڑ جب مسلمانوں سے ہوتی تو ان کو یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ان کی تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور جب یہ اپنے لگے بندھوں سے ملتے تو صاف صاف کہتے کہ ہم کہاں اور اسلام کہاں ۔ہم تو محض مسلمانوں سے دل لگی کرتے تھے۔دو رخا آدمی بھی جس کے ساتھ ہوتا ہے اسی کا گن گاتا ہے۔ اس سے اپنے حسن تعلق کا اظہار کرتا ہے اور خوشامد وچاپلوسی اور کفش برداری کی ساری حدوں کو عبور کرجاتا ہے۔ اسے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تو صرف آپ ہی کا ہم نوا ہوں۔لیکن پسِ پشت اس کی تحقیر وتنقیص اور برائی وبدخواہی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا ہے۔ دو رنگی کی اسی قباحت وشناعت اور فساد انگیزیوں کے پیش نظر کتاب وسنت کے اندر اس کی بڑی مذمت بیان کی گئی ہے۔ایک حدیث میں ذوالوجھین کو لوگوں میں سب سے بد ترین کہا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ شَرَّ النَّاسِ، ذُو الوَجْهَيْنِ الذي يَأْتي هَؤُلاءِ بوَجْهٍ، وهَؤُلاءِ بوَجْهٍ(صحيح مسلم :2526، كتاب البر والصلة والآداب، باب ذم ذي الوجھين وتحريم فعله)دو رخا شخص بد ترین انسان ہے، جو کچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إنما كان من شر الناس ، لأن حاله حال المنافقين،إذ ھو يتملق بالباطل وبالكذب، مدخل للفساد بين الناس.(البحر المحیط الثجاج:41/6)دو رخا آدمی اس لیے لوگوں میں سب سے بد ترین ہے کیوں کہ اس کا حال بھی منافقین کی طرح ہے۔ اس لیے کہ وہ بھی باطل اور جھوٹ کے ساتھ چاپلوسی کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان فساد برپا کرتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لأنه يأتي كل طائفة بما يرضيھا،فيظھر لھا أنه منھا،ومخالف لضدھا،فصنيعه نفاق محض، وكذب وخداع، وتحيل على الاطلاع على أسرار الطائفتين، وھي مداھنة محرمة. (البحر المحیط الثجاج:41/6)دو رخے آدمی کی مذمت اس لیے کی گئی ہے کیوں کہ وہ ہر گروہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سامنے ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسی کا ہم نوا ہے اور اپوزیشن کا مخالف ہے۔پس اس کا یہ کرتوت کھلا نفاق اور کذب وفریب ہے اور دونوں گروہوں کے راز پر مطلع ہونے کا حیلہ ہے۔اور حق پوشی اور مداہنت کا یہ رویہ حرام ہے۔
لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں یا دو گروہوں کے درمیان سخت اختلاف اور رنجش ہے۔ ہر فریق دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اس کے خلاف باتیں کرتا ہے۔ایسی صورت میں اگر کوئی نیک نیت اور مصلحانہ ذہنیت کا انسان ایک فریق کی طرف سے دوسرے فریق کو خیر اندیشی اور مصالحت کیشی کی باتیں پہنچاتا ہے اور دونوں کے درمیان خوش گمانی اور مصالحت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس سلسلے میں مبالغہ سے بھی کام لیتا ہے تو اس کا یہ رویہ جھوٹ پر مبنی شمار نہیں کیا جائےگا۔کیوں کہ اس کا یہ عمل باہمی بغض وعداوت اور مخالفت ومنافرت کے استیصال اور آپسی روابط ومراسم کی درستی وخوش گواری اور باہمی ہم دردی وخیر خواہی کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
ليسَ الكَذّابُ الذي يُصْلِحُ بيْنَ النَّاسِ، ويقولُ خَيْرًا ويَنْمِي خَيْرًا.(مسلم:2605،كتاب البر والصلة والآداب،باب تحريم الكذب وبيان ما يباح منه)جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے، اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد ضبط العلماءُ ما يُباح منه. وأحسنُ ما رأيتُه في ضبطه، ما ذكرَه الإِمامُ أبو حامد الغزالي فقال: الكلامُ وسيلةٌ إلى المقاصد، فكلُّ مقصودٍ محمودٍ يُمكن التوصلُ إليه بالصدق والكذب جميعًا، فالكذبُ فيه حرامٌ؛ لعدم الحاجة إليه، وإن أمكنَ التوصل إليه بالكذب، ولم يمكن بالصدق، فالكذبُ فيه مباحٌ إن كان تحصيل ذلك المقصود مباحًا، وواجبٌ إن كان المقصود واجبًا.(الأذكار،ص:377)
علماے کرام نے مباح جھوٹ کو ضبطِ تحریر کیا ہے۔اس سلسلے میں مجھے امام ابو حامد غزالی کی بات سب سے اچھی لگی۔وہ کہتے ہیں کہ کلام مقاصد تک رسائی کا وسیلہ ہے،پس ہر محمود وپسندیدہ مقصود جس تک سچ اورجھوٹ دونوں کے ذریعے پہنچنا ممکن ہو تو اس میں جھوٹ حرام ہے،کیوں کہ اس میں جھوٹ کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر اس کی حصولیابی جھوٹ کے ذریعے ہی ممکن ہو، سچ کے ذریعے نہ ہو، تو ایسی صورت میں مقصود کی تحصیل اگر مباح ہو تو جھوٹ بولنا مباح ہوگا اور اگر مقصود کا حصول واجب ہو تو جھو ٹ بولنا واجب ہوگا۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قوله : إن من شر الناس ذي الوجھين، يعني به الذي يدخل بين الناس بالشر والفساد، ويواجه كل طائفة بما يتوجه به عندھا مما يرضيھا من الشر، فإن رفع حديث أحدھما إلى الآخر على جھة الشر، فھو ذو الوجھين النمام، وأما من كان ذا وجھين في الإصلاح بين الناس، فيواجه كل طائفة بوجه خير، وقال لكل واحدة منھما من الخير خلاف مايقول للأخرى، فھو الذي يسمى بالمصلح،وفعله ذلك يسمى: الإصلاح،وإن كان كاذبا لقوله ﷺ: ليسَ الكَذّابُ الذي يُصْلِحُ بيْنَ النَّاسِ، ويقولُ خَيْرًا ويَنْمِي خَيْرًا(المفھم:6/589 ،بحواله، البحر المحیط الثجاج…41/6)
آپ ﷺ کا قول: “لوگوں میں سب سے بد ترین شخص دو رخا ہے” اس سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کے درمیان شر وفساد برپا کرتا ہے۔ہر گروہ کے پاس اس کی پسند کے مطابق شر بیان کرتا ہے۔ایک گروہ کی بات دوسرے گروہ تک اگر شر انگیزی کے ارادے سے پہنچائے تو وہ دو رخا اور چغل خور ہے۔لیکن جو لوگوں کے درمیان اصلاح کی غرض سے دو رنگی اختیار کرے، ہر فریق کے پاس خیروبھلائی کی باتیں لے کر جائے اور ہر ایک کو دوسرے کی خیر کی باتیں پہنچائے تو اسے مصلح کہا جاتا ہے اور اس کے اس عمل کو اصلاح۔گرچہ وہ جھوٹا ہو۔ اس لیے کہ آپﷺ کا فرمان ہے: جو لوگوں کے درمیان صلح کرواتا ہے، وہ جھوٹا نہیں ہے، اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے۔
آج کے دور میں اصلاح اور باہمی روابط کی استواری وخوش گواری کے لیے ایک کی بات دوسرے تک پہنچانے والے افراد آپ کو اگر آٹے میں نمک کے برابر بھی مل جائیں تو بہت بڑی غنیمت ہے۔خیرخواہی کبریت احمر بن چکی ہے اور بدخواہی نے انسانی معاشروں پراپنا زبردست تسلط قائم کر رکھا ہے۔ہر طرف منافقت اور دجل وفریب کی زہر آلود ہوائیں چل رہی ہیں۔جو جتنا بڑا فریب کار اور دھوکے باز ہے اسے اتنا ہی بڑا ذہین وفطین اور دانش مند سمجھا جاتا ہے۔شرافت کا چہرہ بے آبرو اور شرارت کا رخ لائق صد تکریم بن چکا ہے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مفسدانہ ذہنیت کی اصلاح اور تخریبی رجحانات کے بے عنان دھاروں کو جوئے خیر کی طرف موڑنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔واللہ ھو الموفق والمعین۔
آپ کے تبصرے