جوتے چپل

ابوالمیزان منظرنما

نیا ہو یا پرانا، چاہے پورا کمرہ بھر جائے یا پھر پورا گھر، مجھے یہ بالکل بھی پسند نہیں ہے کہ جوتے چپل ایک دوسرے کے اوپر رکھے جائیں۔ یہ سبب بھی نہیں ہے کہ مسلسل دبے رہنے کی وجہ سے ٹیڑھے ہوجاتے ہیں۔
آدمی اوپر سے جیسا دکھائی دیتا ہے اندر سے بھی بالکل ویسا ہی ہوتا ہے۔ اگر ڈینٹنگ پینٹنگ کرتا ہے تو جتنا نقلی اس کا لک ہوتا ہے بعینہ اس کا اندرون بھی ہوتا ہے۔ جیسی چیزیں اس کے استعمال‌ میں ہوتی ہیں ویسی ہی حالت اس کے جسمانی اعضاء بلکہ اس کے دل و دماغ کی بھی ہوتی ہے۔
جیسے دکھ ہو یا سکھ چہرے کے ایکسپریشن سے لے کر من کے موسم تک ایک ہی لہر، ایک ہی رنگ اور ایک ہی سلسلہ ہوتا ہے، اسی‌ طرح کپڑے لتے کے رنگ و روغن سے لے کر بندے کے ذوق اور اس کی زبان کے ذائقے تک رکھ رکھاؤ، انتخاب اور اہتمام کا ایک طور ہوتا ہے جو ایک شخص یا شخصیت کا سگنیچر ہوتا ہے۔
پسند چیزوں کی ہو یا صحبتوں کی، ذہن و مزاج کا اظہار ہوتی ہیں۔ دنیا میں جس سے دوستی ہوگی آخرت میں اس کا ساتھ ہوگا۔ زندگی‌ میں جس سے محبت ہوگی مرنے کے بعد بھی وہ پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
موت تو زندگی کا فل اسٹاپ ہے، اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے جتنے اسٹاپ ہوتے ہیں سب کا پہلے کی ہر چال سے تعلق ہوتا ہے۔ جو شخص جس سمت قدم بڑھاتا ہے منزلیں اسی راستے کی ملتی ہیں۔ آدمی جو سوچتا ہے وہی کرتا ہے، وہ کام کرتے ہوئے اس کے دماغ میں چاہے سو الگ الگ خیال گزریں، گزرنے والے خیال آس پاس سے گزرنے والے‌ مناظر کی طرح ہوتے ہیں، منزل وہی ملتی ہے جس کی طرف جانے والا راستہ ہوتا ہے، راستہ وہی پکڑتا ہے آدمی جو اس کے مقصد سے میچ کرتا ہے اور مقصد وہی ہوتا ہے جس کے زیر اثر بندہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ مقصد انسان چاہے خود سے بھی نہ کہے، لاکھ چھپائے مگر اس کا عمل سینے کے بھید کھول دیتا ہے۔ سینے کے سارے بھید اللہ جانتا ہے، قیامت کے دن بندے کے تمام اعضاء وہ سب‌ کہہ دیں گے جنھیں اپنے سینے میں سی کر وہ مرگیا تھا۔
انسان اس بات پر قادر نہیں ہے کہ اپنا مقصد چھپالے، نیت دل کے ارادے‌ کا نام ہے پھر بھی اس کے چھوٹے بڑے ہر عمل میں، اس کی پسند و ناپسند‌ میں، اقرار و انکار میں، نشست و برخاست میں، انتخاب و اظہار میں اس کے‌ ایمان، عقیدے اور یقین کا پرتو ہوتا ہے۔ دل میں ایمان ہو، کفر ہو یا نفاق بندے کا‌ عمل اس کو پروس دیتا ہے۔ شرک سے رغبت ہو، بدعت سے الفت ہو یا سنت سے عداوت انسان کی ہر توفیق میں اس کا پرچار ہوتا ہے۔
اللہ نے مال و دولت دی ہے، بندہ سال کے ہر ڈے مناتا ہے، مگر زکات وصدقات کی ادائیگی اور قربانی سے محروم رہتا ہے، ہر سال اجمیر کے چکر لگالیتا ہے اللہ کا گھر دیکھنے کی اسے توفیق نہیں ہوتی، یہ اتفاقات نہیں ہیں، مظاہر ہیں دل کے عالم کے۔ دل میں جو یقین ہے دماغ میں جو راسخ ہے عمل میں وہی ڈھل پاتا ہے۔ باقی جو خیالات ہیں وہ آتے جاتے رہتے ہیں، دنیا میں دوسرے جو حقائق ہیں وہ آس پاس کے مناظر ہیں گزرتے رہتے ہیں۔
اللہ جمیل ہے، جمال کو پسند‌ کرتا ہے۔ اللہ سے جڑی ساری چیزوں میں جمال ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کی پسند کا یہی حتمی نتیجہ ہوسکتا ہے۔ یہ نہ ہو تو لوز کنکشن ہوگا۔ یعنی وائرنگ میں کہیں پروبلم۔ وائرنگ خراب ہوگی تو پاور سپلائی بند ہوجائے گی۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا۔
اندھیرا بے دینی ہے، کفر ہے، شرک ہے، بدعت ہے۔ اجالا دین ہے، دین اسلام ہے، اللہ کا راستہ ہے، اللہ سے تعلق رکھنے والوں کا شیوہ ہے، اللہ سے‌ محبت کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اللہ کے نبی کو ماننے والوں کا سلیقہ ہے۔ اللہ کی کتاب اور نبی کی سنت سے آشنائی نہیں ہے تو آنکھیں ہونے کے باوجود دنیا میں بس اندھیرا ہے۔
مسجد والے ریک بنوادیں گے پھر بھی وہ نظر نہیں آئے گا۔ جوتے چپل کے نیچے جو گندگی لگی ہوتی ہے وہ ہم کسی اور ‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌نمازی کے صاف ستھرے جوتے چپل پر ڈال کر مسجد میں داخل ہوجائیں گے۔
مسجد ہو یا کسی انسان کا گھر جوتے چپل نکالتے وقت مجھے بڑی فکر لگی رہتی ہے کہ کسی ایسی جگہ اتاروں محفوظ رہے، کہیں کوئی اپنے جوتے چپل تلے روند کر چلا نہ جائے۔
مسجد ہندوستان کی ہو یا نیپال کی، سعودی عرب کی ہو یا قطر کی، مسجد کے باہر جوتے چپل کی پلیسنگ دیکھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اندر نمازی کیسے ہوں گے۔ اور وہ اندازہ کبھی غلط نہیں ہوگا، میرا نہیں ہوا۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
ام ہشام

المرء مع من احب۔۔۔۔
تمھید سے آگے بڑھ کر لگا کہ نفس مضمون سے کنیکشن ٹوٹا ہوا ہے۔ لیکن اختتام پر مکمل بات سمجھ آئی۔
عمدہ پیغام

ریاض مبارک

موضوع بالکل اچھوتا ہے پر تحریر دل کو چھو لینے والی ہے۔
در حقیقت زندگی کے یہ ایسے گوشے ہیں جن پر قلم اٹھانا آسان نہیں۔
جزاک اللہ خیرا