سامعین کے احوال و کوائف، ان کے معیار علم اور مقتضائے وقت کا پاس و لحاظ خطابت کے بنیادی آداب میں سے ہے۔ ایسا انداز تکلم اختیار کرنا جو سامعین کے دائرۂ فہم سے خارج ہو خطابت کی توہین ہے۔ مریض پیٹ درد کی شکایت کرے اور ڈاکٹر اسے آنکھ درد کی دوا دے تو ایسے ڈاکٹر کو کسی پاگل خانے میں ایڈمٹ کرنا ہی قرین انصاف ہے۔ خطیب کا رمضان کے مہینے میں قربانی کے احکام و مسائل بیان کرنا اور ذی الحجہ کے مہینے میں آداب روزہ کی تفصیلات بیان کرنا اس کے ذہنی خلل کا غماز اور خطابت کے اسلوب نبوی سے عدم واقفیت کا واضح اشاریہ ہے۔ جنھیں اردو بہ مشکل سمجھ میں آتی ہو ان کے سامنے “أخبرني عن الإسلام” كا ترجمہ tell me about Islam کرنا اپنی انگلش دانی کی دھونس جمانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
اس سے پہلے بھوج پوری مولانا کے عنوان سے میں نے ایک مضمون لکھا تھا۔ جہاں بہت سارے لوگوں نے اس مضمون کے اندر چھپے درد کو سمجھا، اسے سراہا اور کہا کہ آپ نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اس طرح کے مضامین کی بڑی ضرورت ہے۔ جلسوں کی بگڑتی صورت حال کو درست کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضے کو حسب استطاعت انجام دینا چاہیے۔ وہیں کچھ لوگ چیں بجبیں بھی ہوئے اور کہا کہ صرف لکھنے سے کیا ہوگا۔ ایسے لوگوں سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ لکھنے سے بہت کچھ ہوا ہے، ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا ان شاء اللہ۔ ہم اپنے اندر اتنا دم نہیں پاتے ہیں کہ جبینِ خطابت کو داغ دار کرنے والے ان ڈھونگیوں کے گریبان پکڑ کر انھیں اسٹیج سے اتار پھینکیں۔ لیکن ٹوٹے پھوٹے حروف میں کچھ لکھ کر آپ کے خوابیدہ اور زنگ آلود شعور کو بیدار ضرور کرسکتے ہیں، سو کر رہے ہیں۔
در اصل یہ کام انفرادی نہیں بلکہ جمعیت کا ہے۔ جمعیت کے ذمہ داران جلسوں پر بھی نگاہ رکھیں۔ دیکھیں کہ کہاں پر کیا ہو رہا ہے۔ کس طرح کے مقررین کو مدعو کیا جارہا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ذمہ دارانِ جمعیت اس معاملے میں حساس ہوجائیں اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کریں تو اس فتنے کی سرکوبی یقینا ممکن ہے۔
سیمانچل کے اکثر جلسوں میں صدارت کے فرائض وہی علما انجام دیتے ہیں جو کسی نہ کسی عہدے پر فائز ہیں۔یا اگر فائز نہیں بھی ہیں تو مالی اعتبار سے اتنا اثرورسوخ ضرور رکھتے ہیں کہ جلسوں کے منتظمین ان کی باتوں کو ان سنی کرنے کی حماقت نہیں کرسکتے۔ لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان علما کی موجودگی میں نام نہاد مقررین اناپ شناپ بکتے ہیں اور یہ کرسیِ صدارت پر براجمان ہوکر ان کی فضول باتیں سنتے ہیں۔ افسوس تو تب ہوتا ہے جب یہ علما تحسین آمیز تبسم کے ذریعے ان کی ہفوات و لغويات کو سند جواز فراہم کرکے ایک طرح سے انھیں پروموٹ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن کتاب وسنت کی روشنی میں تقریر کرنے والے علما عوام کے نزدیک ناقابلِ اعتنا اور انٹ شنٹ بکنے والے لائق التفات ٹھہرتے جاتے ہیں۔
آج کل اشتہارات کو جاذبِ نظر بنانے کے لیے القابات کی بھرمار فتنے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ چترویدیت کا روگ تو اس قدر عام ہوگیا ہے کہ ہر ایرا غیرا نتھا خیرا اپنے آپ کو چترویدی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ دو چار وید کیا یاد کر لیے، دو چار انگریزی جملے کیا رٹ لیے بندہ چترویدی بن گیا۔ واہ کیا بات ہے! اگر چترویدی بننے کا نسخہ اتنا ہی آسان ہے تو ہر کوئی دو دن میں چترویدی بن سکتا ہے۔
ہمیں اپنی کور ذوقی پر افسوس ہونا چاہیے کہ ایک انسان سستی شہرت کے حصول کے لیے کچھ بھی اول جلول بکتا ہے، ہمیں بے وقوف بناتا ہے اور ہم اس کی بکواس پر آفریں آفریں کرتے نہیں تھکتے۔ آپ مجھے ایک بات سمجھائیے کہ اس طرح کے غیر سیاسی اور خالص دینی جلسوں میں یوگی اور مودی پر چلانے اور تبرا کرنے سے عوام کا کیا بھلا ہوتا ہے۔ جنھیں انگلش کی اے بی سی نہیں آتی ان کے سامنے انگلش جھاڑنے کا کیا مطلب۔ جنھیں سورۂ فاتحہ صحیح سے یاد نہیں وہ وید اور منتر کا گیان لے کر کیا کریں گے۔ جس اسٹیج پر کوئی پنڈت ہی موجود نہ ہو وہاں پنڈتوں کو حلق پھاڑ پھاڑ کر چیلنج کرنا چہ معنی دارد۔جنھیں اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات تک سے واقفیت نہیں ان کے سامنے تقابل ادیان پر انرجی صرف کرنے کا فائدہ۔ ظاہر ہے اس طرح کے بے قرینہ اسلوب خطاب اور بے محل طرزِ گفتگو کا واضح مطلب بادی النظر میں یہی تو ہوتا ہے کہ بندہ اپنی چترویدیت اور جدت طرازیوں کا اظہار اور عوام الناس کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ میرے بارے میں شک وریب میں مبتلا نہ ہوں۔ میں پکا چترویدی اور ماڈرن مولوی ہوں۔ میں آپ کو وہ بتا سکتا ہوں جو کوئی اور نہیں بتا سکتا۔ قرآن اور حدیث کی باتیں آپ نے بہت سن لیں۔ دینی باتیں سن کر آپ کو نیند آتی ہے۔ اس لیے خطابت میں ظرافت کی آمیزش ناگزیر ہے۔ لیجیے اب میرے منفرد اور بے مثال خطاب، انگلش کے لچھے دار جملے، وید، منتر، روداد سفر اور مضحکہ خیز باتیں سن کر اپنے ذہن ودماغ کے دریچے وا کیجیے اور ساتھ ہی میرے تفوق اور اپنے تفنن کا ذرا بندوبست کر بھی کرلیجیے!!
سیمانچل کے ان افسادی جلسوں کے احوال وکوائف پر نظر رکھنے والوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہونا چاہیے کہ دینی اسٹیج کو شہرت طلبی کا ذریعہ سمجھنے والے عناصر نے عوام الناس کے ذوق کا بہت حد تک ستیاناس کردیا ہے۔ قرآن وحدیث کی باتیں اب انھیں اچھی نہیں لگتیں۔ اب غیر مہذب انداز تکلم، اشتعال انگیز بیانات، سنسنی خیز خطابات، دشنام طرازیاں، لن ترانیاں، تبرے بازیاں اور الزامات واتہامات ان کے زنگ آلود اذہان وقلوب کے لیے مرغوب غذا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآنی مواعظ سناؤ تو نیند آتی ہے۔ حدیث رسول سناؤ تو غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ اور جیسے ہی بازاری گفتگو اور سوقیانہ بکواس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے بالکل نشیط وچست بن جاتے ہیں۔ قہقہے بلند ہونے لگتے ہیں۔ واہ واہی کی شیطانی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ اور یہ ہفوات گو مولوی پھولے نہیں سماتا ہے کہ دیکھو کیسے میں نے مردہ مجلس کو زندہ کردیا۔
ہر کسی کو اپنی بساط بھر کوشش کرنی چاہیے۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ ان جلسوں میں اصلاح کی بجاے افساد، بدکلامی، ناشائستہ طرزِ خطاب، بے سلیقہ انداز گفتگو اور غیر شرعی چیزیں فروغ پارہی ہیں تو آپ بھی اپنے حصے کی کوشش ضرور کیجیے اور اللہ کی ذات سے خیر کی امید رکھیے۔ واللہ ھو الموفق والمعین۔
دور جدید کے فتنے کی بہترین عکاسی اور غیر معمولی تبصرے۔
شکریہ
جزاك الله خيرا
ذرا جم کے برس۔۔۔ اور آپ نے برسا دیا۔۔۔ جلسے نہیں یہ تو پرموشن فیلڈ ہوتے ہیں، بانہیں چڑھتی ہیں جیسے اکھاڑا، نوع بنوع طرز تکلم۔۔۔ سب کچھ مگر خطاب میں خطاب ہی نہیں ۔۔
شکریہ
جزاك الله خيرا