عقل میری کام تیرا

حافظ عبدالحسیب عمری مدنی نفسیات

عبداللہ المدیفر سعودی عرب کے ایک جواں سال جرنلسٹ ہیں، وہ ٹی وی اینکر اور پریزنٹر کے طور پر بڑی اچھی شناخت رکھتے ہیں، روتانا خلیجیة نامی چینل پر “الليوان” “في الصميم” اور “في الصورة” جیسے پروگراموں کے حوالے سے خصوصی شہرت کے حامل ہیں۔
انھوں نے سعودی عرب میں مختلف حوالوں سے شہرت رکھنے والے نامور افراد اور سماجی و مذہبی شخصیات سے بڑے شاندار انٹرویو کیے ہیں، معروف داعی دکتور عائض القرنی، سعودی عرب میں القاعدہ کے عسکری ونگ کے کمانڈر علی الفقعسی اور ان جیسے دیگر کئی اہم افراد سے بڑے جاندار انٹرویو انھوں نے کیے ہیں۔ عرب دنیا کی معروف تنظیم الإخوان المسلمون کے سعودی عرب میں اپنی فکر کو پھیلانے کے طریقہ کار کے حوالے سے معروف داعی شیخ سراج الزھرانی کا انٹرویو بھی بڑا اہم ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر آج سے تقریبا آٹھ سال قبل انھوں نے ایک انٹرویو ناصر الحزیمی نامی ایک سعودی رائٹر سے لیا تھا، جس کا تعلق فتنہ جہیمان سے تھا، یہ انٹرویو یوٹیوب پر آج بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
بہت سارے قارئین کے لیے فتنہ جہیمان سے متعلق یہ مختصر سی جانکاری شاید ضروری ہے کہ پندرہویں صدی ہجری کا آغاز پورے عالم اسلام کے لیے چونکا دینے والی صبح سے ہوا، یکم محرم 1400ھ کی صبح کچھ لوگوں نے حرم مکی پر قبضہ کرلیا، حج و عمرہ اور نماز کے لیے آئے ہوئے بہت سارے عام مسلمانوں کو قیدی بنالیا، امام حرم شیخ محمد بن عبداللہ السُّبيِّل بھی وقتی طور پر حرم مکی ہی میں محصور رہے، حرم مکی پر قبضہ کرلینے والے ان لوگوں کا دعوی تھا کہ امام مہدی تشریف لاچکے ہیں اور ہم حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی امامت اور خلافت کا اعلان کرتے ہیں۔
جانکار حضرات واقف ہیں کہ یہ حادثہ تاریخ اسلام میں قرامطہ کے فتنہ کے بعد اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ تھا جس میں حرم مکی کی حرمت پامال ہوئی اور باقاعدہ جنگ اور خون خرابہ کی نوبت تک آئی جو تقریبا دو ہفتوں تک چلی۔ یہ فتنہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچا، قابضین میں سے کئی اپنی جان سے گئے اور بہت سارے گرفتار کر لیے گئے جن میں سے ایک خود جہیمان بھی تھا، تاریخ میں اس حادثہ کو فتنہ جہیمان کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ اس پورے فتنہ کی قیادت ایک سعودی شہری جہیمان بن محمد العتيبي نے کی تھی جس نے اپنے سالے محمد بن عبداللہ القحطانی کے مہدی ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اس واقعہ کی تفصیلات بڑی عبرتناک ہیں اور پڑھنے والے کو ماضی کی ایک ایسی تصویر دکھاتے ہیں جو رہتی دنیا تک انتہاپسندی کے باب میں ایک مثال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
ناصر الحزیمی فی الوقت جريدة الرياض وغیرہ میں لکھتے رہتے ہیں، ناصر الحزیمی وہ سعودی شہری ہیں جو جہیمان کے انتہائی قریبی ساتھی رہ چکے ہیں اور اسی الزام میں تقریبا سات سال کی قید بھی کاٹ چکے ہیں، اور جہیمان کے ساتھ اپنے طویل عرصہ تک کے تعلقات کی روشنی میں اس موضوع سے متعلق دو کتابیں بھی تصنیف کی ہیں (أيام مع جهيمان) اور (قصة و فكر المحتلين للمسجد الحرام)
تمہید طویل ہوئی مگر مدعا کو سمجھانے کے لیے یہ طوالت ضروری تھی۔
مذکورہ بالا انٹرویو میں آخری سوال عبداللہ المدیفر نے ناصر الحزیمی سے یہ پوچھا کہ اس پورے فتنہ اور اس کے مضمرات اور نتائج سے آپ نے سب سے اہم سبق کیا سیکھا؟ تو ناصر الحزیمی نے جواب میں کہا:
ما أعطي عقلي غيري (میں کبھی اپنی عقل کسی اور کے ہاتھ اور تصرف میں نہیں دوں گا)
سچ کہیں تو یہ اتنا بڑا سبق اور اس قدر گہری بات ہے کہ آج ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اسے اپنا ورد بنالینے کی ضرورت ہے۔
امت میں جب کبھی فتنے کھڑے ہوتے ہیں یا نئے سیاسی و اجتماعی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہمارے سماج میں اکثر عجیب طرز عمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایک طرف عُجب اور خود فریبی کا فتنہ ہوتا ہے جس میں مبتلا ہر شخص امت کے مسائل کے حل کے لیے اپنا اپنا الگ ایجنڈا لیے پھر رہا ہوتا ہے اور اکثر زبان حال و قال سے یہ کہتا پھرتا ہے کہ “حل تو بس یہی ہے اور یہیں ہے” اور
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے
تو دوسری طرف عقل کے کورے وہ “ادھورے دانشور” ہیں جو پورے وثوق سے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے کسی اور کے مشروع کی تکمیل میں لگے ہوتے ہیں، محنت یہ کرتے ہیں اور فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے، کوئی بڑی چالاکی سے ان کا استحصال (استعمال) کیے جاتا ہے۔ جانے انجانے وہ دانشوری کے اس خوشنما جال میں پھنس جاتے ہیں جس میں انھیں پتہ نہیں ہوتا کہ دانے چگتے وہ شکاری کی طے کردہ راہ پر بہت دور چلے آئے ہیں۔
عوام تو عوام ہے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہ نہیں سجھ پاتی ہے کہ ان کی فکر کو ایک مخصوص ڈھرے پر لایا جارہا ہے، مختلف ذرائع سے ان کو کچھ اس طرح فیڈ کیا جارہا ہے کہ غیر شعوری طور پر خود کی تحلیل اور تجزیہ کے نام پر بالآخر وہ اسی منزل تک پہنچ رہے ہیں جہاں تک انھیں پہنچانا مقصود ہے، یہ خفیہ ہاتھ اپنی کارکردگی اس چمتکاری کے ساتھ دکھلاتے ہیں کہ آدمی کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ میں اپنی محنت سے کسی اور کا کام کررہا ہوں۔
بین الاقوامی سیاست ہو کہ مخصوص طرز کی فکری وسیاسی تنظیمیں یا تخریبی ایجنڈے کے حاملین سب اس طرزِ تقریب یا طرزِ تخریب کا بخوبی استعمال کرتے ہیں اور عوام و خواص کی ایک بڑی تعداد کا حال یہ ہے کہ
پاؤں میرے مقصودِ نظر اور کسی کا
کرتا ہوں سفر روز مگر اور کسی کا (نواز دیوبندی)
وہ کچی ڈور سے بندھے کھنچے چلے جاتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس طرز کو ایک جگہ فرعونی حربہ قرار دیا ہے {فَٱسۡتَخَفَّ قَوۡمَهُۥ فَأَطَاعُوهُۚ إِنَّهُمۡ كَانُوا۟ قَوۡمࣰا فَـٰسِقِینَ } اس نے اپنی قوم کو بیوقوف بنایا تو وہ اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہوگئے۔ (الزخرف: ٥٤)
تو دوسری جگہ اس کو پہچان کر اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے اسے مومنانہ فراست کا ایک اہم باب قرار دیا ہے:
{فَٱصۡبِرۡ إِنَّ وَعۡدَ ٱللَّهِ حَقࣱّۖ وَلَا یَسۡتَخِفَّنَّكَ ٱلَّذِینَ لَا یُوقِنُونَ}
پس آپ صبر کریں یقیناً اللہ کا وعده سچا ہے۔ آپ کو وه لوگ ہلکا نہ کریں جویقین نہیں رکھتے۔ (الروم: ٦٠)
موجودہ دور میں نیوز پیپر، ٹی وی چینل، سوشل میڈیا وغیرہ صرف خبریں ہی نہیں پیش کرتے بلکہ اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق ان خبروں کے ساتھ ایسا بیانیہ پروستے ہیں کہ خبر صرف خبر نہیں ہوتی بلکہ اپنے دوش پر ایک نظریہ یا نقطہ نظر کی موثر تبلیغ کا اہم ذمہ بھی اٹھائے ہوتی ہے اور غیر شعوری طور پر اکثر خبر سے زیادہ اس نقطہ نظر کا شکار ہوجاتے ہیں، بہت کم لوگ اس کی زد سے محفوظ رہ پاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں ہوں کہ حکومتیں سبھی رائے عامہ کو ہمنوا بنائے رکھنے کے لیے اس پر خصوصی توجہ دیتے ہیں جسے عرف میں میڈیا مینجمنٹ یعنی میڈیا کو مینیج کرنا یا سنبھالنا کہا جاتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ اپنے ملک سے آگے دوسرے ممالک میں بھی جہاں کہیں کسی سے ان کا کوئی مفاد وابستہ ہو وہاں بھی رائے عامہ کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے چھوٹے بڑے نیوز پیپر اور چینل پر لکھنے اور کام کرنے والی مؤثر شخصیات کی وفاداریاں خریدنے سے لے کر کبھی تحفے تحائف اور کبھی مفت بین الاقوامی اسفار کے ذریعے کم از کم اپنا مخالف بننے سے روکنے تک، باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی اور لوگ بھی مینیج کیے جاتے ہیں۔
ظاہر بات ہے ایسی صورت میں تجزیے اور تبصرے خود تنقیح و تطہیر کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اور آنکھ بند کرکے ان خبروں پر بھروسہ کرنے والے بہت سارے افراد مخلص تو ہو سکتے ہیں مگر درست اور صحیح نہیں۔
ایسی صورتحال ہو تو پھر ایک بندے کو ناصر الحزیمی کی حکمت پر مبنی یہ بات یاد رکھنی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا واقعتا میں اپنی عقل سے اپنا ہی کام کررہا ہوں؟؟
کیا واقعتا میں حالات اور افکار کو صحیح ڈھنگ سے پڑھ پارہا ہوں؟؟
اپنی عقل و خرد سے دوسروں کی فکر کی آبیاری کرنے والے اور اپنی زبان و قلم کے ذریعے دوسروں کی جانے انجانے ترجمانی کرنے والے لوگ تین قسم کے ہوسکتے ہیں:
پہلی قسم: ان لوگوں کی ہے جو یہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کس کی تائید یا تردید کررہے ہیں، انھیں پتہ ہوتا ہے کہ ان کی تحریر یا تقریر کس کے مفاد میں جاسکتی ہے یا کس کا نقصان کرسکتی ہے تاہم اس سب کے باوجود یہ لوگ اس لیے لکھتے یا بولتے ہیں کہ انھیں نظریاتی اتفاق ہوتا ہے، وہ جن کی تائید کررہے ہوتے ہیں ان کے مقاصد سے نہ صرف یہ کہ بخوبی واقف ہوتے ہیں بلکہ ان سے اتفاق بھی رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں یہ لوگ اپنی فکری وابستگیوں کے ساتھ مخلص ہیں اور (والمؤمنون والمؤمنات بعضهم أولياء بعض) کا مصداق ہیں یا (ولايزالون مختلفين) والی سنتِ الہی اور (كل حزب بما لديهم فرحون) کی مذمتِ الہی کا مظہر ہیں۔
دوسری قسم: وہ لوگ جو استعمال ہوتے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ کوئی انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کررہا ہے، تاہم وہ پھر بھی استعمال ہوتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں یہ موقعہ ہوتا ہے دنیا کمانے کا اور اپنی صلاحیتوں کو بھنانے کا، ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ صحیح کیا ہے غلط کیا ہے، ان کی نظر بس اس پر ٹکی ہوتی ہے کہ اس بازارِ حسن میں میرے حق میں سب سے بڑی بولی کون لگائے گا، بکی ہوئی یہ صلاحیتیں امت کے لئے بڑا درد سر اور قوم کے لیے مسائل کو مزید الجھادینے والی وہ مصیبت ہیں جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أخوف ما أخاف عليكم جدال المنافق علیم اللسان) مجھے تم پر سب سے زیادہ جس کا ڈر ہے وہ ایسے منافق کی بحث ہے جو علم کی زبان میں بولتا ہو۔ (ابن حبان)
تیسری قسم: ان بھولے لوگوں کی ہے جو اپنے آپ میں مخلص ہیں لیکن یا تو مغفّل ہیں یا جذبات کی رو میں عقل سے کام لینا بھول گئے ہیں، یا حسنِ ظن کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں، یا ایک مثبت پہلو دیکھ کر جلد بازی میں غلط فیصلہ لے رہے ہیں اور (حفظت شيئا وغابت عنك أشياء) کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
میری اپنی یہ تحریر دراصل انہی “مخلصوں” کے لیے ہے۔
ایک قاری یا سامع کی حیثیت سے ہم سب کو کم از کم درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:
(١)چوکنا رہیں، اور دیکھتے رہیں کہ ہمیں کوئی استعمال تو نہیں کررہا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنانہ طبیعت کا خاصہ یہ بتلایا ہے کہ وہ ایسوں کے لیے تر نوالہ نہیں ثابت ہوتا اور ہر سنی بات پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے والا نہیں ہوتا (كفى بالمرأ كذبا أن يحدث بكل ما سمع)(مسلم)
(٢)خبروں کی تحقیق کیا کریں
{یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِن جَاۤءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإࣲ فَتَبَیَّنُوۤا۟ أَن تُصِیبُوا۟ قَوۡمَۢا بِجَهَـٰلَةࣲ فَتُصۡبِحُوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَـٰدِمِینَ}
اے ایمان والو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔ (الحجرات: ٦)
یاد رکھیں کئی بار خبریں سچی ہوتی ہیں مگر ویسی نہیں ہوتی جیسی بیان کی جاتی ہیں، جزوی صداقت کے ساتھ خبروں کو ایک مخصوص سانچہ میں ڈھالنا بھی آج ایک “ہنر” ہے جسے بعض حضرات بخوبی آزماتے ہیں۔ یمن کے مشہور عالم دین شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے (من أراد أن يجالس الكذابين فليقرأ الصحف) جو شخص جھوٹوں کی صحبت اختیار کرنا چاہتا ہو اس کو چاہیے کہ جرائد اور اخبارات پڑھ لیا کرے۔
(٣)کسی بھی موضوع کو سمجھنے کے لیے یا لکھنے یا بولنے کے لیے ہمیشہ پہلے دو طرفہ باتیں سنا کریں اور پڑھا کریں، جب آپ سب طرف کی باتوں کا احاطہ کرلیتے ہیں تب کہیں جاکر صحیح نہ سہی حقیقت سے قریب تر رائے ضرور قائم کرپاتے ہیں، تاہم یاد رکھیں اس کے باوجود بھی کئی بار اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ کوئی اہم کڑی آپ سے چھوٹ گئی ہو اور نتیجہ میں خلل در آیا ہو۔
(٤)دعا۔ ہمیشہ اللہ سے دعا مانگیں کیونکہ معاملات کے گنجلک ہوجانے کے بعد بس وہی صحیح راہ سجھا سکتا ہے اور ڈور کا صحیح سرا ہمیں پکڑا سکتا ہے۔
قیام اللیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک پیاری دعا یہ بھی تھی:
(اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ، اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإذْنِكَ، إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ)
اے اللہ!
جبرئیل و میکائیل و اسرافیل کے رب!
آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے!
غیب اور حاضر کے جاننے والے!
تو ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے ان مسائل میں جن میں وہ باہم اختلاف کر بیٹھیں، ان مسائل میں جن میں لوگ اختلاف کر بیٹھے ہیں اپنے حکم سے تو میری رہنمائی فرمادے! یقینا تو جسے چاہتا ہے سیدھی راہ سجھاتا اور اس پر چلاتا ہے۔ (مسلم)
(٥)آخری بات یہ بھی یاد رکھیں کہ کئی موقعے ایسے ہوتے ہیں جہاں معاملات کے پوری طرح واضح نہ ہونے پر دوسرے کا گدھا بننے سے زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ مناسب وقت آنے تک خاموش تماشائی بنے رہیں یا سب کے حق میں خیر اور ہدایت کی دعا کرتے رہیں۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shafeeq zahiruddin

MashaAllah bahut khoob Allah aap k Ilm me aur izafa kare