آبشار خیال: متنوع مضامین کا حسین انتخاب

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

 

کتاب: آبشار خیال(مجموعۂ مقالات شعبان بیدار)

مرتب: ابوالمیزان

صفحات: 336

قیمت: 550

سن اشاعت: 2023

ناشر: مرشد پبلی کیشن،شاہین باغ،نئی دہلی


’آبشار خیال‘شعبان بیدار کے متنوع مضامین کا مجموعہ ہے اوریہ تنوع موضوعات تک محدود نہیں ہے بلکہ مضامین کے حجم میں بھی نظرآتا ہے۔ مضامین کازیادہ تر حصہ تخلیقی ہے لیکن عربی اور ہندی سے ماخوذ مضامین بھی ہیں جن کو انھوں نے ’’عربی سے ترجمانی ‘‘اور ’’ہندی سے چربہ کاری ‘‘کا نام دیا ہے۔ مضامین کا معیار یکساں نہیں ہے کچھ میں تحقیقی انداز جلوہ گر ہے، کچھ تنقیدی اور تجزیاتی قبیل سے ہیں اور کچھ فکری اور دعوتی، لیکن تخلیقیت کی چاندنی ہر مضمون سے چھٹکی نظر آتی ہے۔ دین، ادب اور تعلیم وثقافت کے ساتھ جنسیات پر بھی مضامین ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار کامطالعہ وسیع ہے اور گہرابھی (دونوں خوبیاں ایک ساتھ، کم ہی نظر آتی ہیں)اس کے باوجود بھی وہ بد ہضمی کا شکار نہیں ہوئے۔ جنسیات پر لکھتے وقت اکثر اہل قلم کے اسلوب سے لذت ٹپکنے لگتی ہے (اس وقت مستحسن فاروقی ذہن میں ہیں) لیکن انھوں نے اس موضوع کو خالص دعوتی اور اصلاحی اسلوب میں پیش کیا ہے جس کی وجہ سے قاری کو نہ وضو ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے اور نہ ہی غسل جنابت کی ضرورت۔

کتاب میں شامل ابتدائی تین مضامین(قرآن پاک میں غیر عربی الفاظ:ایک مطالعہ(ص:27) قرآن پاک اور مجاز:ایک تعارف (ص:30)مترادفات القرآن اور علامہ ابن تیمیہ (ص:38) قرآنیات سے متعلق ہیں اور اسی طرح دو اورمضامین (زبان و بیان کی سلیقہ مندی اور ترمذی شریف کی ایک حدیث (ص:51) عالم اسلام کے خونریز حالات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم(ص:71) ایسے ہیں جن کا براہ راست تعلق تفہیم حدیث سے ہے، جن کے مطالعے سے ان کے اخاذ ذہن اور استنباطی قوت کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ مذکورہ مضامین کو ایک ساتھ پڑھنے سے مضمون نگار کی علمیت، اسلام کی دانش ورانہ روایت سے آگاہی اور کتاب و سنت (جو اسلامی شریعت کا بنیادی مصدر ہیں) کی تفہیم اور تشریح کا ایک ایسا اسلوب بھی سامنے آتا ہے جو منہج سلف سے مستفاد ہے اور عصری حسیت سے عبارت بھی۔

ادبی مضامین کی رنگارنگی قارئین کے ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ مضمون نگارنے مادری زبان کے حوالے سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں لسانیات کا پورا جہان سمٹ آیا ہے۔’اقبال اور تصوف‘ کے موضوع پر ہمارے ادبی جغادریوں نے موٹی موٹی کتابیں لکھی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کتابوں کے مطالعے سے قارئین کو شرح صدر نہیں ہوتا ہے بلکہ مزیدکنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ مضمون مختصر ضرور ہے لیکن تشنہ نہیں ہے۔ ادب میں بے راہ روی اور نعت گوئی میں عدم احتیاط پر ان کی تشویش بجا ہے اور افسوس تو اس بات کاہے کہ شعر وادب کے پردے میں شرکیہ ادب دھڑلے سے پنپ رہا ہے اور منہج سلف سے وفاداری کا دم بھرنے والے اداروں اورگھروں میں بھی جگہ بنا رہا ہے، یقین نہ آئے تو’’حسبی ربی‘‘والی نظم کی ریٹنگ دکھ لیجیے۔ سولہویں صدی عیسوی کے شیرا ز میں پیدا ہونے والے عرفی نے نعت گوئی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا؎

عرفی مشتاب ایں رہ نعت ست نہ صحرا ست

آہستہ کہ رو بر دم تیغ است قدم را

لیکن اردو شاعری خصوصاً نعت نگاری کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شعرا کی اکثریت آج بھی ’’فی کل واد یھیمون‘‘ کا روح فرسامنظر نامہ پیش کر رہی ہے۔

مدرسہ ،مدرس، مو لوی اورامام مسلمانوں کی سماجی زندگی کے اہم ترین کردار ہیں، ان کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے اور آہنگ بھی اور سماجی زندگی کا سوز دروں انہی کے دم سے ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں بھی سب خیریت نہیں ہے، لیکن رسم آذری کے اسیر سماج میں براہیمی نظر مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ شعبان بیدار نے مذکورہ بالا کرداروں کے حوالے سے بے باک اور بے لوث انداز میں لکھا ہے، لیکن متانت اور سنجیدگی کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ ان کا تعلق اسی قبیلے سے ہے، مدرسے کے پروڈکٹ ہیں اور اسی سے وابستہ ہیں جس کی وجہ سے ان کے معاملات و مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کواس طبقے سے ہمدردی ہے، سماج کے ایک حلقے میں اور مادر پدر آزاد صحافت کے بڑے حلقے میں ان کے حوالے سے جو بدگمانیاں پائی جاتی ہیں، وہ کرب ان مضامین سے بھی جھلک رہا ہے لیکن صرف اسی بنیاد پر انھوں نے ان کرداروں کے کمزور گوشوں کو نظر انداز نہیں کیا ہے بلکہ قرینے سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے لہجے میں وقار ہے اور اس طبقے کی عظمت کا پاس بھی، ہاں، کہیں کہیں طنز کے تیر ہیں لیکن جھلاہٹ نہیں ہے۔ اس کتاب میں اس موضوع پر پانچ مضامین ہیں:

نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی(ص:42)

تدریسی زندگی ثنویت نہیں برداشت کرسکتی(ص:129)

علماء کرام سے لوگ بیزار کیوں؟(ص:150)

میں بھی گیا تھا چندہ کرنے(ص:157)

ائمہ و مدرسین کے معاشی مسائل (ص:163)

مذکورہ بالا مضامین کتاب میں ایک جگہ نہیں ہیں لیکن جب ان کا مطالعہ ایک ساتھ کیا جاتا ہے تو ان کا آپس میں ارتباط اور انسجام نظر آتا ہے، اسی لیے ان پر ایک ساتھ گفتگو کی جارہی ہے۔ اول الذکر مضمون میں مدارس کے زمینی مسائل (ہوائی نہیں)پر اظہار خیال کیا گیاہے جن میں مدارس کے نظام اور نصاب میں اصلاح کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، لیکن اس راہ میں قدیم اور جدید نسل ایک صفحے پر نہیں ہے، بلکہ پرانی نسل کے کچھ لوگ نئی نسل کو غیر ذمے دار سمجھتے ہوئے ان کے خیالات کو مدارس کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے لڑکوں/لڑکیوں کے نصاب میں یکسانیت کا نظریہ رد کردیا ہے۔ وفاق المدارس پر زور دیا ہے۔ مدرسین کے معاشی مسائل جو بہت کم ہماری توجہ اور بحث کا حصہ بن پاتے ہیں، انھوں نے اس پر بھرپور توجہ دی ہے اور عملی حل بھی پیش کیا ہے بس، کسی رجل رشید کی ضرورت ہے جو ان کے خاکے میں رنگ بھر سکے۔

شعبان بیدار ایک حساس اور ذمے دار قلم کار ہیں ،ان کا مزاج دعوتی ہے ،ان کے یہاں Cherry-pick والا معاملہ نہیں ہے، بلکہ سماج کے جس گوشے میں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، وہ بے دھڑک اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ میرے خیال سے اب اس موضوع پر دو رائے نہیں ہے کہ ہمارا خاندانی نظام تتر بترہوچکا ہے، عائلی زندگی میں بغض و حسد اورنفرت کی ابابیلوں نے اپنا نشیمن بنالیا ہے جس کی وجہ سے والدین ،اولاد اوربھائی بہنوں کے رشتے میں تلخی اور تناؤ ہے اور بعض جگہ حالات تو دھماکہ خیز ہیں۔ مضمون نگار کو بھی اس کا ادارک ہے، اسی لیے اس کتاب میں خاندانی اورعائلی مسائل پر بھی اچھا خاصا مواد موجود ہے اوراس ضمن میں اس مضمون (پرسکون خاندان اور آداب اختلاف،ص:225)سے ان کے درد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ساس اور بہو کے باہمی تعلقات اور مکان و مکین پر اس کے اثرات سب کے سامنے ہیں۔ انھوں نے ایک سے زائد مضامین (رشتہ،ساس بہو کا! ندی کے دو کنارے (ص:214)اور ساس کا مسئلہ کیا ہے؟ ص:217) میں اس رشتے کی پیچیدگی اور اس کے بطون میں پوشیدہ نفسیاتی پیچ وخم کو سمجھنے اورسمجھانے کی کوشش کی ہے۔تعلقات میں ناخوش گواری کے خارجی اسباب میں میڈیا کے رول کا بھی ذکر کیا ہے جس کو اس مضمون (گھریلو رشتوں کو اکھاڑہ بناتے ٹی وی سیریلز،ص:219) میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ’اولڈ ایج ہاؤس آفت ہے نئی‘ (ص:222) کا تعلق بھی عائلی مسائل سے ہے، انھوں نے اس اہم موضوع کو بھی چھیڑا ہے اور اختصار ہی سے سہی لیکن دونوں گوشوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اولاد کی تربیت کا مسئلہ بھی اسی سے متعلق ہے، اس پر بھی خوب لکھا ہے۔

اس کتاب کا اہم ترین مضمون’برصغیر کی سیاست میں میاں صاحب کا حصہ‘(ص:179)ہے جو تاریخی نوعیت کا ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہورہا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بعض قلم کاروں کی طرح انھوں نے نہ تو معذرت خواہانہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے اور نہ ہی دفاعی اسلوب میں بات کہنے کی کوشش کی ہے بلکہ تاریخی حقائق کو صحیح تناظر میں پیش کردیا ہے۔ انھوں غالباً پہلی بار اس سوال کو اٹھا یاہے اور سلیقے سے اٹھایا ہے کہ’’کیا ضروری ہے کہ ہر اہل حدیث عالم انگریزوں کے خلاف جہاد کرتا ہوا نظر آئے…‘‘(ص:183)دراصل ہندستان میں تحریک آزادی اور اس کے بعد آزاد ہندستان میں مسلمانوں کی خدمات کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے، اس میں محمد میاں مرحوم سے لے کر علی میاں مرحوم تک کسی نے جماعت اہل حدیث کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے اور بدقسمتی سے یہ نامسعود سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مولانا سجاد نعمانی صاحب نے حد ہی کردی ہے بلکہ والد مرحوم سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے ،آمین۔

اسی وجہ سے اہل حدیث اہل قلم کا ایک طبقہ جب اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو کبھی معذرت خواہانہ اور کبھی دفاعی اسلوب اختیار کرلیتا ہے،حتی کہ ستر کی دہائی میں منظر عام پرآنے والی اہم ترین کتاب’ اہل حدیث اور سیاست ‘بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نئی نسل ماضی کے بوجھ سے آزاد ہورہی ہے اور تاریخی حقائق کو ان کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مجھے اس بات کا احساس ہے اور اعتراف بھی کہ اس تبصرے میں کئی ایک اچھے مضامین رہ گئے ہیں لیکن مذکورہ بالا سطور سے کتاب کے محتویات اور مضمون نگار کے اسلوب کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔ مضمون نگار مدرسے کے فاضل ہیں اور درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کے قبیلے اور پیشے سے متعلق کئی Perceptionپائے جاتے ہیں جن کو یہ کتاب پاش پاش کرتی ہے۔ جیسے عصری مسائل سے بے خبری، تناظر میں سلیقے سے بات کہنے کے ہنر سے عدم واقفیت اور ہندی زبان سے اجنبیت وغیرہ۔ یہ کتاب ایسے کئی تصوراتی بتوں کو مسمار کرتی نظر آرہی ہے۔ شمالی ہندستان میں ہندی زبان کی اہمیت کے باوجود مدارس اور علما کا رویہ اس زبان کی تعلیم کے تئیں بہت حوصلہ افزا نہیں ہے، لیکن احساس و اعتراف سب کو ہے اور اسی کے ثبوت میں ’’اصلاح سماج‘‘بھی نکل رہا ہے، لیکن زبان و بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ناداں یہ سمجھتا ہے کہ…‘‘۔ انھوں نے ایک دو نہیں کچھ کم ایک درجن مضامین کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ہندی سے چربہ کاری‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہندی اخبارات کا بھی مطالعہ کرتے ہیں اور مشتملات سے اردو قارئین کو بھی استفادے کا موقع دیتے ہیں۔

مضمون نگار کا اسلوب سادہ اور دل کش ہے، ان کو الفاظ پر بے پناہ قدرت حاصل ہے، وہ ایک مضمون کو سو ڈھنگ سے باندھنے کے ہنر سے واقف ہیں، لیکن لفظی اسراف، مبالغہ آرائی اور نری لفاظی بالکل نہیں ہے۔ جو بھی بات کہی ہے سلیقے اور قرینے سے کہی گئی ہے، تنقیدی تاثرات میں تجریح کا شائبہ تک نہیں ہے، جوانی کے جوش اور’’میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب‘‘کی عمر میں لکھے گئے مضامین میں اعتدال و متانت بجاے خود خاصے کی چیز ہے۔ انھوں نے مضامین میں مقامی/علاقائی محاورے کا فن کارانہ استعمال کیا ہے۔ مضامین کی سب سے بڑی خوبی تحلیل اور تجزیہ ہے اور مصنف کے اسلوب میں دردمندی اور سوز ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے مضامین قارئین کو پرچاتے ہیں۔ بقول ابوالمیزان ’’شعبان بیدار صاحب گزشتہ دس بارہ سالوں سے لکھ رہے ہیں۔‘‘(ص:9)لیکن تخلیقی سفر کی اس مختصرمدت کے باوجود ان کے یہاں فکر کی سطح پر جو Maturity پائی جاتی ہے، وہ قابل رشک ہے اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رنگا رنگ مضامین کسی عمر دراز قلم کار کے کشت خیال کے نمونے ہیں۔ جیسا کہ مولانا ابوالقاسم فاروقی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’ان [شعبان بیدار]کے قلم کی پختگی اور فکر اسلوب کی وجہ سے میرے ذہن میں ان کی شبیہ ایک معمر اور بزرگ قلم کار کی تھی۔‘‘(ص:13)

کتاب کا نام’ آبشار خیال‘ اسم با مسمی ہے جس کو قارئین محسوس کرسکتے ہیں۔ کتاب میں پروف ریڈنگ کا اہتمام کیا گیا ہے، اسی لیے پڑھنے میں اور لطف آتا ہے، ہاں، ایک آدھ جگہ کچھ جملے کھٹکتے ہیں جیسے:

٭’’مجاز اعظمی کی ریل ہانپتی کانپتی دوڑتی چنگھاڑتی آپہنچی تھی۔‘‘(ص:321)میرے خیال سے مضمون نگار نے مشہور ترقی پسند شاعرمجاز لکھنوی کی مشہور نظم ’رات اور ریل‘ کو استاذ محترم مجاز اعظمی کی طرف منسوب کردیا ہے۔

٭’’قرآن پاک میں اس ذہنیت کوبڑی شدت سیــ’’کوڈ‘‘ کیا گیا ہے۔‘‘(ص:322)میرے خیال میں مضمون نگار’’Quote‘‘ لکھنا چاہتے تھے۔

٭’’کشمیر سے کنیا کماری تک کوئی درخت ایسا نہ ہواکہ جس پر ان علما کی لاشیں نہ لٹک رہی ہوں۔‘‘(ص:116) مجھے لگتا ہے کہ تقریر کے لیے یہ مبالغہ آمیز انداز درست ہوسکتا ہے، لیکن تحقیقی مضامین اس طرح کے بیانات کے متحمل نہیں ہوتے۔

مضمون نگار کا بہت بہت شکریہ، کہ اتنے متنوع مضامین پڑھنے کا موقع دیا۔ مرتب کا شکریہ کہ ان مضامین کو سلیقے سے ترتیب دیا، ورنہ ہمارے علمی معاشرے میں مرض الموت یا موت کے بعد ہی کسی کے اس کی طرف توجہ دی جاتی ہے اور ناشر کا شکریہ کہ اتنے عمدہ،رنگارنگ اور متنوع مضامین کوان کے شایان شان شائع کیا۔ دعا ہے کہ تینوں حضرات پھلے پھولیں اوراس معصیت زدہ ماحول میں خالص اسلامی ادب کی ترتیب و اشاعت سے اردو قارئین کے مشام جاں کو معطر کرتے رہیں، آمین۔


نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں: 9990674503

آپ کے تبصرے

3000