انسان چاہے کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، حتی کہ ملحد اور لبرل ہی کیوں نہ ہو اسے نکاح کی ضرورت ہے۔ یہ انسان کی فطری ضرورت ہے، اور ہر مذہب و معاشرے میں اس کے کچھ طور طریقے ہیں، رسم ورواج ہیں، قواعد وضوابط ہیں، جن کی روشنی میں ہونے والی شادی کو سماج اور معاشرے میں قبولیت کا درجہ ملتا ہے، ان قوانین کو فالو کیے بغیر اگر کوئی جوڑا ازدواجی رشتہ قائم کرے تو سماج ومعاشرہ اسے میاں بیوی نہیں، زانی وزانیہ مانتا ہے۔
اللہ تعالی نے لوگوں کی فطرت میں یہ ڈال دیا ہے کہ اس خوبصورت رشتے کو قائم کرنے کے لیے کچھ قاعدے وقانون کی اتباع کی جائے۔
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی نکاح کے کچھ شروط وضوابط تھے جنھیں کفار ومشرکین فالو کرتے تھے۔ البتہ دوسرے امور کی طرح اس باب میں بھی ان کے یہاں ظلم وتشدد، فساد وبربریت اور ضلالت وگمراہی کا تسلط تھا۔ اسلام آیا تو اس نے انسانی فطرت کے تقاضے کا جہاں حد درجہ خیال رکھا، وہیں اس خوبصورت رشتے کو داغدار کرنے والے تمام امور سے اسے پاک وصاف کیا، ظلم وتشدد پر مبنی تمام طریقوں کو ختم کیا۔ چنانچہ اس زمانے کے بہت سارے رائج نکاح کو حرام اور باطل قرار دیا، جن میں سر فہرست نکاحِ حلالہ اور نکاحِ متعہ ہے۔
ذیل میں اس طرح کے بعض نکاحوں کے شرعی حکم کے بارے میں مختصر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
(۱)نکاحِ حلالہ:
نکاح حلالہ کی تعریف:تین طلاق یافتہ کسی خاتون سے کوئی اس شرط پر نکاح کرے کہ جماع کے بعد اسے طلاق دے دےگا تاکہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے۔ [النہایہ فی غریب الحدیث لابن الاثیر (1/431)
شرعًا یہ نکاح حرام اور باطل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی گھناونی حرکت کرنے والے پر اللہ تعالی کی لعنت بھیجی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:«لَعَنَ اللهُ المُحَلِّلَ والمُحَلَّلَ له»(حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہو) [سنن ابی داود (حدیث نمبر 2076)، جامع ترمذی (حدیث نمبر 1120)، سنن نسائی (حدیث نمبر 3416)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 1935)، علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (حدیث نمبر 1897) میں اسے صحیح کہا ہے]
کیونکہ اللہ تعالی نے مطلقہ ثلاثہ کے لیے اپنے پہلے شوہر کی طرف رجوع کا جو شرعی طریقہ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ شادی کرے، شادی کے وقت دونوں ہمیشہ ساتھ رہنے کی نیت سے بہ رضا ورغبت یہ شادی کر رہے ہوں، اگر بعد میں دوسرے شوہر کی وفات ہو جائے، یا نباہ نہ ہونے کی وجہ سے (پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے یا ہونے کی نیت سے نہیں)وہ اسے طلاق دے دے، یا خاتون خلع لے لے، تو اس کے لیے عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر نا جائز ہے۔
یہ حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم کے اندر خود بیان کیا ہے:
فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ[سورة البقرة /230]
(اگر وہ اسے –یعنی اپنی بیوی کو- طلاق دے دے، تو وہ اس کے لیے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ کسی دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے۔ اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے تو پہلے شوہر اور اس خاتون کے لیے کوئی حرج نہیں کہ دونوں رجوع کر لیں –یعنی دوبارہ شادی کریں- اگر دونوں کو لگ رہا ہے کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم کر سکتے ہیں)
حدیث میں”حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ“ کی تفسیر موجود ہے کہ اس سے مراد جماع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن بن الزَبِیر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کو جو قبل از جماع اپنے پہلے شوہر رِفاعَہ القُرَظِی رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹنا چاہتی تھیں کہا تھا کہ ”لاَ، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ“(نہیں، یہاں تک کہ وہ آپ کی مٹھاس چکھ لیں، اور آپ ان کی مٹھاس)۔ [متفق علیہ: صحیح بخاری (حدیث نمبر 6084)، صحیح مسلم (4/154-155)]
اس آیت میں ”فَإِن طَلَّقَهَا“ کا لفظ دو بار آیا ہے، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح پہلے شوہر نے اپنی رضامندی سے طلاق دی ہے، دوسرا بھی اپنی رضامندی سے ہی طلاق دے، اسے مجبور نہ کیا گیا ہو، اور نہ پہلے ہی ایک رات گزار کر طلاق دینے پر اتفاق کر لیا گیا ہو جیسے کہ اکثر حلالہ کے معاملہ میں دیکھا جاتا ہے۔
نیز پہلے شوہر نے جس طرح ساتھ زندگی گزارنے کی نیت سے شادی کی تھی، طلاق دینے کی نیت سے نہیں، طلاق کی نوبت بعد میں پیدا ہوئی جس بنا پر اس نے طلاق دی۔ اسی طرح دوسرا شوہر بھی ساتھ زندگی گزارنے کی نیت سے ہی شادی کرے، پہلے سے ہی طلاق دینے کی نیت سے نہیں۔
اگر حلالہ کی نیت سے اس نے شادی کی اور بعد میں طلاق دے دیا تب بھی وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ کیونکہ بظاہر گرچہ یہ شرعی نکاح لگ رہا ہو، لیکن حقیقت میں شرعًا اس نکاح کا کوئی اعتبار ہی نہیں۔ یہ ایک ملعون نکاح ہے، ایسے نکاح کرنے والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایہ کا سانڈ کہا ہے، شوہر نہیں۔ [سنن ابی داود (حدیث نمبر2076)، جامع ترمذی (حدیث نمبر 1120)، سنن نسائی (حدیث نمبر3416)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 1935)۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (حدیث نمبر 1897) میں اسے صحیح کہا ہے۔]
نیز اس پر آپ نے اللہ تعالی کی لعنت بھیجی ہے۔ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد صحابہ کرام نے روایت کیا ہے، مثلا:عبد اللہ بن مسعود، ابو ہریرہ، علی بن ابو طالب اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ۔
مذکورہ صحابہ کرام کی روایات ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فهؤلاء الأربعة من سادات الصحابة رضي الله عنهم، وقد شهدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم بلعنه أصحاب التحليل، وهم: المحلِّل والمحلَّل له وهذا خبر عن الله فهو خبر صدق، وإما دعاء فهو دعاء مستجاب قطعاً ، وهذا يفيد أنه من الكبائر الملعون فاعلها[زاد المعاد لابن قيم الجوزیہ:5/110]
(یہ چار بزرگ صحابہ کرام ہیں، جنھوں نے حلالہ کرنے والے اور جن کے لیے حلالہ کیا جا رہا ہے، دونوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ اگر یہ اللہ کی طرف سے ایک خبر ہے تو سچی خبر ہے، اور اگر بد دعا ہے تو یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا بارگاہ الہی میں مقبول ہے۔ یہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ حلالہ ایک گناہ کبیرہ ہے اور کرنے والا لعنتی ہے)
اور ان کے جلیل القدر استاد شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذه سنن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينة في أنه لعن المحلل والمحلل له، وذلك من أبين الأدلة على أن التحليل حرام باطل؛ لأنه لعن المحلل فعلم أن فعله حرام؛ لأن اللعنة لا تكون إلا على معصية, بل لا يكاد اللعن إلا فعل كبيرة , إذ الصغيرة تقع مكفرة بالحسنات إذا اجتنبت الكبائر، واللعنة هي الإقصاء والإبعاد عن رحمة الله و لن يستوجب ذلك إلا بكبيرة[بيان الدليل على ابطال التحليل لابن تيميہ: ص 323]
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث بالکل واضح ہیں کہ آپ نے حلالہ کرنے اورکرانے والے دونوں کے لیے لعنت بھیجی ہے۔ یہ سب سے بین دلیل ہے کہ نکاح حلالہ حرام اور باطل ہے، کیونکہ جب حلالہ کرنے والے پر لعنت بھیجی تو پتہ چلا کہ یہ کام حرام ہے، کیونکہ لعنت صرف گناہ پر ہی بھیجی جاتی ہے،وہ بھی گناہ کبیرہ پر، جہاں تک گناہ صغیرہ کی بات ہے تو یہ کبائر سے اجتناب کی صورت میں نیکیوں سے دھل جاتی ہیں۔ لعنت کہتے ہیں رحمت الہی سے دوری کو، اور یہ سزا گناہ کبیرہ کے علاوہ کسی دوسرے گناہ کی نہیں ہو سکتی)
نیز فرماتے ہیں:
ثم إنه لعن المحلل له, فبين بذلك أنها لم تحل له بذلك التحليل, إذ حلت له لكان نكاحا مباحا فلم يستحق اللعن عليه, فعلم أن الذي فعله المحلل حرام باطل, وأن تزوج المطلق ثلاثا لأجل هذا التحليل حرام باطل[بيان الدليل على ابطال التحليل لابن تيميہ:ص 324]
(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر لعنت بھیجی تو اس سے واضح ہو گیا کہ وہ عورت اس نکاح حلالہ سے حلال نہیں ہوگی، اگر حلال ہو جاتی تو یہ نکاح مباح ہوتا،اور اس پر وہ لعنت کا مستحق نہ ہوتا، اس سے پتہ چلا کہ حلالہ کرنے والے نے جو کام کیا ہے وہ حرام اور باطل ہے، اور تین طلاق دینے والا اگر اس نکاح حلالہ کی وجہ سے اس عورت سے شادی کر لیتا ہے تو یہ شادی بھی حرام اور باطل ہے)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس موضوع پر مستقل کتاب تصنیف کی ہے، جس کا نام ہے ”بیان الدلیل علی ابطال التحلیل“، اس میں انھوں نے اس نکاح کے حرام اور باطل ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔[بيان الدليل على ابطال التحليل لابن تيميہ:ص 324]
سلف صالحین کا اسی پر عمل بھی رہا ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:«لَا أُوتَى بِمُحِلٍّ، وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا»[مصنف ابن ابي شيبہ:3/552، ح17080)، و(7/292، ح26191)، واسنادہ لا باس بہ]
(حلالہ کرنے اور کرانے والے میرے پاس لائے گئے تو میں انھیں رجم کر دوں گا)
اور ان کے فرزند عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَهُ عَمَّنْ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَهَا أَخٌ لَهُ مِنْ غَيْرِ مُؤَامَرَةٍ مِنْهُ لِيُحِلَّهَا لِأَخِيهِ، هَلْ تَحِلُّ لِلْأَوَّلِ؟ قَالَ: «لَا إِلَّا نِكَاحُ رَغْبَةٍ، كُنَّا نَعُدُّ هَذَا سِفَاحًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ[المعجم الاسط للطبرانی (2/174)، والسنن الکبری للبیہقی (7/208)۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”ارواء الغلیل“ (حدیث نمبر 1898) میں اس کی سند کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے]
(ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور سوال کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا ہے، اگر اس کا کوئی بھائی بغیر اس کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کیے اس خاتون سے اس نیت سے شادی کرے کہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے، تو کیا یہ جائز ہے؟ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:نہیں، صرف بہ رضا ورغبت نکاح کرنا ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس طرح کے نکاح کو زنا شمار کرتے تھے)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کا یہ اثر بالکل صریح ہے کہ حلالہ کرنے والا اگر حلالہ کی نیت سے نکاح کرے، ساتھ زندگی گزارنے کی نیت سے نہیں، تو اس سے وہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی، حرام ہی رہےگی،چاہے اس نے پہلے شوہر کے ساتھ کوئی اتفاق کیا ہو، یانہ کیا ہو ۔
خلاصہ یہ کہ نکاحِ حلالہ ایک حرام اور ملعون نکاح ہے۔ نیز اس سے کوئی عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال بھی نہیں ہوتی۔
(۲)نکاحِ متعہ:
اس کی تعریف میں علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو أن يتزوج الرجل المرأة بشيء مسمى إلى أجل معلوم يومًا أو شهرًا أو مدة من الزمان معلومةً على أن الزوجية تنقضي بانقضاء الأجل[الکافی فی فقہ اہل المدینہ:2/533]
(مرد عورت سے متعینہ مہر کے عوض ایک دن یا ایک مہینہ یا کوئی بھی متعینہ مدت تک کے لیے شادی کرے کہ جیسے ہی وہ متعینہ ختم ہوگی دونوں کے مابین ازدواجی رشتہ ختم ہو جائےگا)
ابتدائے اسلام میں بوقت ضرورت اس کی اجازت تھی، لیکن پھر بعد میں اس کی حلت منسوخ ہوگئی، اورقیامت تک لیے اللہ تعالی نے اسے حرام قرار دیا۔ متعدد احادیث میں یہ باتیں مذکور ہیں۔ذیل میں بعض احادیث کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
۱۔سبرہ بن معبدالجہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يا أيها الناس إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، وأن الله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله، ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئًا»[صحیح مسلم:4/132، حدیث نمبر 1406]
(اے لوگو! میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کی اجازت دی تھی، اب اللہ تعالی نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔اس لیے جس کسی کے پاس ان عورتوں میں سے کوئی عورت ہو تو وہ اس کا راستہ چھوڑ دے، اور جو کچھ تم لوگوں نے انھیں دیا ہے اس میں سے کوئی چیز واپس مت لو)
سبرہ بن معبد الجہنی رضی اللہ عنہ خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
قد كنتُ استمتعتُ في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأةً من بَنِي عامر ببُرْدَين أحمرَين، ثم نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المتعة[صحیح مسلم:4/132، حدیث نمبر 1406]
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بنو عامر کی ایک خاتون سے میں نے دو سرخ چادروں کے عوض نکاح متعہ کیا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نکاح متعہ سے منع فرما دیا)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ ”المحلی“ میں«وأن الله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة» کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ما حرّمَ إلى يوم القيامة فقد أَمِنَّا نَسْخَهُ[المحلى لابن حزم:9/520]
(جسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیاہےاس کے منسوخ ہونے سے ہم مأمون ہو گئے)یعنی اب یہ کبھی دوبارہ منسوخ نہیں ہو سکتا۔
۲۔ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں:
رَخَّصَ رسول الله صلى الله عليه وسلم عام أوطاس في المتعة ثلاثًا ثم نَهَى عنها[صحیح مسلم:4/131]
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوطاس کے سال تین دن متعہ کی رخصت دی، پھر اس سے منع فرما دیا)
۳۔علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نَهَى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن متعة النساء يوم خيبر وعن أكل لحوم الحمر الإنسية[متفق عليہ:صحیح بخاری (حدیث نمبر 4216)،صحیح مسلم (4/134]
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں سے متعہ کرنے اور گھریلو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا)
یہ تمام احادیث اس بات پر صراحت اور قطعیت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں کہ نکاح متعہ شروع اسلام میں جائز تھا، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے اسے حرام قرار دیا۔ اس کے بعد امت میں یہ ایک متفق علیہ حرام اور باطل نکاح کے طور پر معروف رہا،اور اس کی حرمت پر ہی تمام سلف صالحین کا فتوی اور عمل رہا، یہاں تک کہ بہت سارے علما نے اس کی حرمت پر اجماع نقل کیا ہے۔ مثلا :امام طحاوی، خطابی، جصاص، ابو بکر ابن العربی، ابن عبدالبر، بغوی، ابن المنذر، مازری، قاضی عیاض، قرطبی، قسطلانی، وغیرہم نے اس کی حرمت پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔ [دیکھیں:احکام القرآن للجصاص (2/152)، معالم السنن للخطابی (3/190)، شرح السنہ للبغوی (5/78)، المعلم للمازری (2/130)، المنہاج للنووی (9/181)، فتح الباری لابن حجر (9/173)، وارشاد الساری للقسطلانی (11/399) وغیرہ]
لہذا یہ ایک مجمع علیہ حرام نکاح ہے۔
سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اہل بیت کے ائمہ کرام بھی اس کی حرمت پر متفق ہیں، شیعہ امامیہ کے ایک بڑے عالم حسین بن احمد سیاغی نے ”الروض النضیر شرح مجموع الفقہ الكبير“ (4/217) میں ”الجامع الکافی“ سے فقیہ عراق حسن بن یحی کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
أجمع آل رسول الله صلى الله عليه وسلم على كراهية المتعة والنهي عنها
(آل ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی کراہیت اور اس کی ممانعت پر اجماع کیا ہے)
نکاح متعہ کے متعلق ایک شبہے کا ازالہ:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بعض آثار سے بعض لوگ استدلال کرتے ہیں کہ نکاح متعہ جائز ہے، اور یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے جواز کے قائل تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک مدت تک اس کے جواز کے قائل تھے۔ان سے ایک دوسرا قول یہ مروی ہے کہ انھوں نے صرف اضطراری حالات کے شکار افراد کے لیے اسے جائز کہا تھا، مطلقا جائز نہیں کہا تھا۔ [دیکھیں:ارواء الغلیل:حدیث نمبر 1903]
جب کہ کئی علما نے ان کے بارے یہ دعوی کیا ہے کہ جب انھیں اس حکم کے منسوخ ہونے کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے جواز کے فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”ابن عباس رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے لیے اسے مباح کہتے تھے جو نکاح کے لیے مضطر ہوں، تنگ دستی کے شکار ہوں، اور لمبی مدت سے شادی نہ ہو رہی ہو، ایسے لوگوں کے لیے انھوں نے اسے جائز کہا تھا، پھر آپ نےیہ فتوی دینے سے توقف اختیار کر لیا، اور اس فتوے سے رک گئے۔“[معالم السنن:3/191]
امام جصاص رحمہ اللہ نے ”احکام القرآن“(2/147) میں آیت”فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ“ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اسے ایک دوسری آیت ”يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ“ نے منسوخ کر دیا ہے۔ امام جصاص اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
هذا يدل على رجوعه عن القول بالمتعة
(یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انھوں نے متعہ کے جواز کے قول سے رجوع کر لیا تھا)
اگر بالفرض مان بھی لیں کہ انھوں نے جواز کا فتوی دیا تھا، اور اس سے رجوع نہیں کیا تھا، پھر بھی ان کا یہ فتوی بہت سارے صریح وصحیح احادیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہے۔ صحابی کا قول اس وقت حجت ہے جب وہ کتاب وسنت یا ان ہی کے جیسے کسی دوسرے صحابی کے قول کے بر خلاف نہ ہو، اور یہاں سنت رسول کی واضح دلیل موجود ہے کہ یہ قیامت تک کے لیے ایک باطل اور حرام نکاح ہے۔ نیز دوسرے صحابہ کرام نے ان کی مخالفت کی ہے، اور ان کے اس فتوے کی وجہ سے ان پر انکار کیا ہے، جیسے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ان کے اوپر اس فتوے کی وجہ سےسخت انکار امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (ح1406) میں نقل کیا ہے۔
امام مسلم (ح1406)نے ہی مشہور تابعی ابن ابی عمرہ الانصاری رحمہ اللہ(جو کہ مخضرم ہیں) کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
«إِنَّهَا كَانَتْ رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ لِمَنِ اضْطُرَّ إِلَيْهَا، كَالْمَيْتَةِ، وَالدَّمِ، وَلَحْمِ الْخِنْزِيرِ، ثُمَّ أَحْكَمَ اللهُ الدِّينَ وَنَهَى عَنْهَا»
(شروع اسلام میں مردار، خون اور سور کے گوشت کی طرح حالت اضطرار کے شکار لوگوں کے لیے اس کی رخصت تھی ، پھر اللہ تعالی نے دین کو محکم کیا اور اس سے منع فرما دیا)
یہاں سب سے تعجب خیز پہلو یہ ہے کہ امت میں سے صرف اثنا عشری شیعہ ہی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ باقی پوری امت کا اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ یہ شیعہ حضرات حُبِّ آل بیت کا دم بھرتے ہیں حالانکہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس کی حرمت کی دلیل موجود ہے، اور خود شیعہ عالم کی گواہی کے مطابق ائمہ اہل بیت کا اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو علی رضی اللہ عنہ کی واضح حدیث اور ائمہ آل بیت کے اجماع کی مخالفت نہ کرتے۔اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ صرف زبانی دعوی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
متعہ اور حلالہ کی طرح ہی ایک اور نکاح بعض لوگوں کے یہاں پایا جاتا ہے، وہ ہے:”الزواج بنیۃ الطلاق“ یعنی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا۔ اس میں نکاح کرنے والا ہمیشہ ساتھ زندگی گزارنے کی نیت سے نکاح نہیں کرتا، بلکہ نکاح کے وقت ہی اس کی نیت میں ہوتا ہے کہ متعینہ مدت کے بعد اس لڑکی کو طلاق دے دینا ہے۔ یہ نکاح بھی راجح قول کے مطابق حرام ہے۔ کیونکہ اس میں نکاح کےاہداف و مقاصد کا فقدان ہوتا ہے، یہ شبہِ متعہ ہے جس میں ایک متعینہ مدت کے بعد علیحدگی ہو جاتی ہے، فرق یہ ہے کہ متعہ میں اس کی صراحت ہوتی ہے، اور اِس میں شوہرچال چلتے ہوئےاسے سینے میں ہی پوشیدہ رکھتا ہے، لڑکی کے اولیاء کو بتاتا نہیں تاکہ انھیں دھوکہ میں رکھا جاسکے، اور اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے بعد طلاق دے سکے۔یہ واضح طور پر دھوکہ دھڑی ہے جو مقاصد شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ، شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ اور سعودی فتوی کمیٹی سے اس نکاح کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا۔ ڈاکٹر صالح بن عبد العزیز آل منصور حفظہ اللہ نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے، جس کا عنوان ہے ”الزواج بنية الطلاق من خلال أدلة الكتاب والسنة ومقاصد الشريعة الإسلامية“، اس میں انھوں نے دلائل کی روشنی میں اس کی حرمت کو ہی راجح قرار دیا ہے۔
(۳)نکاحِ مِسیار:
نکاحِ مِسیار کی تعریف:ایسا نکاح جس میں نکاح کے تمام شروط وارکان پائے جائیں، لیکن باہمی رضامندی سے بیوی اپنے بعض ازدواجی حقوق، مثلا:رہائش، نان ونفقہ اور مَبِیت (یعنی شوہر کا بیوی کے پاس رات گزارنا، اور ایک سے زائد بیوی ہونے کی صورت میں راتوں کی تقسیم) وغیرہ امورسے دستبردار ہو جائے، صرف دن میں یا جب اسے فرصت ملے اپنی بیوی کے پاس آئے۔ اور اس نکاح کا اعلان بھی بہت ہی محدود پیمانے پر ہو۔ [دیکھیں:المسائل الفقہیہ المستجدہ فی النکاح للشیخ بدر ناصر السبیعی:ص230]
عصر حاضر میں اس نکاح کا رواج خوب بڑھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے بہت ساری خواتین نکاح میں تاخیر کی وجہ سے، یا طلاق کے بعد،یا شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی نہ ہونے کی وجہ سے، یا معاشی طور پر مضبوط ہونے اورشوہر کی ماتحتی ونگرانی سے آزاد رہنے کی خاطر چاہتی ہیں کہ جائز طریقے سے جنسی ضرورت بھی پوری ہوتی رہے اور شوہر کے ما تحت اس کی نگرانی میں بھی نہ رہنا پڑے، گھر کے باہر جہاں چاہیں آزادی کی زندگی گزارتی رہیں۔ اسی طرح مرد حضرات کا بھی معاملہ ہے کہ انھیں نکاح کے بعد کی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑتا، اور دوسری، تیسری وچوتھی شادی کی خواہش بھی جائز طریقے سے پوری ہو جاتی ہے۔ اس لئے گزشتہ چند سالوں میں اس نکاح کا رواج خوب بڑھا ہے۔
”نکاحِ مِسیار“یہ ایک نیا نام ہے، متقدمین علما کے یہاں اس نام سے کسی نکاح کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا، البتہ اس کی جو صورتیں بیان کی جاتی ہیں، ان میں سے بعض صورتیں علمائے متقدمین کے یہاں کتب الفقہ میں موجود ہیں، اور اسے وہ ”نکاح النہاریات“یا ”نکاح اللیلیات“کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
معاصر محقق علما کے مابین یہ ایک مختلف فیہ مسائل میں سے ہے کہ شرعًا یہ نکاح جائز ہے یا نہیں۔
اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ بظاہر اس میں نکاح کے تمام ارکان وشروط پائے جا رہے ہیں لیکن شریعت نے نکاح کے جو اہداف ومقاصد بیان کیے ہیں مثلًا:نسلِ انسانی کی افزائش، اولاد کی تربیت، عورت کو شوہر کا مضبوط سہارا،شوہر کی اپنی بیوی پر قوَّامیت اور کنٹرول، دونوں کے مابین انسیت، محبت اور سکون، وغیرہ امور اس میں یا تو پائے ہی نہیں جاتے، یا بہت کم پائے جاتے ہیں۔
اس طرح کے نکاحوں میں خاتون صرف اپنے واجبی رہائش، نان ونفقے اور مَبِیت سے ہی دستبردار نہیں ہوتی، بلکہ عموما افزائش نسل سے دور رہنا پسند کرتی ہے، اگر بچے ہوئے بھی تو وہ والد کی تربیت اور الفت ومحبت سے محروم ہوتے ہیں، والد کا اپنے بچوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر ایک متعینہ مدت کے لیے یہ نکاح کیا جاتا ہے، اور پھر اپنی ضرورت پوری ہو جانے کے بعد شوہر بیوی کو طلاق دے دیتا ہے، یا بیوی شوہر سے خلع لے لیتی ہے۔ شوہر چونکہ خرچ نہیں کرتا اس لیے بیوی پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، وہ جہاں چاہتی ہے آزادی سے گھومتی پھرتی رہتی ہے، نہ شوہر کی نگرانی اور نہ گھر سے باہر جانے کے لیے شوہر کی اجازت، دونوں کے مابین محبت اور سکون نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی،یہ اور اس طرح کے دیگرمفاسد کی وجہ سے بہت سارے علما نے اسے نا جائز کہا ہے۔ اسے ناجائز کہنے والوں میں سر فہرست علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ، ڈاکٹر سلیمان الاشقر اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ ہیں۔ علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اسے پہلے پہل جائز کہا تھا، لیکن جب اس کے مفاسد ظاہر ہونے شروع ہوئے تو آپ نے اپنے قدیم فتوے سے رجوع کر لیا، اور اس کے ناجائز ہونے کا فتوی دینے لگے۔علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے جواز کا فتوی دینے کے بعد آخر میں اس فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔
علمائے کرام کے فتاوے اور ان کے دلائل دیکھنے کےبعد اقرب الی الصواب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نکاح نہ مطلقا حرام ہے اور نہ مطلقا جائز۔ بلکہ اس میں تفصیل ہے۔ اگر اس میں شرعی محظورات پائے جائیں،مثلا:کوئی تعلیم حاصل کرنے یا تجارت کی غرض سے کسی اجنبی شہر میں مقیم ہو اور وہاں رہنے کی مدت تک کے لیے اس طرح کا نکاح کرے، اور نیت ہو کہ فائنل اگزٹ کے وقت اسے طلاق دے دینا ہے، یا بغیر ولی کے یہ نکاح کیا جائے، یا مخفی طور پریہ نکاح کرے، یا پہلے ہی سے عدم تناسل (یعنی بچہ نہ لینے) کا ارادہ ہو، یا بیوی شوہر کی قوامیت تسلیم نہ کرے، وغیرہ تو یہ نکاح جائز نہیں۔
اور اگر اس طرح کے مفاسد نہ ہوں، تمام شروط وارکان پائے جائیں، صرف بیوی رہائش، نان ونفقہ اور مَبِیت سے تنازل اختیار کر لے، تو یہ نکاح جائز ہے، چاہے اسے مسیار کہیں یا کوئی دوسرا نام دیں۔ صرف ان چیزوں سے دستبردار ہونے کی وجہ سے اسے ناجائز کہنا درست نہیں، شیخ سلیمان الرحیلی اور شیخ فرکوس حفظہما اللہ اور دیگر علمائے کرام نے اس صورت میں اسے جائز کہا ہے۔
ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر دراز ہونے کے بعد اماں عائشہ کے حق میں راتوں کی اپنی باری سے تنازل اختیار کر چکی تھیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اماں عائشہ کے گھر میں دو دن رہتے، ایک دن خود ان کی باری کا، اور ایک دن سودہ رضی اللہ عنہا کی باری کا۔ [صحيح مسلم:4/ 17، حدیث نمبر1463]
اسی طرح مرض الموت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازاواج سے اجازت طلب کی کہ اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اپنے ایام گزاریں، ازواج مطہرات نے اجازت دے دی اور آپ اماں عائشہ کے گھر میں رہے۔[متفق علیہ: صحیح بخاری (حدیث نمبر 198)صحیح مسلم (418)]
لہذا کسی بیوی کا مبیت کے اپنے حق سے تنازل اختیار کرنا اور اپنی سوکن کو اپنا حصہ ہبہ کر دینا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح نان ونفقہ اور رہائش کا بھی معاملہ ہے۔ البتہ اگر مستقبل میں عورت اس شرط کو توڑ دے، اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرے تو شوہر کے لیے اس کے حقوق پورے کرنا ضروری ہے، وہ عقد کے وقت کی اس رضامندی اور اگریمنٹ کا حوالہ نہیں دے سکتا اور نہ اپنی ذمہ داری سے بھاگ سکتا ہے۔ ہذا ما ظہر لی، واللہ اعلم، وعلمہ اتم واحکم۔
آپ کے تبصرے