کتاب: مولانا عبدالسلام مدنی:حیات اور خدمات
مصنف: رفیع احمد بن محمد عاقل، دارالسلام، سڈنی، آسٹریلیا
صفحات: 224
قیمت: 380 روپے
اشاعت اول: 2023
ناشر: مرشد پبلیکیشن،شاہین باغ ،نئی دہلی110025
اردو میں سوانحی ادب کا سرمایہ کم و کیف دونوں لحاظ سے اہم ہے، لیکن اس کی طرف جماعت اہل حدیث کی توجہ ذرا دیر سے ہوئی، محترم محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب نے زیر تبصرہ کتاب پر اپنے فکر انگیز مقدمے میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’جماعت اہل حدیث میں سوانح نگاری اور تراجم نگاری کا چلن کافی بعد میں ہوا۔‘‘(ص:13) جب کہ نوآبادیاتی ہندستان اور اس کے بعد آزاد ہندستان میں اسلامی تعلیم و ثقافت کے فروغ میں اس جماعت کے کردار کو بغیر کسی تکلف کے قائدانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود سوانحی ادب کی طرف سے پراسرار سردمہری بلکہ عدم توجہی حیرت انگیز ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ تقلید شخصی کے خلاف اصولی موقف اس راہ میں حائل تھا؟ میرے شہر (مئوناتھ بھنجن) میں جہاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ کی تعداد کچھ کم دو درجن تھی، ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمیں بعض شاگردوں کے نام اور گاؤں سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔ مولانا ابوالقاسم عبدالعظیم کی ’حیات ابوالمکارم‘(ھما للثقافۃ و الاعلام، مئوناتھ بھنجن،2011) کے علاوہ ابھی تک کوئی مستقل سوانح نہیں لکھی گئی ہے۔ (حافظ عبد اللہ غازی پوری پر حافظ شاہد رفیق کی کتاب ’یادگار سلف‘ سرحد پار لکھی گئی۔) اس پس منظر میں فاروقی صاحب کا یہ درد بے جا نہیں ہے: …لیکن بیسویں صدی کے نصف اور آزادی کے بعد کے وہ بڑے علما جنھوں نے اشاعت کتاب وسنت میں بھرپور کردار ادا کیا، ہم ان کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دے سکے، آج ہم ان کے کارناموں سے کما حقہ واقف بھی نہیں ہیں۔‘‘(ص:14)
انبساط اور اطمینان کا مقام ہے کہ سوانحی ادب کی بابت جمود کی برف پگھل رہی ہے، صرف گزشتہ دوتین دہائیوں میں سوانحی ادب کے جو نمونے منظر عام پر آئے ہیں وہ فرق مراتب کے باوجود ہماری ثقافتی تاریخ کے ایک بڑے خلا کو پر کر رہے ہیں۔ میری نظر میں (جو برسوں سے عینک کی محتاج ہے) معاصر سوانحی ادب میں سب سے معتبر کتاب ’علامہ محمد ابوالقاسم سیف بنارسی: حیات اور خدمات‘ (محمد ابوالقاسم فاروقی،مرشد پبلیکیشن ،نئی دہلی،2019 ،ص:696) ہے، جو سوانح نگاری کے جدید اصول پر بالکل کھری اترتی ہے۔ رفیع احمد بن محمد عاقل (دارالسلام ، سڈنی ،آسٹریلیا) کی کتاب (مولانا عبد السلام مدنی: حیات اور خدمات) کو بھی اسی کوشش کا توسعہ سمجھنا چاہیے جو مختصر ہونے کے باوجود بھی مکمل ہے اور ’بقامت کہتر بہ قیمت بہتر‘ کا نمونہ ہے۔ اس خوش آئند تبدیلی کا ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض معاصر سوانح نگار حقیقت پسندی اور معروضیت کی جگہ عقیدت اور نری جذباتیت کے سہارے بونے کو بھی باون گز کا ثابت کرنے کے لیے ذہنی اور قلمی توانائی صرف کر رہے ہیں، جو اکیڈمک اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غیر مناسب ہے۔
زیر تبصرہ کتاب استاذ محترم مولانا عبدالسلام مدنی کی شخصیت، سیرت اور علمی خدمات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے ایک مفصل مضمون کے انداز میں مولانا کی پیدائش، وفات، آل اولاد، تعلیمی اسفار، تدریسی و تبلیغی خدمات اور تعلیقات و حواشی کے نمونوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب فصول و ابواب کی معروف تقسیم سے آزاد ہے اور ذیلی عناوین پر مشتمل ہے۔ کتاب مختصر ہے لیکن مولانا کی زندگی کے تمام گوشوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ مولانا کی علمی شخصیت کی دو جہتیں تھیں جن کو ان کی شان اور شناخت بھی کہا جاسکتا ہے۔ تدریس اور تبلیغ۔ انھوں نے چار دہائی تک مسند تدریس کو زینت بخشی جو ان کا پیشہ ہی نہیں Passion بھی تھا۔ ان کا اسلوب تدریس نرالا تھا اور مفید بھی، کلاس میں سوالات اور اختلاف رائے کو جگہ دیتے تھے اور اپنے موقف پر اصرار کے باوجود دوسروں کے دلائل کو بھی سننے کا یارا رکھتے تھے۔ تقریر و خطابت سے بھی شغف تھا اور اس پر واعظانہ رنگ غالب تھا، نام کو بھی تصنع نہیں تھا، جذباتیت سے کوئی لگاؤ نہیں کتاب و سنت کی روشنی میں مسائل کو پیش کرتے تھے اور انداز بیان ’’از دل خیزد بردل ریزد‘‘ کا مصداق تھا۔
شیخ رفیع نے مولانا مرحوم کی ذاتی اور علمی زندگی کے گوشوں کو معتدل اور متوازن اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جیسا دیکھا اور پایا، ویسا ہی قلم کی مدد سے کاغذ پر اتار دیا ہے، لگتا ہے قلم نہیں کیمرے سے کاغذ پر تصویر اتاری گئی ہے اور فلٹر کا بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سوانحی ادب میں اس طرح کے نمونے کم کم دیکھنے کو ملتے ہیں، ورنہ عقیدت و عناد میں قلم اپنا فرض بھول کر مدح و ذم کی ایسی کہانی پیش کرتا ہے کہ ’’ناطقہ سر بگریباں اور خامہ انگشت بدنداں‘‘ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تحقیق و تجزیہ اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے۔ مصنف لکھنے سے پہلے دستیاب مواد کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہیں، ان میں پائے جانے والے تضادات اور اشکالات کو دور کرنے کے بعد ہی کاغذ پر اتارتے ہیں۔ یہاں تک کہ صاحب ترجمہ کے ذاتی بیانات کو بھی بغیر تحقیق کے قبول نہیں کرتے ہیں۔ بقول شیخ صلاح الدین مقبول:’’ان کے ذوق تحقیق نے تو بعض مقامات پر خود مولانا مدنی کی اپنی بعض تاریخی یادداشت کو بھی ریکارڈ کی روشنی میں مرجوح قرار دیا ہے۔‘‘(ص: 21.22) مثال کے طور پر مولانا مدنی نے جامعہ رحمانیہ بنارس میں داخلے کا سال1960 لکھا تھا، لیکن رفیع صاحب نے لکھا کہ:’’جامعہ رحمانیہ کے آفیشیل ریکارڈ کے مطابق آپ کا داخلہ ۱۹۶۰ کے بجائے ۱۹۶۱ میں ہوا تھا۔‘‘(ص:66)
اسی طرح ڈاکٹر عبدالنور سلمہ نے اپنے والد کے اساتذہ کی فہرست میں فضیلۃ الشیخ المبدی (ص:93) کا ذکر کیا ہے۔ ہم جیسے سہل انگار مضمون نگار ہوتے تو سوچتے کہ صاحب زادے کا بیان ہے، تحقیق کی کیا ضرورت؟ لیکن مصنف کا اسلوب ملاحظہ فرمائیں:’’شیخ مبدی کون تھے؟ ان کا پورا نام کیا تھا؟ مجھے معلوم نہیں۔ ڈاکٹر عبدالنور بھی کوئی روشنی نہ ڈال سکے، میرے استفسار کے جواب میں لکھا کہ:’’فضیلۃ الشیخ مبدی کی بابت مجھے کوئی علم نہیں ہے۔‘‘راقم الحروف نے جامعہ کے پرانے فضلا سے بھی معلوم کرنے کی کوشش کی، مگر اس نام کی شخصیت کا علم نہ ہوسکا۔ میرا خیال ہے کہ’’المبدی‘‘اصل میں ’’اللبدی‘‘ ہے سبقت قلم سے المبدی ہوگیا۔’’اللبدی‘‘اور ’’المبدی ‘‘میں یہ التباس بہت آسان ہے۔ اللبدی کا پورا نام شیخ عبدالرؤف اللبدی تھا، اردن کے رہنے والے تھے جو جامعہ میں ادب و انشا کے استاذ تھے۔‘‘ (حاشیہ ،ص: 93)
مصنف نے کتاب میں حواشی اور فٹ نوٹس کا کثرت سے استعمال کیا ہے جو مولانا کی حیات کے گوشوں کی تفہیم میں مدد کرتے ہیں۔ انھوں نے مختلف تاریخی غلطیوں اور تسامحات کی اصلاح بھی کی ہے۔ بہت سارے واقعات جن پر اہل قلم برسوں سے علم کے دریا بہا رہے تھے اور کچی پکی معلومات سے مزید کنفیوژن پیدا کر رہے تھے، ان کو تحقیق اور تجزیے کے ساتھ پیش کرکے علمی دنیا پر احسان کیا ہے اور نئی نسل کی رہ نمائی بھی۔ چند واقعات یہ ہیں: دکتور ہلالی کی جامعہ میں تقرری، جامعہ سلفیہ میں علامہ البانی کو شیخ الحدیث بنانے کی پیش کش، جامعہ سلفیہ میں عرب اساتذہ کی آمد، دارالعلوم دیوبند سے اہل حدیث طلبہ کا اخراج اور مرعاۃ المفاتیح کی اشاعت، پروف ریڈنگ اور رائلٹی وغیرہ۔
زیر تبصرہ کتاب پر محمد ابوالقاسم فاروقی صاحب نے ایک فکرانگیز مقدمہ لکھا ہے جو اردو میں سوانحی ادب کے تعارف کے ساتھ سوانح نگاری کے میدان میں جماعت کی خدمات کے ساتھ کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کتاب کی خصوصیات کو جس سلیقے سے چند پیراگراف میں سمیٹ دیا ہے، وہ خوب ہے۔ ’تاثرات‘ کے عنوان سے ہم سب کے کرم فرما شیخ صلاح الدین مقبول احمد نے شیخ رفیع کی ذاتی زندگی اور علمی فتوحات کا تذکرہ کرنے کے ساتھ جامعہ سلفیہ کی خوبصورت یادیں شیئر کر کے ’’جب آتش جوان تھا‘‘ کی یاد دلا دی ہے۔ کتاب میں شیخ صلاح الدین کی ایک نظم بھی شامل ہے جو مولانا کی منفرد شخصیت اور ان کی خدمات کے کئی گوشوں کو خوب صورت انداز میں پیش کر رہی ہے اور اس مصرعے ’’مملکت اپنی تھی اور اپنی شہنشاہی رہی‘‘میں تو مولانا مرحوم کی پوری شخصیت سمٹ آئی ہے۔
اس کتاب کے بارے میں میرے کچھ ملاحظات ہیں، جن سے مصنف؍قاری کا اتفاق ضروری نہیں ہے، ویسے بھی کتاب کی ترتیب کا انداز الگ الگ ہوتا ہے جو مصنف کی صواب دید اور ذاتی ذوق کا معاملہ ہے۔
٭کتاب میں مولانا کی جامعہ سلفیہ میں تقرری کے بعد ایک ذیلی عنوان ہے: تدریس کے علاوہ دوسری ذمہ داریاں(ص:130) اس کے تحت انجمن کی نگرانی، مقالات کا اشراف اور مجلس منتظمہ میں شرکت کا ذکر ہے۔ اگر اسی کے ساتھ، افتا کی ذمہ داری(ص:152) تنظیم وفاق المدارس، مدارس کا جامعہ سلفیہ سے الحاق، وفاق المدارس کا قیام اور جامعہ سلفیہ کے ابنائے قدیم کی جمعیت کا قیام (ص:188 تا193) اور مرعاۃ المفاتیح کی پروف ریڈنگ (ص:178) کو بھی پیش کردیا جاتا تو مذکورہ ذیلی عنوان کی جامعیت اور معنویت میں اضافہ ہوجاتا۔
٭کتاب میں (ص:167)پر مولانا کی کتاب دروس حدیث نبوی کا تعارف ہے۔ پھر (ص:171 تا173) اسی سے متعلق ضروری معلومات ہیں اور مذکورہ کتاب کے اسلوب پر ایک علمی نقد بھی۔ سب ایک جگہ ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ (محدث میں دروس کے کالم کے آغاز و ارتقا سے متعلق قیمتی معلومات کو اسی جگہ حاشیے میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے)
٭کتاب میں ایک ذیلی عنوان ’مولانا کی شخصیت‘(ص:199) ہے اگر اسی کے ساتھ ’جذبۂ اصلاح اور حق گوئی‘ (ص:151) ’طلبا کی خیر خواہی‘ (ص:153) اور ’محنت اور خود اعتمادی‘(ص:156) جیسے ذیلی عناوین کو بھی پیش کردیا جاتا اور اس کے بعد ایک اور ذیلی عنوان ’مولانا پر ملاحظات‘(ص:201) کو رکھ دیا جاتا تو شخصیت اور سیرت پر ایک الگ فصل ہوسکتی ہے۔ ہاں، درمیان سے ’جامعہ سلفیہ سے استعفی‘(ص:200) کو نکال کر جامعہ سلفیہ میں تدریس والے کے آخر میں ٹانک دیا جاتا اور ’جامعہ اسلامیہ مدینہ سے ابتعاث (ص:176) کو بھی تدریس والے حصے کے ضمن میں کردیا جاتا تو بہتر ہوتا۔’بعض مشاہیر سے مولانا کا تعلق‘سے’جمعیت اہل حدیث سے تعلق‘(ص:100 تا109) کو بھی شخصیت و سیرت کے ضمن میں ذکر کیا جاسکتا ہے۔
224صفحات پر مشتمل اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام مرشد پبلیکیشن، نئی دہلی نے کیا ہے جو اپنی کم سنی کے باوجود اہل علم کا اعتبار حاصل کرچکا ہے۔ اس کے مالک کتابوں کی اشاعت کے ساتھ کتابوں کی ترتیب و تیاری میں بھی تعاون پیش کرتے ہیں۔ اسی لیے رفیع صاحب نے لکھا ہے کہ:’’مشکور ہوں کہ مرشد پبلیکیشن، شاہین باغ نے اشاعت کی ذمہ داری لے کر شکریہ کا ایک اور موقع فراہم کردیا۔‘‘(ص:34)
عباس محمود عقاد نے کہیں لکھا ہے کہ ’’تین اچھی کتابوں کو پڑھنے سے بہتر ہے کہ ایک اچھی کتاب کو تین بار پڑھ لیا جائے‘‘اس کتاب کے بارے میں میرا خیال بھی یہی ہے۔ مدارس کے اساتذہ چاہیں تو اس کتاب کو پڑھ کر طلبہ کو مضمون نگاری کے میدان میں رہ نمائی کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مصنف نے اپنے اساتذہ کی خدمات کا تعارف پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ آگے بھی جاری رہے گا، ان شاء اللہ
نوٹ: کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں: 9990674503
آپ کے تبصرے