اعتدال: ایک مظلوم اصطلاح

فاروق عبداللہ نراین پوری تنقید و تحقیق

وسطیت اور اعتدال دور حاضر میں استعمال کی جانے والی سب سے خوبصورت اور پرکشش اصطلاح ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے مظلوم اصطلاح ہے۔ اس کی مظلومیت کا یہ حال ہے کہ اسے کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے ساتھ ساتھ منحرف افکار کے حاملین اپنے مذموم مقاصد کے لیے خوب استعمال کرتے ہیں۔
کمال ہوشیاری سے اعتدال اور وسطیت کا اِس وقت یہ مفہوم لانچ کیا گیا ہے کہ اسلام کے بعض ایسے اصولوں سے جو نفس پرستوں کے یہاں مبنی بر تشدد شمار کیے جاتے ہوں دستبرداری کا اعلان کیا جائے۔ اسلام کی ایسی تعلیمات جو اہل کفر یا اہل بدعت کے یہاں کھٹکتے ہوں ان کے اظہار سے بچا جائے، تاکہ ہر جماعت کے اسٹیج میں ایڈجسٹ ہوا جا سکے۔
بعض لوگوں کی نظر میں آج رائے عامہ کے مطابق چلنا، شرعی احکامات سے دست برداری یا تساہل اختیار کرنا، بدعات وخرافات پر انکار نہ کرنا، صلح کلی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اہل سنت واہل بدعت سب سے تعلقات قائم کرنا، ہر ایک کو خوش رکھنے کی کوشش کرنا اور ہر حلقے میں یکساں طور پر مقبول ہونا وسطیت اور اعتدال کی علامت ہے۔
چنانچہ سنت پر عمل کرتے ہوئے جو لمبی داڑھی رکھتا ہو، ٹخنے سے اوپر پینٹ وپاجامہ پہنتا ہو، بھلائی کا حکم دیتا ہو، شرک وکفر اور بدعت وخرافات سے روکتا ہو، اہل بدعت کی ہم نشینی سے منع کرتا ہو، منحرف افکار رکھنے والوں اور ان کے افکار وبدعتوں پر رد کرتا ہو، اسے متشدد، وہابی، مدخلی، جامی اور نہ جانے کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔
عموما لفظ وسطیت کا آج یہی معنی سمجھا جاتا ہے کہ کسی بھی اختلافی معاملہ میں (چاہے وہ اختلاف کسی بھی نوعیت کا ہو) درمیانی راہ اختیار کی جائے، قطع نظر اس سے کہ کتاب وسنت اور منہج سلف سے اس کی تائید ہوتی ہو یا مخالفت۔ یقینا یہ وسطیت کا بہت ہی تنگ اور ناقص مفہوم ہے۔ وسطیت کے اندر درمیانی پہلو کا معنی گرچہ موجود ہوتا ہے، لیکن صرف یہ معنی اس میں ملحوظ نہیں ہوتا، اس کا افراط وتفریط سے پاک اور خیر کے ساتھ موصوف ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ افراط وتفریط سے پاک اور خیر کے ساتھ موصوف ہونا ہی وسطیت کی بنیادی شرط ہے۔ اگر کسی معاملے میں درمیانی پہلو تو موجود ہو لیکن وہ شرعی نقطہ نظر سے خیر نہ ہو، افراط وتفریط پر مبنی ہو تو وہ وسطیت واعتدال نہیں۔
اللہ تعالی نے ہمیں ”امت وسط“ کے لقب سے نوازا ہے۔ اس کا ارشاد گرامی ہے: ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا﴾۔ (اوراسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے۔) [سورۃ البقرہ: 143]
اللہ رب العالمین کے اس اعلان کے بموجب ہم ”امت وسط“ ہیں۔ یہ ہمارے لیے عظیم شرف کی بات ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس خوبصورت لقب سے ملقب کیا ہے۔ اس لقب کا مطلب ومفاد یہ نہیں کہ تاریخی، جغرافیائی یا تہذیب وثقافت کے اعتبار سے ہم دوسری قوموں کے بیچوں بیچ ہیں، یا کسی بھی مسئلہ میں درمیانی راستہ اختیار کرنے والے ہیں گرچہ کتاب وسنت اور منہج سلف سے اس درمیانی راہ کی تائید نہ ہوتی ہو۔ اگر صرف درمیانی راہ اختیار کرنا وسطیت کہلاتا تو معتزلہ بھی اس وصف کے حقدار ہوتے جو گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو نہ مسلمان مانتے ہیں نہ کافر، بلکہ کہتے ہیں کہ وہ ”منزلۃ بین المنزلتین“ ہیں۔ بلکہ منافقین بھی اس وصف کے حقدار ہوتے جو مسلمانوں اور کفار کے درمیان ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ”مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلَى هَؤُلَاءِ“ (یہ حضرات دونوں –یعنی مسلمان وکفار- کے مابین تذبذب کے شکار رہتے ہیں، نہ اِن کی طرف ہوتے ہیں، نہ اُن کی طرف)۔ [سورۃ النساء: 143]
ظاہر ہے اللہ تعالی نے ہمیں جس وصف سے متصف کیا ہے اس کا یہ مفہوم قطعی طور پر نہیں ہو سکتا کہ وہ معتزلہ اور منافقین پر بھی صادق آئے۔ بلکہ اپنی دنیاوی زندگی میں بھی کوئی اس سطحی مفہوم کو قبول نہیں کر سکتا، مثلا: کوئی یہ قبول نہیں کر سکتا کہ متوسط نمبرات سے کامیاب ہونے والا طالب علم پہلی پوزیشن لانے والے سے بہتر ہے، اور متوسط ذہن کا شخص ذہین وفطین اور عبقری شخص سے افضل ہے۔
پھر وسطیت اور اعتدال کا درست مفہوم کیا ہے؟ اور ”امت وسط“ سے کیا مراد ہے؟
جب تک اس کا درست مفہوم طے نہ ہو اشکالات پیدا ہوتے رہیں گے، اور لوگ اپنی اپنی خواہش کے مطابق اس کی حد بندی کرتے رہیں گے۔
جب اللہ تعالی نے کلام مجید میں ہمیں اس وصف سے متصف کیا ہے تو ظاہر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے منہج پر چلنے والے سلف صالحین سے بہتر کوئی اس کا معنی ومفہوم بیان نہیں کر سکتا۔
لہذا سب سے پہلے اس آیت کی تفسیر کے لیے اصل مصادر کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا ہے، اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کلام عرب میں ”وسط“ کا کیا معنی ہے۔
سلف صالحین کے نصوص کا مراجعہ کرنے کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ لفظ تین معانی پر دلالت کرتا ہے:
پہلا معنی: دونوں کناروں کے درمیان اور بیچوں بیچ کو وسط کہتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «البَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَكُلُوا مِنْ حَافتَيْهِ، وَلاَ تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهِ». (برکت کھانے کے بیچوں بیچ نازل ہوتی ہے، اس لیے تم دونوں طرف سے کھاؤ، بیچ سے نہ کھاؤ)
[جامع ترمذی، حدیث نمبر 1805، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ”السلسلۃ الصحیحہ“ (5/49) میں صحیح کہا ہے۔]
دوسرا معنی: عدل وانصاف کرنے والے۔
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم آیت مذکورہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ۔”الوَسَطُ العَدْلُ“ (وسط سے مراد عادل یعنی انصاف کرنے والاہے۔) [صحیح بخاری: حدیث نمبر3339]
یہی قول سلف صالحین کی ایک جماعت مثلا عبد اللہ بن عباس، ابو سعید، مجاہد، قتادہ، ربیع، عطاء اور عبد اللہ بن ابی کثیر وغیرہم سے مروی ہے۔ [دیکھیں: تفسیر طبری: 3/143-145، وزاد المسیر لابن الجوزی 1/119]
امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ (متوفی سنہ320 ھ) ”عادل“ کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”عدلًا لَا يمِيل إِلَى إفراط وَلَا إِلَى نُقْصَان“۔ (عادل کا معنی یہ ہے کہ وہ افراط ونقصان کی طرف مائل نہ ہو)
[نوادر الاصول فی احادیث الرسول، 2/93 ]
تیسرا معنی: ”خیار“ یعنی سب سے بہترین لوگ۔
بہت سارے علمائے متقدمین نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں لفظ ”عدل“ کے ساتھ لفظ ”خیار“ کا بھی اضافہ کیا ہے۔ یعنی ”ہم نے تمھیں عدل کرنے والی خیر امت بنایا ہے جو افراط وتفریط سے پاک ہے۔“
چنانچہ ابن قتیبہ الدینوری رحمہ اللہ (متوفی سنہ 276ھ) فرماتے ہیں: ”{جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا} أي: عَدْلا خِيارًا، ومنه قوله في موضع آخر: {قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلا تُسَبِّحُونَ} أي: خيرهم وأعدلهم“ ۔ [غریب القرآن لابن قتیبہ الدینوری، ص64]
(ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے، یعنی عدل کرنے والی سب سے بہترین امت۔ ایک دوسری آیت میں لفظ ”وسط“ اسی معنی میں وارد ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ”ان میں سے اوسط شخص نے کہا کہ کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ کیوں تم اللہ تعالی کی تسبیح بیان نہیں کرتے؟“ یہاں اوسط کا معنی : سب سے بہتر اور سب سے انصاف پسند شخص۔)
امام طبری رحمہ اللہ نے اس سے بھی واضح اور صریح الفاظ میں لفظ وسط کا یہ معنی بیان کیا ہے، فرماتے ہیں: ”الوسط: العدلُ، وذلك معنى الخيار، لأن الخيارَ من الناس عُدولهم“. [تفسیر طبری: 3/142]
(وسط یہ عدل ہے۔ اور یہی خیار کا معنی ہے، کیونکہ لوگوں میں سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عادل ہیں۔)
یہی معنی مفسرین کی ایک جماعت نے مثلا علامہ سمعانی نے اپنی تفسیر (1/148) میں، علامہ بغوی نے اپنی تفسیر (1/174) میں، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر (5/457) میں، علامہ شوکانی نے ”فتح القدیر“ (1/174) میں اور علامہ سعدی نے ”تیسیر الکریم الرحمن“ (ص70) میں بیان کیا ہے۔
امت وسط کی تفسیر میں سلف صالحین کے مذکورہ نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم وسطیت اور اعتدال کی تعریف کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ ”وسطیت اور اعتدال ایک ایسی بہترین صفت ہے جو افراط وتفریط اور غلو وتقصیر کے درمیان عدل وانصاف پر مبنی ہے۔“
پتہ چلا کہ وسطیت واعتدال میں بنیادی طور پر تین چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے:
1 – افراط وتفریط اور غلو وتقصیر سے پاک ہو۔
2 – عدل وانصاف موجود ہو، ظلم وستم نہ ہو۔
3 – خیر ہو، شر نہ ہو۔
اگر کسی بھی عمل میں یہ بنیادی تین چیزیں موجود ہوں تو وہ عمل وسطیت واعتدال پر مبنی ہے، ظلم وتشدد پر نہیں۔ تمام سلف صالحین کے نصوص میں ہمیں اسی وسطیت واعتدال کا درس ملتا ہے۔
امام المفسرین علامہ طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “أرى أن الله -تعالى ذِكْرُه- إنما وصفهم بأنهم “وسَط”، لتوسطهم في الدين، فلا هُم أهل غُلوٍّ فيه غلوَّ النصارى الذين غلوا بالترهب، وقيلهم في عيسى ما قالوا فيه، ولا هُم أهلُ تقصير فيه تقصيرَ اليهود الذين بدَّلوا كتابَ الله، وقتلوا أنبياءَهم، وكذبوا على ربهم، وكفروا به؛ ولكنهم أهل توسط واعتدال فيه، فوصفهم الله بذلك، إذ كان أحبَّ الأمور إلى الله أوْسطُها”۔
(میرا ماننا ہے کہ اللہ تعالی نے انھیں وسطیت سے صرف اس لیے متصف کیا ہے کیونکہ وہ دین کے معاملے میں درمیانی راہ اپناتے ہیں، نہ وہ نصاری کی طرح غلو کرنے والے ہیں جو رہبانیت میں غلو کرتے ہیں، اور عیسی علیہ السلام کے متعلق اپنے خاص نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔ اور نہ یہود کی طرح تقصیر کرنے والے ہیں جنھوں نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا، انبیا کو قتل کیا، اپنے رب پر بہتان تراشی کی اور اس کے ساتھ کفر کیا۔ بلکہ یہ وسطیت واعتدال والے ہیں، جس بنا پر اللہ تعالی نے انھیں اس وصف سے متصف فرمایا، کیونکہ تمام معاملات میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب امر وہ ہے جو سب سے بہتر ہو۔) [تفسیر طبری: 3/142]
کلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “يعني أهل دين وسط بين الغلو والتقصير, لأنهما مذمومان في الدين”.
(یعنی اس دین کے متبعین غلو وتقصیر کے درمیان ہیں، کیونکہ یہ دونوں مذموم صفات ہیں۔) [دیکھیں: معالم التنزیل للبغوی: 1/158]
ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”أصل ذلك أن خير الأشياء أوساطها، والغلو والتقصير مذمومان“۔ [زاد المسير في علم التفسير (1/ 119)]
(اس کی اصل اور بنیاد یہ ہے کہ تمام چیزوں میں سب سے بہترین چیز وہ ہے جو سب سے عمدہ واعلی ہو، اور غلو وتقصیر یہ دونوں مذموم ہیں۔)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”العقیدۃ الواسطیہ“ (ص82) میں اس وسطیت واعتدال کو بڑے ہی جامع انداز میں بیان کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت صفات الہی کے باب میں جہمیہ ومشبہہ کے مابین، افعال الہی کے باب میں قدریہ وجبریہ کے مابین، وعید کے باب میں مرجئہ وقدریہ کے مابین، ایمان کے باب میں حروریہ ومعتزلہ اور مرجئہ وجہمیہ کے مابین اور صحابہ کرام کے باب میں روافض وخوارج کے مابین وسطیت واعتدال پر قائم ہیں۔ کیونکہ یہ تمام فرقے مذکورہ تمام ابواب میں افراط وتفریط اور غلو وتقصیر کے شکار ہیں۔
اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “وَلَمَّا كَانَ الْوَسَطُ مُجَانِبًا لِلْغُلُوِّ وَالتَّقْصِيرِ كَانَ مَحْمُودًا أَيْ: هَذِهِ الْأُمَّةُ لم تغل غلوّ النصارى في عيسى وَلَا قَصَّرُوا تَقْصِيرَ الْيَهُودِ فِي أَنْبِيَائِهِمْ”. [فتح القدیر: 1/175]
(جب وسط غلو وتقصیر سے پاک ہے تو یہ ایک محمود صفت ہے، یعنی یہ امت نہ اس طرح غلو سے کام لیتی ہے جس طرح نصاری عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلو کرتے ہیں، اور نہ اس طرح تقصیر وتفریط کرتی ہے جس طرح یہود انبیا کے بارے میں تقصیر کرتے ہیں۔)
ان تمام اقوال میں خصوصی طور پر افراط وتفریط سے دور رہنے کی بات کی گئی ہے کیونکہ دونوں مذموم صفات ہیں، تو وسطیت واعتدال دو مذموم صفات کے مابین محمود صفت کو اختیار کرنے کا نام ہے، نہ یہ کہ کسی ایسی صفت کا اختیار کرنا جو درمیانی تو ہو لیکن محمود نہ ہو، بذات خود مذموم ہو جیسے کہ اوپر منزلہ بن المنزلتین اور نفاق کی مثال سے سمجھایا گیا جو درمیانی تو ہیں لیکن شرعی اصولوں کے مطابق محمود نہیں مذموم ہیں۔
اور محمود ومذموم کے مابین فرق کرنے کا معیار فقط اور فقط کتاب وسنت بفہم سلف امت ہے۔ اگر کوئی عمل کتاب وسنت اور منہج سلف کے مطابق محمود ہے تو وہی مبنی بر اعتدال ہے، چاہے کسی کی خواہش کے موافق ہو یا نہ ہو۔ اس لیے ہم کہیں گے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنا ظلم وتشدد نہیں وسطیت واعتدال ہے۔ چور کا ہاتھ کاٹنا، شراب پینے والوں اور جھوٹی تہمت لگانے والوں پر کوڑے برسانا، زمین پر فتنہ وفساد برپا کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا، اہل بدعت سے دوری اختیار کرنا اور ان پر رد کرنا، صرف ایسے اہل علم سے دین کے مسائل سیکھنا جو منہج سلف پر گامزن ہوں عین وسطیت اور اعتدال ہے۔ اور اس کے برخلاف کوئی دوسری راہ اختیار کرنا ہی انحراف ہے چاہے اس پر وسطیت واعتدال کا خوبصورت وپرکشش غلاف ہی کیوں نہ چڑھایا گیا ہو۔
ابھی چند مہینے پہلے جنوبی ہند میں منعقد ”سیرت قرضاوی“ کے موضوع پر ایک کانفرنس میں بعض معروف اہل علم کا خطاب سنا جو قرضاوی صاحب کو فکر اعتدال کا علمبردار باور کرا رہے تھے، حالانکہ سلفی علما کے مابین یہ مخفی نہیں کہ منہج سلف سے اعراض کرتے ہوئے قرضاوی صاحب کے گمراہ کن افکار کی فہرست کتنی طویل ہے۔ اور حکومت کے خلاف عوام کو بھڑکا کر انھوں نے کتنی معصوم جانوں کا بے دریغ خون بہانے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ واللہ المستعان۔
ماضی قریب میں اسی مزعوم اعتدال کے نام پر کیا کچھ گل کھلایا گیا وہ اہل علم پر مخفی نہیں۔
بطور مثال ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
مولانا مودودی نے ”مسلک اعتدال“ کے نام سے ایک رسالہ لکھا ( جو کہ ان کی کتاب ”تفہیمات“ میں موجود ہے)۔ اس رسالہ میں اعتدال کی طرف دعوت دیتے ہوئے مولانا نے سنت رسول اور محدثین کے جہود کے متعلق ایسے ایسے اعتراضات اور اشکالات پیش کیے جو در حقیقت منکرین سنت کے اعتراضات ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی اصول وضابطے کی پابندی کے محدثین کرام کے نہایت ہی ٹھوس منہج پر تنقیدیں کرتے رہے، ذوق وعقل کو ہی احادیث کی رد وقبولیت کا معیار بنایا۔ محدثین پر درایت کو نظر انداز کرکے روایت پر پورا اعتماد کرنے کی الزام تراشی کی۔ اپنے ذوق وعقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے صحیحین کی بعض احادیث (مثلًا: ابراہیم علیہ السلام کی کذبات ثلاثہ والی حدیث، سلیمان علیہ السلام کی ایک ہی رات نوے بیویوں سے مجامعت والی حدیث اور دجال کے مقید ہونے کے متعلق خبر دینے والی حدیث- جو حدیث جَسَّاسَہ کے نام سے مشہور ہے-) کے متعلق تشکیک کا راستہ اپنایا جو بعد میں منکرین سنت کے لیے نظیر بنا۔ خبر واحد کی ظنیت کا راگ الاپتے رہے اور پورے ذخیرۂِ سنت کو ہی ایک طرح سے مشکوک کر ڈالا۔ الغرض منکرین سنت کے لیے چور دروازہ فراہم کرنے اور شک وشبہے کا بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور ان سب کا نام رکھا ”مسلک اعتدال“۔
ظاہر ہے اس اعتدال میں اور سلف صالحین کے نصوص میں موجود اعتدال میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ لہذا کہیں اس پرکشش نعرے کی پکار سنائی دے تو اس پر فریفتہ ہونے کے بجائے اسے کتاب وسنت اور منہج سلف کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے کہ کیا یہ حقیقت میں وسطیت واعتدال ہے یا محض اس خوبصورت نام سے امت کو گمراہ کرنے کی کوشش۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کے فتنوں اور شکوک وشبہات سے محفوظ رکھے، اعتدال ووسطیت پر چلنے، سلف صالحین کے منہج کو سیکھنے اور اس پر آخری سانس تک ڈتے رہنے کی توفیق وقوت عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000