رحمۃ للعالمین: سیرت نبوی کا ایسا نمونہ جس کو اندیشۂ زوال نہیں

ابو تحریر تعارف و تبصرہ

رحمۃ للعالمین (عربی، تین مجلدات)
مصنف: قاضی سلیمان منصور پوری
مترجم: ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، عبدالسلام عین الحق سلفی
تقدیم و تعلیق: شیخ صلاح الدین مقبول احمد
صفحات مجموعی:1801
ناشر: دارالایلاف الدولیۃ، الکویت، 2024


تقریباً ایک صدی پرانی بات ہے۔ 29؍مئی کا دن تھا اور 1930 کا سال۔ جدے سے ایک بحری جہاز قافلۂ حجاج کے ساتھ اپنی منزل کی طرف جارہا تھا، راستے میں ہی ایک مسافر کی روح پرواز کر گئی، نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد نعش کو حوالۂ آب کردیا گیا۔ اگر ایک ہم سفر (غلام رسول مہر) کے الفاظ میں کہیں تو ’’…طرفۃ العین میں علم و تقوی کا پیکر مقدس، بحیرۂ قلزم کی موجوں کا دامن اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔‘‘ اسی مسافر کی وفات پر سید سلیمان ندوی نے ماہ نامہ ’معارف‘ کے شذرات میں لکھا تھا کہ ’’…وہ مشرقی فاضل جس کی وفات پر آج ہم کو ماتم کرنا ہے، وہ قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری سابق سیشن جج پٹیالہ اور سیرت کی مشہور کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے مصنف ہیں۔‘‘ (یاد رفتگاں،مجلس نشریات اسلام، کراچی، 2003، ص:106) آج اسی روح پرور کتاب کے عربی ترجمے کی اشاعت جدید کے بارے میں چند باتیں عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں جو برسوں سے اپنی خوشبوے جاں فزا سے قارئین کے مشام جاں کو معطر کر رہی ہے:
اعد ذکر نعمان لنا أن ذکرہ
ھو المسک ما کررتہ یتضوع
سیرت لٹریچر میں قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری ( 1867ء -1930ء) کی کتاب (رحمۃ للعالمین) کو ندرت تحقیق، بلاغت اسلوب اورصحت مآخذ کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی تین جلدیں بالترتیب 1912 ،1918 اور1933ء میں شائع ہوئی تھیں اور دیکھتے دیکھتے برصغیر کے مکاتب و مدارس، ذاتی کتب خانے اور باذوق قارئین کی بک شیلف کی زینت بنتی چلی گئیں۔ تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے قرآن، حدیث، تفسیر، سیرت کی کتابوں اور دیگر مذاہب کے لٹریچر کی روشنی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیات کے تمام گوشوں کو پیش کیا ہے۔ شجرۂ نسب، تاریخ پیدائش، وفات، سرایا اور غزوات، دیگر انبیاء کرام کی زندگی سے مماثلت، نبی کریم کے رحمۃ للعالمین ہونے کے دلائل، معجزات اور خصائص جیسے موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔ مستشرقین کی افسانہ طرازی کا علمی اسلوب میں رد بھی کیا ہے۔ مصنف کی تاریخی بصیرت، اسلوب بیان کی ندرت اور شستہ انداز تحریر نے اس کتاب کو ایک انفرادی حیثیت عطا کردی ہے۔
ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ(1939-2009ء) نے ’حرکۃ الانطلاق الفکری وجھود الشاہ ولی اللہ فی التجدید‘ کی تکمیل کے بعد ہی رحمۃ للعالمین کے عربی ترجمے کا آغاز کردیا تھا، لیکن روز افزوں مصروفیات کی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ انھوں نے ڈاکٹر بہاؤ الدین صاحب کے نام ایک خط (8؍اپریل 2007 ء) میں لکھا تھا کہ ’’جماعت اہل حدیث کی دینی وادبی تاریخ مرتب کرنے یا کرانے کا عزم میرے اندر جامعہ سلفیہ پہنچنے کے فوراً بعد ہی سے شروع ہوا اور اسی خیال سے میں نے شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ’تحریک آزادی فکر‘ کا عربی ترجمہ کیا اور اسی وقت مولانا قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ کی رحمۃللعالمین کا بھی عربی ترجمہ شروع کیا، جس میں کسی وجہ سے بہت تاخیر ہوگئی اور یہ ترجمہ اَسی کی دہائی میں مکمل ہوا، لیکن صحیح طور پر اس کی اشاعت نہ ہوسکی، جس کا مجھے آج بھی افسوس ہے‘‘۔ پہلی اور تیسری جلد کا ترجمہ ڈاکٹر ازہری نے جب کہ دوسری جلد کا ترجمہ ان کے ایک شاگرد (مولانا عبدالسلام عین الحق سلفی) نے کیا تھا جس کا ڈاکٹر ازہری نے مراجعہ کیا تھا۔ کتاب کی ترتیب قدیم طرز پر تھی جب کہ عربی ترجمہ (ایک حد تک) جدید انداز میں تھا، عربی اقتباسات کو اصل کتاب سے نقل کرنے کا التزام تھا اور حوالہ جات میں بھی قدرے جدت تھی تاکہ استفادہ کرنے میں سہولت ہو۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ عربی ترجمہ 1989 میں الدار السلفیہ، ممبئی سے شائع ہوا تھا۔
رحمۃ للعالمین کے عربی ترجمے کا آغاز ایک خوش گوار ماحول میں ہوا تھا، لیکن طباعت کا مرحلہ آتے آتے ماحول کی خوش گواری، تلخی میں بدل چکی تھی، جس سے کتاب کی اشاعت و توزیع بھی متاثر ہوئی۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ماہ نامہ البلاغ، ممبئی میں اس کتاب پر ایک تعارف؍تبصرہ شائع ہوا تھا۔ ’’کتاب ماہ رواں کی: رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم (عربی ایڈیشن)‘‘ دوصفحات پر مشتمل اس تبصرے میں ایک جگہ ناشر کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’’اپنی زیرنگرانی سیرت نبویہ کی اہم ترین کتاب کو اردو سے عربی کے قالب میں منتقل کرایا۔‘‘ (اگست،1990،ص:61) لیکن عربی قالب عطا کرنے والے کا نام کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ یہ ایک طویل داستان ہے اور ہماری ثقافتی تاریخ کا ایک ناخوش گوار باب بھی۔ مزید برآں، نوے کی دہائی میں عربی ترجمے کا ایک اور اڈیشن ریاض سے شائع ہوگیا جو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے Plagiarism تھا جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ کتاب کی اہمیت (اور شاید مذکورہ بالا سانحے) کی وجہ سے، ڈاکٹر ازہری، آخری ایام میں اس کی جدید طباعت کے لیے کافی فکر مند تھے اور کوشاں بھی، اس سلسلے میں انھوں نے ناشر کے نام خطوط بھی لکھے، لیکن بات بن نہیں پائی اور یہ حسرت لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔
آمدم برسر مطلب!2022 کی ایک شام تھی، ہواؤں میں خنکی، دہلی میں گلابی جاڑے کی آمد کا پتہ دے رہی تھی، لیکن دارالثقافۃ للبحوث و الدراسات (شاہین باغ، نئی دہلی) میں جاری گفتگو کی حرارت، دلوں کو جگمگا رہی تھی۔ ادارے کے روح رواں (شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اللہ تعالیٰ) نے اپنے مطالعے کی میز سے ایک مسودہ دکھاتے ہوئے فرمایا کہ رحمۃ للعالمین(عربی) کے جدید اڈیشن کی تقدیم و تحقیق اور تعلیق کا کام مکمل ہوچکا ہے اور بہت جلد طباعت کا مرحلہ بھی پورا ہوجائے گا۔ تقریباً ایک سال بعد (18؍دسمبر2023ء) شیخ نے اشاعت کی خبر سناتے ہوئے کور پیچ کی تصویر شیئر کی اور گزشتہ 27 ؍جنوری 2024کو عزیزم عبد القدیر سلمہ (مرشد پبلیکیشن،نئی دہلی) نے رحمۃ للعالمین کا ایک دیدہ زیب نسخہ بطور ہدیہ پیش کیا تو بے پایاں احساس مسرت کے ساتھ بہت سی کہانیاں یاد آکے رہ گئیں۔ ساتھ ہی کتاب کے عربی مترجم سے وابستہ یادیں ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگیں۔ افسوس! زندگی بھر اسلامی تراث کی نشر واشاعت میں مصروف، ڈاکٹر ازہری یہ حسرت لیے ہوئے دنیا سے چلے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک مخلص اور فاضل شاگرد کو ان کے خواب میں رنگ بھرنے کی سعادت بخشی (جزاک اللہ خیرا کثیرا)۔ آج اگر وہ باحیات ہوتے اور اس انداز سے اپنے خواب کی تعبیر دیکھتے تو کتنا خوش ہوتے!
رحمۃ للعالمین کا جدید اڈیشن شیخ صلاح الدین کی طویل محنت اور علمی ریاضت کا ثمرہ ہے، برصغیر اور خلیجی ممالک کے علمی حلقوں کے لیے ان کا نام سند اعتبار کا درجہ رکھتا ہے۔ ہند۔اسلامی تراث کی حفاظت و اشاعت خاص طور پر جماعت اہل حدیث اور اس سے وابستہ علماے کرام کے متنوع نشاطات کے تعارف میں ان کا کردار کسی تعارف اور تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ موصوف کا تحقیقی اور تخلیقی سفر کئی دہائیوں سے جاری ہے، وہ عربی زبان میں تحقیق و تخلیق کے معیاری نمونے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اردو کے دینی ادب میں اضافہ بھی کررہے ہیں، نثر نگاری کے ساتھ شعر گوئی سے بھی تعلق ہے بلکہ باقاعدہ تخلص کے ’گنہ گار‘ ہیں۔ شخصیات پر ان کی نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور شعری مجموعے بھی چھپ کر آچکے ہیں۔ ان کے تحقیقی سفر کی نئی منزل رحمۃ للعالمین (عربی) کی جدید اشاعت ہے۔ امید ہے اور دعا بھی کہ ’’ حرف مبیں کو زینت لوح و قلم کرو‘‘ کا یہ سفر جاری رہے ۔
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
رحمۃ للعالمین کا یہ اڈیشن کئی لحاظ سے جدید ہے اور مفید بھی۔ شیخ صلاح الدین نے ’’ مقدمۃ التحقیق لکتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے عنوان سے ایک طویل اور فکر انگیز مقدمہ (ص:7تا 129) لکھا ہے جو متنوع ہے اور معلومات سے بھرپور بھی۔ اس کا بہترین حصہ کتاب کے مصنف علامہ قاضی سلیمان منصور پوری کے سوانحی کوائف اور علمی فتوحات پر مشتمل ہے۔ جس میں قاضی صاحب کے خاندانی پس منظر، حالات زندگی، اخلاق وعادات، تعلیمی اسفار، سرکاری مناصب اور تصنیف وتبلیغ کے میدان میں ان کی ہمہ گیر اور متنوع خدمات کا بہترین انداز میں تعارف پیش کیا گیا ہے اور (میری اب تک کی معلومات کے مطابق) عربی میں پہلی مرتبہ رحمۃ للعالمین اور اس کے مصنف کا اتنا تفصیلی تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی ماخذ مولانا محمد اسحاق بھٹی کی کتاب (تذکرہ قاضی سلیمان منصور پوری، الکتاب انٹر نیشنل، جامعہ نگر،نئی دہلی، 2007) جو اس موضوع پر سب سے مستند مرجع ہے۔
ڈاکٹر ازہری نے بھی ’’حیاۃ العلامۃ المنصورفوری‘‘ کے عنوان سے مصنف کا ایک تعارف لکھا تھا، جو بہت ہی مختصر تھا جس کو محتاط الفاظ میں بھی سرسری ہی کہا جاسکتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسی کے آس پاس ڈاکٹر ازہری نے جھود مخلصۃ فی مقاومۃ القادیانیۃ کے عنوان سے ایک اداریہ قلم بند کیا تھا جو جامعہ سلفیہ (بنارس) کے عربی مجلے (صوت الأمۃ،اگست،ستمبر،اکتوبر اور نومبر1989 ) میں چار قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ جس میں فتنۂ قادیانیت کی تردید میں قاضی صاحب کی گراں قدر خدمات کا شاندار تعارف پیش کیا تھا۔ مذکورہ اداریہ، ڈاکٹر ازہری کی زیر طبع کتاب (جھود علماء أھل الحدیث فی مقاومۃ القادیانیۃ) میں بھی شامل ہے۔ متعدد مقالات پر مشتمل اس کتاب کو مشہور ازہری شناس (محترم راشد حسن مبارک پوری، استاذ جامعہ اسلامیہ، فیض عام،مئو) نے ترتیب دیا ہے اور ایک طویل مقدمہ بھی لکھا ہے۔ اللہ کرے یہ کتاب جلد از جلد چھپ جائے ،آمین۔
شیخ صلاح الدین نے مقدمے میں ’’عملی فی ھذہ الطبعۃ العربیۃ المنقحۃ‘‘ کے عنوان سے کتاب میں تحقیق و تعلیق اور تخریج کا جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس کی وضاحت کردی ہے۔ کتاب میں آیات و احادیث اور تاریخی روایات کی تخریج کے ساتھ تعلیقات انیقہ بھی ہیں جو کتاب کے بعض مشتملات کی تفہیم میں مدد کرتی ہیں اور معلومات میں اضافہ بھی۔ رحمۃ للعالمین ایک صدی پرانی کتاب ہے، اس وقت بہت سے مراجع دستیاب نہیں تھے جو دستیاب تھے، ان کے تحقیقی اڈیشن منظر عام پر نہیں آئے تھے۔ اسی لیے کتاب میں ایسی روایات بھی مل جاتی ہیں جو صحت حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتی ہیں اور جدید اشاعت میں اس کے صحت وضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ اردو متن کو سامنے رکھ کر حسب ضرورت ترجمے کو مزید بہتر کرنے کوشش بھی کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر عناوین؍ذیلی عناوین کا بھی اضافہ ہے تاکہ استفادہ کرنے میں آسانی ہو۔ حواشی اور فٹ نوٹس ہیں جن سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔
مقدمے میں سیرت کی بعض ایسی کتابوں(جوصحیح احادیث پر مشتمل ہیں) کا مختصر تعارف بھی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مقدمہ نگار کو اسلامیات خاص طور پر سیرت نگاری کے قدیم و جدید مصادر سے کتنی واقفیت ہے۔ مقدمے کا یہ حصہ سیرت لٹریچر سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے بہت مفید ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے مولانا صفی الرحمان مبارک پوری کی کتاب (الرحیق المختوم) پر شیخ محمود بن محمد الملاح کی کتاب (التعلیق علی الرحیق المختوم) کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے اگر الرحیق المختوم کا ایک نیا اردو اڈیشن تیار کردیا جائے تو قارئین کے لیے بہت مفید ہوگا۔
مقدمے کا آخری حصہ ’’الترجمۃ الثانیۃ لکتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ما لھا و ما علیھا‘‘ ہے جس کو لکھنے اور پڑھنے کے ایک سے زائد اسباب ہیں، کیوں کہ اس میں علمی خیانت، اخلاقی دیوالیہ پن اور پبلشنگ مافیا کا ایک ایسا چہر ہ چھپا ہوا ہے جو اسلامی تعلیم و ثقافت کی نشرواشاعت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مکتبۃ دارالسلام (الریاض) نے رحمۃ للعالمین (عربی) کا ایک اڈیشن(1995 )میں شائع کیا تھا، جس پر مترجم کی حیثیت سے الدکتور سمیر عبدالحمید ابراہیم (أستاذ اللغۃ الأردیۃ وأدابھا بجامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ) درج ہے۔ جب کہ یہ ترجمہ ڈاکٹر ازہری کے ترجمے کا چربہ ہے، بلکہ سرقہ ہے۔ شیخ صلاح الدین نے اپنے مقدمے میں اس کی طرف اشارہ کرکے اس مصلحت گزیدہ معاشرے میں حرف حق کہنے کی جرأت کی ہے، جو قابل تعریف ہے۔ رحمۃ للعالمین کے مذکورہ بلکہ مسروقہ ترجمے کو دیکھ؍ پڑھ کر فضا ابن فیضی کی ایک نظم (اپنی گم شدہ نظموں کے نام، شعلہ نیم سوز،ص:69-70) شدت سے یاد آرہی ہے، جس میں انھوں نے کچھ ایسی ہی صورت حال میں اپنے کرب کو شعری قالب میں پیش کیا تھا، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بنائی کس نے، مرے دل کے آنسؤوں سے شراب
یہ کس نے لکھی، مرے خون دل سے اپنی کتاب
یہ کس نے میرے لہو سے سجائی اپنی شام
بھرے یہ کس نے مرے آنسؤوں سے اپنے جام
شیخ نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ناشر اور مترجم نے مذکورہ اڈیشن میں الفاظ سے کھیلنے کی جو نامسعود کوشش کی تھی اس کی حقیقت بیان کردی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ایک انصاف پسند قاری جب اس کتاب کے دونوں عربی ترجمے کا موازنہ کرے گا تو محسوس کرے گا کہ سمیر صاحب کے ترجمے (خاص طور پر جلد اول) میں صرف الفاظ میں تقدیم تاخیر اور بعض مقامات پر عبارت آرائی ہے، جب کہ دوسری اور تیسری جلد میں کسی قابل ذکر تبدیلی کے بغیر ہی صفحات کے صفحات نقل کر دیے گئے ہیں حتی کہ ڈاکٹر ازہری کے ترجمے میں طباعت کی جو غلطیاں اور بعض مقامات پر جو تسامحات تھے، وہ بھی سمیر صاحب کے ترجمے میں موجود ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نقل میں عقل کا بالکل استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ کے مصدا ق مترجم کی دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں:’’اگر یہ ترجمہ نہ ہوتا تو میں اتنی جلدی اس کتاب کا ترجمہ نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ انھوں نے ڈاکٹر ازہری کے ترجمے سے کتنا استفادہ کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ان کے قلم سے ’الفاروق‘ (علامہ شبلی نعمانی) کے عربی ترجمے (جس کا پہلے سے کوئی عربی ترجمہ موجو نہیں تھا) کے مطالعے ہی سے ترجمہ نگاری کے میدان میں ان کی صلاحیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری، ’الفاروق‘ کے عربی ترجمے پر ایک نظر، ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ،جون2005 )
رحمۃ للعالمین کے جدید اڈیشن کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ صلاح الدین نے اس اشاعت کی تیاری اور ترتیب میں کافی محنت کی ہے۔ سیرت نبوی کے مستند مصادر کی مدد سے، انھوں نے جو تعلیقات سجائی ہیں، وہ قاری کی معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ کتاب کی افادیت میں بھی غیر معمولی اضافہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ام معبد نے اپنے گھر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو جس ادبی پیرایے میں بیان کیا تھا، اس سے فردس بلاغت و معانی کا ایک در کھل جاتا ہے۔ شیخ صلاح الدین نے اس حدیث کے الفاظ و تراکیب کے معانی اور تشریح کو سیرۃ المصطفی الصحیحۃ علی منھج المحدثین (الدکتور محمد عبداللہ الأعظمی المعروف ب’’ضیا‘‘) سے پیش کر کے قارئین کے علم میں اضافہ کیا ہے۔(جلد اول،ص:260) اسی طرح حضرت آمنہ کا اپنے شوہر (عبداللہ) کی قبر کی زیارت کا جو واقعہ اصل کتاب میں مذکور ہے، اس پر شیخ صلاح الدین کی تعلیق بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔(جلد دوم،ص:760) مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر دو مثالیں پیش کی گئی ہیں، ورنہ کتاب میں (خصوصا جلد اول میں) ایسی نادر تعلیقات اور بیش بہا معلومات جا بجا بکھری ہوئی ہیں اور قارئین کو پرچاتی ہیں۔
اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر آیات، احادیث اور اعلام کا انڈکس ہے، مصادر و مراجع اور محتویات کی فہرست ہے جو کتاب کی تیسری جلد میں شامل ہے، ویسے ہر جلد کے ساتھ بھی فہرست عناوین موجود ہے، جیسا کہ الدار السلفیۃ (ممبئی) کے اڈیشن میں تھا ۔اس کو عبد القدیر عبدالعزیز اور طارق جمال جمال الدین نے تیار کیا ہے۔
رحمۃ للعالمین کی جدید طباعت عمدہ ہے، گیٹ اپ دل کش اور سادگی میں خوب صورتی کا نمونہ ہے۔ فونٹ کا استعمال کرتے وقت متن، حاشیہ اورآیات و احادیث کی رعایت کی گئی ہے جس کی وجہ سے دیکھنے میں اچھا لگتا ہے اور پڑھنے میں لطف ملتا ہے۔ نقشہ جات بالکل واضح اور سمجھ میں آتے ہیں جن سے مباحث کی تفہیم میں آسانی ہوتی ہے۔ کتاب میں پروف ریڈنگ کی غلطی نہیں ہے، ایک آدھ جگہ انگریزی الفاظ کی اسپیلنگ کی پروف ریڈنگ نہیں ہوپائی ہے، عربی؍اردو کی کتابوں میں جہاں ایک آدھ جملے انگریزی کے آجاتے ہیں، پروف ریڈنگ کے وقت وہی جملے دھوکہ دے جاتے ہیں، اس کتاب میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
٭ ایک انگریز افسر نے اپنی رپورٹ میں حکومت پنجاب کو قاضی صاحب کے بارے میں ایک تصدیق نامہ دیا تھا، جس کا انگریزی متن کتاب میں شامل ہے۔ اسی میں ایک انگریزی لفظ state کی غلط اسپیلنگ (satae)چھپ گئی ہے۔ دوسرا لفظ (exception) ہے، جس کی اسپیلنگ تو صحیح ہے لیکن یہاں پر exceptional ہونا چاہیے۔(جلد اول ص:32) سرٹیفیکٹ کا یہ متن بھٹی صاحب کی کتاب (ص:90 )سے منقول ہے، اس میں بھی مذکورہ لفظ کی غلط اسپیلنگ (exceptionl ) چھپی تھی ، لگتا ہے اسی کو درست کرنے کے چکر میں ایسا ہوا ہے۔
٭ کان أول تعیینہ ما بین ۱۸۴۴۔۱۸۸۵م مشرفا علی قسم التعلیم والتربیۃ فی امارۃ…(جلد اول ،ص:29) اس میں پہلا سن غلط ہے، اس کو 1884 ہونا چاہیے کیونکہ قاضی صاحب کا سن ولادت 1867 ہے۔
٭مقدمے میں الدار السلفیۃ کی اشاعت میں شامل عرض ناشر (مولانا مختار احمد ندوی) کلمۃ الشیخ عبداللہ بن ابراہیم الانصاری اور حیاۃ العلامۃ المنصورفوری(ڈاکٹر ازہری) کی تلخیص بھی شامل ہے۔ عرض ناشر میں تو شیخ صلاح الدین نے (مختصراً) لکھ کر یہ اشارہ کردیا ہے کہ یہ عرض ناشر کا اختصار ہے، لیکن ڈاکٹر ازہری کی تحریر کے حوالے سے ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ یہ تحریر ہوبہو شائع کردی گئی ہے۔
٭میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا تینوں تحریروں کو مقدمے کے بعد مکمل طور پر شائع کردیا جاتا تو زیاد بہتر ہوتا۔ ایسا کرنے سے کتاب میں ایک آدھ صفحے کا ہی اضافہ ہوتا۔
٭مقدمے میں قاضی صاحب کے معاصرین کا تعارف خوب ہے اگر کمیت کے لحاظ سے یکسانیت اور توازن ہوتا تو اور اچھا ہوتا (شبلی نعمانی اور حافظ عبد اللہ غازی پوری کے تعارف میں یہ فرق واضح طور پر نظر آرہا ہے)۔
اس موقعے پر ایک اور گوشے کی طرف اشارہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔ شیخ صلاح الدین کی توجہ اور کوشش سے ڈاکٹر ازہری کی یہ دوسری کتاب کویت سے شائع ہورہی ہے۔ پہلی کتاب (حجیۃ الحدیث النبوی، دار غراس، الکویت،2007) ڈاکٹر ازہری کی زندگی میں منظر عام پر آگئی تھی، جو علامہ محمد اسماعیل سلفی کے مقالات کا عربی ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر ازہری کے ایک اور شاگرد (راشد حسن مبارک پوری،استاذ جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو ناتھ بھنجن) کی محنت سے بھی ان کی دو عربی کتابیں عرب دنیا سے شائع ہو چکی ہیں:
٭التربیۃ الدینیۃ السلیمۃ ودورھا فی مواجھۃ التحدیات المعاصرۃ(داراللؤلؤۃ، بیروت2022)
٭شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ الامرتسری وجھودہ فی الرد علی الفرق الضالۃ و انھاض ثقافۃ الحوار المذھبی و الحضاری (دارالمقتبس، دمشق، 2022)
مذکورہ بالا دونوں کتابوں پر سہ ماہی افکار عالیہ، مئو ناتھ بھنجن (اپریل تا ستمبر2022 ،ص:75 تا77) میں تبصرہ بھی چھپ چکا ہے۔ ’’مقطع میں یہ سخن گسترانہ بات‘‘ اس لیے آ پڑی ہے کہ ڈاکٹر ازہری کے بعض اقرباواحباب کو یہ شکایت ہے کہ مرحوم کی رسائی اور رسوخ سے فائدہ اٹھانے والے اب آنکھیں چرانے لگے ہیں، ہوسکتا ہے کہ یہ تاثر سچ ہو، پر، انوکھا تو بالکل نہیں ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اب تک ڈاکٹر ازہری کے حوالے سے جتنی چیزیں منظر عام پر آچکی ہیں ان میں ان کے شاگردوں کا حصہ قابل قدر ہے جس کا اعتراف بھی ضروری ہے۔
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
(احمد فراز)

آپ کے تبصرے

3000