مظلومیت کے گیت کو گایا نہ جائے گا
اب ظالموں سے ہاتھ ملایا نہ جائے گا
ہم سے ہی ہر قدم پہ لہو کا مطالبہ
عہدِ وفا تو ایسے نبھایا نہ جائے گا
اب دشتِ ہجرِ یار میں شورِ جگر کے ساتھ
تنہائیوں کا جشن منایا نہ جائے گا
نالائقوں کو پوچھا ہے خوبان شہر نے
ہم سا غریبِ عشق بلایا نہ جائے گا
بزم طرب میں ہم سے تو رقصِ جنوں کے بیچ
زخمِ دلِ تباہ دکھایا نہ جائے گا
یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نفرت کے پھول سے
گھر یہ محبتوں کا سجایا نہ جائے گا
اسعؔد قدم بڑھائیے اب سوئے دارِ ہجر
ان سے تو بامِ عشق پہ آیا نہ جائے گا
نالائقوں کو پوچھا ہے خوبان شہر نے
ہم سا غریب عشق بلایا نہ جائے گا
یہ جو “غریبِ عشق” کا استعمال ہوا ہے نہ قسم سے مزہ آگیا بھائی.