عہدِ وفا تو ایسے نبھایا نہ جائے گا

فیضان اسعد شعروسخن

مظلومیت کے گیت کو گایا نہ جائے گا

اب ظالموں سے ہاتھ ملایا نہ جائے گا


ہم سے ہی ہر قدم پہ لہو کا مطالبہ

عہدِ وفا تو ایسے نبھایا نہ جائے گا


اب دشتِ ہجرِ یار میں شورِ جگر کے ساتھ

تنہائیوں کا جشن منایا نہ جائے گا


نالائقوں کو پوچھا ہے خوبان شہر نے

ہم سا غریبِ عشق بلایا نہ جائے گا


بزم طرب میں ہم سے تو رقصِ جنوں کے بیچ

زخمِ دلِ تباہ دکھایا نہ جائے گا


یہ فیصلہ ہوا ہے کہ نفرت کے پھول سے

گھر یہ محبتوں کا سجایا نہ جائے گا


اسعؔد قدم بڑھائیے اب سوئے دارِ ہجر

ان سے تو بامِ عشق پہ آیا نہ جائے گا

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Abdurrahman

نالائقوں کو پوچھا ہے خوبان شہر نے
ہم سا غریب عشق بلایا نہ جائے گا

یہ جو “غریبِ عشق” کا استعمال ہوا ہے نہ قسم سے مزہ آگیا بھائی.