تربیت میں ترتیب

شہاب الدین کمال تعلیم و تربیت

اثرات و نتائج کا انحصار نیتوں پر ہوتا ہے۔ نیتوں کے مطابق ہی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔ عوام الناس کی اصلاح مقصود ہو تو کتاب و سنت کی روشنی میں صحابہ کرام اور اسلاف عظام کا طرز عمل موجود ہے۔
ہر سماج میں علماء کرام کی طرح اصحاب ثروت بھی کم ہوتے ہیں۔ پھر ان میں منتخب علماء اور کم ہوتے ہیں جو کتاب و سنت کی پیروی کرتے ہیں اور چنندہ اصحاب ثروت بھی کم ہی ہوتے ہیں جو ان علماء کرام کی قدر کرتے ہیں اور دین کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے باہمی تعاون سے ہمارے نبی ﷺ کا مشن نبوی طریقے پر کم ہی سہی ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔
مگر علماء کرام کی اکثریت شہرت پسند اصحاب ثروت کی خوشنودی میں لگی رہتی ہے جس کی وجہ سے تبلیغ دین کے وہی طریقے رواج میں رہتے ہیں جو تقاضا کم نمائش زیادہ ہوتے ہیں۔ اکثر علماء کرام اور بیشتر اصحاب ثروت کی ہوی پرستی کا یہی حتمی نتیجہ نکلتا ہے۔
اکثر اجلاس اور کانفرنسیں اسی گٹھ جوڑ سے عمل میں آتی ہیں۔
ہمارے سماج میں اصلاح کے تقاضے مختلف ہیں، ان تقاضوں کو پورا کرنے کے طریقے بھی مختلف ہیں۔ مگر سستے طریقے اس لیے زیادہ پرچلت ہیں کہ ان میں تعاون کے لیے عوام کو کنونس نہیں کرنا پڑتا، کیونکہ بھیڑ کو نمائش پسند ہے۔
اصلاح کا آغاز علماء سے ہوگا، ان میں ہوی پرست علماء شامل نہیں ہیں۔ تربیت میں رضا اللہ کی مقصود ہو، طریقہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہو، نظیر اسلاف عظام رحمہم اللہ کا مشغلہ ہو اور عوام کی اصلاح مد نظر ہو، نہ کہ عوام کی شرطیہ اسپانسرشپ کا حصول شب و روز کی محنت کا مقصد۔
نیت سے بہت فرق پڑتا ہے، ایک ہی قسم کے عمل کا طریقہ اور نتیجہ بدل جاتا ہے۔
زیر نظر مضمون دعوت و تبلیغ کے مبارک عمل سے جڑے ایک عالم دین کی فکرمندی کا اظہار ہے، یہ فکرمندی دعوت و تبلیغ کے مروجہ طریقے سے متعلق ہے۔ اللہ رب العالمین ہمیں ہر معاملے میں دین کی سمجھ اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین (ایڈیٹر)


اجلاس اور کانفرنسیں یقیناً دعوت وتبلیغ کا بہترین ذریعہ اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر کی خوبصورت شکل ہیں۔ یہ سماج و معاشرے کی اصلاح میں نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایک سنجیدہ انسان ہرگز اس کا انکار نہیں کرے گا لیکن اصلاح و تربیت کے سلسلے میں تدریج ایک فطری اور بے حد ضروری چیز ہے۔
ایک روزہ اجلاس عام کے ذریعے تمام خامیوں کو یک لخت ختم کرنے کی کوشش وقت اور مال دونوں کا ضیاع ہے، خام خیالی اور مضحکہ خیز ہے۔ تربیت تدریج کا تقاضا کرتی ہے اسی لیے اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کو تییس برسوں میں جستہ جستہ نازل فرمایا اور آپ ﷺ نے بھی تربیت میں تدریج کا پورا پورا خیال رکھا۔ یکبارگی ساری ہدایات صحابہ کے کندھوں پر نہیں لاد دیں اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب روانہ کیا تو تدریج کا حکم دیا، فرمایا دعوت کا آغاز توحید و رسالت سے کرنا جب عوام اس بنیادی اصول کو تسلیم کرلے تو پھر انھیں نماز کے بارے میں بتلانا اور جب نماز کے پابند ہو جائیں تو زکات سے آگاہ کرنا۔
اصلاح و تربیت کا یہ نہایت ہی عجیب طریقہ ہے کہ سال بھر عوام کو ضلالت وگمراہی کے مہیب اندھیروں میں سسکنے دیا جائے، مرض کو پلنے اور بڑھنے دیا جائے اور برائیوں میں غرق انسانیت کو دیکھ کر نظر انداز کیا جائے اور جب موسمِ اجلاس شروع ہو تو اس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی سعی کی جائے۔ لاکھوں کروڑوں روپئے خرچ کر کے چوٹی کے علماء کو مدعو کیا جائے اور لمحوں میں راہ راست سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہے نا عجیب طریقہ؟
جب تک اصلاح و تربیت کا کام تدریج و ترتیب سے انجام نہیں دیا جائے گا نتیجہ صفر ہی ہوگا۔ شہروں کی مساجد میں ائمہ و خطباء درس ودروس کے ذریعہ بتدریج اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اسی لیے شہروں میں دیہاتوں کی بنسبت دین داری زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔
آپ سدھارتھ نگر، گونڈہ، بستی، سنت کبیر نگر اور بلرام پور کے گاؤوں کی مساجد کا سروے کیجیے تمام مساجد مؤذن اور ائمہ و خطباء سے محروم ہی ملیں گی۔ مساجد کے میناروں سے بَھدی آواز میں اذانوں کی صدائیں آتی سنائی دیں گی ہر ایرا غیرا امامت کا فریضہ انجام دیتے مل جائے گا اور ادھر ادھر سے بلائے ہوئے خطیب اپنے من موافق عنوان پر چیختے چنگھاڑتے مل جائیں گے۔ لیکن چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی دعوت وتبلیغ میں تدریج نہیں ملے گی۔
شہریوں کا دیکھا دیکھی گاؤوں میں بھی ایک موٹی رقم خرچ کرکے مہنگے مہنگے خطیب دستیاب کرلیے جاتے ہیں لیکن مساجد و مکاتب کے لیے علماء متعین کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔
یاد رکھیں محض اس طرح کی کانفرنسوں سے عوام کا کچھ بھی بننے بگڑنے والا نہیں۔ واقعی اگر آپ سماج و معاشرے کی اصلاح کے لیے فکر مند ہیں تو سب سے پہلے مساجد و مکاتب کی اصلاح کیجیے۔
مکاتب میں اچھی تنخواہیں دے کر باصلاحیت اساتذہ کی تقرری کیجیے تاکہ وہ بچوں کو صحیح تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں۔
اور اسی طرح مساجد کو مؤذن اور امام وخطیب فراہم کریں تاکہ وقت پر اذان کی صدائیں مساجد کے میناروں سے بلند ہوں، نماز کے وقت حافظ عالم امامت کے لیے دستیاب ہو اور کتاب و سنت کے دروس سے بتدریج لوگوں کی اصلاح کا سامان کرے اور سماج میں پھیلی برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کا سدباب کرنے کی بھر پور کوشش کرے۔
اللہ ہمیں توفیق بخشے۔ آمین

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Shafaur Rahman

ماشاءاللہ عمدہ کارکردگی اللہ قبول فرمائے